رہبر معظم انقلاب اسلامی نے آج (ہفتہ) صبح صدر اور نئی حکومت کے اراکین سے ملاقات کی اور اس بات پر زور دیا کہ حکومت عوام کی خدمت کے ہر لحظہ اور ہر موقع کا بھرپور استعمال کرے اور انتظامی امور کے تمام شعبوں میں "انقلابی ، عقلی اور عقلمند" تعمیر نو پر توجہ مرکوز کرنے کو ایک ضروری امر قرار دیا۔ انہوں نے معاشی مسائل کی ترجیح کا حوالہ دیتے ہوئے "عوامی اقدامات" ، "عدل و انصاف" ، "بدعنوانی کے مقابلے" ، "لوگوں کی امید اور اعتماد کی بحالی" اور" حکومت کی ہم آہنگی اور اختیار اور اقتدار" کے حوالے سے اہم نکات اور نصیحتیں کیں۔
انہوں نے امریکہ کو سفارتکاری کے میدان میں وحشی اور بھیڑیا بھی قرار دیا اور افغانستان کی انتہائی متاثر کن صورتحال کا حوالہ دیتے ہوئے کہا: "اسلامی جمہوریہ ہر صورت میں افغانستان کی مظلوم اور مسلم قوم کے حق میں ہے اور ہمارے حکومتوں کے ساتھ تعلقات ان کے ایران کے ساتھ رویے اور تعلقات پر منحصر ہیں۔ "
اپنی تقریر کے آغاز میں آیت اللہ خامنہ ای نے حکومت کے تمام اراکین کو مشورہ دیا کہ وہ خدمت کی توفیق کی دل کی گہرائیوں سے قدر کریں اور مجوزہ وزراء کی اہلیت پر نظرثانی میں فوری اور بروقت کارروائی پر پارلیمنٹ کا شکریہ ادا کیا اور امید ظاہر کی کہ ایک نئی حکومت کی تشکیل قوم کے لیے خوشگوار دنوں کا آغاز ہوگا۔
شہید رجائی اور بہانر کی یاد میں ، انہوں نے فرمایا: "دونوں عہدیداروں کی خدمت کا دورانیہ مختصر تھا ، لیکن ساتھ ہی انہوں نے اسی مختصر مدت میں ثابت کیا کہ وہ خلوص نیت کے ساتھ میدان میں آئے ہیں اور عوامی اور مجاہدانہ طرزِ عمل اپنائیں گے، جو تمام عہدیداروں کے لیے ایک بڑا سبق ہے۔ "
رہبر معظم انقلاب نے ملک کے حالات کو مشکل قرار دیا ، لیکن اس بات پر زور دیا: اگر آپ رب پر بھروسہ اور توسل کو اپنا سرمایہ قرار دینے کے ساتھ ساتھ شب و روز، انتھک اور مجاہدانہ کوششوں کو قرار دیں تو آپ یقینی طور پر مسائل پر قابو پا لیں گے۔
رہبر معظم انقلاب نے مزید کہا: "جیسا کہ میں نے تمام سابقہ عہدیداروں سے کہا ہے ، چار سال کی خدمت کا موقع تیزی سے ختم ہو جائے گا اور اس موقع کا ایک گھنٹہ بھی ، جو عوام اور اسلام سے متعلق ہے، ضائع نہیں ہونا چاہیے۔" یقینا ، محنت اور ثابت قدمی سے کام کرنے کے ساتھ ساتھ، گھرانے کو بھی نظرانداز نہیں کیا جانا چاہئے۔
انہوں نے انقلاب کے راستے پر چلنے اور "اقتصادی، تعمیرنو ، خدمت ، خارجہ پالیسی ، ثقافت ، تعلیم اور دیگر شعبوں" میں انقلابی نہضت ایجاد کرنے کو ضروری قرار دیا اور ساتھ ہی اس بات پر بھی زور دیا کہ: انقلابی ہونے کے ساتھ ہونا ضروری ہے عقلیت، تفکر اور حکمت بھی ہمراہ رہے ، اور یہ اسلامی جمہوریہ کا شروع سے ہی طریقہ رہا ہے۔
حکومت کو اپنے پہلی اہم نصیحت کی وضاحت کرتے ہوئے ، رہبر معظم نے "عوامی ہونے" کے مختلف مصادیق کی طرف اشارہ کیا اور مزید کہا: "لوگوں کے درمیان جانا اور ان کے ساتھ براہ راست گفتگو عوامی ہونے کے بہترین پہلوؤں میں سے ایک ہے جو جناب محترم رئیسی نے کل خوزستان کا دورے کے دوران پیش کیا۔
