رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے شام کی کامیابی اور امریکہ اور علاقائی سامراجیوں کی شکست کی وجہ، اس ملک کے صدر اور قوم کی مزاحمت اور ان کا عزم مستحکم تھا- رہبرمعظم انقلاب اسلامی نے اس جانب اشارہ کرتے ہوئے کہ اسلامی جمہوریہ ایران شام کے بحران کے شروع ہونے کے وقت سے ہی دل و جان کے ساتھ شام کی حکومت اور عوام کے شانہ بشانہ کھڑا ہے فرمایا کہ شام نے اپنے عوام کی مزاحمت و استقامت کے ساتھ امریکہ، یورپ اور ان کے اتحادیوں کو شکست دی۔
رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا ہے کہ شام کی حکومت اور عوام نے امریکہ ، یورپ اور علاقے میں ان کے اتحادیوں کے ایک بڑے محاذ کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور کامیابی کے ساتھ اس مرحلے کو سر کیا- لیکن اس کامیابی کی بقا اور دوام اس میں ہے کہ علاقے کو درپیش حالات کے پیش نظر، دشمن کی سازشوں اور ان کے مذموم عزائم سے غفلت نہ برتی جائے اور مکمل ہوشیاری کے ساتھ ، ان کے اثر و رسوخ کے تمام راستوں کو مسدود کیا جائے-
رہبرانقلاب اسلامی نے فرمایا کہ شام میں استقامتی محاذ کی فتح کی وجہ سے امریکی حکام شدید جھنجھلاہٹ کا شکار ہیں اور وہ نت نئی سازشوں اور منصوبہ بندیوں میں مصروف ہیں ۔ آپ نے اس سلسلے میں کچھ مثالیں پیش کرتے ہوئے فرمایا کہ امریکی حکام شام میں جس حائل علاقے کے قیام کی بات کررہے ہیں وہ انہی خطرناک سازشوں میں سے ایک ہے اس لئے ان سازشوں کو پوری قوت کے ساتھ مسترد کردینے اور ان کے مقابلے میں ڈٹ جانے کی ضرورت ہے ۔آپ نے فرمایا کہ امریکی حکام عراق اور شام میں باقی رہنے کا منصوبہ بنائے ہوئے ہیں اور یہ ان کی ان ہی سازشوں کا ایک حصہ ہے -
رہبرانقلاب اسلامی نے فرمایا کہ ایران اور شام کے درمیان گہرے اسٹریٹیجک تعلقات قائم ہیں اور استقامتی محاذ کی شناخت بھی اسی اسٹریٹیجک تعلقات سے وابستہ ہے، بنابریں دشمن کبھی بھی اپنے منصوبوں کو عملی جامہ نہیں پہنا سکے گا ۔ حضرت آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے امریکہ کی جانب سے شام اور عراق کی سرحدوں میں مسلسل موجودگی کی کوششوں کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ اسلامی جمہوریہ ایران اور شام کے درمیان اسٹریٹجک تعلقات قائم ہیں اسی لئے دشمن ہرگز اپنی سازشوں کو عملی جامہ نہیں پہنا سکے گا۔ رہبرمعظم انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ شام کی کامیابی امریکہ کے غصہ کا باعث ہے لہذا وہ نئی سازش رچنے کی کوشش کر رہا ہے اور شام میں بفر زون قائم کرنا ان سازشوں میں سے ایک ہے اور اسے مسترد کرنا اور اس کے خلاف ڈٹ جانا چاہئیے۔
آپ نے ایران اور شام کو ایک دوسرے کے لئے اسٹریٹیجک گہرائیوں کا حامل قرار دیا اور فرمایا کہ استقامتی محاذ کی شناخت اور طاقت ، اسی مستحکم اور اسٹریٹیجک رابطے سے وابستہ ہے، جس کے نتیجے میں دشمن طاقتیں اپنے مذموم اہداف حاصل نہیں کرسکیں گی۔
آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے فرمایا کہ شام کے معاملے میں دشمن کی ایک اور غلطی یہ تھی کہ ان لوگوں نے شام کو بعض دیگر عرب ممالک کی طرح سمجھ رکھا تھا۔ حالانکہ ان ممالک کے عوام کی تحریک در اصل امریکہ اور اس کی آلہ کار حکومتوں کے خلاف جد و جہد تھی۔
آپ نے ایران اور شام کے مذہبی تعلقات اور علما کی آمد و رفت میں اضافے اور ان تعلقات کی تقویت اور اسی طرح شام کی حکومت اور عوام کی جانب سے استقامت اور طاقت کے مظاہرے پر زور دیا اور صدر بشار اسد سے فرمایا کہ آپ نے جس استقامت کا مظاہرہ کیا ہے اس کے نتیجے میں آپ عرب دنیا میں بھی سربرآوردہ اور مقبول ہوچکے ہیں اور علاقے میں استقامتی محاذ کی طاقت اور عزت میں اضافہ آپ کی خاطر ممکن ہوا۔
آپ نے زور دیکر کہا کہ اسلامی جمہوریہ ایران گذشتہ ادوار کی مانند ملت شام کے شانہ بشانہ کھڑا ہے کیونکہ اس کام کو مزاحمتی محاذ کی تقویت کا ہمردیف سمجھتا ہے اور دل کی گہرائیوں سے استقامتی محاذ کی حمایت پر افتخار کرتا ہے۔
آپ نے اس موقع پر شام کے عوام، صدر بشار اسد اور ان کے گھروالوں کے لئے بھی توفیقات میں اضافے اور سلامتی کی دعا فرمائی۔
ملاقات کے دوران صدر بشار اسد نے بھی ایران کی جانب سے شام کی بے لوث حمایتوں کی قدردانی کی اور کہا کہ شام کی جنگ بھی ایران پر مسلط کردہ آٹھ سالہ جنگ کی مانند تھی اور اس حادثے میں اسلامی جمہوریہ ایران مکمل ایثار کے ساتھ ہمارے ساتھ کھڑا رہا لہذا اس کامیابی پر آپ کو اور تمام ایرانی عوام کو مبارکباد پیش کرتا ہوں اور ان کی قدردانی کرتا ہوں۔
شام کے صدر نے ان تجزیوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہ جس میں شام کے کام کو تمام شدہ قرار دیا جا رہا تھا کہا کہ شام اور ایران کے عوام ایسی باایمان قومیں ہیں جو اپنا تشخص رکھتی ہیں اور آج جو ہم نے زحمتوں اور مشقتوں کے ساتھ حاصل کیا ہے، یقینا مزاحتمی محاذ کے شانہ بشانہ استقامت کا نتیجہ ہے۔
بشار اسد نے ان ممالک کو لاحق سنگین نقصانات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہ جنہوں نے امریکہ کے مقابلے میں سر تسلیم خم کرنے کا راستہ اپنایا تھا کہا کہ وہ ممالک امریکہ سے خوفزدہ رہتے تھے اور ان کا خیال تھا کہ امریکہ ہی دنیا کے مستقبل کا تعین کرسکتا ہے لیکن مستحکم ملتوں کی استقامت نے ثابت کردیا کہ یہ تصور غلط اور ختم ہونے والا ہے۔
شام کے صدر نے امریکہ کی جانب سے شام کی اقوام اور مختلف مذاہب کے ماننے والوں کے درمیان اختلافات کو ہوا دینے کی کوششوں کو ناکام قرار دیا اور بتایا کہ آج، کردوں اور مختلف قبیلوں کے تعلقات شامی حکومت کے ساتھ خوشگوار ہیں یہاں تک کہ بعض گروہ جو اس سے قبل حکومت کے خلاف تھے، امریکہ اور سعودی حکام کی مرضی کے برخلاف، شام کی حکومت کے ساتھ ہمراہ ہو چکے ہیں۔
بشار اسد نے ایران اور شام کے علما کے گہرے تعلقات کو تکفیریت کے مقابلے کا ایک اہم موقع قرار دیتے ہوئے کہا کہ ایران اور شام کو چاہئے کہ تجارت اور معیشت سمیت مختلف میدانوں میں تعلقات میں فروغ لائیں کیونکہ یہ موضوع دشمنوں کی سازشوں کو ناکام بنانے کا ایک اہم طریقہ کار ہے۔