رہبر انقلاب اسلامی نے پیر کی صبح کو مختلف صوبوں سے تعلق رکھنے والے ایرانی عوام سے ملاقات کی۔ آپ نے اس موقع پر ایران کے اقتصادی اور معاشی مسائل، امریکہ کی ہٹ دھرمیوں اور ان کی جانب سے مذاکرات کی پیشکش نیز ایرانی عوام کے درمیان اتحاد کی ضرورت پر زور دیا۔ آپ نے زور دیکر کہا کہ ملک کو درپیش معاشی مسائل کا حل واضح طور پر موجود ہے اور اس سلسلے میں ملک کو کسی بھی قسم کی کسی رکاوٹ کا سامنا نہیں ہے۔ رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ پابندیوں نے ایران کی معیشت پر بہت کم اثرات مرتب کئے ہیں اور باقی مسائل کو مناسب انتظامی اقدامات اور پالیسیوں کے ذریعے حل کیا جاسکتا ہے ۔ ان مسائل کا پابندیوں سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
آّپ نے فرمایا کہ مختلف وجوہات کی بنا پر ملک کے ساتھ دشمنی برتی جا رہی ہے اور خبیث اور پست دشمن، ہمیشہ ایک زخم کی تلاش میں رہتا ہے تا کہ اس کا غلط فائدہ اٹھاتے ہوئے مکھی کی مانند اس پر بیٹھ جائے اور اسلامی نظام کو نااہل اور اس کے تمام اقدامات کو ناقابل حل دکھا کر پیش کرے اور یوں عوام میں مایوسی پھیلادے۔
آپ نے ملک کے با ایمان، ذہین اور انقلابی نوجوان ماہرین کی جانب سے موصول خطوط اور مشوروں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ بعض افراد دشمنوں کی تمام خباثت آمیز سازشوں کے باوجود شیطان اکبر (امریکہ) اور دوسرے شیاطین کے ساتھ مذاکرات کو ملک کے مسائل کا حل قرار دیتے ہیں جبکہ ماہرین کے موصولہ خطوط اور ان کے عزائم اس بات کی عکاسی کرتے ہیں کہ ملک میں اچھی، باصلاحیت اور نوجوان ماہرین کی کمی نہیں اور ملک کی تمام مشکلات کا حل ان لوگوں کے ذریعے بھی ممکن ہے۔
ایرانی عوام اور اسلامی نظام، تمام مشکل اور سخت مراحل سے کامیابی کے ساتھ عبور کرلیں گے
آّپ نے فرمایا کہ بعض عناصر کی جانب سے اس شبہے کا اظہار کیا جاتا ہے کہ بدعنوانی اسلامی جمہوریہ ایران کی تمام بنیادوں میں پھیل چکی ہے حالانکہ یہ بات اسلامی نظام اور ملک کے تمام اداروں میں موجود باایمان منتظمین پر ظلم کے مترادف ہے اور اس پلیٹ فارم سے ایسے موضوع پر کھل کر بات کرنا اس نکتے کی نشاندہی کرتا ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران ہر قسم کی بدعنوانی کے ساتھ مقابلے کے لئے پر عزم ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے فرمایا کہ جس طرح سے ایرانی عوام اور اسلامی نظام، تمام مشکل اور سخت مراحل سے سربلند ہوکر نکلے ہیں اسی طرح اس مرحلے سے بھی جو کہیں آسان تر ہے، کامیابی کے ساتھ عبور کرلیں گے۔
عوام کے مختلف طبقات سے تعلق رکھنے والے ہزاروں افراد نے پیر کو رہبرانقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای سے ملاقات کی تھی۔۔
رہبرانقلاب اسلامی نے اس ملاقات میں اپنے خطاب کے دوران امریکا کی دھمکیوں، غیر سفارتی زبان اور بے ادبانہ رویّے کی مذمت کرتے ہوئے فرمایا کہ امریکا نے گذشتہ چھے مہینے کے دوران اپنے بیانات میں بہت زیادہ بے شرمی اور بے ادبی کا مظاہرہ کیا ہے۔
تارکین وطن کے بچوں کو پنجروں میں رکھا گیا، تاریخ میں ایسی مثال نہیں ملتی
