رہبر انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمیٰ خامنہ ای نے فن لینڈ کے صدر سائولی نینیستوو سے ملاقات میں دہشتگردی کے مسئلے کو بشریت کے لئے ایک دردناک مصیبت قرار دیا اور یمن کی عوام کی طرح اجتماعی قتل عام کو دہشتگردی کی بدترین قسم گردانتے ہوئے تاکید کے ساتھ فرمایا کہ دہشتگردی سے مقابلے کے لئے ان تمام ملکوں کی جانب سے سنجیدہ عزم و ارادے کی ضرورت ہے کہ جو عالمی طاقتوں میں اثر و رسوخ رکھتے ہیں اور دنیا بھر کے مفکرین، اور با شرف حکومتوں اور طاقتور قوموں کو چاہئے کہ وہ اس بیماری کے علاج کے لئے فکر اور لازمی اقدامات انجام دیں۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے امریکہ اور بعض دیگر ممالک کی دہشتگردی سے مقابلے کے بارے میں گفتگو اور اقدمات کو غیر سنجیدہ قرار دیتے ہوئے مزید فرمایا کہ یہ حکومتیں تمام مسائل کا محاسبہ اس انداز میں کرتی ہیں کہ اس کا نتیجہ انکے فائدے میں ہی ہو اور انہیں عراق اور شام میں دہشتگری کی وباء کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کی کوئی فکر نہیں ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے دہشتگردی سے مقابلے میں سنجیدہ نہ ہونے کی مثال دیتے ہوئے یمن میں عوام کے قتل عام کا ذکر کیا اور فرمایا کہ دہشتگردی صرف غیر سرکاری گروہوں کی جانب سے انجام دیئے جانے والے دہشتگردانہ اقدامات کا نام نہیں ہے بلکہ بعض حکومتوں کے ہاتھوں عوام کا اجتماعی قتل عام مثلا یمن میں مجلس عزا پر سعودی حملہ کہ جس میں سینکڑوں افراد شہید اور زخمی ہوئے دہشتگردی کی بدترین قسم کی ایک مثال ہے اور اس طرح کے واقعات سے نمٹنے کے لئے ایک سال اور سات مہینے گذرنے کے باوجود بھی کوئی سنجیدہ اقدامات نہیں کئے گئے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے شام کے مسئلے کے حل کے لئے اسلامی جمہوریہ ایران کے موقف کو بھی منطقی اور اس ملک کی قانونی حکومت اور عوام کی حمایت میں قرار دیا اور فرمایا کہ امریکہ اور بعض دیگر ممالک شام کی حکومت کی تبدیلی کے لئے دبائو ڈال رہی ہیں، حالانکہ اس جنگ کو ختم کرنے کے لئے جنگ کا آغاز کرنے والے اور اس آگ کو بھڑکانے والوں کو سامنے لانا چاہئے۔
آپ نے ایران پر صدام حکومت کی جانب سے مسلط کی جانے والی جنگ کے مسئلے میں اقوام متحدہ کی عدم توجہ کو اس جنگ کے طولانی ہونے کا اہم سبب قرار دیا اور فرمایا کہ البتہ مسلط کردہ جنگ ختم ہونے کے چند سال بعد اس وقت کے اقوام متحدہ کے سربراہ نے کہ جو ایک شجاع اور با ضمیر انسان تھے، صدام کو اس مسلط کردہ جنگ شروع کرنے کا ذمہ دار ٹھہرایا۔
حضرت آیت اللہ العظمیٰ خامنہ ای نے اسی زاویے سے اقوام متحدہ کے موجودہ سیکریٹری جنرل پر تنقید کرتے ہوئے فرمایا کہ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل نے صراحت کے ساتھ یہ اعلان کیا ہے کہ اقوام متحدہ کے سعودی حکومت کی پیسے سے وابستگی کی وجہ سے یمنی بچوں کے قتل عام کی مذمت نہیں کی جاتی اور یہ بات عالمی سیاستدانوں کے اخلاق کی افسوسناک صورتحال کی نشاندہندہ ہے اور ہم امید کرتے ہیں کہ اقوام متحدہ کے اگلے سیکرٹری جنرل اس منصب کے استقلال کی حفاظت کریں گے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے اسی طرح فن لینڈ کی حکومت کے ساتھ تعاون کے فروغ پر تاکید کرتے ہوئے فرمایا کہ دونوں ملکوں کے درمیان ہونے والے معاہدوں پر عمل درآمد ہونا چاہئے اور اگر ایسا نہ ہوا تو عوام کے ذہنوں پر اسکے نامناسب اثرات مرتب ہوں گے۔
اس ملاقات میں صدر مملکت ڈاکٹر حسن روحانی بھی موجود تھے۔ فن لینڈ کے صدر سائولی نینیستوو نے دورہ تہران کے موقع پر ہونے والی بات چیت پر اطمئنان کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے مختلف شعبوں سے متعلق چار معاہدوں پر دستخط کئے ہیں اور دونوں ملکوں کے تجاری وفود کے درمیان ہونے والے مذاکرات میں بھی اچھے اقدامات کئے گئے ہیں۔
صدر نینیستوو نے کہا کہ یہ معاہدے صرف کاغزوں تک محدود نہیں رہیں گے بلکہ انہی عملی جامہ پہنا کر بہترین نتائج کے بھی خواہشمند ہیں، اور فن لینڈ کی تاجر برادری بھی ایران کے ساتھ تجارت کے فروغ میں سنجیدہ ہے۔
فن لینڈ کے صدر نے گذشتہ دس سالوں کے دوران عالمی سطح پر ہونے والی تبدیلیوں اور دہشتگردی کے پھیلائو کا ذکر کرتے ہوئے دنیا کی موجودہ صورتحال کو پرآشوب قرار دیا اور کہا کہ دہشتگردی اب نئے رنگ و روپ کے ساتھ ظاہر ہوئی ہے جس کی وجہ سے کئی میلین افراد دربدر ہوگئے ہیں اور آج شام، عراق اور یمن میں بچوں اور مائوں کی ایک بڑی تعداد کو قتل کردیا گیا ہے۔
صدر نینیستوو نے دہشتگردی کے بارے میں رہبر انقلاب اسلامی کی گفتگو کی تایید کرتے ہوئے کہا کہ حکومتیں اور عالمی ادارے دہشتگردی کو کنٹرول اور اس سے مقابلہ کرنے میں ناکام رہی ہیں۔
فن لینڈ کے صدر نے خطے میں ایران کے مقام اور اسکے اثر و رسوخ اور دہشتگری سے مقابلے میں ایران کے اہم کردار کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ایران نے دہشتگردی کو جڑ سے اکھاڑنے کے لئے بہت زیادہ کوشش کی ہے اور ہمیں امید ہے کہ وہ اس کام کو جاری رکھے گا۔