رہبر معظم انقلاب اسلامی نے آج شام (منگل) کو نظام کے عہدیداروں اور کارکنان کے ساتھ ملاقات میں ملک کے تمام مسائل کو قابل حل قرار دیا اور سال کے نعرے کی مختلف جہتوں کی وضاحت کرتے ہوئے تاکید کی: اسلامی جمہوریہ نظام کے اقتدار اور مختلف شعبوں میں اس کی مختلف کامیابیوں نے ، ایران کو دیگر اقوام کے لیے پرکشش نمونہ بنادیا ہے اور عوام کو مایوس کرنا اور ان میں تعطل کا احساس پیدا کرنا عوام اور انقلاب پر ظلم ہے۔
انہوں نے مقبوضہ علاقوں میں فلسطینی نوجوانوں کی بیداری اور تحریکوں کو سراہتے ہوئے کہا: ان تحریکوں نے ظاہر کیا کہ امریکہ اور اس کے حواریوں کی کوششوں کے باوجود فلسطین زندہ ہے اور خدا کے فضل سے حتمی فتح فلسطینیوں کی ہوگی۔"
آیت اللہ خامنہ ای نے اپنے خطاب کے آغاز میں روحانی نصیحت کرٹے ہوئے قرآنی آیات اور دعاؤں کا حوالہ دیا اور خلوص نیت کے ساتھ استغفار کو انفرادی زندگی کے ساتھ ساتھ قومی میدانوں اور بڑے سماجی میدانوں میں روحانی تزکیہ اور الہی رحمت کے نزول کا باعث قرار دیا۔
انہوں نے حرام کام کے ارتکاب اور فرائض کی انجام دہی اور عمل کے ترک کرنے کو استغفار کیلئے ضروری سمجھا اور کہا: "ہم میں سے بہت سے عہدیدار مختلف وجوہات کی بنا پر عمل کو ترک کرنے اور فرائض ادا نہ کرنے میں مبتلا ہیں اور خدا اس سلسلے میں انسان کو سخت سزا کا مستحق قرار دے گا۔ "
آیت اللہ خامنہ ای نے اسلامی نظام میں ذمہ داری کو دوسروں کے سوال کا مرکز قرار دیتے ہوئے مزید فرمایا: دنیا کے سیاسی نظاموں میں حکام سے عوام کی طرف سے سوال کیا جاتا ہے، لیکن اسلامی نظام میں عوام کے علاوہ حکام بھی خدا کی طرف سے زیادہ اہم اور سنگین سوالات اور سرزنش کے مقام پر ہیں۔"
نظام کے نظم و نسق میں نوجوانوں کی بڑی تعداد میں موجودگی پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے، انہوں نے تمام عہدیداروں سے کہا کہ وہ دو اہم خطرات یعنی "غرور" اور "عدم فعالیت" سے مکمل طور پر چوکندہ رہیں اور مزید کہا: غرور مقام، کامیابی، خدا کے لطف یا کسی دوسری وجہ سے مغرور ہوجانا، "ناکامی کا پیش خیمہ" اور "انسان کے اندرونی، سماجی اور پیشہ ورانہ زوال کا پیش خیمہ" ہو گا اور وہم اور تکبر کا پیدا ہونا عہدیداروں کو لوگوں سے دور کر دے گا۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے دوسرے نقصان کو "عدم فعالیت" قرار دیا اور فرمایا: "عدم فعالیت سے مراد معاملات میں تعطل کا احساس ہے، جو غرور کا نقطہ مقابل اور خطرناک ہے جسے دشمن مختلف طریقوں سے معاشرے اور حکام کے درمیان پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اور حتمی الہی وعدے کے مطابق دشمن کے اس منصوبے سے نمٹنے کا طریقہ "صبر" اور "تقویٰ" ہے۔ صبر کا مطلب ہے نہ تھکنا اور نہ چھوڑنا، اور تقویٰ کا مطلب یہ ہے کہ اپنی اور دشمن کی حرکت سے ہوشیار رہنا۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اس بات پر تاکید کرتے ہوئے کہ تقوی کا دائرہ وسیع ہے اور اقتصادیات، سفارت کاری اور امن و سلامتی جیسے مختلف شعبوں میں اس کے اپنی معنی ہے، فرمایا: آج عوام کو مایوس کرنا اور معاشرے میں تعطل کا احساس پیدا کرنا عوام، ملک اور انقلاب پر ظلم و ستم کرنا ہے۔
