رہبر معظم انقلاب اسلامی نے آج (پیر) صبح آیت اللہ بہشتی کے یوم شہادت اور یوم عدلیہ کے موقع پر ، عدلیہ کے سربراہ اور عہدیداروں سے ملاقات میں ، آخری دو سال میں امید افزا اور امید دہندہ راہ اورعدلیہ کے نظام میں آنے والی نئی مدت میں تبدیلی کے دستاویز پر عملدرآمد میں تسلسل کا مطالبہ کیا، اسی طرح آپ نے 19 جون کو ہونے والے انتخابات میں عوام کی طرف سے پر جوش شرکت کی قدردانی کرتے ہوئے فرمایا: "کورونا کے حالات اور معاشی اور کچھ دیگر مشکلات کی شرائط میں عوام نے استکباری دنیا کی کئی مہینوں پر محیط منصوبہ بندی کو تحس نحس کردیا اور انتخابات کے اصل فاتح کی حیثیت سے ایران کے دشمنوں اور ان سے وابستہ افراد کو شکست اور ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔"
اس اجلاس میں آیت اللہ خامنہ ای نے آیت اللہ بہشتی کو ایک شہید ، مفکر اور نظریہ نگار عالم، ممتاز اور حقیقی انقلابی ، وفادار ، قانون پسند اور بہت موثر شخصیت قرار دیا ، اور مزید کہا: شہید بہشتیؒ نے اسلامی عدالت جیسے دشوار اور عظیم کام کی بناد ڈالتے ہوئے اور بنیادی قانون کی تدوین میں کلیدی کردار ادا کیا اور ان کا ملک اور قوم پر یہ بہت بڑا حق ہے اور اس حق کو تسلیم اور ادا کیا جانا چاہئے.
آیت اللہ بہشتی اور 70 کے قریب دیگر شخصیات کو شہید کرنے میں منافقین کے گھناؤنے جرم کا ذکر کرتے ہوئے ، رہبر معظم انقلاب اسلامی نے کہا: "ان قاتلوں نے واضح طور پر اس عظیم جرم کا اعتراف کیا ہے ، لیکن آج ، فرانس اور انسانی حقوق کے دعویدار دیگر ممالک کی حمایت سے ، وہ آزادانہ طور پر کام کر رہے ہیں یہاں تک کہ انسان مغرب کے انسانی حقوق کے دعوؤں اور ساتھ ہی ان دہشت گردوں کو مواقع دینے اور انکی حمایت کی خباثت پر حیران ہے۔
آیت اللہ خامنہ ای نے عدلیہ کے عہدیداروں کی سرگرمیوں اور ملک بھر میں اس ادارے کے تمام سرگرم عناصر کا شکریہ ادا کیا ، انہوں نے جناب رئیسی کے دور میں کئے گئے اقدامات کو جہادی تحرک کی ایک مثال قرار دیا اور جناب رئیسی کا شکریہ ادا کیا اور مزید کہا: "اس صنح شام کی محنت اور کوشش کے خدا کے فضل سے حوصلہ افزا اور اچھے نتائج برآمد ہوئے ہیں۔"
انہوں نے لوگوں کی امید کی بحالی اور عدلیہ پر اعتماد میں اضافے کو عدلیہ میں گذشتہ دو سالوں میں جہادی تحریک کا سب سے اہم اثر قرار دیتے ہوئے مزید کہا: "یہ امید اور اعتماد ایک قیمتی معاشرتی سرمایہ ہے کہ جس کی کوئی اور چیز برابری نہیں کرسکتی۔ "
جناب رئیسی کے بطور صدر منتخب ہونے کے بعد عدلیہ میں تبدیلی کا ذکر کرتے ہوئے ، قائد انقلاب نے عدلیہ کے مستقبل کے راستے پر روشنی ڈالتے ہوئے کچھ نکات بیان کیے۔
