ویب سائٹ دفتر رہبر معظم انقلاب اسلامی

رہبر انقلاب اسلامی سے ملک کے اعلیٰ حکام کی ملاقات

دشمن اسلامی جمہوریہ ایران کی توانائیوں کو نابود کرنا چاہتا ہے

رہبر انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمیٰ خامنہ ای نے تینوں قوا کے سربراہوں، اسلامی نظام کے عہدیداروں اور ذمہ داروں، مختلف اداروں کے اعلی افسران اور سیاسی، اجتماعی اور ثقافتی میدانوں میں سرگرم افراد سے ملاقات میں بنیادی صلاحیتوں میں اضافے کو ملکی اقتدار کا سبب قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ دو بنیادی مشکلات یعنی کساد بازاری اور بے روزگاری کے سلسلے میں منصوبہ بندی اور ترجیحات کا طے کیا جانا استقامتی معیشت کے تحقق کی رفتار کو مزید تیز کردے گا۔

رہبر انقلاب اسلامی نے اپنی گفتگو کے آغاز میں ماہ مبارک رمضان کی برکت اور معنویت سے بہرمند ہونے کے لئے اس ماہ شریف میں وارد بعض دعاوں کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ رمضان کی بعض دعاوں میں گناہوں سے نجات کا ذکر ہے اور خدانخواستہ اگر اعلی حکام ان گناہوں میں مبتلا ہوگئے تو پورے معاشرے اور ملک کو اس کا نقصان اٹھانا پڑے گا۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے غفلت، لا پرواہی، دلوں کے سخت ہو  جانے، بے خیالی اور غرور و تکبر کو ان گناہوں میں سے قرار دیا اور فرمایا کہ اگر اعلی حکام اپنی حفاظت نہیں کریں گے تو ان گناہوں میں گرفتار ہوجائیں گے، اور نفاق میں مبتلا ہونے، نعمات الہی کو جھٹلانے اور وقت پڑنے پر ناتوانی اس کے بعد کے اور اس سے خطرناک مراحل ہیں۔
آپ نے ان گناہوں اور لغزشوں سے نجات کا تنہا راستہ تقوا اور اپنی حفاظت کئے جانے کو قرار دیا۔
رہبر انقلاب اسلامی نے اس کے بعد موجودہ دور کے مسائل کا تذکرہ کرتے ہوئے اور اس بات کی تاکید کرتے ہوئے کہ موجودہ دور میں اسلامی جمہوریہ ایران کو حساس اور خاص شرائط کا سامنا ہے فرمایا کہ موجودہ دور کی خصوصیات میں سے ایک یہ ہے کہ حکام انقلاب کے ابتدائی دور کے برخلاف ملک کی عظیم توانائیوں سے آشنا ہیں اور موجودہ امکانات اور صلاحیتوں سے انہیں جامع اور مکمل آگاہی ہے۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے فرمایا کہ موجودہ دور کے حساس ہونے کی ایک خصوصیت اسلامی جمہوریہ ایران کے آشکارا دشمن کی موجودگی ہے کہ جو حکومتوں کے درمیان ہونے والے اختلافات سے کہیں بڑھ کر ہے۔
آپ نے اس خاص دشمن کی دشمنی کی اصل وجہ کو بیان کرتے ہوئے اور ایران کو بے سابقہ وجود قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ اسلامی نظام اسلام کی فکری اور عملی معارف کی اساس پر استکبار، ظلم، نسل پرستی، اور دھونس و دھمکی کی سیاست کا مخالف ہے اور تمام تر دباو اور پابندیوں کے باوجود خطے اور دنیا میں اسکی قدرت اور اثر و رسوخ میں توسیع ہوئی ہے اور اس ملک نے ایک نئی ابھرتی ہوئی طاقت کے عنوان سے استکباری طاقتوں کے ظالمانہ مفادات کو چیلینج کیا ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے تاکید کے ساتھ فرمایا کہ دشمن کے پلان اور منصوبوں کو پہچاننا چاہئے اور اس سے مقابلے کے لئے منظم منصوبہ بندی کی جانی چاہئے چونکہ عملی منصوبے بھی اس منظم منصوبہ بندی کے دائرے میں محقق ہو سکیں گے۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے مزید فرمایا کہ دشمن کی منصوبہ بندی اور پلاننگ اسلامی جمہوریہ ایران کی توانائیوں کو نابود کرنے کے لئے ہے اور وہ ایسا تو نہ کر سکا لیکن ان توانائیوں کے پروان چڑھنے کی راہ میں حائل رکاوٹ ضرور ہے۔
