رہبر انقلاب اسلامی نے ایک براہ راست ٹیلی ویژن تقریر میں آج دوپہر (اتوار) کو ایران کی عظیم قوم سے خطاب کیا۔ انہوں نے ملک کی تعمیر و ترقی میں اساتذہ اور کارکنوں کے اہم کردار کا حوالہ دیا۔ انہوں نے کہا ، "یقینا، انتخابات ایران کے لیے ایک اہم موقع ہیں اور نظام کی بنیادوں کو مضبوط کرنے کیلئے ایک ایسا عنصر ہیں جس کا کوئی متبادل نہیں"۔ رہبر انقلاب نے انتخابات کی طرف لوگوں کی حوصلہ شکنی کی کوششوں کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا اور یہ کہتے ہوئے زور دیا کہ "امیدواروں کو لوگوں سے غلط اور بے بنیاد وعدے کرنے سے دور رہنا چاہیے اور اپنے اصل منصوبے عوام کے سامنے پیش کرنا چاہیے"۔
انہوں نے خارجہ پالیسی کے حوالے سے بعض عہدیداروں کے غلط بیانات پر بھی افسوس اور حیرت کا اظہار کیا۔ انہوں نے یہ کہتے ہوئے زور دیا کہ "قدس فورس مغربی ایشیا میں انتقامی سفارتکاری کو روکنے کا سب سے بڑا اور موثر عنصر ہے اور کسی کو اس طرح سے بات نہیں کرنی چاہیے جو غیر ملکی (طاقتوں) کے موقف کی بازگشت کرے۔"
اپنی تقریر کے آغاز میں رہبر انقلاب نے فرمایا کہ رمضان المبارک کے مقدس مہینے کی برکت والی راتیں ہیں اور تاکید کی کہ ہر ایک کو ان راتوں میں موجود بے پناہ برکتوں سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔ انہوں نے کہا ، "دعا ، توسل، توبہ اور آنسو رمضان کی اس بابرکت ضیافت کے مصدایق ہیں ، لہٰذا ہمیں چوکس رہنا چاہیے اور زیادہ سے زیادہ رحمت طلب کرنی چاہیے تاکہ مہربان پروردگار سے نزدیک ہوسکیں اور اپنے آپ کو ان قیمتی مواہب الہی کے لیے آمادہ کریں"۔
رہبر معظم انقلاب نے امامت کے بہت عظیم اور اعلیٰ مقام کو مدنظر رکھتے ہوئے امام علی ابن ابی طالب (ع) کے کردار پر ایک مختصر نظر ڈالی۔ انہوں نے مزید کہا ، "امامت کا مطلب محض کسی مذہب یا دنیاوی تشکیلات کا سربراہ ہونا نہیں ہے ، بلکہ امامت کا ایک بہت ہی بلند مقام ہے جسے سمجھنا ناممکن ہے سوائے ان لوگوں کے جو معصوم ہیں۔"
رہبر معظم نے شیعوں ، غیر شیعہ مسلمانوں اور دیگر مذاہب کے پیروکاروں کی امام علی علیہ السلام کے تئیں عقیدت کے حوالے سے مزید کہا: "یہ محبت اور عقیدت امیر المومنینؑ کی نمایاں خصوصیت کی وجہ سے ہے جو کہ ان کا غیر معمولی ، بے باک ، دور رس اور قاطعانہ عدل و انصاف ہے جو ان کی سب سے نمایاں خصوصیت ہے۔"
رہبر انقلاب کے مطابق امیر المومنین کا طرز عمل، دنیا سے ان کی مکمل بے رغبتی، بہادری ، کمزوروں کے ساتھ ان کی مہربانی اور ہمدردی ، ظالم اور ظالموں کے خلاف ان کا عزم ، راہ حق میں ان کی لگن ، ان کی بات میں پائی جانے والی گہری حکمت ، ان کے طرز عمل میں ثابت قدمی اور دیگر خصوصیات وہ صفات جو ان کے کمال کی بلندی کے طور پر جلوہ گر ہیں۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ امام علی (ع) کی ذاتی خصوصیات اور ان کے طرز حکمرانی کے مطابق اپنے عمل کو ڈھالنا ایک بھاری ذمہ داری ہے اور مزید کہا کہ "ہم ان شعبوں میں بہت پیچھے ہیں"۔