آیت اللہ خامنہ ای نے ذکر کیا کہ عام لوگوں کی طرح سادہ طرز زندگی گزارنا ، معمول کے مطابق برتاؤ کرنا ، عیش و عشرت سے گریز کرنا اور لوگوں کو نیچا سمجھنے سے گریز کرنا عوام کے ساتھ ہمراہی کے دوسرے مظہر سمجھے جاتے ہیں۔ مزید یہ کہ انہوں نے کہا: مسائل اور حل لوگوں کے ساتھ شیئر کیے جائیں۔ خیالی باتیں کرکے لوگوں کو مایوس کرنے کے بجائے عہدیداروں کو ان سے دانشورانہ اور عملی مدد لینی چاہیے۔
"غلطی کی صورت میں لوگوں سے فوری معافی" اور لوگوں کو سرگرمیوں کی ایماندارانہ اور غیر مبالغہ آمیز رپورٹنگ دوسرے طریقے تھے جن کا ذکر سپریم لیڈر نے عوام کے ساتھ ہمراہی کے مختلف مصادیق میں شمار کیا۔
امیر المومنین علی علیہ السلام کے ملک الاشتار کو اہم فرمان کا مطالعہ کرنے کے لیے صدر اور انکے حکومت کے عہدیداروں کو مشورہ دیتے ہوئے انہوں نے مزید کہا: "اس تاریخی فرمان میں مختلف جہتیں بیان کی گئی ہیں جیسا کہ اسلام ، حکومت اور عوام کے درمیان تعلقات کو برادرانہ اور دوستانہ سمجھا جانا چاہیے۔ "
آیت اللہ خامنہ ای نے "عدل و انصاف انصاف کے فروغ" کو حکومت کو اپنا دوسرا ضروری مشورہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ انصاف کے قیام کو الہی مذاہب کی بنیاد اور حکومت کی تشکیل کی بنیاد قرار دیا گیا ہے اور مزید کہا: "ہم اس میدان میں پیچھے ہیں اور ہمیں انصاف کے قیام کے لیے سخت محنت کرنی چاہیے۔ "
انہوں نے زور دیا: حکومت کے ہر حکم ، بل اور فیصلے کے ساتھ ایک وضاحت منسلک ہونی چاہیے جو اس بل یا فیصلے کی انصاف پسندی کو ظاہر کرتی ہو "اور اس بات کا پورا خیال رکھا جانا چاہیے کہ یہ حکم ، بل ، یا فیصلہ محروم لوگوں کو نقصان نہ پہنچائے۔
آیت اللہ خامنہ ای نے انتظامی طریقوں میں سے کچھ کو انصاف کے خلاف قرار دیا اور مزید کہا: سبسڈی اور کوئی دوسری چیز تقسیم کرنے میں ، ہمیں کچھ اس طرح کرنا چاہیے تاکہ محروم لوگوں اور امیر لوگوں کے درمیان فاصلہ کم ہو ، اور سہولیات کو جتنا ممکن ہو منصفانہ طور پر تقسیم کیا جائے۔
"انسداد بدعنوانی اور اس کے ساتھ دقیق اور ایک سنجیدہ مقابلہ" رہبر معظم انقلاب کے صدر اور ان کی نئی حکومت کو ایک اور اہم مشورہ تھا۔
انہوں نے کہا: "انسداد بدعنوانی انصاف کا لازمہ ہے کیونکہ بدعنوانی اور اس کے مصادیق بشمول لالچ ، غیر قانونی عہدوں کا حصول ، نا اہل عزیز و اقارب کو ترقی دینا ، انصاف کے خلاف اہم برائیوں میں شامل ہیں۔"
آیت اللہ خامنہ ای نے جناب رئیسی کی بدعنوانی کے خلاف بطور چیف جسٹس تحریک کا ذکر کرتے ہوئے کہا: "اس نیک عمل نے لوگوں کی امید اور ان میں مقبولیت میں اضافہ کیا ہے ، لیکن یہ بات ذہن نشین کرنی چاہیے کہ بدعنوانی سے لڑنے کی اصل جگہ حکومت جیسی ایگزیکٹو برانچ ہے۔ کرپشن کو یہاں ختم کرنا ہوگا۔ " اگر حکومت ان احتیاطی تدابیر کے باوجود اسے شکست نہیں دے سکتی تو پھر عدلیہ کو اندر آکر کرپشن سے نمٹنا ہوگا۔