آپ نے اس بات پر تاکید کرتے ہوئے کہ دشمن کی سازشوں سے مقابلے کی تنہا راہ اپنی توانائیوں سے صحیح استفادہ کئے جانے اور ملکی اقتدار اور طاقت میں روز افزوں اضافے میں ہے، ملک کی اصلی اور بنیادی توانائیوں کے بارے میں گفتگو کا آغاز کیا۔
اسلامی ایمان وہ پہلے توانائی تھی کہ جس کے بارے میں رہبر انقلاب اسلامی نے گفتگو کرتے ہوئے فرمایا کہ ہمارا مدمقابل تمام تر امکانات خاص طور پر سائبر اسپیس سے استفادہ کر رہا ہے تاکہ نوجوان نسل اور آئندہ آنے والی نسلوں کے اسلامی ایمان کو متزلزل کرسکے۔ بنا برایں اقتدار کے زمینہ کے عنوان سے معاشرے میں اسلامی ایمان کی حفاظت اور اسکی پائیداری کے لئے خاص انتظامات کئے جانے چاہئیں۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے علمی پیشرفت کو ملک کی دوسری توانائی قرار دیا اور اس بات پر تاکید کرتے ہوئے کہ مقابل فریق علمی پیشرفت کا شدت سے مخالف ہے اور اس سلسلے کو روکنے کے لئے اس نے ملک کے دانشور افراد کو قتل کرنے کا سہارا لیاہے فرمایا کہ  انہوں نے ہماری علمی پیشرفت کا مقابلہ کرنے کے لئے حتی خبیث ترین اور ممنوعہ وسائل من جملہ برے سافٹ ویئرز اور انٹرنیٹ وائرس تک کا بھی استعمال کیا ہے اور ہم ان کے ان جرائم کے وجہ سے بین الاقوامی عدالتوں میں انکا گریبان پکڑ سکتے تھے لیکن افسوس کہ یہ کام انجام نہیں دیا گیا۔
آپ نے فرمایا کہ ایٹمی مسئلے پر دبائو کی ایک اہم وجہ ملک کی علمی پیشرفت کی مخالفت ہے اور وہ خود بھی جانتے ہیں کہ ایٹم بم کی تیاری کے لئے کوششیں کرنے کا دعوی ایک کھلا جھوٹ ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے اقتصادی توانائی اور دفاعی ڈیٹرنٹ توانائی کو ملکی اقتدار کا ایک اور عامل قرار دیا اور ان توانائیوں میں اضافے کی تاکید کرتے ہوئے فرمایا کہ قومی سیاسی توانائی کی قومی وحدت اور انسجام کے عنوان سے حفاظت کی جانی چاہئے اور اختلافات اور مختلف سیاسی نظریات کے باوجود کہ جس میں کوئی مشکل بھی نہیں ہے، اسلامی نظام کی حرکت کے دوران عوام کے درمیان اختلافات پیدا نہیں ہونے چاہئیں۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے فرمایا کہ خداوند متعال کے لطف و کرم سے آج قومی وحدت اور انسجام اسلامی نظام کے مبانی کے مطابق موجود ہے اور عوام کی اکثریت انقلاب، انقلاب کے مظاہر، انقلاب کی یادگاروں اور امام راحل کے نام اور انکی یادوں سے عقیدت رکھتے ہیں۔
آپ نے ملک کے نوجوان طبقے کو ایک اور بنیادی توانائی قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ نوجوان نسل ایک بہت اہم اور عظیم نعمت ہے اور حکومتی عہدیداروں کو چاہئے کہ صحیح منصوبہ بندی کے زریعے ملک میں نوجوان نسل کی تعداد میں اضافے کے لئے اقدامات کریں۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے ملک کی چھ بنیادی توانائیوں میں توسیع پر تاکید کے بعد دشمن کی سازشوں سے مقابلے کی پلاننگ کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ دشمن استکبار کی نیٹ ورک سے عبارت ہے جس کی سربراہی امریکہ کے ہاتھ میں ہے اور اسی طرح صیہونی نیٹ ورک ہے کہ جعلی صیہونی حکومت جس کا مظہر ہے۔