آیت اللہ خامنہ ای نے شہادت کے لیے امام علیؑ کی بے مثال رغبت و آرزو کا ذکر کیا۔ انہوں نے کہا ، 'ہم اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں کہ ہمارے زمانے میں ایسے عقیدت مند تھے اور اب بھی ہیں ، جو اپنے آقا و مولا کی پیروی کرتے ہوئے ، شہادت سے کی آرزو رکھتے ہیں اور حاج قاسم سلیمانی اس حوالے سے ایک عظیم شخصیت تھے'۔
انہوں نے معلم و استاد کے مقام اور بنیادی حیثیت کو واضح کیا اور شہید مطہری کی مثال دی۔ انہوں نے کہا کہ 'شہید مطہری ایک عالم دین ، فلسفی ، مفکر ، فقیہ اور ایک عظیم دانشور تھے۔ تاہم ، اس شہید کی سب سے اہم خصوصیت مسلسل نرم جنگی جدوجہد میں گہرے اور ضرورت کے عین مطابق تحریریں اور کتابیں لکھنا تھا۔ اس جدوجہد میں ، انہوں نے مشرق اور مغرب کے منحرف خیالات کی امواج کے خلاف کھڑے ہو کر اپنی قوم کے لیے اپنی حساسیت ظاہر کی۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے ذکر کیا کہ فرائض اور ذمہ داریوں کو ترجیح دینا شہید مطہری کی دو خوبیاں ہیں۔ انہوں نے کہا ، "معاشرے کی ضروریات کو ترجیح دیتے ہوئے ، انہوں نے دانش اور سائنس کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے انکی ظرفیتوں کے درمیان مطابقت کو بڑھایا۔
انہوں نے اسکول اور یونیورسٹی دونوں کے طلباء کی فکر کی حفاظت کو استاد کی سب سے اہم ذمہ داری سمجھا۔ انہوں نے کہا ، "اساتذہ کو اپنی سالمیت ، صلاحیت اور مہارت کو استعمال کرتے ہوئے جوانوں اور نوجوان نسل میں سائنسی علم منتقل کرنا چاہیے اور انہیں اپنے طلباء کو سوچنے اور غور و فکر کرنے والے بنانا چاہیے"۔
رہبر انقلاب نے ملک کی ترقی میں اساتذہ کو فوجی افسر سمجھتے ہوئے مزید کہا ، "اساتذہ کو اس عظیم منصب پر اعتقاد رکھنا چاہیے، انہیں اس ذمہ داری کے لیے حساس ہونا چاہیے اور اپنے عظیم فرض پر عمل کرنا چاہیے"۔
رہبر انقلاب اسلامی نے نوجوانوں پر غیر ملکی ثقافتی حملوں اور باظل نظریات کا حوالہ دیا۔ انہوں نے کہا ، "تعلیمی نظام کی عظیم صلاحیتوں کو استعمال کرنے کے علاوہ ، اساتذہ کو قربانیوں دیتے ہوئے ان حملوں کو پسپا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے تاکہ نقصان صفر کے قریب ہو اور اعلیٰ سطح پر ترقی ممکن ہوسکے۔"
رہبر انقلاب اسلامی نے اساتذہ کے اعلی درجے اور گہرے اثرات پر دوبارہ تاکید کی۔ انہوں نے کہا ، "اس اعلیٰ اور بااثر مقام کو اہمیت کو سمجھنا ایک عوامی ثقافت کا حصہ بننا چاہیے اور اس شعبے میں میڈیا اور تعلیمی نظام کا بہت بڑا کردار ہے"۔
