رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے ایک حکم نامے کے تحت حجت الاسلام و المسلمین حاج سید ابراہیم رئیسی کو ایران کے چیف جسٹس اور عدلیہ کے سربراہ کے عہدے پر منصوب کردیا۔
رہبر انقلاب اسلامی نے اس حکم کے تحت، عدلیہ کے امور میں ایسے تغییر و تبدل کی ضرورت پر زور دیا جو انقلاب کے دوسرے قدم کے مطابق ہو۔ آپ نے فقاہت، علم، تجربے، پاکیزگی، امانتداری اور افادیت کو حجت الاسلام و المسلمین رئیسی کی خصوصیات میں قرار دیا اور عدلیہ کے دوسرے عہدوں کے تجربات اور اس ادارے کے تمام تر زاویوں پر ان کے عبور کو لیکر انہیں اس عہدے کے لئے مناسب قرار دیا۔ رہبر انقلاب اسلامی نے اس حکم نامے میں آٹھ اہم تجویزات بھی پیش کیں۔
رہبر انقلاب اسلامی کی جانب سے جاری شدہ حکم نامے کا متن:
بسم اللہ الرحمن الرحیم
جناب مستطاب حجۃ الاسلام و المسلمین، حاج سید ابراہیم رئیسی دامت برکاتہ
انقلاب کی پانچویں دہائی کے آغاز اور اسلامی فقہ و حقوق پر استوار عدالتی نظام کے چالیس سال مکمل ہونے کے موقع پر، ضرورت اس بات کی ہے کہ اب تک حاصل شدہ تمام تر تجربات، نتایج اور رہنمائیوں کو بروئے کار لایا جائے اور ضرورتوں، پیشرفت اور مشکلات کی نوعیت کے مطابق، عدلیہ کو تغیّر و تبدل سے ہمکنار کیا جائے تا کہ عدالتی نظام، تازہ توانائی، دگنی رغبت اور حکیمانہ نظم و تدبیر کے تحت ایک ایسے دور کا پوری طاقت اور سنجیدگی کے ساتھ آغاز کرے جو انقلاب کے دوسرے قدم کو زیب دیتا ہو۔
عدلیہ کے مختلف سطوح پر آپ کے طویل تجربات اور اس کے مختلف زاویوں پر آپ کے عبور اور اس اہم میدان میں فقاہت کے ساتھ ساتھ قوانین کے شعبے میں آپ کی اکیڈمک تعلیمات اور ضروری تجربے، پاکیزگی، امانتداری اور افادیت کو مد نظر رکھتے ہوئے اس انتہائی اہم مقصود کے حصول کے لئے، میں نے آپ کو منتخب کیا ہے۔
عدالتی نظام میں تغییر و تبدل کے سلسلے میں آپ کی جانب سے پیش کئے جانے والے مسودے کا میں نے بغور جائزہ لیا۔ مشوروں اور ماہرین کی رائے کے مطابق، میں اسے مفید اور کارآمد سمجھتا ہوں۔ اس کے باوجود تاکید کے ساتھ آپ کو چند نکتوں کا مشورہ دیتا ہوں۔
پہلی تجویز یہ ہے کہ اس سند کے تمام حصوں اور اس کے ذیلی دستاویزات اور شقوں کے لئے، ٹائم فریم مقرر کیا جائے اور آپ اور آپ کے ساتھی اس منصوبے پراس مدت میں عملدرامد کے پابند رہیں ۔ مقرر شدہ منصوبوں پر عمل درآمد میں نہ جلدبازی سے کام لیا جائے نہ ہی سستی برتی جائے۔
دوسری تجویز یہ ہے کہ تغیّر و تبدل کے تمام ابواب میں، عوام، انقلاب اور بدعنوانیوں سے مقابلے کا خیال رکھا جائے۔
تیسری تجویز یہ ہے کہ عدلیہ میں تغیّر و تبدل اور پیشرفت کے لئے باایمان افرادی قوت کو مکمل طور پر سرفہرست قرار دیا جائے۔ جج صاحبان کی ایمانداری اور ہر قسم کی بدعنوانی سے ان کا پاک رہنا، آپ کی کامیابی کی پہلی اور سب سے اہم شرط ہے۔ اس ادارے سے بدعنوانی کے خاتمے میں جس کے نتائج آپ، ججوں اور عدالتوں کی اکثریت کے لئے باعث افتخار اور سرفرازی ہیں، کوئی بھی شبہہ اور وقفہ پیدا نہ ہو
چوتھی تجویز یہ ہے کہ عدل و انصاف پھیلانا، عوام کے حقوق کا احیاء، قانون کے دائرے میں آزادی اور قانون پر عمل درآمد پر گہری نظر رکھناجو آئین کے تحت، عدلیہ کے فرائض میں شامل ہے، انہیں، سرفہرست رکھیں یہ چیز حادثوں اور اختلافات میں عوام کے اعتماد اور ان کے بھروسے کا باعث بنے گی۔
پانچویں تجویز یہ ہے کہ عدالتی کارروائی میں کسی کو استثنا حاصل نہیں ہونی چاہئے۔
چھٹی تجویز یہ ہے کہ عدلیہ کے مختلف عہدوں پر صالح، انقلابی اورتعلیم یافتہ نوجوانوں سے استفادہ کیا جائے۔
ساتویں تجویز یہ ہے کہ ججوں اور عدالتوں کو عزت و احترام دیا جائے۔ جج میں عزت اور شرافت کا احساس، دشمنوں کے اثر و رسوخ اور بہکنے کے مقابلے میں سیسہ پلائی ہوئی دیوار ثابت ہوتا ہے۔
آٹھویں تجویز یہ ہے کہ حکومت اور پارلیمنٹ کے ساتھ تعاون کو مدنظر رکھیں جو میری مسلسل تجویز رہتی ہے۔ آپ کی ہمراہی اور آپ کے ساتھ تعاون کرنا ان کی ذمہ داریوں میں بھی شامل ہے۔
اور آخر میں آیت اللہ آملی کی گرانقدر کاوشوں کا شکریہ ادا کرتا ہوں اور ان کی قدردانی کرتا ہوں اور آپ اور آپ کے معاونین کی توفیقات میں اضافے کے لئے بارگاہ الہی میں دعا کرتا ہوں اور بقیۃ اللہ ارواحنا فداہ کی توجہات اور دعاؤں کا خواہاں ہوں۔
والسلام علیکم و رحمۃ اللہ
سید علی خامنہ ای
سولہ اسفند 1397 مطابق 7 مارچ سن 2019