آپ نے اس بات کا تذکرہ کرتے ہوئے کہ ہمارا مقابل فریق کبھی بھی چھپ کر دشمنی نہیں کرتا فرمایا کہ چند روز پہلے پارلیمنٹ کے اجلاس میں وزیر خارجہ کا یہ بیان کہ امریکہ کی ذات کبھی بھی تبدیل نہیں ہو سکتی بالکل صحیح تھا۔ امریکہ کا باطن وہی ریگن کے دور والے امریکہ جیسا ہے اور ڈیموکریٹس اور کانگریس کے درمیان کوئی فرق موجود نہیں ہے۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے امریکہ کے بارے میں ایک غلط تصور کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ بعض افراد یہ تصور کرتے ہیں کہ ہم امریکہ سے مصالحت کرسکتے ہیں اور اپنی مشکلات کو خود حل کرسکتے ہیں حالانکہ یہ غلط تصور ہے اور ایک وہم سے زیادہ کچھ نہیں۔
آپ نے اس بات پر تاکید کرتے ہوئے کہ منطقی لحاظ سے اسلامی جمہوریہ ایران کے لئے کبھی بھی امریکی حکومت کے دل میں نرم گوشہ نہیں رہا، فرمایا کہ امریکیوں کا برتاو ہمیشہ خباثت اور عناد پر مبنی رہا ہے، بنا برایں یہ تصور کہ امریکہ اور ایران کے مسائل سوء تفاہم کا نتیجہ ہیں اور مذاکرات کے زریعے انہیں حل کیا جاسکتا ہے ایک غلط اور غیر حقیقی تصور ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے مزید فرمایا کہ امریکیوں کا اصل مسئلہ اسلامی جمہوریہ ایران کا وجود ہے اور یہ مسئلہ مذاکرات اور تعلقات سے حل نہیں ہوگا کیونکہ اسلام سے سرشار قدرت اور آزادی، استکبار کے لئے قابل قبول نہیں ہے۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے اس بات پر تاکید کرتے ہوئے کہ مصالحت کے بارے میں امریکی تصور اپنے مواقف اور اصولوں سے تنزلی پر مبنی ہے، فرمایا کہ یہ تنزلی کبھی نہ ختم ہونے والی ہے جس طرح کہ آج ایٹمی توانائی کے مسئلے کے بعد انہوں نے میزائیلوں کا موضوع چھیڑ دیا ہے، اور میزائیلوں کے بعد انسانی حقوق کے مسئلے تک نوبت پہنچ جائے گی، انسانی حقوق کے مسئلے کے بعد شورائے نگہبان کا مسئلہ اٹھایا جائے گا، اسکے بعد ولایت فقیہہ کا اور آخر میں اسلام کی حاکمیت اور آئین تک بات جائے گی۔ بنا بر ایں یہ تصور کیا جانا کہ اسلامی جمہوریہ ایران امریکیوں سے مصالحت کر سکتا ہے ایک غلط تصور ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے ایک اور غلط تصور کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ بعض افراد یہ تصور کرتے ہیں کہ امریکہ کی ایران سے دشمنی کا سبب تحریکیں اور عسکریت پسندی ہے حالانکہ اسلامی انقلاب کی ابتداء سے ہی یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے بدکلامی، پابندیوں، بے جا تقاضوں اور ملت ایران کے دشمنوں کو پناہ دے کر دشمنی اور عسکریت پسندی کی بنیاد رکھی۔
رہبر انقلاب اسلامی نے ملکی اقتدار کی تقویت اور اسکی حفاظت کو مستکبرین کی دشمنیوں کا حقیقی علاج قرار دیتے ہوئے تاکید کے ساتھ فرمایا کہ قرآن مجید کے صریح فرمان کے مطابق ہمیں اپنی ایمانی، اقتصادی، دفاعی، علمی، سیاسی اور جمعیتی طاقت و قدرت میں اضافہ کرنا چاہئے۔