انہوں نے عدلیہ میں تبدیلی کے عمل کو جاری رکھنے کو انتہائی اہم اور قطعی ضرورت قرار دیا ، انہوں نے مزید کہا: "یہ راستہ اسی شدت کے ساتھ اور بھی تیز تر انداز میں جاری رہنا چاہئے ، اور تبدیلی کی اس اچھی ، معتبر ، عملی ، غیر نمائشی اور مقررہ اوقات کی حامل دستاویز کو اسی طرح عدلیہ میں تبدیلی کا معیار باقی رہنا چاہیے۔"
آیت اللہ خامنہ ای نے تبدیلی کی دستاویز کے بارے میں عدلیہ کے تمام ملازمین میں آگاہی اور ادراک کو ضروری سمجھا اور مزید کہا: عدلیہ کو تبدیلی کے دستاویز کے نفاذ کے لئے ریگولیٹری خلا کو پُر کرنے کے لئے سرگرم عمل رہنا چاہئے اور اپنے تمام اسٹاف کو اس دستاویز کو صحیح اور مستقل طور پر مختلف طریقوں سےنافذ کرنے کی ترغیب دلانی چاہئے۔
عوامی حقوق کے احیاء میں عدلیہ کے کردار ادا کرنے پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے ، قائد انقلاب نے کہا: "یہ ایک بہت ضروری اور قیمتی کام ہے ، عدلیہ کے لازمی فرائض میں سے ایک ہے ، اور اس کا دائرہ پیداواری یونٹوں کی بحالی اور قدرتی وسائل پر قبضے کا خاتمے سے بڑھ کر صحت، تعلیم ، ماحولیات، امر بالمفروف اور نہی از منکر جیسے میدانوں تک پھیلنا چاہیے۔
انہوں نے معاشرے میں امر بالمفروف اور نہی از منکر نہ ہونے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا: "ان لوگوں کی حمایت کی جانی چاہئے جو حقیقی طور سے اس الہی ذمہ داری کے مطابق عمل کرتے ہیں نہ کہ کسی دوسرے مقصد کے لئے۔"
رہبر معظم انقلاب نے عدلیہ سے عوامی حقوق کے شعبے میں قانونی خلاء کو پُر کرنے کا مطالبہ کیا اور مزید کہا: ”یہ واضح کرنا ہوگا کہ عوامی حقوق کی پامالی کرنے والوں کا حکم کیا ہے تاکہ سلیقے کے مطابق فیصلے جاری کرنے کی روک تھام ہوسکے۔ "
آیت اللہ خامنہ ای نے عدلیہ کے اندر بدعنوانی کے خلاف جنگ پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے اسے اولین ترجیح اور ایک اہم ترین مسئلہ قرار دیا ، انہوں نے مزید کہا: "یقینا ، عدلیہ کے ججوں اور ملازمین کی اکثریت وفادار ، معزز ، پاکیزہ اور ذمہ دار ہے اور بعض اوقات عدلیہ میں بدعنوانی کے بارے میں زیادتی اور غیر ضروری تنازعہ بھی پیدا کیا جاتا ہے ، لیکن بدعنوان عناصر کی اس بہت کم تعداد کے ساتھ بھی سخت اور فیصلہ کن سلوک کیا جانا چاہئے۔"
انہوں نے عدلیہ میں کچھ بدعنوان عناصر موجود ہونے کے بارے میں عوامی شکیات پر فوری اور فعال ردعمل کا مطالبہ کیا اور کہا: "یقینا ، ممکن ہے کہ یہ اطلاعات درست نہ ہوں، لیکن انھیں سنجیدگی سے لیا جانا چاہئے اور ، کسی بھی حسن ظن سے پرہیزکرتے ہوئے ، فوری طور پر آشکار یا خفیہ معائنہ کیا جانا چاہیے اور ، اگر ثابت ہوجائے تو بدعنوان عناصر کے ساتھ قرار واقعی طور سے نمٹا جانا چاہیے۔
