عید سعید غدیر خم،عید امامت و ولایت اور عید اللہ اکبر کی مناسبت سے زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے ہزاروں افراد نے حسینیہ امام خمینی (رہ) میں رہبر معظم انقلاب اسلامی آیت اللہ خامنہ ای سے ملاقات کا شرف حاصل کیا۔
اس ملاقات میں رہبر انقلاب اسلامی نے عید غدیر کی مبارک دیتے ہوئے واقعہ غدیر کے اہم پیغام یعنی نصب امامت کو اسلامی حکومت کیلئے ضابطہ اور قاعدہ قرار دیا اور امام علی علیہ السلام کی منفرد خصوصیات بالخصوص اُن کی حکومتی خصوصیات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایاکہ ولایت امیر المومنین علی علیہ السلام سے متمسک ہونے کیلئے ضروری ہے کہ آپ کے کے فرمودات پر عمل پیرا ہواجائے۔
آپ نے عید غدیر کو "عید بزرگ الٰہی" کہے جانے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ اس نام گزاری کی وجہ، بہت ہی اہم واقعہ ہے جو غدیر والے دن رونما ہوا اور وہ، اسلام میں حکومت کے قواعد و ضوابط کا مشخص ہونا ہے۔
آپ نے مزید فرمایا کہ یہ ضابطہ، اسلامی معاشرے میں وہی امامت اور ولایت ہے کہ جس کا اعلان پیغمبر اکرم ﷺ نے خدا کے حکم سے کیا تھا۔
رہبر انقلاب اسلامی نے منتبہ کیا کہ ضابطہ معین ہونے کے علاوہ حضرت علی علیہ السلام امامت کے مصداق کے عنوان سے پیش کیا گیا کہ جو عظیم ، نورانی، الٰہی اور بے عیب شخصیت ہیں۔
آپ نے مزید فرمایا کہ البتہ اسلامی معاشرے میں کوئی بھی امیر المومنین کے مقام امامت اور قیادت کی بلندیوں تک نہیں پہنچ سکتا اور تاریخ اسلام کی بڑی بڑی علمی اور عرفانی شخصیات جیسے ہمارے امام خمینی جو ایک عظیم، برجستہ اور بہت سے کمالات کے حامل تھے، لیکن امیر المومنین علیہ السلام کے مقابلے میں ایسے ہیں جیسے سورج کے مقابلے میں کوئی شعاع یا کرن ہو۔
آپنے اپنی اس گفتگو کا خلاصہ کرتے ہوئے تاکید کے ساتھ فرمایا کہ واقعہ غدیر، اسلامی معاشرے میں حکومت قائم کرنے کا فارمولا ہے اور واضح کر رہا ہے کہ اسلام امامت اور ولایت سے خالی مختلف حکومتوں جیسے شاہی، ذاتی، زور زبردستی، لالچ، غرور، شہوت رانی اور اشرافیہ کی حکومت کا قائل نہیں۔
آپ نے موضوع غدیر کی اہمیت کو بیان کرتے ہوئے خداوند متعال کے پیغمبر ص کو اس حکم کہ رسالت کی تبلیغ امامت کی تبلیغ کے مرہون منت ہے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ اسلامی عقیدہ مستحکم مبانی اور غیر متزلزل دلیلوں پر قائم ہے لیکن اس عقیدہ اور بیان کی پابندی کرتے ہوئے اہل سنت بھائیوں کے احساسات کو ٹھیس نہیں پہنچنی چاہیے، کیونکہ یہ بات سیرت ائمہ معصومین علیہم السلام کے بالکل خلاف ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے ایک بار پھر دنیائے اسلام میں وحدت کی اہمیت پر تاکید اور اہل سنت کے پیشواؤں کی کسی طرح سے بھی بے حرمتی کو امامت کے اعتقاد پر منطقی بنیادوں اور دلیلوں کو نہ سنے جانے کے مترادف قرار دیتے ہوئے متنبہ کیا کہ شیعت کے نام پر اسلام کے دوسرے فرقوں کے احساسات کو برملا کرنا، اصل میں یہ کام "برطانوی شیعت" کا ہے اور اس کام کے نتیجے میں داعش اور النصرہ جیسےخبیث ترین گروہوں کا قیام ہے کہ جن کی پشت پناہی امریکا اور برطانیہ کے جاسوسی ادارے کر رہے ہیں کہ جن کی وجہ سے علاقے میں بہت ہی زیادہ ظلم و بربریت کا بازار گرم ہے۔
آپ نے اپنی گفتگو میں حضرت علی علیہ السلام کی انسانی اور معنوی خصوصیات جیسے گہرے ایمان، اسلام میں سبقت، راہ اسلام میں فدا کاری، خلوص علم اور معرفت خدا، شجاعت، ہمدری، ایثار اور قربانی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے مزید فرمایا کہ آنحضرت کی خصوصیات کا دوسرا حصہ حکومتی امور سے متعلق ہے کہ جن میں سے اُن کی عدالت، انصاف، اور تمام لوگوں کو ایک نظر سے دیکھنا، دنیاوی لذتوں سے دوری، تدبیر، ذمہ داریاں نبھاتے وقت کام میں تیزی، وضاحت، معاشرے کو تقوی کی ہدایت اور حق پر عمل کرنے میں نڈر اور ہر کام میں اُن کی عدالت جیسی خصوصیات شامل ہیں۔