آپ نے تمام اداروں کے ذمہ داروں کو توانائیوں میں اضافے اور قومی تحفظ کی راہ میں اپنے وظایف پر پوری طرح عمل کرنے کی دعوت دیتے ہوئے وزارت خانوں اور علمی توانائی سے مربوط اداروں کے ذمہ داروں کو نصیحت فرمائی کہ وہ اپنے آپ کو غیر ضروری معاملات میں مداخلت سے بچائیں۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے اس بات پر تاکید کرتے ہوئے کہ انقلابی اور معتقد جوانوں کی حمایت کیا جانا ملکی توانائیوں میں سے ایک ہے فرمایا کہ جس طرح میں نے صراحت کے ساتھ اور واضح الفاظ میں کہا ہے کہ مومن انقلابی نوجوانوں کا دفاع کروں گا اور میں ان سے عقیدت رکھتا ہوں۔
رہبر انقلاب اسلامی نے اعلی سول اور فوجی حکام سے اپنی گفتگو میں  اقتصاد اور ایٹمی معاہدے کے بارے میں اہم نصیحتیں فرمائیں۔
آپ نے کساد بازاری اور بے روزگاری کو ملک کی دو اہم مشکلات قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ یہ مشکلات پابندیوں کے بجائے بیشتر موجودہ حکومت، سابقہ اور اس سے پرانی حکومتوں کی سیاست اور پالیسیوں کا نتیجہ ہیں۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے ان دو مشکلات کے حل کے لئے بعض راہ حل کا ذکر کرتے ہوئے چھوٹے اور درمیانے درجے کی صنعتوں کو ضروری قرار دیا اور فرمایا کہ اس طرح کی صنعتوں کا احیاء استقامتی معیشت کی بنیادوں میں سے ایک ہے اور اس کے زریعے کافی حد تک اقتصاد کو حرکت دی جاسکتی ہے اور روزگار فراہم کیا جاسکتا ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے کاموں کی ترجیحات طے کئے جانے کو بہت اہم قرار دیا اور فرمایا کہ یہ فطری بات ہے کہ ہر محترم وزیر اپنی مشکلات کو زیادہ اہمیت دے اور وسائل پیدا کرنے کے لئے زیادہ جدوجہد کرے لیکن حکومت کو چاہئے کہ وہ حقیقی ترجیحات طے کر کے اقتصادی حرکت میں تیزی لے کر آئے۔
آپ نے استقامتی معیشت کے میدان میں حکومت کی سرگرمیوں کے نتائج کے محقق ہونے کے سلسلے میں نیک امیدوں کا اظہار کرتے ہوئے نالج بیسڈ کمپنیوں کی حمایت کو مکمل ترجیح دیئے جانے اور کساد بازاری اور بے روزگاری جیسے مسائل کے حل کے لئے موثر اقدام قرار دیا۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے ملکی ضرورتوں کے مطابق غیر ملکی سرمایہ اور مالی زرائع کو ملک کے اندر لانے اور جذب کرنے کو بھی اہم قرار دیا اور فرمایا کہ اس مسئلے پر بھی ترجیحات طے کر کے اقدامات کئے جانے کی ضرورت ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے اعلی حکام کو ملکی سطح پر تیار کردہ مصنوعات سے مشابہت رکھنے والی یا جن مصنوعات کی ملک کو ضرورت ہی نہیں ہے انہیں درآمد کئے جانے، صنعتوں کے فرسودہ آلات اور مشینری کی تبدیلی، زراعت کے شعبے پر کامل توجہ، اور تیل کی مصنوعات کو خام صورت میں بیچنےکے بجائے مصنوعات کی تولید اور انہیں برآمد کرنے کے لئے توجہ اور سرمایہ گذاری کے سلسلے میں بھی نصیحتیں فرمائیں۔