اقتصادی میدان میں بعض منفی اشاریوں کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا: "مسائل اور مشکلات ہیں، لیکن ان کو حل کیا جا سکتا ہے، اور ملک کی صورتحال اور اس کی کامیابیوں کا جائزہ لینے اور ان پر فیصلہ کرنے کی بنیاد نہ صرف اقتصادی اشاریے ہونی چاہیے، بلکہ دوسرے اشارئیوں پر بھی غور کرتے ہوئے انکو ایک ساتھ جانچنا چاہیے۔"
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے مزید فرمایا: "معیشت میں منفی صورت حال کے باوجود، اس شعبے میں کامیابی کے آثار نظر آ رہے ہیں، جس کی ایک مثال ملک پر بے سابقہ اقتصادی پابندیوں کے مقابلے میں معیشت کے لچک کا مظاہرہ کرتے ہوئے استقامت کرنا ہے۔"
آیت اللہ خامنہ ای نے بعض شعبوں میں خود کفالت کو جن میں کورونا کی چھ قسم کی ویکسین کی تیاری، غیر ملکی قرضوں کا صفر کے قریب پہنچ جانا اور مختلف شعبوں میں سائنسی، صنعتی اور تکنیکی ترقی کو کامیابی کی دوسری نشانیوں کے طور پر بیان کیا: کامیابی کی ایک اور مثال ملک کے انتظامی عمل کا ہموار اور صحیح طور پر چلنا ہے، اور کچھ دوسرے ممالک کے برعکس، اور تمام دشمنیوں کے باوجود، ملک کے نظم و نسق کو قانونی طور پر اور غیر معمولی کارروائیوں کی ضرورت کے بغیر ایک ہاتھ سے دوسرے ہاتھ منتقل ہونا ہے۔
انہوں نے کہا: "ان کامیابیوں اور دیگر مسائل جیسے کہ خطے میں تزویراتی گہرائی اور ایران کے روحانی اثر و رسوخ کی توسیع نے اسلامی جمہوریہ کو ایک پرکشش نمونہ عمل بنا دیا ہے۔"
آیت اللہ خامنہ ای نے مزید کہا: "دشمن اپنی لالچ کی بنیاد پر وہ مایوس کن دعوے کرتا ہے جو پہلے کئے جا چکے ہیں، لیکن ان سب کی نادرستگی بعد میں ثابت ہوئیں، جیسے مسلط کردہ جنگ کے آغاز میں صدام کے دعوے اور تہران کو ایک ہفتے کے اندر فتح کرنے کا وعدہ یا چند سال پہلے ایک امریکی جوکر جس نے کہا کہ ہم تہران میں کرسمس کا جشن منائیں گے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے تاکید کرتے ہوئے فرمایا: یہ ایک بہت اہم مسئلہ ہے جسے فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ متکبر امریکی واضح طور پر تسلیم کرتے ہیں کہ ایران پر زیادہ سے زیادہ دباؤ بری طرح ناکام ہوا ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اپنی تقریر کے ایک اور حصے میں "علم و دانش محور" اور "روزگار مہیا کرنے" کی دو خصوصیات کے عدم مطابقت کے بارے میں بعض نظریات کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا: "یہ سچ ہے کہ ترقی کے ساتھ ٹیکنالوجی کی وجہ سے افرادی قوت کی ضرورت کم ہو جاتی ہے، لیکن یہ ہمارے ملک کی صورت حال کے بارے میں درست نہیں ہے، جس میں ڈاؤن اسٹریم سیکٹرز میں بہت زیادہ بند یا نیم بند صلاحیتیں موجود ہیں، اور ان شعبوں میں پیداوار کو علم و دانش محور بنانے سے روزگار کے مواقع کئی گنا زیادہ پیدا ہوں گے۔
