رہبر انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے ملک کے مختلف صوبوں سے آئے ہوئے مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے ہزاروں افراد سے ملاقات میں عوام کی معیشتی مشکلات کو تہہ دل سے اپنا مسلسل ہم و غم قرار دیا اور اس بات پر تاکید کرتے ہوئے کہ ملکی توانائی پر تکیہ کیا جانا عوام کی مشکلات کی تنہا راہ حل ہے فرمایا کہ مشترکہ ایکشن پلان نے ایک تجربے کے عنوان سے، امریکیوں کے ساتھ مذاکرات کے بے نتیجہ ہونے، انکی بدعہدی اور امریکیوں کے وعدوں پر اعتماد نہ کئے جانے کی ضرورت کو ایک بار پھر ثابت کردیا ہے اور یہ بتا دیا ہے کہ ملکی ترقی و پیشرفت اور عوام کی زندگی کی بہتر صورتحال کی تنہا راہ ملک کی اندرونی توانائی پر تکیہ کیا جانا ہے نہ کہ ان دشمنوں پر کہ جو ہمیشہ خطے اور دنیا میں ایران کے خلاف رکاوٹیں کھڑی کرنے میں مشغول ہیں۔
رہبر انقلاب اسلامی نے اس ملاقات میں ملک کے مختلف صوبوں اور علاقوں سے آئے ہوئے مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد کی موجودگی کو اس حقیقت کا نشان دہندہ قرار دیا کہ ایرانی عوام مختلف زبانوں، قوموں اور مختلف مذاہب کے فرق کے باوجود اپنے وحدت اور بھائی چارے کے ذریعے اس چیز کی تلاش میں ہیں کہ اپنے عزیز وطن ایران کو دنیا کے سامنے ایک معنوی اور مادی رول ماڈل اسلامی ملک کے عنوان سے پیش کر سکیں تاکہ دوسرے مسلمان ممالک استکباری طاقتوں کی اختلاف انگیز اور استثماری سیاست کے خلاف استقامت کے لئے اسی پر افتخار راستے کو طے کریں۔
آپ نے انقلاب کی کامیابی کے بعد ملک کی علمی اور سیاسی پیشرفت کو قابل تحسین قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ وہ ایران کہ جو امریکہ اور برطانیہ سے وابستہ، عقب ماندہ اور ذلیل پہلوی ڈکٹیٹر کا ایران تھا آج ایک عزیز اور مقتدر ملک میں تبدیل ہو چکا ہے کہ جسے بڑی طاقتیں خطے میں اپنے ایک حریف کے طور پر دیکھتی ہیں اور اس بات کی کوشش میں ہیں اس کی خطے میں موجود امکانات اور توانائیوں پر مسلط ہوجائیں لیکن وہ ایسا نہیں کر سکتیں۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے اسلامی تمدن کے احیاء اور اسکی شکوفائی کے تاریخی تجربے کا تذکرہ کرتے ہوئے مزید فرمایا کہ عزیز ملک ایران کے ایک مثالی اسلامی ملک میں تبدیل ہونے کا راستہ طولانی ہے جس کے لئے ملت ایران اور حکام کی جانب سے انتھک محنت اور ہمت کئے جانےکی ضرورت ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے ایران کی ایک مثالی ملک بننے کی تنہا راہ ،ملکی توانائیوں اور امکانات پر تکیہ کئے جانے کو قرار دیا اور تاکید کے ساتھ فرمایا کہ اس ہدف کے حصول کے لئے اسٹریٹجی اور صحیح منصوبہ بندی نیز انتھک اور بغیر کسی وقفے کے جدوجہد اور سستی، کاہلی، بے کاری اور دشمنوں پر اعتماد اور اطمینان سے پرہیز کے ذریعے ممکن ہے۔