انہوں نے حکومت سے تمام اداروں میں ذاتی اور عوامی مفادات کے درمیان تصادم کے مسئلے کو حل کرنے کا مطالبہ کیا اور مزید کہا: "بدعنوانی کے مصادیق میں سے ایک آرٹیکل 44 میں پیش کی گئی پالیسیوں کے نفاذ میں خلاف ورزی ہے ، جس پر صحیح عملدرآمد واقعی طور پر ملکی معیشت کو تر و تازہ کرسکتا ہے۔ لیکن بدقسمتی سے ، اس کو صحیح طریقے سے نافذ نہیں کیا گیا اور اس کے نتیجے میں ، کرپشن موجود ہیں۔
رہبر انقلاب نے نگرانی اور خدمات کی نظام بندی کو بدعنوانی سے لڑنے کے میدان میں امید افزا عنصر سمجھا اور کہا: "ہم نے بار بار تاکید کی ہے کہ ان نظاموں کو فراہم کیا جائے اور ایک دوسرے سے جوڑا جائے، لیکن اس میں ابھی تک کوئی پیش رفت نہیں ہوئی ہے۔ "
رہبر انقلاب کی اگلی نصیحت "عوام کے اعتماد اور امید کی بحالی" کا بنیادی مسئلہ تھا۔
آیت اللہ خامنہ ای نے کہا: "لوگوں کا اعتماد حکومت کا سب سے بڑا اثاثہ ہے جسے بدقسمتی سے کسی حد تک نقصان پہنچا ہے اور اسے بحال کرنے کا واحد راستہ یہ ہے کہ عہدیداروں کے قول و فعل میں تضاد نہ پایا جائے۔ "
انہوں نے مزید کہا: "انسان کو وعدے کرنے اور تقریر کرنے وقت بہت محتاط رہنا چاہیے ، اگر کوئی وعدہ کیا جاتا ہے تو اسے پورا کرنا چاہیے کیونکہ ایک وعدہ کرنا اور اسے پورا نہ کرنا لوگوں کے اعتماد کو ٹھوس پہنچائے گا۔"
کل اہواز کے دورے کے دوران صدر محترم کے وعدوں اور احکامات کا حوالہ دیتے ہوئے ، رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: "خیال رکھنا چاہیے کہ یہ وعدے پورے ہونے چاہئیں۔"
آیت اللہ خامنہ ای نے تاکید کی: اگر آپ نے کوئی وعدہ کیا تھا اور کچھ مسائل کی وجہ سے ، اسے پورا کرنا ممکن نہیں ہوا، تو اس مسئلے کو لوگوں کو سمجھائیں اور ان سے معافی مانگیں تاکہ عوام کے اعتماد کو نقصان نہ پہنچے۔
قوانین ، منصوبوں اور پروگراموں کے تنوع کا حوالہ دیتے ہوئے ، انہوں نے کہا: "ملک کے مسائل میں سے ایک سنجیدہ فالو اپ سسٹم کا فقدان ہے ، لہذا وعدوں کے لیے ایک تاریخ مقرر کی جانی چاہیے تاکہ ان پر عمل کیا جا سکے اور انہیں وقت پر پورا کیا جا سکے۔"
سپریم لیڈر انقلاب نے "حکومت کی ہم آہنگی ، اختیار اور قوت انتظام" کو دیگر اہم مسائل کے طور پر ذکر کیا اور مزید کہا: حکومت کی ہم آہنگی کا مطلب یہ ہے کہ متضاد بیانات حکومتی اراکین سے ظاہر نہ ہوں اور عملی طور پر تمام اداروں کو مل کر کام کرنا چاہیے ، کیونکہ حکومت میں ہم آہنگی اور اختیار کا کوئی بھی فقدان ، عام کیلئے اشارہ ہے کہ حکومتی امور عہدیداروں کے ہاتھ میں نہیں ہیں۔ پھر یہ مسئلہ حکومتی پروگراموں اور پالیسیوں کی پیش رفت کو روکتا ہے۔