انہوں نے علم و دانش محور پیداوار کا نتیجہ ملازمت یافتہ افرادی قوت کی پیشہ ورانہ مہارت میں ترقی اور تعلیم یافتہ نوجوانوں کیلئے روزگار قرار دیا اور مزید کہا: "بدقسمتی سے ملک کے فارغ التحصیل افراد کی ایک بڑی تعداد ان شعبوں میں ملازمت کرتی ہے جو ان کی تعلیم کے شعبے سے غیر متعلق ہے۔ علم و دانش محور کمپنیوں کی توسیع کے ساتھ، سسٹم میں افرادی قوت کا معیار بھی بہتر ہوتا ہے اور ممتاز صلاحیتوں کے حامل افراد کو چھوٹی ملازمتوں کی طرف رجوع کرنے سے چھٹکارا مل جاتا ہے۔
آیت اللہ خامنہ ای نے وزارت علم و ٹیکنالوجی کو علم محور کمپنیوں کی رجسٹریشن کے لیے دقیق معیارات اور قواعد کے تعین کا ذمہ دار جانا اور مزید فرمایا: "کمپنیوں کی تعداد میں اضافہ کافی نہیں ہے اور اس سلسلے میں دیگر اہم اشارئیے جیسے جدت، بیرونی کرنسی کا کم سے کم استعمال، روزگار کا ایجاد، برآمدی اور کمپٹیشن کی صلاحیت" غور کیا جائے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اس بات پر تاکید کرتے ہوئے کہ علم محور کمپنیوں کی توسیع کو ترجیحات اور ضرورتوں کی تشخیص کی بنیاد پر ملکی مسائل کی گرہ کھولنے کی بنیاد پر ہونا چاہیے، فرمایا: علم محور کمپنیوں کو زراعت جیسے شعبوں میں توسیع دینی چاہئیے، کیونکہ پر ملک کی اقتصادی سلامتی کا دارومدار ہے، ان میں ہنر مند اور بے روزگار کارکنوں کو راغب کرنے کی اعلیٰ صلاحیت ہوٹی ہے، یا تیل، گیس اور کانوں جیسے شعبے میں جو خام وسائل کو بغیر کسی اضافی قدر کے برآمد کررہے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا: "بدقسمتی سے، ملک میں خام مال سستے داموں برآمد کیا جاتا ہے، اور ویلیو ایڈڈ مصنوعات کو مہنگے داموں درآمد کیا جاتا ہے، جب کہ علم محور پیداوار کے ساتھ، اس عمل میں اصلاح کی جانی چاہیے اور ویلیو ایڈڈ مصنوعات کی پیداوار اور برآمد کی جانی چاہیے۔ "
اسی طرح آیت اللہ خامنہ ای نے علم محور کمپنیوں کے لیے حکومت کی حمایت پر تاکید کرتے ہوئے فرمایا: حکومت ملک میں سب سے بڑی صارف ہے اور علم محور کمپنیوں کے لیے حکومت کی حقیقی حمایت کا اہم ترین مصداق بے لگام درآمدات کو روکنا ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے ساتویں ترقیاتی منصوبے کی تکمیل و تدوین کو ضروری قراردیتے ہوئے فرمایا: یہ منصوبہ پچھلے سال وضع ہونا تھا اور اس سال سے نافذ ہونا تھا جو نہیں ہوا لیکن اس سال حکومت اور پارلیمنٹ کو نظام کی عمومی پالیسیوں پر مبنی ساتواں منصوبہ کی تدوین اور منظوری کے لیے کوشش کرنی چاہیے۔
انہوں نے اسلامی نظام کے کسی بھی عہدیدار کی ضروری خصوصیات میں عوامی ہونا اور اس سے بھی اہم بات عوامی رہنا قرار دیا اور کہا: میدان عمل میں یا معتبر ذرائع سے حقائق کو دیکھنا یا سننا منصوبہ بندی اور درست اقدامات کی راہ ہموار کرے گا۔
