رہبر انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب میں دو اہم مسئلے پر توجہ دلاتے ہوئے تاکید فرمائی ہے کہ یہ دونوں مسئلے ایک انقلابی معاشرے کو تشخص عطا کرنے اور اسلامی انقلاب کے حریت پسندانہ افکار کو متحرک رکھنے میں کلیدی کردار کے حامل ہیں- پہلا مسئلہ سائنس اور ٹکنالوجی کے میدان میں ترقی اور نئی ایجادات نیز اس کام میں مصروف ان افراد پر توجہ دینا ہے کہ جنہوں نے رہبر انقلاب کی تعبیر میں، یونیورسٹیوں کو سائنس و ٹکنالوجی ، اختراع و جدت عمل اور ملک و معاشرے کے موثر مرکز میں تبدیل کردیا ہے-
آپ نے اس سلسلے میں فرمایا کہ جب سے ایران میں یونیورسٹی کا قیام عمل میں آیا ہے تسلط پسند عناصر کی کوشش رہی ہے کہ ایرانی جوانوں کی استعداد و صلاحیت کو پنپنے کا موقع نہ دیں اور ان کی علمی تحریک اور اختراع و جدت عمل کی راہ میں روڑے اٹکائیں اور اسی طرح وابستہ سیکورٹی اور ثقافتی اداروں کے ذریعے سے ، معاشرے پر حکمفرما یونیورسٹیوں کے موثر کردار کو ڈکٹیٹ کریں لیکن یونیورسٹیوں کے پروفیسروں اور طلباء نے اپنی کوششوں سے جہادی بنیادوں پر کام کرنے والے ادارے " جہاد سازندگی" اور سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی جیسے بے مثال اداروں کی تشکیل میں پہلے درجے کا کردار ادا کیا اور اسی عظیم اقدام نے ایران اور انقلاب کی پیشرفت میں اہم کردار ادا کیا ہے-
رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ طلباء کی تعلیم اور تربیت میں اساتذہ کو اپنا اہم اور مثبت کردار ادا کرنا چاہیے۔ آپ نے فرمایا کہ اسلامی انقلاب کی وجہ سے ایران کی یونیورسٹیاں انحرافی رجحانات سے نکل کر جدید سائنس و ٹیکنالوجی کی یونیورسٹیوں میں تبدیل ہو گئیں اور اس دور کے بہت سے طلباء آج ایسے اساتذہ میں تبدیل ہو گئے ہیں جو یونیورسٹیوں میں اسلام و انقلاب کی اہمیت کو اجاگر کرنے میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔
رہبر انقلاب اسلامی کے خطاب میں دوسرا اہمیت کا حامل مسئلہ دنیا میں تیز رفتاری سے رونما ہونے والی تبدیلیوں پر توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ جس نے آئندہ کے عشروں کی صورتحال کو بہت پیچیدہ بنا دیا ہے اور سبھی خاص کر جوان طلباء کو چاہئے کہ ان زمانوں سے روبرو ہونے کے لئے خود کو تیار کریں-
رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ علاقائی اور عالمی سطح پر تیزی سے رونما ہونے والی تبدیلیوں میں مختلف النوع مسائل کی تشریح کی سطح میں اضافے اور ان سے آگاہی، اور اپنی خودمختاری و تشخص میں اضافے کی ضرورت ہے- آج کے دور میں وہی معاشرے اپنی خودمختاری اور حقیقی تشخص کے حامل ہوسکتے ہیں جو اپنے اطراف کے حالات اور تبدیلیوں سے واقف ہوں اور غور و فکر کی صلاحیت رکھتے ہوں- ظاہر سی بات ہے کہ اس انقلابی تحریک میں اقتصادی ، سیاسی ، سائنسی و ثقافتی تحرک پایا جانا بھی ضروری ہے-
کیوں کہ ایسا نہ ہونے کی صورت میں معاشرے کو پہنچنے والے نقصانات میں شدت سے اضافہ ہوگا اور آخرکار ملک استکباری طاقتوں کے زیر تسلط آجائے گا- اسی نقطہ نگاہ پر توجہ مرکوز کرنے سے، ایک ملک ذمہ دار اور متحرک معاشرے کا حامل ہوسکتا اور سرنوشت ساز مسائل اور انصاف پسندی کے اپنے پیغام کو اقوام عالم تک پہنچا سکتا ہے- اسلامی جمہوریہ ایران کا بھی نقطہ نگاہ مسئلہ فلسطین کے بارے میں اسی خصوصیت کا حامل ہے اور ایرانی قوم مستحکم پوزیشن ، اور قوت و اقتدار کے ساتھ اپنے حقوق اور ملت فلسطین کا دفاع کر رہی ہے- رہبر انقلاب اسلامی کی ان مسائل کی اہمیت پر تاکید اس انتباہ کے مترادف ہے کہ دنیا کی موجودہ صورتحال میں کسی تشخص کے بغیر نہیں رہا جاسکتا اور اپنے اردگرد کے مسائل سے خاموشی سے اور آنکھیں بند کرکے نہیں گذرا جا سکتا -
رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ یوم القدس منانے کا حقیقی مقصد صرف، اپنے گھر بار کو چھوڑنے والے مظلوم فلسطینی قوم کا دفاع کرنا نہیں بلکہ آج فلسطین کا دفاع کرنے کا مقصد ، فلسطین سے بڑھ کر ایک ناقابل انکار حقیقت کا دفاع کرنا ہے۔ فلسطین کے مسئلے پر اسلامی جمہوریہ ایران کی توجہ بھی ان تبدیلیوں میں سے ہے، جو اس حساس مرحلے میں مسئلہ فلسطین کو تشخص عطا کرنے اور علاقے میں دشمنان اسلام اور سامراج کے مقاصد کو برملا کرنے میں ، تقدیر ساز اثرات کی حامل ہے-