آپ نے فرمایا کہ بعض اوقات دشمن راستے میں رکاوٹیں کھڑی کر دیتا ہے لیکن غور و فکر اور تدبیر کے زریعے ان رکاوٹوں کو دور کیا جاسکتا ہے لیکن کسی بھی قیمت پر اس پر اعتماد نہیں کیا جانا چاہئے۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے مشترکہ جامع ایکشن پلان کے تجربے کو دشمنوں پر اعتماد نہ کرنے کے معاملے کو درست کرنے کی واضح مثال قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ آج حتی ڈپلومیٹس اور جو لوگ مذاکرات میں شامل تھے، اس حقیقت کی تکرار کر رہے ہیں کہ امریکہ نے بد عہدی کی ہے اور اپنی چرب اور نرم زبانی کے پیچھے ایران کے دوسرے ممالک کے ساتھ اقتصادی رابطے خراب کرنے اور انکا راستہ روکنے کے درپے ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے مزید فرمایا البتہ چند سالوں سے ہم امریکہ کی بد عہدی کے مسئلے پر بات کر رہے ہیں لیکن بعض افراد کے لئے اس حقیقت کو قبول کرنا انتہائی سخت نظر آرہا ہے۔
آپ نے گذشتہ ہفتے یورپ میں پانچ جمع ایک کے ساتھ ہونے والے مذاکرات کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ اس اجلاس میں ایرانی مذاکراتی ٹیم نے یہ بات اپنے فریق مقابل کے گوش گزار کر دی ہے کہ تم وعدہ خلافی کر رہے ہو، اپنے وعدوں پر عمل نہیں کر رہے اور مسلسل رکاوٹیں کھڑی کر رہے ہو۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے ایٹمی معاہدے کے چھ ماہ گذر جانے کا ذکر کرتے ہوئے سوال کیا کہ کیا یہ طے نہیں تھا یہ ظالمانہ پابندیاں اٹھا لی جائیں گی تاکہ عوام کی زندگیوں پر اس کے اثرات مرتب ہوں۔ آیا چھ مہینے گذرنے کے باوجود عوام کی زندگیوں میں کوئی واضح تبدیلی دیکھنے کو ملی ہے؟ اگر امریکیوں کی بد عہدی نہ ہوتی تو کیا آج حکومت اس پوری مدت میں بہت سارے کام انجام نہ دے چکی ہوتی؟
رہبر انقلاب اسلامی نے بعض عہدیداروں کی اس گفتگو کو حوالہ دیتے ہوئے کہ جس میں انکا کہنا تھا کہ مشترکہ جامع ایکشن پلان پر عمل درآمد کے بعد تمام پابندیاں ایک ساتھ اٹھا لی جائیں گی مزید فرمایا کہ لیکن آج پابندیوں کو بتدریج اٹھائے جانے کی باتیں کی جارہی ہیں ، کیوں؟
آپ نے امریکیوں کی جانب سے پچھلے خطوط کا حوالہ دیا کہ جو عقیدت اور تعاون کی باتوں پر مشتمل تھے۔ آپ نے مزید فرمایا کہ تقریبا دو سال پہلے ہم نے کہا تھا کہ ملت ایران کو مذاکرات کو ایک تجربے کی نگاہ سے دیکھنا چاہئے تاکہ وہ یہ جان سکیں کہ امریکہ عملی میدان میں کیا کرے گا اور اب یہ مشخص ہوچکا ہے کہ وہ اپنے وعدوں کے برخلاف مسلسل سازشوں اور تخریب کاری میں مشغول ہیں۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے ایٹمی معاہدے کے سلسلے میں امریکی برتائو کے نتیجے میں ملت ایران کو حاصل ہونے والے تجربے پر تاکید کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ لوگ کہتے ہیں کہ آئیں خطے کے مسائل کے بارے میں مذاکرات کرتے ہیں، لیکن مشترکہ جامع ایکشن پلان کا تجربہ کہتا ہے کہ یہ کام خطرناک اور مہلک ہے اور کسی بھی مسئلے میں امریکیوں کی باتوں پر اعتماد نہیں کیا جاسکتا۔
رہبر انقلاب اسلامی نے مزید فرمایا اگر انسان کا دشمن کم از کم اپنی زبان کا پکا ہو تو بعض موارد میں اس سے گفتگو کی جا سکتی ہے لیکن اگر کوئی امریکیوں کی طرح نابکار ہو اور ظاہری مسکراہٹ کے برخلاف اپنے وعدوں پر عمل نہ کرنے میں اسے کوئی عار بھی نہ ہو تو اس کے ساتھ مذاکرات نہیں کئے جاسکتے اور امریکیوں سے مذاکرات کے سلسلے میں میری مخالفت کی وجہ یہی حقیقت ہے.