آیت اللہ خامنہ ای نے اس سلسلے میں مزید کہا: "بعض اوقات عام لوگ عہدیداروں سے ایسی باتیں کہہ دیتے ہیں جو تجربہ کار اور قریبی اور ماہر مشیروں سے بھی نہیں سنی جاتی ہیں۔"
آرٹیکل 44 کی عمومی پالیسیوں پر عمل درآمد نہ ہونے پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے انہوں نے زور دیا: "ان پالیسیوں پر عمل درآمد کر کے حکومت ملکی معیشت کو عوام کے کندھوں پر ڈال کر خود پالیسی، نگرانی اور رہنمائی کے عمل میں مصروف کرکے مسائل کے جلد حل کے لیے اپنی کردار ادا کرسکتی ہے۔ "
انہوں نے تیل سے پاک معیشت کو ایک طویل المدتی ہدف قرار دیا اور مزید کہا: "آٹھ سالہ ذمہ داری میں دو حکومتوں کو کم از کم اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے کام کرنا چاہیے۔ یقیناً، اگر تیل سے پاک معیشت کا نفاذ اسی دن شروع ہو جاتا جس دن ہم نے تجویز دی تھی۔ آج ملک کی صورتحال مختلف ہوتی۔"
آیت اللہ خامنہ ای نے زرمبادلہ کے میں ترخیص کے بارے میں سامنے آنے والے امکانات کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: "ہمیں محتاط رہنا چاہیے کہ اگر کوئی ممکنہ موقع پیش آئے تو ان رقوم کو بے لگام درآمدات میں خرچ نہیں کیا جانا چاہیے بلکہ بنیادی ڈھانچے کے مسائل جیسے کہ سڑکوں اور ریل، نقل و حمل، علم محور کمپنیوں، صنعتی جدید کاری، پڑوسی ممالک سے بہتر ارتباط کیلئے راستوں کی بہتری اور پانی کے اہم مسئلے کو حل کرنے میں مختص ہونا چاہیے۔خوش قسمتی سے حکومت نے پانی کے مسئلے پر اچھا کام شروع کیا ہے لیکن اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے رقم درکار ہے۔
سپریم لیڈر نے اداروں کے سربراہان کی اقتصادی کونسل کو ضروری فیصلوں کیلئے ایک اہم وسیلہ قرار دیا اور کہا: یہ کونسل گزشتہ حکومت میں کئی اہم ایجنڈوں کے ساتھ تشکیل دی گئی تھی جیسے کہ بجٹ کے ڈھانچے میں اصلاحات، بینکنگ کے مسئلے کو حل کرنا اور پابندیوں کا مقابلہ کرنا۔ ان تین اداروں کو اس صلاحیت کا بھرپور استعمال کرنا ہوگا۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے ثقافت کے مسئلے کو بہت اہم اور اس میں ہوشمندانہ مجاہدت کی ضرورت پر زور دیا اور فرمایا: سرکاری ثقافتی مراکز اور ثقافتی شعبہ میں متحرک افراد جو خدا کے فضل سے بڑے پیمانے پر کام کررہے ہیں، ثقافت اور سائنس کو بہت سنجیدگی سے لیں اور کھلی آنکھوں کے ساتھ شب و روز مجاہدانہ طرزعمل کے ساتھ سرگرمیاں انجام دیں۔
آیت اللہ خامنہ ای نے ملک کی سفارت کاری میں اچھی سمت کا ذکر کرتے ہوئے تاکید کی: حکام کو ایٹمی معاملے میں بالکل بھی تعطل کا شکار نہیں ہونا چاہیے اور ملک کے موجودہ وسائل کی بنیاد پر مسائل کے حل کے لیے منصوبہ بندی اور اس کیلئے اقدام کرنا چاہیے۔
