رہبر معظم انقلاب اسلامی نے رمضان المبارک کے مقدس مہینے کی پہلی تاریخ کو اہل قرآن کی نورانی محفل میں رمضان المبارک کو الہی مہمانی کا مہینہ اور رحمت الٰہی کے لامحدود دسترخوان سے تعبیر کیا۔ قرآن میں غور و فکر کے ساتھ ساتھ قلب کی تطہیر کو انسان کیلئے خدائے پاک کی مہمانی سے لطف اندوز ہونے کے لیے اہم عامل قرار دیا۔
آیت اللہ خامنہ ای نے خدا کی عظیم مہمانی میں داخل ہونے کو انسانی ہمت کا متقاضی قرار دیا اور مزید کہا: "اگر ہم خدا کی مہمانی میں داخل ہونے میں کامیاب ہوجائیں تو خدا کے قریب ہونے کا موقع فراہم کرکے ایک منفرد استقبال کیا جائے گا، جس سے اور زیادہ کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا ہے۔"
انہوں نے رمضان المبارک کے مقدس مہینے کی برکات اور مواقع کا ذکر کرتے ہوئے مزید کہا: "یہ برکات درحقیقت خدا کے قریب ہونے کے بے نظیر مواقع ہیں، لہذا ہمیں خدا کی بارگاہ میں عاجزی اور خلوص کے ساتھ اس موقع سے فائدہ اٹھانے اور گناہوں سے بچنے میں کامیابی کی دعا کرنی چاہیے۔ "
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے قرآن کی آیات کا حوالہ دیتے ہوئے "ذکر" کو کتاب مقدس کے بابرکت ناموں میں سے ایک اور اس کے مقابلے میں، غفلت کو جو کہ بہت بڑی آفت ہے، قرار دیا اور فرمایا: قرآن کی مسلسل تلاوت اور اس سے آشنائی خدا سے زیادہ انسیت اور تعلق کا باعث بنتی ہے۔
آیت اللہ خامنہ ای نے قرآن کو پیغمبر خاتم کا ابدی معجزہ قرار دیا اور مزید کہا: قرآن انسانی تاریخ کے تمام ادوار میں، انفرادی، خاندانی، سماجی، روحانی، نظم و نسق کے وسیع و عریض میدان میں انسان کو درکار علم کو اسکے تمام طول و عرض کے ساتھ ہمارے اختیار میں رکھتا ہے۔
انہوں نے قرآن کے گہرے، باطنی اور اعلیٰ معارف سے استفادہ کرنے کا راز تعلیم، تدبر اور تفقہ یعنی گہری تعلیم و تعلم کو قرار دیا اور مزید کہا: اس علم کے حصول کی شرط قلب کی پاکیزگی اور روح کی پاکیزگی ہے جس کا جوانی میں حصول بہت آسان ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے قرآن کے قارئین سے خطاب میں تلاوت کے مسئلہ کے حوالے سے چند نکات بیان فرمائے۔
انہوں نے ہمارے ملک میں ممتاز اور خوش لحن قارئین کی کثرت پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے اس الہی تحفہ کو انقلاب اسلامی کی طرف منسوب کیا اور فرمایا: آج ہمارے قارئین دوسرے ممالک کے بہت سے قارئین، جنہیں بعض اوقات ایران میں استاد کے عنوان سے دعوت بھی دی جاتی ہے، سے زیادہ عمدہ اور بہتر معیار کے ساتھ تلاوت کرتے ہیں۔ یہ ایک قابل فخر حقیقت ہے۔
آیت اللہ خامنہ ای نے مزید فرمایا: "یقیناً اس کام کو تمام شدہ نہیں سمجھنا چاہیے اور ہمیں ترقی کرتے رہنا چاہیے اور خامیوں کو پورا کرنا چاہیے، کیونکہ جہاں انسان راستے کو تمام شدہ تصور کرکے اس کے بارے میں سوچنا چھوڑ دیتا ہے، وہیں سے اس کا زوال شروع ہوتا ہے، اور یہ ہماری نصیحت ہے تمام کارکنان، بشمول لکھاریوں، شعراء اور طلاب علم کو۔
اگلی نصیحت میں آپ نے تلاوت کو ایک مقدس فن قرار دیتے ہوئے اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ اس فن سے خدا کے ذکر اور اسکی جانب دعوت کی راہ میں استفادہ ہونا چاہیے، فرمایا: تلاوت ایسی ہونی چاہیے جس سے سننے والے کے ایمان میں اضافہ ہو۔ لہٰذا تلاوت کو محض ایک فن کے طور پر نہیں دیکھنا چاہیے اور کسی ضمنی مسئلہ یا کسی دکھاوے کو خدا کے ذکر اور اسکی طرف دعوت کی کیفیت پر غلبہ پانے کی اجازت نہیں دینی چاہیے۔
رہبر معظم انقلاب نے "ہنر تلاوت" کے موضوع کو بھی قارئین کی خصوصی توجہ کا طالب قرار دیا اور مزید فرمایا: "تلاوت کو ہنرمند بنانے کا مطلب ہے ایسے طریقے سے مناسب لحن کے ساتھ تلاوت کریں جو سامعین پر گہرا اثر ڈالے اور خدا کے کلام کی پیروی پر مجبور کردے۔"
آیت اللہ خامنہ ای نے ملک میں قرآنی سرگرمیوں کو اچھا لیکن ناکافی قرار دیتے ہوئے ان سرگرمیوں کو وسعت دینے کی تجویز پیش کرتے ہوئے فرمایا: ہر محلے کی مساجد کو قرآنی مراکز میں تبدیل کرنا اور اس محلے کی دیگر مساجد کے ساتھ رابطہ اور تعلق اور ان کے مابین قرآنی مجالس اور مقابلوں کا انعقاد، جوانوں اور نوجوانوں کے لیے قرآن کی وادی میں داخل ہونے اور خاص طور پر قرآنی حفاظ کی تربیت کے لیے بہترین ترغیب ہیں۔
انہوں نے مزید کہا: "10 ملین حافظوں کو تربیت دینے کا راستہ جو ہم نے چند سال پہلے تجویز کیا تھا وہ نوجوانوں کو قرآنی سرگرمیوں کے میدان میں متعارف کرانا ہے، اور اس طرح کے منصوبے اس ہدف کو متحقق میں مدد کر سکتے ہیں۔"
قرآن سے انس کی اس محفل میں متعدد قاریوں نے کلام الٰہی کی آیات کی تلاوت کی۔ حمد و ثنا اور منقبت خوانی اور محفل دعا بھی اس نورانی تقریب کے دوسرے حصے تھے۔