رہبر معظم انقلاب نے عوام کے درمیان موجودگی کو جناب رئیسی کا ایک مثبت نقطہ قرار دیا اور زور دیا: عدلیہ کے اگلے عہدیداروں کو یہ اچھا ، ضروری اور مبارک کام جاری رکھنا چاہئے۔
آیت اللہ خامنہ ای نے عوامی موجودگی کے تناظر میں معاشرے کے فعال گروہوں جیسے علمی، دینی، معاشی ، مزدور، پیداواری اور خواتین کے طبقات سے وابستہ کارکنوں کے ساتھ عہدیداروں خصوصا عدلیہ کے سربراہ کے رابطے کو اہم قرار دیا اور کہا: معاشرے کے فعال گروہوں کے سلسلے میں ان کے مطالبات کو سنا جائے اور ان کیلئے پالیسیوں کو صحیح طور پر بیان کریں کیونکہ بعض اوقات کچھ اعتراضات کی وجہ پالیسیوں اور حقائق سے آشنائی نہ ہونا ہوتی ہے۔
آیت اللہ خامنہ ای نے اپنی تقریر کے اس حصے میں باتوں کو سمیٹتے ہوئے اس امید کا اظہار کیا کہ عدلیہ اپنے نئے دور میں گذشتہ دو سالوں کے اسی راستے کو پوری قوت اور مزید سرگرمیوں کے ساتھ جاری رکھے گی ، جس سے ملک و قوم کے لئے بہتر نتائج حاصل ہوں گے۔
قائد انقلاب نے اپنی تقریر کے دوسرے حصے میں ، 19 جون کے انتخابات میں قوم کے عظیم کارنامے کی طرف اشارہ کیا، اور سائبر سپیس اور میڈیا میں قوم کے اس عظیم کام سے انکار کرنے کے لئے کچھ کوششوں کو فضول قرار دیتے ہوئے فرمایا: انتخابات واقعی اور حقیقی طور سے ایک عطیم کارنامہ تھا اور جو تجزیہ نگار ایرانی انتخابات پر اپنی توجہ مرکوز کئے ہوئے تھے انہیں احساس ہوا کہ کتنا اہم واقعہ پیش آیا ہے۔
انہوں نے ہزاروں پروپیگنڈہ اداروں سمیت امریکی ، برطانوی اور کچھ رجعت پسند اور سیاہ چہرہ مملک کے میڈیا کی سرگرمیوں اور عوام کو انتخابات میں حصہ لینے سے روکنے کے لئے بہت سے غدار ایرانی عناصر کے استعمال کو دنیا میں نایاب قرار دیا ، انہوں نے مزید کہا: "وہ کچھ مسائل پر جیسے روزی معاش یا کچھ اور مسائل کی مشکلات یا کچھ اور معاملات جو بعد میں پیش آئے جیسے بعض امیدواروں کی اہلیت ثانت ہونے یا نہ ہونے والی بحث پر امید لگائے بیٹھے تھے۔"
آیت اللہ خامنہ ای نے نشاندہی کی: البتہ ممکن ہے کہ میں گارڈین کونسل کے کچھ خیالات سے متفق نہ ہوں ، مثال کے طور پر ، ایک یا دو امور یا اس سے کم یا زیادہ ، لیکن میں اس کونسل کے ممبروں کو قانون کا پابند، متقی اور دینی امور کا پابند سمجھتا ہوں جو قانون اور مذہبی فرائض کے مطابق عمل سرانجام دیتے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا: "بیرونی عناصر کی امید یہ تھی کہ ان بہانوں کے نتیجے میں انتخابات میں شرکت 20 سے 25 فیصد تک پہنچ جائے کی، لیکن انکی یہ امید پوری نہیں ہوئی۔"
