رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے ہفتے کی شام کوسوئیڈن کے وزیر اعظم اسٹیفن لوویئن سے ملاقات کی۔ ملاقات کے دوران آپ نے دونوں ممالک کے مابین تعاون کے بے شمار مواقع کی جانب اشارہ کرتے ہوئے تمام شعبوں میں تعلقات میں فروغ کا خیرمقدم کیا۔ قائد انقلاب اسلامی نے امید ظاہر کی کہ دونوں ممالک کے مابین کئے گئے مذاکرات اور معاہدوں کو عملی جامہ پہنایا جائے گا۔ رہبر معظم انقلاب نے اس بات پر زور دیا کہ موجودہ مشترکہ صلاحیتوں کے پیش نظر دونوں ممالک کے تعلقات ناکافی ہیں۔ آپ نے ایران اور سوئیڈن کے مابین طویل المدت تعلقات کو، ایرانی عوام اور اس ملک کے مابین خوشنامی کا باعث قرار دیا۔ آپ نے سوئیڈن کے وزیر اعظم سے ملاقات کے دوران دونوں اقوام کے مابین موجود اعتماد کی فضا کو تعلقات میں فروغ کے لئے ایک مناسب وسیلہ قرار دیا۔
رہبر معظم انقلاب نے گذشتہ ڈیڑھ سال کے دوران تہران میں یورپی وفود کی آمد و رفت اور مذاکرات اور اس دوران ہونے والے اکثر معاہدوں کے لاحاصل ہونے پر بھی روشنی ڈالی۔ آپ نے سوئیڈن کے وزیر اعظم کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ: "آپ کی شخصیت کے بارے میں اس ملک میں جو تصورات ہیں ان کے تحت ہمارے یہاں عام طور پر یہ خیال کیا جاتا ہے کہ آپ فیصلوں کو عملی جامہ پہنانے میں ہمیشہ کامیاب رہتے ہیں، لہذا آپ سے توقع کی جاتی ہے کہ موجودہ سمجھوتوں پر عمل کروائیں"۔ قائد انقلاب اسلامی نے اس دوران ایرانی تعلیم یافتہ، چست و چالاک اور باصلاحیت نوجوانوں اور پرجوش اور اعلی عزم و ارادے کی مالک ایرانی قوم کی اہم ترین صلاحیتیوں کو سراہتے ہوئے کہا کہ مختلف ممالک میں انقلابوں کی سالگرہ، ریاستی مراسم اور فوجی پریڈ تک محدود ہوتی ہے جس میں صرف متعلقہ حکام اور سیاستدان شریک ہوتے ہیں لیکن ایران کے اسلامی انقلاب کی کامیابی کی سالگرہ کو (ایرانی) معاشرے کے تمام افراد عوامی جشن کی مانند برپا کرتے ہیں۔
آپ نے اس پرجوش اور مثالی جشن کو ایرانی عوام کی مستعدی اور جوش و خروش کی علامت قرار دیتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ جو تجزیہ کار دور سے بیٹھے ہوئے ایران کے بارے میں فیصلے کر رہے ہیں، وہ اس اہم نکتے کو سمجھنے سے قاصر ہیں۔
آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے سوئیڈن کے وزیر اعظم اسٹیفن لوویئن سے ملاقات کے دوران اس بات کی جانب بھی اشارہ کیا کہ ایران نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں سوئیڈن کی رکنیت کے حق میں ووٹ دیا تھا۔ آپ نے کہا کہ یہ باصلاحیت ادارہ بعض بڑی طاقتوں کے چنگل میں گرفتار ہے تاہم اگر مثبت کردار ادا کیا جائے تو اس ادارے کی جانب سے دوہری پالیسیوں پر عمل پیرا ہونے سے روکا جا سکتا ہے۔ آپ نے اپنی گفتگو کے دوران بعض بڑی طاقتوں کی مداخلت پسندانہ پالیسیوں کو علاقے کی مشکلات کی جڑ قرار دیا۔ رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ امریکہ اور بہت سے طاقتور یورپی ممالک، شام اور عراق کے تلخ حادثات کے براہ راست ذمہ دار ہیں اور علاقے کے عوام، ان مداخلہ جویانہ پالیسیوں سے آگاہ اور ان ممالک کی جانب سے حقیقی معنوں میں بد اعتماد ہیں۔
قائد انقلاب اسلامی نے زور دیکر کہا کہ علاقے کی مشکلات کا حل اسی علاقے میں ہونا چاہئے۔ آپ نے عراق کی صورتحال میں بہتری کو بطور نمونہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ شام کے مسئلے کو بھی اسی طریقے سے حل کیا جا سکتا ہے جس کے لئے دہشت گردانہ اور جنگ پسندانہ اقدامات کو ختم کرنا ہوگا۔
آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے اس مسئلے پر بھی روشنی ڈالی کہ شام میں ہنگامہ آرائیوں کے ابتدائی دنوں میں بعض مغربی ممالک کے سفیروں نے شام کی حکومت کے مخالفین کو فیاضی کے ساتھ اسلحہ فراہم کیا۔ رہبر انقلاب اسلامی نے اس قسم کی مداخلت پسندی پر مبنی پالیسیوں کو شام کی مشکلات میں اضافے کا سبب قرار دیا۔ آپ نے زور دے کر کہا کہ مشکلات کی وجوہات کی شناخت حاصل کرکے ہی اس کا علاج ممکن ہو گا۔
ملاقات کے دوران سوئیڈن کے وزیر اعظم اسٹیفن لوویئن نے اپنے دورہ تہران کو اہم اور تاریخی قرار دیتے ہوئے کہا کہ ان کے اس دورے میں معاشی اور علاقائی مسائل پر گفتگو ہوئی ہے اور طے پانے والے معاہدوں کو عملی جامہ پہنانے کی بھرپور کوشش کی جائے گی۔ دریں اثنا اسٹیفن لوویئن نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں سوئیڈن کی رکنیت کو اہم اور الگ نوعیت کے اقدامات انجام دینے میں موثر قرار دیا اور کہا کہ اس ملک نے سلامتی کونسل میں شمولیت کے دوران ناوابستہ تحریک کے رکن ممالک کی بھرپور حمایت کی ہے۔ اس دوران انہوں نے بھی ایران کی نوجوان آبادی کو ایک قیمتی سرمایہ قرار دیا۔