آپ نے خطے میں ایران اور امریکہ کی مشکلات اور مسائل کو مذاکرات کے زریعے حل کئے جانے کو محال قرار دیا اور تاکید کے ساتھ فرمایا کہ ہمیں چاہئے کہ راسخ عزم و ارادے کے ساتھ ملک کی مادی اور معنوی ترقی اور پیشرفت کے لئے صحیح راستے پر حرکت کریں تو اس وقت ہم دیکھیں گے کہ ہمارا دشمن ہمارے پیچھے پیچھے بھاگ رہا ہے نہ کہ ہم اس کے پیچھے پیچھے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے بعض ڈپلومیٹس کی باتوں کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ امریکی یہ چاہتے ہیں کہ وہ سب کچھ حاصل کر لیں لیکن کچھ بھی کسی کو نہ دیں اور اس طرح کی حکومت کے ساتھ مذاکرات ملکی پیشرفت کو اسکے اصل راستے سے منحرف کرنے، پے در پے امتیازات دینے اور دھونس و دھمکی کو تحمل کرنے اور اپنا عہد توڑنے اور اسکی خلاف ورزی کے مترادف ہے۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے امام خمینی رح کی امریکہ کو شیطان بزرگ قرار دینے کی شاندار تعبیر کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ قرآنی آیات کے مطابق شیطان قیامت کے دن اپنے پیروکاروں کو کہے گا کہ تم لوگوں کو اپنی سرزنش کرنی چاہئے کہ تم نے کیوں میرے جھوٹے وعدوں پر عمل کیا اور آج بھی نیز امریکہ کے وعدوں پر توجہ نہ کرنا اور اس پر اعتماد کیا جانا اسی مسئلے کے مصادیق ہیں۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے ملک کے نوجوانوں اور تعلیم یافتہ طبقے کو امریکہ کے مقابلے میں ملکی سیاست پر غور و فکر کرنے کی دعوت دیتے ہوئے فرمایا کہ ہماری یہ سیاست تجربے، دشمن کی پہچان، دنیا، خطے اور ملکی سیاست کی حقیقی شناخت کے نتیجے میں تشکیل پائی ہے۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے اپنی گفتگو کے دوسرے حصے میں اعلیٰ حکام کی جانب سے ملکی کی داخلی صلاحیتوں اور توانائیوں پر تکیہ کئے جانے پر ایک بار پھر تاکید کی اور چھوٹے اور متوسط کارخانوں کے قیام اور نالج بیسڈ معیشت کو موجودہ مشکلات کے بتدریج حل میں ممد و معاون قرار دیا۔
آپ نے عوام کو ملکی سطح پر تیار کردہ اشیاء من جملہ گھریلو ساز و سامان استعمال کرنے کی دعوت دیتے ہوئے فرمایا کہ افسوس کہ داخلی سطح پر تیار کی جانے والی اشیاء سے ملتی جلتی اشیاء کی درآمد پر پابندی جیسے مسئلے کی بار بار تاکید کے باوجود بازاروں میں امپورٹڈ ساز و سامان کا انبار لگا ہوا ہے جس کی وجہ سے داخلی پیداوار شدید دبائو کا شکار ہے۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے اسمگلروں سے سنجیدگی کے ساتھ نمٹنے اور اسمگل شدہ اشیاء کو نابود کئے جانے کو انتہائی ضروری قرار دیا اور فرمایا کہ داخلی پیداوار کی موجودہ صورت حال، جوانوں کی بے روزگاری، کساد بازاری میں اضافے اور عوام کی دشوار زندگی سمیت دیگر مسائل کو اب امریکہ اور یورپ کے ساتھ مذاکرات کے زریعے حل نہیں کیا جاسکتا اور اب اعلی حکام کو چاہئے کہ وہ اس سلسلے میں ضروری اقدامات کریں۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے عوام کی معیشتی مشکلات کو ایک گہرا اور مسلسل مسئلہ قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ صاحب نظر افراد کے ساتھ کئے جانے والے تمام تر صلاح مشورے کے بعد ہم اس نتیجے تک پہنچے ہیں کہ ان تمام تر مشکلات کا راہ حل صرف اور صرف داخلی توانائی پر تکیہ اور توجہ کئے جانے میں مضمر ہے۔
آپ نے گذشتہ چند مہینوں کے دوران غیر ملکی تاجروں کی آمد و رفت کو کم از کم اب تک بے نتیجہ قرار دیتے ہوئے مزید فرمایا کہ انکا ہدف ہمارے بازاروں پر قبضہ کرنا ہے حالانکہ یہ معاملات حقیقی سرمایہ گذاری اور ٹیکنالوجی کی منتقلی جیسے امور کی صورت میں انجام پانے چاہئیں۔