آپ نے فرمایا کہ پہلے بھی امریکا کے لب ولہجے میں سفارتی آداب کا کم ہی لحاظ رکھا جاتا تھا لیکن پچھلے چند مہینے سے وہ سبھی ملکوں کے سلسلے میں بے ادبی اور بے شرمی کا مظاہرہ کر رہا ہے جس کی ایک مثال اس امریکی موقف کی ہے جسے اس ملک نے گذشتہ ہفتے یمن کے ایک اسکول کے بچوں کی بس اور اسپتال پر سعودی عرب کے وحشیانہ حملے کے بعد اپنایا۔ ہے۔
آپ نے فرمایا کہ یمن کے اسکول کے بچوں کی بس اور اسپتال پر وحشیانہ حملے کئے گئے جس میں بے گناہ بچے مارے گئے لیکن امریکا نے ان واقعات کی مذمت کرنے کے بجائے بے شرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا کہ سعودی عرب کے ساتھ ہمارے اسٹریٹیجک تعلقات ہیں۔
آپ نے استفسار کیا کہ کیا یہ بے شرمی نہیں ہے ؟
رہبرانقلاب اسلامی نے فرمایا کہ خود امریکی صدر نے بھی جو دو تین ہزار تارکین وطن بچوں کو ان کی ماؤں سے الگ کرکے قفس نما حراستی کیمپ میں رکھا تھا، کیا تاریخ میں اس کی اس سے پہلے کہیں مثال ملتی ہے؟
رہبرانقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے فرمایا کہ امریکی حکام ہم لوگوں کے بارے میں بھی بے شرمانہ باتیں کر رہے ہیں پابندیوں کے ساتھ ساتھ وہ جنگ کی بھی باتیں کر رہے ہیں اور مذاکرات کی بھی پیشکش کر رہے ہیں۔
کیا امریکا جیسی دھوکے باز حکومت سے مذاکرات کئے جا سکتے ہیں؟
آپ نے فرمایا کہ امریکا کی جانب سے مذاکرات کی پیشکش کوئی نئی بات نہیں ہے انقلاب کی کامیابی کے آغاز سے ہی وہ مذاکرات کی باتیں کرتے آئے ہیں لیکن ہم امریکا جیسی دھوکے بازحکومت سے جو کبھی بھی اپنے وعدوں پر عمل نہیں کرتی مذاکرات نہیں کریں گے۔ آپ نے امریکا کی دھوکہ بازی اور وعدہ خلافیوں کا ذکرکرتے ہوئے فرمایا کہ اس کی تازہ مثال یہ ایٹمی معاہدہ ہے جس کی امریکا نے پابندی نہیں کی۔
رہبرانقلاب اسلامی نے فرمایا کہ میں اپنے ملک کے عوام سے یہ کہنا چاہتاہوں کہ امریکا جنگ کی دھمکی دے کربزدلوں کو ڈرانا چاہتاہے لیکن نہ یہ جنگ ہوگی اور نہ ہم امریکا سے مذاکرات کریں گے۔ آپ نے فرمایا کہ امریکا کے ساتھ مذاکرات کو امام خمینی رحمت اللہ علیہ نے بھی منع کیا تھا اور میں بھی امریکا سے مذاکرات کو منع کرتا ہوں۔
رہبرانقلاب اسلامی نے فرمایا کہ جنگ بھی نہیں ہوگی کیونکہ ہم ہمیشہ کی طرح کبھی بھی جنگ میں پہل نہیں کریں گے۔ امریکی بھی حملہ نہیں کریں گے کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ جنگ سو فیصد ان کے نقصان میں ہوگی اس لئے کہ اسلامی جمہوری نظام اور ایرانی عوام نے ثابت کردکھایا ہے کہ ہر جارح کو اس سے کہیں زیادہ سخت جواب دیتے ہیں۔
آپ نے انیس سو اسی کے دوران ایران کے مرکزی حصے میں واقع طبس کے ریگستانوں میں امریکہ کی ذلت آمیز شکست جس سے انہیں رسوائی کے علاوہ کچھ بھی حاصل نہ ہوا فرمایا کہ وہ بہت سی چیزیں سمجھنے سے قاصر ہیں لیکن ایران کے خلاف جارحیت کے نتیجے سے خوب واقف ہوں گے۔
آپ نے اس موقع پر اسلامی جمہوریہ اور ملت ایران کے ساتھ مقابلے کے لئے امریکہ کے سازشی منصوبوں کی تشریح کی اور اس تناظر میں مذاکرات کی پیش کش کو ایک سستے اور اوچھے سیاسی کھیل سے تعبیر کیا کہ جس میں ایک شخص بلا شرط مذاکرات کی پیش کش کرتا ہے تو وہیں کا دوسرا شخص شرائط لگانے لگتا ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ مذاکرات کے لئے امریکیوں کا ایک خاص فارمولا ہوتا کہ پہلے اسے سمجھنے کی ضرورت ہے اور پھر اس سوال کا جواب مل جاتا ہے کہ کیا کوئی بھی سمجھدار انسان اس فارمولے کے تحت مذاکرات کر سکتا ہے؟