آپ نے اساتذہ کے مالی نقصانات کو حل کرنے کی اہمیت کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ یہ حکومت کی ایگزیکٹو برانچ اور پارلیمنٹ کی ذمہ داری ہے ، اور کوویڈ 19 وبائی امراض کے دوران پڑھائی جاری رکھنے میں اساتذہ کی انتھک کوششوں کا شکریہ اور خاندانوں خصوصا ماؤں کے خصوصی تعاون پر شکریہ ادا کیا۔
مزدوروں کے قومی دن کے بارے میں ، لیڈر نے محنت کشوں کی حیثیت اور درجہ اور اس محنت کش شعبے کے لیے جامع تعاون پر تاکید کی۔ انہوں نے ملک کی معیشت اور استقلال کو آگے بڑھانے میں مزدوروں کے اثر اور کردار کا بھی حوالہ دیا۔
آپ نے اسلام میں مزدوروں کے بلند مقام کا ذکر کیا۔ اس نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی مثال دی جب آپؐ نے ایک مزدور کے ہاتھ چومے۔ انہوں نے کہا ، "ایک آزاد اور پیداوار پر مبنی معیشت میں ، مزدور بنیادی ستون ہے۔ مزدور کا یہ نمایاں کردار عمومی ذرائع ابلاغ کے ذریعے ایک عوامی ثقافت بن جانا چاہیے"۔
انہوں نے کہا ، اسلامی انقلاب کے آغاز سے ہی ، غیر ملکی دشمن نے مزدوروں کو نظام کے خلاف کھڑا کرنے کی کوشش کی ، لیکن مزدوروں نے مضبوطی سے مزاحمت کی جیسا کہ ہم نے عراق کے ہمارے ملک پر حملے کے آٹھ سالوں کے دوران دیکھا۔
سال کے نعرے اور پیداوار کی حمایت کے موضوع کا حوالہ دیتے ہوئے ، قائد نے کہا ، "پیداوار کی حمایت کرنے کا ایک طریقہ مزدور کی مدد کرنا ہے کیونکہ ایک فعال مزدور قومی ثروت میں اضافہ کرتا ہے جو آخر کار ملک کی پہچان، طاقت اور آزادی کی بنیاد فراہم کرتی ہے ، "
آپ نے فرمایا کہ مزدوروں کی حمایت کرنے کا مطلب صرف یہ نہیں ہے کہ اجرت میں اضافہ کیا جائے جو کہ موجودہ مارکیٹ میں اتار چڑھاو کے برابر ہو۔ اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ "کارکنوں کی مہارت کی سطح اور پیشہ ورانہ مہارت میں اضافہ ، ان کی انشورنس اور طبی ضروریات پر توجہ دینا ، حفاظتی اقدامات، ان کیلئے رہائشی منصوبوں کی تشکیل اور مزدوروں ، تاجروں اور حکومت کے درمیان اچھے تعلقات قائم کرنا بھی انکی حمایت کرنا ہے"۔
انہوں نے ذکر کیا کہ ملازمت کے مواقع پیدا کرنے کے لیے مناسب منصوبہ بندی کو پوری دقت سے نافذ کیا جانا چاہیے۔ مزید یہ کہ نجی شعبہ ملکی معیشت کو سہارا دینے اور روزگار کے مواقع پیدا کرنے میں ایک بڑا اثاثہ ثابت ہو سکتی ہے۔ انہوں نے مزید کہا ، 'ملازمتیں پیدا کرنا نہ صرف معاشی فائدہ ہے ، بلکہ اس کے سماجی اور سیاسی فوائد بھی ہیں۔ یہ امر سرگرمی، فعالیت، اقدامات کی بنیادی جڑ ہے اور بہت سی سماجی اور قومی سلامتی سے متعلق برائیوں کو روک دے گی خاص طور پر نوجوانوں میں۔ روزگار کے مواقع پیدا کرنا ہر حکومت کی سب سے زیادہ متوقع ذمہ داریوں میں سے ایک ہے۔