آپ نے فرمایا کہ تیل کی پیداوار میں اضافہ اور اسے برآمد کیا جانا ملکی ضرورت ہے لیکن ایسا ملک جس کا شمار دنیا میں تیل اور گیس کے عظیم ذخائر رکھنے والے ممالک میں ہوتا ہو وہاں پٹرول درآمد نہیں کیا جانا چاہئے اور اعلی حکام کو اس مشکل کے حل کے لئے منصوبہ بندی اور اقدامات کرنے چاہئیں۔
حضرت آیت اللہ نے اس نظریئے کہ جو معتقد ہے کہ استقامتی معیشت کے لئے ضروری وسائل موجود نہیں ہیں پر تنقید کرتے ہوئے فرمایا کہ بینکوں میں عوام کا بہت بڑا سرمایہ موجود ہے اور قانونی طور پر انکو دی جانی والی سہولیات اور حوصلہ افزائی کے زریعے اس سرمایہ کو استقامتی معیشت کے حصول کے لئے استعمال کیا جا سکتا ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب کے آخری حصے میں مشترکہ جامع ایکشن پلان اور فریق مقابل کی جانب سے اپنے وعدوں پر عمل کئے جانے کے میزان پر گفتگو فرمائی۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے ملک کے اندر مشترکہ جامع ایکشن پلان کے حامیوں اور مخالفین دونوں کے موقف کو مبالغہ آرائی پر مبنی قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ جو لوگ مشترکہ جامع ایکشن پلان کی تعریفیں کرتے ہیں وہ بھی اور اس کے مخالفین و ناقدین بھی اپنی رائے پیش کرتے وقت مبالغہ آرائی اور اغراق سے کام لیتے ہیں جبکہ مشترکہ جامع ایکشن پلان میں مثبت پہلو اور اچھائیاں بھی ہیں، اور کمزوریاں اور خامیاں بھی ہیں۔
رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ مشترکہ جامع ایکشن پلان کے مثبت پہلو وہی ہیں جن کی وجہ سے اسلامی جمہوریہ ایران مذاکرات کے لئے آمادہ ہوا البتہ ان میں بہت سے مثبت پہلو اب تک حاصل نہیں ہوپائے ہیں۔
آپ نے مشترکہ جامع ایکشن پلان کی خامیوں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ خامیاں وہی ہیں جن کا اندیشہ ہمیں ہمیشہ سے تھا اور ہم نے بارہا اس بات کی تکرار کی تھی کہ فریق مقابل بد عہد اور بد ذات ہے جو بہانہ بنانے  کا عادی ہے اور اپنے وعدے سے پھر جاتا ہے۔
آپ نے فرمایا کہ مشترکہ جامع ایکشن پلان میں ایسے سوراخ موجود ہیں کہ اگر انہیں بند کردیا جائے تو اسکے عیب کم یا ختم ہو سکتے ہیں۔
حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے ایٹمی مذاکرات کاروں کی محنت و مشقت کی قدردانی کرتے ہوئے تاکید کے ساتھ فرمایا کہ ہم جو کچھ مشترکہ جامع ایکشن پلان کے بارے میں کہتے ہیں اس کا ان برادران عزیز کی محنتوں اور جدوجہد سے کوئی تعلق نہیں ہے، بلکہ اس کا مقصد فریق مقابل کی کارکردگی کا جائزہ لیا جانا ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے مشترکہ جامع ایکشن پلان کے مبہم پہلوؤں کا ذکر کرتے ہوئے کہ جن کا فریق مقابل غلط استعمال کر رہا ہے، تاکید کے ساتھ فرمایا کہ اسلامی جمہوریہ ایران نے مشترکہ جامع ایکشن پلان کی خلاف ورزی نہیں کی کیونکہ وعدہ نبھانا قرآن کا حکم ہے، لیکن اگر امریکی صدارتی امیدواروں کی مشترکہ جامع ایکشن پلان کو پھاڑ کر پھینک دینے کی دھمکی پر عمل کیا گيا تو اسلامی جہوریہ ایران اس معاہدے کو آگ لگا دے گا اور یہ کام بھی قرآن کے حکم کی تعمیل ہوگی جو طرفین کی جانب سے وعدہ توڑے جانے کے بارے میں ہے۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے اپنے خطاب میں امریکا کی وعدہ خلافی کے مصادیق گنواتے ہوئے فرمایا کہ فریق مقابل کا وظیفہ تھا کہ وہ پابندیوں کو ختم کرے لیکن اس نے اپنے اس وظیفے پر عمل نہیں کیا، یعنی بعض پابندیوں کو خاص انداز میں ختم تو کردیا لیکن عملی طور پر پابندیاں ختم نہیں ہوئی ہیں۔
رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ امریکیوں نے ابتدائی پابندیوں کو جوں کا توں باقی رکھا ہے جس کا اثر بعد کی پابندیوں پر بھی پڑ رہا ہے جنھیں ہٹایا جانا تھا۔
حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے فرمایا کہ متعلقہ افراد ان حقائق پر توجہ اور دقت کریں اور بار بار اس بات کی تکرار نہ کریں کہ پابندیاں اٹھا لی گئی ہیں۔
آپ نے غیر ملکی بینکوں کے ساتھ لین دین کی مشکلات کے حل نہ ہونے کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ امریکی حکام زبانی طور پر اور بیانیہ میں تو کہتے ہیں کہ ایران سے بینکوں کی لین دین میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے لیکن عملی طور پر وہ اس انداز سے کام کرتے ہیں کہ بینک ایران سے لین دین کی ہمت ہی نہ کر سکیں۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے اپنی گفتگو کے آخری حصے میں ایک امریکی عہدیدار کے اس بیان کا تذکرہ کرتے ہوئے کہ ہم ایران کو چین سے نہیں رہنے دیں گے، اسے انکے دوغلے پن کی واضح مثال قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ امریکیوں سے غیر ملکی بینکوں کے ایران کے ساتھ معاملات کی راہ میں رکاٹیں کھڑی کرنے کے سلسلے میں یہ گناہ سرزد ہوا اور امریکیوں کے اس کام کے لئے کسی کو بھی وضاحت نہیں دینی چاہئے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے آئل ٹینکرز کی انشورنس کے اہم موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے امریکیوں کی بد عہدیوں کی تفصیلات کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ البتہ وہاں بہت محدود پیمانے پر اس بیمہ کو قبول کیا گیا ہے لیکن وہاں کی بڑی بیمہ کمپنیوں نے ابھی تک حامی نہیں بھری ہے کیونکہ ان کمپنیوں میں امریکی عہدیدار موجود ہیں کہ جو اس سلسلے میں رکاوٹ بن رہے ہیں۔
آپ نے اسلامی جمہوریہ ایران کی جانب سے اپنے وعدوں پر عمل کئے جانے کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ ہم نے پے در پے اپنے وعدوں پر عمل کیا اور یورینیم کی بیس فیصد افزودگی اور فردو اور اراک ری ایکٹرز کو بند کر دیا لیکن فریق مقابل ابھی تک طلبگار ہے۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے ملک کی ایٹمی انرجی کمیشن کے سربراہ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا مقابل فریق کی سینٹی فیوجز بنانے میں استعمال ہونے والے کاربن فائبر اور تین سو کلوگرام ایٹمی مواد کے تخمینے کو مطلقا قبول نہ کریں نہ ہی ان کے دبائو میں آئیں۔
رہبر انقلاب اسلامی نے دوسرے ملکوں میں پھنسے ایران کے پیسوں کے بارے میں کہا کہ آج ملک کی تیل کی آمدنی تک رسائی بڑا دشوار اور مہنگا کام ہے اور دوسرے ملکوں کے بینکوں میں بھی ہماری جو رقم ہے اور اب تک ایران نہیں سکی ہے کیونکہ یہ رقم ڈالر کی شکل میں ہے اور امریکا کی دشمنی اور وعدہ خلافی کی وجہ سے ان کی منتقلی تعطل کا شکار ہو گئی ہے۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای اپنی گفتگو میں ایٹمی صنعت کو اسٹریٹجک صنعت قرار دیا کہ جسے بغیر کسی رکاوٹ کے جاری رہنا چاہئے اور اس میں توسیع ہونی چاہئے۔