آپ نے فرمایا کہ سیاست کے میدان میں مذاکرات، لین دین کو کہا جاتا ہے حالانکہ امریکی اپنے فوجی، تشہیراتی اور مالی ذرائع کی بنیاد پر مذاکرات کے دوران اس کوشش میں مصروف ہوجاتے ہیں کہ ان کے مدنظر اہداف کے مقابلے میں حریف کسی بھی قسم کی مزاحمت کرنے میں ناکام ہوجائے۔
رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے مزید فرمایا کہ امریکی حکام سب سے پہلے اپنے لئے اہداف واضح کرلیتے ہیں لیکن تمام اہداف کا اعلان نہیں کرتے۔ مذاکرات کے دوران مول بھاؤ کے ذریعے تمام اہداف حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں تاہم اپنے اصلی مقصد سے ایک قدم بھی پسپائی اختیار نہیں کرتے۔
آپ نے فرمایا کہ امریکیوں کا یہ طریقہ کار رہتا ہے کہ مذاکرات کے دوران خود تو صرف وعدے کرتے ہیں لیکن حریف سے عملی اقدامات کا مطالبہ کرتے ہیں اور ان سے ٹھوس وعدوں کو بھی قبول نہیں کرتے۔ آپ نے فرمایا کہ امریکوں نے ایٹمی مذاکرات کے دوران بھی یہی طریقہ کار اپنایا اور شمالی کوریا کے ساتھ مذاکرات میں بھی اسی طریقے سے کئے گئے۔ رہبر انقلاب اسلامی نے مزید فرمایا کہ اگر مذاکرات کے دوران کوئی جھکنے پر تیار نہ ہو تو امریکی اپنے ذرائع ابلاغ کی مدد سے اس ملک کے خلاف بڑے پیمانے پر تہشیراتی مہم شروع کردیتے ہیں اس حد تک کہ وہ حریف دباؤ میں آنے پر مجبور ہو جائے ۔
آّپ نے فرمایا کہ مذاکرات کے بعد جب ان کے مدنظر تمام اہداف حاصل ہوجاتے ہیں تو وہ بآسانی اپنے تمام وعدوں سے مکر جاتے ہیں۔
اس موقع پر رہبر انقلاب اسلامی نے یہ بنیادی سوال پیش کیا کہ کیا ایسی حکومت کے ساتھ مذاکرات کی میز کا رخ کیا جاسکتا ہے؟
آپ نے اس بات کا ذکر کیا کہ امریکیوں کے اس فامولے کے ساتھ دنیا کی جو بھی حکومت ان سے مذاکرات کرے گی، اسے مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا سوائے ان لوگوں کے جن کے مفادات واشنگٹن کے ساتھ یکساں ہوں۔ آپ نے فرمایا کہ البتہ امریکہ کی موجودہ حکومت یورپیوں کے خلاف بھی زور زبردستی سے کام لے رہی ہے۔ لہذا اگر بفرض محال ہم کبھی امریکیوں سے مذاکرات پر تیار بھی ہوئے تو بہرحال موجودہ امریکی حکومت کے ساتھ ایسا ہونا ناممکن ہے۔
آپ نے تاکید کی کہ نہ صرف امریکہ کی ظالم اور لالچی حکومت سے مذاکرات، ان کی دشمنی کو ختم یا کم نہیں کرے گی بلکہ امریکی، مذاکرات کو حریف پر مزید دباؤ ڈالنے اور اپنے دشمنانہ رویے اور اہداف کو مسلط کرنے کے لئے استعمال کریں گے۔
امریکہ معاشی جنگ میں بھی شکست کا منہ دیکھنے پر مجبور ہوگا
رہبر انقلاب نے فرمایا کہ فوجی اور سیاسی میدانوں اور سلامتی اور ثقافت کو نشانہ بنانے میں ناکام ہونے کے بعد اب شیطان اکبر اپنا ہدف معاشی جنگ پر مرکوز کر چکا ہے۔ رہبر معظم نے مزید فرمایا کہ انقلاب کے بابرکت وجود کے نتیجے میں باایمان نوجوانوں کا میدان میں قدم رکھنا اور مخالفین کا سن دو ہزار نو میں ہنگامہ آرائیاں کرنا اور پھر اس ہدف میں شکست کھائا امریکیوں کی مایوسی اور ہماری کامیابی کی کھلی علامت ہے۔۔ یاد رہے کہ ان ہنگاموں کے ذریعے ان کا ہدف ملک کی سیاسی اقدار اور سلامتی کو نشانہ بنانا تھا جو مکمل طور پر ناکام ہوگیا۔