روزگار کے مواقع پیدا کرنے کی کثیر جہتی اہمیت کے حوالے سے ایک نصیحت آمیز لہجے میں ، آیت اللہ خامنہ ای نے تاکید فرمائی کہ جو لوگ اپنے مفادات کے لیے زمین اور وسائل استعمال کرنے کے لیے جان بوجھ کر مینوفیکچرنگ یونٹ بند کرتے ہیں ، انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ وہ غیر اخلاقی کام اور گناہ کر رہے ہیں۔ مزید یہ کہ یہ عمل قومی پیداوار کو نقصان پہنچا کر قوم ، مزدوروں اور ملکی استقلال اور معیشت کے ساتھ غداری ہے۔
رہبر انقلاب نے ملک کے حکام بالخصوص صنعت ، کان کنی اور تجارت کی وزارت اور وزارت زراعت کو تاکید کی کہ وہ ان معاملات کا سختی سے مقابلہ کریں۔
آیت اللہ خامنہ ای نے چھوٹے اور درمیانے درجے کے مینوفیکچرنگ یونٹوں کی سرگرمی کی اہمیت پر ماہرین اقتصادیات کے نقطہ نظر کو دہرایا۔ انہوں نے کہا ، 'ان ورکشاپس کی توسیع روزگار کے مواقع پیدا کرنے اور معاشرے کے لیے خاص طور پر کم درآمد طبقات کے لیے دولت کی فراہمی کی بنیاد ہے۔
انہوں نے مزید فرمیا: 'پابندیوں کو ناکام بنانے کا سب سے آسان طریقہ یہ ہے کہ قومی پیداوار کو صحیح معنوں میں پروان چڑھانے کے لیے حقیقی کوشش کی جائے۔ نتیجے میں ، یہ دشمن کو اپنی پابندیوں کو مزید آگے بڑھانے کی امید سے محروم کر دے گا جس کے نتیجے میں وہ پابندیاں غیر موثر ہو جائیں گی۔
انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ "اسلامی جمہوریہ ایران کے تمام انتخابات صحیح و سالم رہے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ کچھ معمولی خلاف ورزیاں کی گئی ہوں ، لیکن ان کا کلی نتائج پر کوئی اثر نہیں پڑا ، اور اسلامی جمہوریہ میں انتخابات ہمیشہ صحیح و سالم رہے ہیں"۔
اپنی تقریر کے ایک اور حصے میں ، رہبر انقلاب نے کہا کہ انتخابات ملک بھر میں قانونی اور سلامتی کی بنیادوں کو مضبوط کرنے کا ایک اہم اور خصوصی موقع ہے۔ انہوں نے مزید کہا ، 'کچھ لوگ انتخابات پر سوال اٹھانے کی کوشش کرتے ہیں اور گارڈین کونسل یا دیگر متعلقہ تنظیموں کے کام کاج میں شکوک و شبہات پیدا کرتے ہیں ، جس کی وجہ سے لوگ انتخابات سے لاتعلق ہو جاتے ہیں ، اور یہ غلط ہے۔
رہبر انقلاب نے مزید کہا ، "یقینا کچھ لوگ ایسے ہیں جو انتخابات جیتتے ہیں تو ہی انہیں قبول کرتے ہیں۔ جب نتائج انکے مطابق نہ ہوں تو وہ گارڈین کانسل پر الزام ترشی کرتے ہیں یا سال ۲۰۰۹ کی طرح بغاوت کرتے ہیں! یہ الزامات غیر منصفانہ ہیں ، اور جنجال کرنا ایک جرم ہے۔
انہوں نے امیدواروں کو ایک ضروری نصیحت کرتے ہوئے فرمایا، 'ان افراد کو کوئی غیر مستند اور ناممکن یا دستیاب وسائل کو مدنظر رکھے بغیر دعوے نہیں کرنے چاہئیں ۔ یہ ایسی چیز ہے جس سے انہیں اجتناب کرنا چاہیے۔
رہبر انقلاب نے مزید اس بات پر زور دیا کہ جو لوگ انتخابات کے لیے کھڑے ہوتے ہیں انہیں حقیقت پسندانہ پروگرام پیش کرنا چاہیے جن کی ماہرین تصدیق کر سکتے ہوں۔