انہوں نے مذاکرات کاروں کو انقلابی، مذہبی اور پرجدوجہد قرار دیا اور مزید کہا: "وزیر خارجہ اور مذاکرات کرنے والے حکام ملکی مراکز کو تفصیلی رپورٹ دیتے ہیں۔" ان کی کارکردگی پر تنقید اور تبصرے کرنے میں کوئی حرج نہیں جب تک کہ یہ بدظنی سے پاک ہو اور جیسا کہ میں کئی بار کہہ چکا ہوں کہ یہ میدان میں موجود عناصر کو کمزور کرنے اور لوگوں کو مایوس کرنے کا باعث نہ ہو۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے زور اور زبردستی کے خلاف مذاکراتی ٹیم کی مزاحمت پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا:
دوسرا فریق جس نے وعدہ خلافی کی اور ایٹمی معاہدے کو ترک کیا وہ اب خود کو بے بس اور تعطل کا شکار محسوس کر رہا ہے لیکن اسلامی نظام جو عوام پر بھروسہ کر کے کئی مشکلات سے گزر چکا ہے اس مرحلے سے بھی عبور کرجائے گا۔
اپنے خطاب کے ایک اور حصے میں رہبر معظم نے فلسطین میں 1948ء کے علاقوں اور مقبوضہ علاقوں کے مرکز میں فلسطینی نوجوانوں کی بیداری، تحریک اور کوششوں کو سراہتے ہوئے مزید کہا: ان تحریکوں نے ظاہر کیا کہ فلسطین امریکہ کی کوششوں کے باوجود زندہ ہے اور اس مسئلے کو کبھی فراموش نہیں کیا جائے گا۔ اور موجودہ تحریکوں کے تسلسل اور خدا کے فضل سے حتمی فتح فلسطینی عوام کی ہوگی۔
اسی طرح آیت اللہ خامنہ ای نے یمن کے مظلوم عوام کی ہمت و شجاعت کی تعریف کی اور سعودی حکام کو اپنا ہمدردانہ اور خیر خواہانہ مشورہ دیا اور فرمایا: آپ اس جنگ کو کیوں جاری رکھتے ہوئے ہیں جبکہ آپ جانتے ہیں کہ آپ کے جیتنے کا کوئی امکان نہیں ہے؟ اس جنگ سے نکلنے کا راستہ تلاش کریں اور اپنے آپ کو اس جنگ سے نکالیں۔
انہوں نے یمن میں حالیہ جنگبندی کو بہت اچھا قرار دیا اور مزید کہا: اگر یہ معاہدہ حقیقی معنوں میں لاگو ہوتا ہے تو یہ جاری رہ سکتا ہے اور یمنی عوام بلاشبہ اپنی اور اپنے قائدین کی کوششوں، ہمت اور اقدام کی بدولت فتحیاب ہیں اور خدا بھی ان مظلوموں کی مدد کرے گا۔"
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے ملکی حکام کو اپنی آخری نصیحت میں کہا: "ذمہ داری کا موقع بہت مختصر ہے، اور اس کے ہر گھنٹے کی قدر کریں۔"
رہبر معظم انقلاب کی دوسری نصیحت یہ تھی کہ نمائشی اقدامات سے پرہیز کیا جائے۔
انہوں نے مزید کہا: "مفادات کا تصادم، جس کی ہر کوئی مذمت میں بات کرتا ہے، صرف معاشیات کے میدان میں نہیں ہے، اور اگر لوگوں کی ہماری طرف توجہ اور مقبولیت اور ملک کے عوامی مفادات کی پاسداری کے درمیان کوئی تصادم پیش آئے تو ہمیں اپنے ذاتی مفاد کو نظر انداز کر دینا چاہیے اور عوامی مفادات پر توجہ دینی چاہیے۔"
حکومت اور پارلیمنٹ کو اپنے حدود کی پاسفاری کرنے اور اپنے فرائض اور اختیارات کے دائرہ کار میں رہ کر کام کرنے کی نصیحت سپریم لیڈر کی ملکی حکام کو آخری تاکید تھی۔
ملاقات کے آغاز میں صدر مملکت حجۃ الاسلام والمسلمین رئیسی نے حکومت کی پالیسی کو انقلاب اسلامی کی پالیسی قرار دیتے ہوئے مقبولیت، انصاف پسندی اور تبدیلی پسندی کے اجزا پر تاکید کرتے ہوئے کہا: حکومتی اصلاحات کی دستاویز ماہرین کثیر تعداد کے اتفاق نظر سے تیار اور شائع کی گئی۔