قائد انقلاب نے ماہریں کے تخمینے کے تحت کورونا کے مسئلے اور اس کے مجموعی شرکت پر 10٪ منفی اثر کے بارے میں توجہ دلاتے ہوئے مزید کہا: "ان سارے معاملات کے باوجود ، لوگوں نے صبح سویرے سے اپنی پرجوش صفوں اور حوصلہ افزا رویّے سے ایک بہت بڑا اور حقیقی کارنامہ سرانجام دیا اور بائیکاٹ کرنے والوں ، مخالفین اور مغرضین کے سینے پر زوردار مکّہ رسید کیا۔
انہوں نے 19 جون کو ہونے والے انتخابات میں جیتنے والوں اور ہارے ہوئے افراد کے بارے میں وضاحت کرتے ہوئے کہا: "انتخابات میں فتح پانے والے ایران کی عوام اور انتخابات میں جوش و خروش سے حصہ لینے والے تمام افراد ہیں ، لہذا جن امیدواروں کو حد کافی ووٹ نہیں ڈلے وہ بھی فاتحین میں شامل ہیں ، اور ہارنے والے وہ ہیں جنھوں نے اپنی پوری کوشش کی کہ لوگوں کو بیلٹ باکس سے دور رکھا جائے لیکن عوام نے اپنی موجودگی سے انہیں مسترد کردیا اور انتخابی نتائج کے سلسلے میں ان کی لالچ اور امیدوں کو پاش پاش کردیا۔
آیت اللہ خامنہ ای نے مسترد ووٹوں سے متعلق کچھ غلط تجزیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: "ان ووٹوں کا مطلب ان کی نظام سے علیحدگی بالکل نہیں ہے، بلکہ اس کے برعکس ہے ، کیونکہ کوئی ایسا شخص جو بیلٹ باکس تک آیا تھا اور اس نے امیدواروں کی فہرست میں اپنے قابل قبول فرد کو نہیں پایا لیکن اس نے کاغذ میں اس شخص کا نام لکھا یا خالی ووٹ ڈال دیا، لیکن حقیقت میں ، اس نے بیلٹ باکس اور نظام میں اپنی دلچسپی ظاہر کی۔
انہوں نے انتخابات کے دوران ہونے والے کچھ واقعات کو تجربہ افزا اور سبق آموز سمجھا اور کہا: "انتخاباتی بحثوں میں مختلف سلیقے موجود تھے۔ اسی کے ساتھ ہی ، تمام معزز امیدواروں نے ، دشمن کے پروپگنڈے کے باوجود اس بات پر اتفاق کیا کہ ملک کے معاشی مسائل حل ہوسکتے ہیں اور کوئی بند راہ نہیں ہے۔ البتہ ایک نے کہا میرا حل ٹھیک ہے اور دوسرے نے کہا میرا حل!
رہبر معظم انقلاب نے مزید کہا: "ان بحثوں میں ، کچھ امیدواروں نے انقلاب کے نوقف کا دفاع کیا اور ضروری شائستگی اور مذہبی پابندی کے ساتھ بات کی ، لیکن ان میں سے بعض نے بد اخلاقی سے کام لیا جو افسوسناک ہے۔"
امریکی انتخابی مہم اور اس میں امیدواروں کی ایک دوسرے کے خلاف بدسلوکیوں کی یاد آوری کراتے ہوئے انہوں نے مزید کہا: "امریکی اچھے رول ماڈل نہیں ہیں ، لہذا سیاسی معاملات میں اخلاقی اور مہذب انداز میں بغیر کسی توہین اور بہتان کے بات کرنی چاہئے نہ کہ امریکیوں اور ٹرمپ اور بایڈن کے توہین آمیز رویوں کی تقلید کی جائے۔ "
آیت اللہ خامنہ ای نے ایران کے انتخابات کے بارے میں ایک امریکی عہدیدار کے بیان کا حوالہ دیتے ہوئے کہا: "امریکی انتخابات پوری دنیا کی نظر میں بدنام ہوئے تھے ، اب ، کچھ ہی مہینوں کے بعد ، وہی بدنام لوگ ایرانی انتخابات پر تنقید اور اعتراض کرتے ہیں۔ ، جبکہ انہیں انتخابات میں اس بدنامی کے بود ایک لفظ بھی نہیں کہنا چاہئے۔ "