آیت اللہ خامنہ ای نے انتظامی قوت کو حکومت کے مختلف شعبوں کی درست معلومات رکھنے کو ضروری سمجھا۔ ایگزیکٹو برانچ میں تبدیلی لانے کے جناب صدر رئیسی کے منصوبوں کا حوالہ دیتے ہوئے ، انہوں نے تاکید کی: تبدیلی اور ترقی کی طرف بڑھنے کے لیے قانونمندی، شفافیت ، مالیاتی نظم و ضبط ، مفادات کے تنازعات کی روک تھام اور فیصلے اور انکی منظوری لینے میں سنجیدگی درکار ہے۔
انہوں نے تبدیلی کے ایک اور مصداق کے طور پر "حکومت کی تغییر و تبدیلی" کا حوالہ دیتے ہوئے مزید کہا: "حکومت کے اندر اور درمیانی حصوں میں نوجوانوں کو فروغ دینے سے ملک میں جمود کا احساس ختم ہو جائے گا اور مستقبل کیلئے پختہ اور تجربہ کار مینیجرز کے لیے قیمتی ذخائر بھی تیار ہوں گے۔"
رہبر معطم انقلاب نے تبدیلی کے زمرے میں ایک اہم نکتے کو "اجتماعی دانشمندی اور عقلیت کا استعمال" سمجھا اور کہا کہ حکومت سے باہر خواص کے نظرات سے سیاسی اور گروہی اختلافات پر توجہ کیے بغیر تبدیلی کے حوالے سے استفادہ کیا جانا چاہیے۔
آیت اللہ خامنہ ای نے تاکید کی: "ان نظرات کو تبدیلی کے لیے ایکشن پلان میں تبدیل کیا جانا چاہیے۔ بصورت دیگر ، مشورہ لینا اور صرف لکھنا بیکار ہے۔"
رہبر معظم انقلاب نے پھر ملک کی کام کی ترجیحات کے اہم عنوانات بیان کیے اور کہا: ملکی مسائل میں سب سے پہلے اور اہم توجہ کا مرکز معیشت ہے ، پھر ثقافت ، میڈیا اور سائنس۔ یقینا ، ایک فوری مسئلہ بھی ہے ، جو کہ کورونا وائرس اور لوگوں کی صحت ہے۔
ویکسین اور ان کی درآمد سمیت صحت کے شعبے میں سابقہ حکومت کی معقول کوششوں کا حوالہ دیتے ہوئے ، انہوں نے علاج ، روک تھام ، دیکھ بھال اور اسکریننگ اور عمومی ویکسینیشن سے متعلق مسائل کو بہت اہم سمجھا اور کہا: "ضروریات میں سے ایک ہے سمارٹ قرنطینہ، سرحدوں کی مکمل نگرانی تاکہ ملک میں وائرس کی نئی شکلوں کو داخل ہونے سے روکا جا سکے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے کورونا سے نمٹنے کے لیے عوام کے فرائض کا بھی ذکر کیا: عوام کو چار ذمہ داریاں قبول کرنی چاہئیں: "ماسک لگانا" ، "سماجی فاصلے کی مراعات کرنا" ، "وینٹیلیشن اور ہوا کی گردش کو اہمیت دینا" ، اور "صابن سے ہاتھ کا دھونا" بے شک ان چیزوں کی پابندی کرنا موجودہ بھاری نقصانات کو کم کرنے میں کارآمد ثابت ہوگا۔
معیشت کے مسئلے کو ملک کی اہم ترجیحات میں سے ایک قرار دیتے ہوئے، آیت اللہ خامنہ ای نے "اعلی افراط زر ، بجٹ خسارہ ، لوگوں کے معاشی مسائل ، قومی کرنسی کی قدر میں کمی ، لوگوں کی قوت خرید میں کمی ، کاروباری مارکیٹ کے مسائل اور بینکاری نظام کو" موجودہ اہم معاشی مسائل جانا۔ انہوں نے مسائل کو شمار کرتے ہوئے مزید کہا: ان مسائل میں سے ہر ایک کو حل کرنے کے لیے ، ایک منصوبہ بنایا جانا چاہیے ، اور اس کے اگلے مرحلے میں ، حکومت کے اقتصادی عہدیداروں کو باہمی تعاون سے کام کرنا چاہیے۔ یہ حکومتی ہم آہنگی کی ایک مثال ہے۔