رہبر انقلاب اسلامی نے داخلی فساد کو مہار کرنے کو اہم ترین مسئلہ قرار دیا اور مزید فرمایا کہ اعلی حکام نے الحمد اللہ صراحت کے ساتھ یہ اعلان کیا ہے کہ وہ حد سے زیادہ تنخواہوں کا راستہ روکیں گے اور بعض اداروں میں اس سلسلے میں اقدامات بھی انجام دیئے گئے ہیں اور ان عملی اقدامات میں مزید اضافہ ہونا چاہئے۔
آپ نے اعلی حکام کو اپنی رفتار و گفتار کے زریعے اشرافیت کی مخالفت اور اس سے مقابلے کی دعوت دیتے ہوئے فرمایا کہ جب اشرافیت معاشرے کی بلندیوں میں وجود میں آتی ہے تو اسکا نقصان عوام کو بھی ہوتا ہے، بنا بر ایں ہمیں مکمل طور پر اشرافیت کی ثقافت کا مقابلہ کرنا چاہئے۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے اس سال کو استقامتی معیشت اقدام و عمل کا نام دیئے جانے کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ بعض کام انجام دیئے گئے ہیں لیکن ان اقدماات کا نتیجہ عوام کے لئے واضح ہونا چاہئے تاکہ عوام اسکو محسوس کرسکیں۔
رہبر انقلاب اسلامی نے اپنی گفتگو میں خطے کے پرآشوب حالات اور مسائل کا تذکرہ اور تجزئیہ کرتے ہوئے فرمایا کہ ان مسائل کے پیچھے بھی امریکہ کا ہی ہاتھ ہے۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے سعودی حکومت کی جانب سے اسرائیل کے ساتھ تعلقات کے اعلان کو امت مسلمہ کی پیٹھ پر خنجر گھونپے کے مترادف قرار دیا اور فرمایا کہ سعودیوں کا یہ کام ایک بہت بڑی خیانت اور گناہ ہے لیکن اس بڑی غلطی میں بھی نیز امریکہ کا ہاتھ ہے، کیونکہ سعودی عرب امریکی حکومت کی تابع، تسلیم شدہ اور اسکے ہونٹوں کی جنبش کی منتظر رہنے والی حکومت ہے۔
آپ نے یمن پر جارحیت، گھروں، اسپتالوں اور اسکولوں پر وحشیانہ بمباری، اور مسلسل معصوم بچوں کے قتل عام کو سعودی حکومت کا ایک اور بڑا جرم قرار دیا اور فرمایا کہ یہ جرائم بھی امریکی اسلحوں اور انکے گرین سگنل کی وجہ سے انجام پا رہے ہیں۔
رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ افسوس کہ حتی اقوام متحدہ بھی جب ایک طویل مدت کے بعد ان جرائم کی مذمت کرنا چاہتی ہے تو اس کا منہ پیسے، دھونس ودھمکیوں کے زریعے بند کردیا جاتا ہے۔
آپ نے فرمایا کہ اقوام متحدہ کے رو سیاہ سیکرٹری جنرل نے ان دھمکیوں اور دباءو کا اعتراف کیا ہے لیکن اسے اعتراف کرنے کے بجائے استعفی دے دینا چاہئے تھا، نہ کہ وہ اپنے عہدے پر باقی رہے اور پوری انسانیت کے ساتھ خیانت کرے۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے بحرین کے مسئلے اور وہاں کے عوام پر دبائو ڈالنے کے لئے اغیار کی فوجوں کی مداخلت کو امریکی حمایت کا ایک اور واضح نمونہ قرار دیا اور تاکید کے ساتھ فرمایا کہ آج سعودی حکومت کی باگ دوڑ بے وقوف افراد کے ہاتھوں میں ہے لیکن مسائل کا دقیق تجزئیہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ ان تمام مسائل کے پیچھے امریکہ کا ہی ہاتھ ہے۔
آپ نے اسی طرح امت مسلمہ میں اختلافات کو ہوا دینے کے لئے تکفیری گروہوں کو بنانے اور انکی حمایت اور تقویت کئے جانے، اموی اور مروانی اسلام کی ترویج، اور حقیقی اسلام کو بدنام کرنے میں امریکی کردار کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ امریکی یہ دعوی کرتے ہیں کہ انہوں نے تکفیری گروہوں کے خلاف اتحاد تشکیل دیا ہے حالانکہ وہ انکے خلاف موثر اقدامات انجام نہیں دیتے اور بعض رپورٹوں کے مطابق وہ انکی مدد بھی کرتے ہیں۔
رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ البتہ تکفیری گروہوں نے اپنے حامیوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے اور ہم ایرانیوں کے بقول ہوا جو کچھ بوتی ہے طوفان وہی کاٹتا ہے۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے اپنی گفتگو کے اس حصے کو سمیٹتے ہوئے امریکہ کو اس خطے میں مشکلات میں اضافے کا اصل سبب قرار دیتے ہوئے تاکید کے ساتھ فرمایا کہ اس خطے کے عوام ان مسائل کو حل کرنے کی قدرت رکھتے ہیں اور ہم اس خطے کی حکومتوں کو اس بات کی دعوت دینے کے ساتھ ساتھ یہ باور کروانا چاہتے ہیں کہ امریکہ قابل اعتماد ملک نہیں ہے اور وہ عرب ممالک کو غاصب صیہونی حکومت کی حفاظت کے ہتھیار کے طور پر دیکھتا ہے اور صرف اور صرف خطے میں اپنے استکباری منافع کے حصول کے درپے ہے۔
آپ نے خطے کے مسائل کا حل مسلمان حکومتوں اور ملتوں کے درمیان اتحاد، اور امریکہ اور بعض یورپی ممالک کے استکباری اہداف کے مقابلے میں استقامت کو قرار دیا اور فرمایا کہ ہمیں ان اہداف کو پہچاننا چاہئے اور ان کے مقابلے میں ڈٹ کر کھڑا ہونا چاہئے اور ہماری عوام بھی اسی راہ میں ڈٹ کر کھڑی ہوئی ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے تاکید کے ساتھ فرمایا کہ امریکیوں کی بے پناہ کوششوں کے باجود انکے منصوبے اور سازشیں افشا ہوگئیں اور امریکہ کی اس خطے میں گرفت روز بروز کمزور ہوتی جارہی ہے۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے فرمایا کہ امریکی مداخلت اور دشمنی صرف اسلامی جمہوریہ ایران تک منحصر نہیں ہے۔ آپ نے مزید فرمایا کہ ترکی میں پیش آنے والے واقعات کے بارے میں قوی امکانات پائے جاتے ہیں کہ یہ بغاوت امریکی تدبیروں اور اسکی پشت پناہی میں انجام پائی ہے اور اگر یہ بات سچ نکلی تو یہ امریکہ کے لئے ایک بڑی رسوائی ثابت ہوگی۔
آپ نے خطے میں ایک اتحادی کے عنوان سے امریکہ کے ترکی سے اچھے رابطوں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ امریکی اسلام اور اسلام کی جانب رجحان کے مخالف ہیں، بنا بر ایں ترکی میں بھی چونکہ اسلام کی جانب رجحان موجود ہے اس لئے وہاں بغاوت کا راستہ ہموار کریں گے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے تاکید کے ساتھ فرمایا کہ سرکوب کرنے کا یہ انداز اور امریکہ، اب ترکی کے عوام کے نزدیک بھی نیز منفور ہوگیا ہے اور امریکی عراق اور شام اور دوسرے علاقوں میں بھی اسی انداز میں کمزور ہو رہے ہیں۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے دین خدا کی نصرت کرنے والوں کے لئے خدا کے قطعی وعدے کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ اگر ملت ایران اس حتمی وعدے کے سلسلے میں امیدوار ہو اور اسکہ زمینہ فراہم کرے تو تمام تر مشکلات دور ہوجائیں گی۔
آپ نے اپنی گفتگو کے آغاز میں ماہ ذی قعدہ کے نزدیک آنے کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ ماہ حرام کی تعبیر سے مراد اس کا بیشتر احترام کیا جانا ہے جس کا خداوند متعال نے ان مہیونوں کے بارے میں ذکر کیا ہے اور ان مہینوں میں بعض کاموں کو حرام قرار دیا ہے اور خداوند متعال کی جانب سے ان مہینوں کے اسی احترام کو مدنظر رکھتے ہوئے خداونود متعال کی بارگاہ کی جانب اور زیادہ متوجہ ہونا چاہئے اور روحانیت کے حصول کے لئے بیشتر کوشش کرنی چاہئے،۔
اس ملاقات میں صوبہ مغربی آذربائیجان، اردبیل، سیستان و بلوچستان، لرستان، کرمان اور کرمانشاہ سے مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد موجود تھے۔