رہبر انقلاب نے یہ بھی کہا کہ بعض اوقات بعض لوگ ایسی باتیں کرتے ہیں جیسے وہ آئین کے خلاف ہوں۔ تاہم ، جب کوئی انتخابات میں حصہ لینا چاہتا ہے تو اسے اسلام ، آئین اور عوامی رائے پر یقین رکھنا چاہیے۔ لہذا ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ نامزد امیدواروں کو اس کو مدنظر رکھنا چاہیے۔
رہبر معظم نے بعض ملکی حکام کے حالیہ بیانات پر مایوسی اور حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وہ قوم کے دشمنوں اور امریکہ کے موقفف کو دہرا رہے ہیں ، انہوں نے کہا ، 'امریکہ برسوں سے ایران اور اس کے اتحادیوں سے ایران کے خطے میں اثر و رسوخ کیوجہ سے ناراض ہے۔ خطے میں اثر و رسوخ سے دشمن کی مراد قدس فورس اور شہید سلیمانی سے تھی ، جو کہ بنیادی وجہ بنی کہ انہوں نے شہید سلیمانی کو شہید کیا۔
رہبر معظم نے فرمایا: 'ملک کی پالیسیاں مختلف ثقافتی ، معاشی ، سماجی ، تعلیمی اور خارجہ پالیسی کے منصوبوں پر مشتمل ہیں۔ ان سب کو ہم اہنگ طریقے سے آگے بڑھنا چاہیے ، اور ان میں سے کسی کو روکنا ایک بڑی غلطی ہے جو کہ سرکاری افسران کو نہیں کرنی چاہیے۔
انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ قدس فورس مغربی ایشیا میں انتقامی سفارتکاری کو روکنے کے لیے سب سے اہم اور سب سے زیادہ اثر انگیز عنصر ہے۔ یہ فورس اسلامی جمہوریہ کی پالیسیوں کو نافذ کرنے کی بنیاد بن گئی ہے۔
آیت اللہ خامنہ ای نے مغربی طاقتوں کی اس خواہش کی نشاندہی کی کہ وہ ایران کے تسلط کو واپس حاصل کرلیں جیسا کہ شاہ کے دور میں تھا۔ انہوں نے کہا ، 'یہی وجہ ہے کہ وہ ہمیں کسی سفارتی معاملات کی اجازت نہیں دیتے اور ایران ، چین ، روس اور پڑوسی ممالک کے درمیان تعلقات بڑھنے کی مخالفت کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ انہوں نے پڑوسی ممالک کے عہدیداروں کے ایران کا سفر کرنے کی حوصلہ شکنی کی ہے ، اور ہمیں ان دباؤ کا مقابلہ کرنے کے لیے تندہی اور طاقت کے ساتھ آزادانہ طور پر کام کرنا چاہیے۔
رہبر انقلاب نے اس بات پر زور دیا کہ سپریم نیشنل سکیورٹی کونسل ، نہ کہ وزارت خارجہ ، بین الاقوامی خارجہ پالیسی کا فیصلہ کرتی ہے۔ انہوں نے کہا ، 'وزارت خارجہ کا فیصلوں میں کچھ حصہ ضرور ہوتا ہے ، لیکن یہ فیصلہ ساز نہیں ہے اور اس کا کام صرف پالیسی پر عملدرآمد ہے'۔
انہوں نے کہا ، 'ہمارے ملک میں سپریم نیشنل سکیورٹی کونسل حکام کی موجودگی میں خارجہ پالیسی کا مسودہ تیار کرتی ہے اور وزارت خارجہ اپنے پروٹوکول کے ذریعے کونسل کی پالیسیوں کو نافذ کرتی ہے۔
آیت اللہ خامنہ ای کی تقریر کا اختتام ان عہدیداروں کے لیے الہی توفیقات کی دعا کے ساتھ ہوا جو وطن کی خدمت کا ارادہ رکھتے ہیں۔ انہوں نے کہا ، 'اس طرح نہ بات کریں کہ اسے ملکی سیاست کی مخالفت سے تعبیر کیا جائے اور دشمنوں کو آپ کی باتوں سے خوشی و مسرت حاصل ہو۔