انہوں نے کہا: "یہ جان کر خوشی ہوئی کہ جناب صدر نے حکومت کے معاشی شعبے کو مربوط کرنے کے لیے نائب مسئول کو مقرر کیا ہے ، اور امید ہے کہ اسکو اچھی طرح سے دیکھا جائے گا ، لیکن اگر کوئی اختلاف ہے تو ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ عوام میں پھیلے کیونکہ یہ معاشی ترقی پر اثر انداز ہوگا۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے معاشی منصوبوں کی طرف توجہ دینا اور ان کی حمایت کرنا ایک ضروری عمل سمجھا ، جیسے ہاؤسنگ ، سٹیل انڈسٹریز ، آٹوموبائل ، انرجی اور پیٹرو کیمیکل سیکٹر۔ انہوں نے ان شعبوں کے انچارجوں کے درمیان ہم آہنگی کی ضرورت پر زور دیا۔
بینکاری نظام کے کنٹرول کے حوالے سے آیت اللہ خامنہ ای نے پیسے کی تخلیق اور رقم کی فراہمی کے مسئلے کا حوالہ دیا اور کہا: "معاشی ماہرین کا خیال ہے کہ کرنسی پیداوار کی نسبت سے چھاپنی چاہیے ، اور اگر یہ تناسب موجود نہ ہو تو کرنسی پرنٹنگ متوقف ہونی چاہیے۔ اس کے نتیجے میں افراط زر کو روکا جاسکے گا ، پیداوار کو بڑھاوا ملے گا ، روزگار میں اضافہ ہوگا اور قومی کرنسی کو مضبوط کیا جاسکے گا۔
معاشیات کے میدان میں ، ہمت ، حکمت عملی اور محنت پر زور دیتے ہوئے ، اس نے دو اہم نکات بیان کیے: اول ، معاشی مسائل کو حل کرنے کے لیے عارضی اور راحت بخش حل تلاش نہ کریں۔ اس کے بجائے ، بنیادی حل پر عمل کریں۔ دوسری بات یہ کہ مالی مسائل کے حل کو پابندیوں کے خاتمے تک موخر نہ کریں ، مسائل کے حل کے منصوبے پابندیوں کے وجود کو سمجھتے ہوئے بنائے جائیں۔
"ثقافت اور میڈیا" کے مسئلے کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے ، رہبر معظم انقلاب اسلامی نے ملک کے ثقافتی ڈھانچے کو ناقص اور انقلابی تعمیر نو کی ضرورت پر زور دیا۔ انہوں نے مزید کہا: انقلابی تحریک کا مطلب ایک بنیادی تحریک ہے جو معقول ہو۔۔۔ سوچ، سمجھ اور دانش کی بنید پر ، نہ کہ کوئی ایسی تحریک جو بے حساب و کتاب ہو۔
آیت اللہ خامنہ ای نے ثقافت کے بنیادی اور نرم کردار کا حوالہ دیتے ہوئے ، بہت سی غلطیوں کو شمار کیا اور اصراف، اندھی تقلید اور عیش و آرام کی طرز زندگی کو بوسیدہ ثقافتی جڑیں شمار کیا اور اس بات پر زور دیا کہ ان جڑوں کو ثقافتی اوزار ، جیسے سنیما ، الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کے استعمال سے درست کرنے کی ضرورت ہے۔ ان وسائل کو پھلنا پھولنا چاہیے۔
ثقافت کے شعبے میں دلچسپی رکھنے والے نوجوانوں کی بڑی تعداد میں اضافے پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے ، انہوں نے حکومت کے ثقافتی محکموں سے مطالبہ کیا کہ وہ ان نوجوانوں اور ان کے اقدامات کو مدد فراہم کریں۔ انہوں نے مزید تاکید کی: آپ نوجوان صلاحیتوں کو تلاش کریں اور قانون کے اندر ان کی آزادی کی ضمانت دیں۔ یقینا ، آپ کو بلا جھجھک ثقافت کے میدان میں اخلاقی بدعنوانی سے نمٹنا ہوگا۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے مزید فرمایا: "دشمن کی نرم جنگ لڑنے کا بنیادی طریقہ ثقافت کے میدان میں صحیح اقدامات کی حمایت کرنا اور ان کی حوصلہ افزائی کرنا ، اور غلط فعالیتوں کے خلاف کھڑے ہونا ہے۔ آج ، دنیا حق اور باطل، ہدایت اور اخلاقی بدعنوانی کے درمیان ثقافتی جنگ کا میدان ہے۔