قائد انقلاب نے عہدیداروں اور دوسرے امیدواروں کے صدر منتخب ہونے والے امیدوار کے ساتھ اچھے سلوک کی تعریف کی اور کہا: "انتخابات اور بھرپور ووٹوں کے ساتھ مقبول عوامی امیدوار کی فتح کے بعد اعلی عہدیداروں اور دوسرے امیدواروں نے جو طرزِ عمل اپنایا وہ بہت اچھا تھا اور صدر منتخب ہونے والے امیداوار سے ملاقات کے ذریعے ، تبادلہ خیالات اور مبارکبادی پیغامات دیئے ، اور اسکے ذریعے ملک میں پر سکون اور اطمینان بخش ماحول کو ظاہر کیا۔
اس ٹھوس طرز عمل کا موازنہ امریکہ میں انتخابات کے بعد کے تنازعات سے کرتے ہوئے ، انہوں نے ملک میں اس نعمت کے ہونے پر خدا کا شکر ادا کیا اور ان رجحانات میں اضافے کا مطالبہ کیا۔
آخر میں ، آیت اللہ خامنہ ای نے اس امید کا اظہار کیا کہ انتخابات کا نتیجہ عوام اور منتخب صدر کیلئے با برکت ثابت ہوگا ، اور عہدیدار اپنی ذمہ داریاں کو بخوبی نخوبی انجام دے سکیں گے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی کی تقریر سے قبل عدلیہ کے سربراہ ہوجت الاسلام والمسلمین رئیسی نے چار شعبوں "عدلیہ میں تبدیلی کی دستاویز پر عملدرآمد"، "بدعنوانی کا مقابلہ"، "حقوق عامہ کا احیاء"، اور "عدلیہ کے عوامی طرزعمل" پر اپنی اور اپنے ساتھیوں کی کارکردگی سے متعلق ایک سال کی رپورٹ پیش کی۔
عدلیہ کے سربراہ نے جوڈیشل ٹرانسفارمیشن دستاویز پر عمل درآمد کے آغاز کو رہبر انقلاب کے پورے کئے گئے مطالبات مین سے ایک قرار دیا جس نے ججوں کے کام کو آسان بنایا ، انصاف کی فراہمی کے عمل کو تیز کیا اور مقدمات پر کارروائی کے لئے درکار اوسط وقت کو ۲۰ دن تک کم کردیا۔
حجت الاسلام رئیسی نے بدعنوانی کے خلاف جنگ کو ایک قومی مطالبہ کہا اور عدلیہ کے اندر ہونے والی بد عنوانیوں میں کمی، خزانے میں 90،000 ارب سے زائد تومان کی واپسی اور بڑے معاشی مقدمات کے ملزمان کے آخری فیصلوں کی طرف نشاندہی کی۔
جناب رئیسی نے گذشتہ سال جائیداد کے حقوق کے نظام سازی اور ہزاروں ہیکٹر رقبہ پر محیط قومی اراضی پر قبضے کے خاتمے کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ماحولیاتی امور کی طرف توجہ اور کیڈسٹریل پلان پر عمل درآمد حقوق عامہ کی بحالی کے لئے اس ادارہ کے دیگر اقدامات ہیں۔
عدلیہ کے سربراہ نے کہا کہ عوامی تعلقات کو مضبوط بنانے کی وجہ سے اس ادارے کی عوامی حمایت میں پہلے کی نسبت زیادہ اضافہ ہوا ہے۔ انہوں نے کثیر الشاکی، مالیاتی اور کریڈٹ اداروں کے مقدمات کو خصوصی طور پر نمٹانے کے اقدامات نیز صنعتکاروں کی حمایت کرنے اور بینکوں کے اس حوالے سے جلد بازی میں کئے گئے فیصلوں کی روک تھام کیلئے کئے گئے اقدامات سے باخبر کیا۔