رہبر انقلاب اسلامی نے خاص طور سے اس بات پر تاکید کرتے ہوئے کہ امیر المومنین علی علیہ السلام کے دنیاوی اور حکومتی وسائل سے ذاتی استفادہ نہیں کرتے تھے فرمایا کہ اپنے اختیار میں ہونے والی رقومات استعمال کرنے کے وسوسہ میں گرفتار ہونا، اُن بلاؤں میں سے ہے کہ جن میں کئی حکومتیں مبتلا ہیں، جبکہ حکومت امام ایسے مسائل کی سختی سے مخالفت کرتی ہے اور عمومی وسائل سے شخصی استفادہ کرنا بالکل منع ہے۔
آپ نے خاص طور سے حضرت علی علیہ السلام کی اسلامی معاشرے میں تدبیر پر تاکید کرتے ہوئے فرمایا کہ آنحضرت دوست اور دشمن کی شناخت اور دشمن کی دستہ بندی میں بھی تدبیر کے حامل تھے اور ان کا تینوں جنگوں میں دشمن سے رویہ بالکل مختلف تھا۔
آپ نے، امیر المومنین علی علیہ السلام کی شخصیت کو ہمہ جانبہ اور غیر قابل تعریف جانتے ہوئے مزید فرمایا کہ ہمارا وظیفہ یہ ہے کہ ہم اس بلندی کی طرف گامزن رہیں اور ہم ان صفات سے اپنے ایمان اور ظرفیت کے مطابق خود آراستہ کریں۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے آنحضرت کو آئیڈیل بناتے ہوئے شیعوں کو اہل بیت کیلئے باعث زینت ہونے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ جو شخص رشوت لیتا ہے یا بیت المال سے زیادہ طلب رکھتا ہے یا اُس کی آنکھیں برائیوں پر لگی ہوئی ہیں اور وہ معاشرے کی ہدایت کے زمرے میں اپنی کوئی ذمہ داری محسوس نہیں کرتا، ایسا شخص اسلامی معاشرے اور نظام کیلئے زینت نہیں بلکہ وہ حقیقت میں شیعت کیلئے ننگ و عار ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے تاکید کے ساتھ فرمایا کہ ہم کبھی بھی حضرت علی علیہ السلام کی طرح زُہد اختیار نہیں کرسکتے لیکن اس نورانی راستے پر چلتے ہوئے اسراف اور فضول خرچی سے بچ سکتےہیں، آپ نے فرمایا کہ بہت افسوس کی بات ہے کہ ہمارا معاشرہ اسراف کی لعنت میں گرفتار ہوچکا ہے اور یہ اسراف مختلف زاویوں سے ہےجیسا کہ ہماری ذاتی زندگیوں میں نظر آرہا ہے۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے اس بات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہ معاشرے میں اسراف کے برے نتائج میں سے ایک ملکی معیشت کو کمزور کرنا ہے فرمایا کہ اگر کوئی معاشرہ اقتصادی حوالے سے کمال مطلوب تک پہنچنا چاہتا ہے تو اُسے چاہیے کہ وہ اسراف سے اجتناب کرے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے اسراف سے بچنے کو ہر شخص کی پہلی ذمہ داری قرار دیا اور اس بات کی تاکید کی کہ ہمیں اپنے عمل میں ولایت امیر المومنین علیہ السلام سے متمسک ہونے کو ظاہر کرنا چاہیے،آپ نے فرمایا کہ دشمن جن راستوں سے حملہ کرتا ہے اُن میں سے ایک معاشرے کی کمزوریوں سے استفادہ کرنا ہے کہ ان کمزوریوں کو صحیح ہونا چاہیے۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے اس بات کا ذکر کرتے ہوئے کہ حالیہ شرائط میں دشمن کا اصلی ہدف ملک کے اقتصاد کو نقصان پہنچانا ہے فرمایا کہ دشمن میں لوگوں کے اقتصاد کو خراب کرنا چاہتا ہے تاکہ لوگ اسلام اور اسلامی نظام سے منحرف ہوجائیں۔
آپ نے تاکید کے ساتھ فرمایا کہ ایسی شرائط میں حکومت ، پارلیمنٹ، مختلف اداروں کے سربراہ اور ہر شخص کا وظیفہ صحیح پروگرام بنا کر دشمن کے مقابلے میں اقدام کرنا ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے ملک کی موجودہ صورتحال اور حرکت کو جوانوں کی برکت سے جو احیائے اسلام اور دین کے قیام میں مستقل جدوجہد کر رہے بہت بہتر قرار دیا اور فرمایا کہ یہ جوان خدا کے فضل و کرم سے ہر طرح کے دشمن چاہے وہ امریکا ہو یا اسرائیل ، کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیں گے۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے تاکید کے ساتھ فرمایا کہ یہ جو میں اپنی گفتگو میں بہت زیادہ خوش فہمی والی باتیں کرتاہوں اس کی وجہ اتنے اچھے و اقعات کا پیش آنا ہے جو ملک کو آگے کی طرف لے جاسکتی ہیں۔
آپ نے فرمایا کہ ایسے مومن جوان ، جو اعلیٰ ہمت اور جدوجہد کے میدانوں اور ملک کے دفاع میں آگے آنے چاہتے ہیں، بہت زیادہ ہیں ۔ آپ نے مزید فرمایا کہ یہ وہی ہمت ہے جو ملک کو نجات دلائے گی پس اس ہمت کو مزید مضبوط کیا جانا چاہئے۔