اپنی تقریر کے ایک اور حصے میں ، آیت اللہ خامنہ ای نے خارجہ پالیسی کے اہم اور بااثر مسئلے پر روشنی ڈای اور خارجہ پالیسی میں متعدد راہوں کو اپنانے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا: "سفارتکاری کے معاشی پہلو کو مضبوط ہونا چاہیے ، جیسا کہ بہت سے ممالک میں صدر خود اس کی پیروی کرتے ہیں۔ معیشت کی سفارت کاری ، ملک کی اقتصادی سفارتکاری کو اس نقطہ نظر سے مضبوط کیا جانا چاہیے۔
انہوں نے ایک یا دو موارد کو چھوڑ کر 15 پڑوسی ممالک کے ساتھ ساتھ دنیا کے بہت سے دوسرے ممالک کے ساتھ بیرونی تجارت کو بڑھانے پر زور دیا اور اس بات پر زور دیا کہ سفارتکاری کو ایٹمی مسئلے سے متاثر یا منسلک نہیں ہونا چاہیے کیونکہ یہ ایک الگ مسئلہ ہے جو ملکی ضروریات اور مناسبات کے مطابق حل ہونا چاہیے۔
رہبر معظم انقلاب نے مزید کہا: "امریکیوں نے ایٹمی مسئلے میں واقعی خباثت کی حد عبور کر لی ہے ، اور اگرچہ انہوں نے JCPOA کو سب کے سامنے ترک کیا ، لیکن اب وہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ اسلامی جمہوریہ نے معاہدے اور اس کی ذمہ داریوں کو ترک کردیا ہے ، جبکہ امریکہ کے انخلاء کے بعد طویل عرصے تک ، ایران معاہدے کی ذمہ داریوں پر قائم رہا ، اور اس کے کچھ عرصے بعد، اعلان اور غور کے ساتھ ، ایران نے کچھ ذمہ داریوں سے خود کو الگ کیا نہ کہ تمام ذمہ داریوں سے۔
رہبر معظم انقلاب نے تخریب کاری اور بد اخلاقی میں یورپی ممالک اور امریکہ کے کردار کو کم نہیں سمجھا۔ انہوں نے تاکید کی کہ وہ بھی امریکہ کی طرح ہیں ، لیکن زبان اور الفاظ سے کھیلنے کے معاملے میں ، وہ ہمیشہ ڈیمانڈ کی پوزیشن میں رہتے ہیں ، کیونکہ وہ اس طرح بات کرتے ہیں کہ یہ ایران تھا جس نے مذاکرات کا مذاق اڑایا اور طویل عرصے تک مذاکرات کو نظر انداز کیا۔
آیت اللہ خامنہ ای نے مزید کہا: "موجودہ امریکی انتظامیہ پچھلی انتظامیہ سے مختلف نہیں ہے کیونکہ وہ جو کچھ ایران سے مانگ رہی ہے وہی ہے ، جو ٹرمپ مانگ رہا تھا ، لیکن مختلف زبان استعمال کرتے ہوئے۔ اس عقت پچھلے حکومتی عہدیداروں نے اس کی نامعقولیت پر زور دیتے ہوئے اسے قبول نہیں کیا۔
رہبر انقلاب نے امریکیوں کو سفارتکاری کے پس پردہ، مسکراہٹ اور پیشہ ورانہ مہارت کے پیچھے جنگلی اور شکاری بھیڑیوں کی طرح قرار دیا اور مزید کہا: یقینا بعض اوقات وہ دھوکے باز لومڑیوں کی طرح ہوتے ہیں ، جیسا کہ یہ افغانستان کے موجودہ حالات سے صاف ظاہر ہوتا ہے ۔