آپ نے زور دیکر کہا کہ اس بار بھی خدا کی مدد اور عوام اور عہدے داروں کی ہوشیاری سے، امریکہ معاشی جنگ میں بھی شکست کا منہ دیکھنے پر مجبور ہوگا۔
قائد انقلاب اسلامی نے ایرانی عوام کو مخاطب کرنے کے دشمنوں کے حربے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ ایک ذہنی معذور امریکی، ایرانی عوام سے یہ کہتا ہے کہ تمہاری حکومت، تمہاری دولت شام پر لگا رہی ہے حالانکہ خود یہی شخص اعتراف کرچکا ہے کہ امریکہ اس علاقے میں سات ہزار ارب ڈالر خرچ کرنے کے باوجود کچھ بھی حاصل کرنے میں ناکام رہا ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ ہم نے امریکہ اور سعودیوں کی جانب سے لاحق خطروں کے مقابلے میں اپنے دوست ممالک یعنی شام اور عراق کی مدد کی ۔ امداد کی اس نوعیت کو دو ممالک کے مابین دوستانہ لین دین قرار دیا جاسکتا ہے۔
آپ نے فرمایا کہ دشمن یہ چاہتا ہے کہ ملت ایران اسلامی نظام کی جانب سے بدگمانی کا شکار ہوجائے اور اسی لئے معاشی جنگ کے ذریعے عوام کے درمیان ناراضگی پھیلا کر ہنگامہ آرائی اور بدامنی کی فضا پیدا کرنا چاہتا ہے۔
آپ نے امریکہ، صیہونیوں اور سعودی حکومت کے بارے میں موصولہ خفیہ خبروں اور معلومات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ ان لوگوں نے گذشتہ جنوری اور فروری کے مہینے میں ہونے والی ہنگامہ آرائیوں کو برپا کرنے کے لئے کئی سال تک منصوبہ بندی کی تھی تاہم ایرانی عوام قابل تحسین ہوشیاری کا مظاہرہ کرتے ہوئے میدان میں آگئے اور اتنے برسوں کی دشمنانہ سازشوں کی بساط لپیٹ دی۔
رہبر انقلاب اسلامی نے بتایا کہ امریکیوں نے ان واقعات کے بعد ، سن دو ہزار اٹھارہ کی گرمیوں کے موسم سے اپنی امیدیں وابستہ کرلیں تھیں۔ یہاں تک کہ بعض امریکی حکام نے اب کہا تھا کہ چھے مہینے بعد ایران میں اہم واقعات سامنے آئیں گے حالانکہ ان کی وسیع مالی اور سیاسی سرمایہ کاری کے باوجود، ان کی تمام سازشیں ناکام ہوگئيں۔
آّپ نے تاکید کے ساتھ فرمایا کہ معاشی دباؤ کے باوجود ایرانی عوام نے ذہانت اور بصیرت کا مظاہرہ کیا ہے اور ثابت کردیا ہے کہ کبھی بھی امریکہ کے جاسوسی ادارے سی آئی اے اور روسیاہ حکومتوں کے منصوبوں سے متاثر نہیں ہوں گے۔
قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے فرمایا کہ جس طرح دشمن آج تک ضعف، ناتوانی اور شکست میں مبتلا رہا ہے اسی طرح مستقبل میں بھی ناکام رہے گا لیکن اس کی شرط یہ ہے کہ ہم ہمیشہ ہوشیاری سے کام لیں، مایوس نہ ہوں اور اپنی ذمہ داریاں پوری کریں۔
تقریر کے آخری حصے میں آپ نے ایران کے عوام اور اسلامی نظام پر خدا کے سائے پر مبنی بانی انقلاب اسلامی امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کے بیانات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ آج بھی اللہ تعالی کے سائے اور اس کی طاقت کو محسوس کیا جا سکتا ہے، وہ طاقت جس کی جھلکیاں ملت ایران کے ایمان میں متجلی ہیں۔
اس موقع پر رہبر انقلاب نے ماہ ذی الحجہ کو دعا، توسل اور بارگاہ الہی میں عبادت کا مہینہ قرار دیا اور بتایا کہ دل میں ایمان اور خد پر توکل کے نتیجے میں امید، خوداعتمادی اور عدم شکست کا جذبہ پیدا ہوتا ہے اور یہ وہی جذبہ ہے کہ جس کی بنیاد پر ایرانی عوام دنیا کی تمام مغرور طاقتوں کے سامنے ڈٹے ہوئے ہیں اور ضرورت اس بات کی ہے کہ اس صلاحیت میں روز بروز اضافہ کیا جائے۔