آیت اللہ خامنہ ای نے افغانستان کو برادر ملک قرار دیا ، جہاں زبان ، مذہب اور ثقافت ایران جیسی ہے ، اور لوگوں کے مسائل پر گہرے دکھ کا اظہار کیا ، بشمول جمعرات کو کابل ائیرپورٹ پر بم دھماکے کا واقعہ (26/08/2021) ) ، انہوں نے کہا: یہ مشکلات اور مسائل امریکہ نے وہاں کے لوگوں پر مسلط کیے تھے ، کیونکہ امریکیوں نے پچھلے 20 سالوں سے اس پر قبضہ کیا ہوا تھا اور متعدد غیر عادلانہ اور غیر منصفانہ اقدامات انجام دئیے تھے۔
شادیوں اور جنازوں پر بمباری ، نوجوانوں کا قتل ، بہت سے لوگوں کی بلاجواز قید ، اور بڑے پیمانے پر منشیات کی پیداوار میں اضافہ افغانستان میں امریکی موجودگی کے کچھ منفی اثرات تھے جن کی طرف رہبر معظم انقلاب نے اشارہ کیا۔ اس کے علاوہ ، انہوں نے کہا: امریکہ نے افغانستان کی بہتری کی طرف ایک قدم بھی نہیں اٹھایا۔ اگر افغانستان آج سے 20 سال قبل سول اور تعمیری ترقی کے لحاظ سے پیچھے نہیں ہے تو آج کا افغانستان آگے بھی نہیں ہے۔
امریکیوں کی شرمناک روانگی اور ان کے افغان ہم منصبوں کی افغانستان سے بدتر جگہوں پر منتقلی کا حوالہ دیتے ہوئے ، انہوں نے اسلامی جمہوریہ ایران کے موقف پر زور دیتے ہوئے کہا: "ہم افغان عوام کی حمایت کرتے ہیں اس سے قطع نظر کہ کون حکومت کر رہا ہے کیونکہ حکومتیں آتی ہیں اور جاتی ہیں۔ لیکن افغان عوام ہمیشہ وہاں موجود ہیں۔ ایران اور اس کی حکومتوں کے درمیان تعلقات کی نوعیت بھی اس بات پر انحصار کرتی ہے کہ وہ ایران کے ساتھ کس قسم کے تعلقات رکھتے ہیں۔ ہم خدا سے افغانستان کے لوگوں کے لیے خیر اور اس صورتحال سے نجات کے لیے دعا گو ہیں۔
اپنی تقریر کے اختتام پر آیت اللہ خامنہ ای نے ایرانی قوم اور نئی حکومت کی کامیابی کے لیے دعا کی اور کہا: "ہمیں امید ہے کہ آپ نے جو کہا ہے اس پر عمل کرتے ہوئے آپ لوگوں کو ان کے مسائل سے نجات دلائیں گے اور انہیں مطمئن کریں گے۔"
رہبر معظم انقلاب اسلامی کی تقریر سے پہلے ، صدر نے مجوزہ وزراء کی قابلیت پر نظرثانی میں حکومت کے ساتھ تعاون کرنے پر اسلامی پارلیمنٹ کا شکریہ ادا کیا اور "کورونا" اور "معاشی مسائل کو حل کرنے" کے مسئلے کو 13 ویں حکومت کی اولین ترجیحات میں شمار کیا۔
حجت الاسلام والمسلمین رئیسی نے عوامی ویکسینیشن میں تیزی اور لوگوں کو درکار ادویات کی فراہمی کو حکومت کا ایک لازمی پروگرام قرار دیا ، اور حکومت کو درپیش معاشی چیلنجوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ بہت کثیر بجٹ خسارہ بھی پایا جاتا ہے۔ مہنگائی کا حل اور عوام کو بنیادی ضروریات کی فراہمی معاشی مسائل کے میدان میں حکومت کی دو اہم ترجیحات ہیں۔
سابقہ حکومتوں کے تجربے کا حوالہ دیتے ہوئے ، صدر نے سابقہ حکومتوں کی کمزوریوں کو پہچاننے اور ان سے سبق سیکھنے کی ضرورت پر زور دیا ، بشمول غیر ملکیوں پر انحصار کرنے سے بچنے کی ضرورت اورساتھ ساتھ سابقہ حکومتوں کے مثبت اور قیمتی تجربات سے استفادے پر زور دیا۔