آپ نے ملکی امن و امان کی برقراری اور اس میں اضافے کے سلسلے میں ایٹمی صنعت کی قابل احساس تاثیر کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ اس صنعت کی قابلیت ، اس سے جڑی ہوئی افرادی قوت اور اس کی اپنی پرانی صورتحال پر واپس پہنچنے جیسے موضوعات کا خاص خیال رکھا جانا چاہئے اور انکی حفاظت کی جانی چاہئے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے مزید فرمایا کہ خوش قسمتی سے پرانی صورتحال پر پلٹنے کی قابلیت موجود ہے اور ہم اگر ضروری سمجھیں گے تو جدید نسل کے سیٹی فیوجز کو ڈیڑھ سال سے بھی کم عرصے میں سو ہزار سے زیادہ تک پہنچا دیں گے، بنا بر ایں فریق مقابل یہ خیال نہ کرے ہمارے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے اعلی حکام کو امریکہ کی بد عہدی سے سنجیدہ مقابلہ کرنے کی تاکید کرتے ہوئے فرمایا کہ مقابل فریق کی جفائوں اور اسکے اقدامات کا مقابلہ کرنے کے لئے ہمیں اپنی توانائیوں کی حفاظت کرنی چاہئے۔
آپ نے ایران کی جانب سے یورینیم کی بیس فیصد افزودگی تک رسائی اور پیشرفتہ سینٹی فیوجز بنانے کو امریکہ کی جانب سے بعض معاہدوں کی قبولی کا اصل سبب قرار دیا اور تاکید کے ساتھ فرمایا کہ اگر ایران کا علمی اقتدار اور ٹیکنالوجی موجود نہ ہوتا تو امریکہ یقینی طور پر موجودہ صورتحال کو بھی قبول نہیں کرتا بنا بر ایں اس اقتدار میں پہلے سے زیادہ اضافہ کئے جانے کی ضرورت ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے ایٹمی ٹیکنالوجی سے متعلق آخری نکتہ بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ مشترکہ ایکشن پلان پر عمل درآمد کی نظارت کرنے والی کمیٹی سے ہمیں یہ توقع ہے کہ وہ بہت زیادہ توجہ کے ساتھ ہر اس نکتے پر کہ جس پر مقابل فریق نے عمل نہیں کیا یا خیانت سمجھی جاتی ہو قیام کرے اور ملت کے حقوق کا دفاع کرے۔
رہبر انقلاب اسلامی کی گفتگو سے پہلے صدر مملکت حجت الاسلام و المسلمین روحانی نے ماہ مبارک رمضان کو رحمت الہی کا مہینہ قرار دیا اور اپنی حکومت کے آغاز کے موقع پر ملک کی صورتحال کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ حکومت  نے مہنگائی کو کنٹرول کرنے کو اپنی ترجیحات میں شامل کیا ہے اور اس پوری مدت میں مہنگائی کی شرح کو چالیس اعشاریہ ایک فیصد سے گذشتہ سال کے اختتام پر گیارہ اعشاریہ نہ فیصد تک لے آئے ہیں اور آئندہ ماہ میں مہنگائی کی شرح کومزید کنٹرول کر لیں گے۔
صدر روحانی نے کرنسی مارکیٹ، اقتصادی ترقی اور کساد بازاری سے نجات حاصل کرنے کو حکومت کی دیگر پیشرفت قرار دیا۔
صدر مملکت نے اپنی گفتگو کے دوسرے حصے میں زراعت کے شعبے میں حکومت کی کارکردگی کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ گذشتہ تین سالوں کے دوران زرعی تولید ۹۷ میلین ٹن سے بڑھ کر ۱۱۲ میلین ٹن تک جا پہنچی ہے۔
صدر روحانی نے گندم اور چاول سمیت مختلف غذائی مواد کے ذخائر کے سلسلے میں کہا کہ دو سال پہلے کی نسبت اس وقت ہمارے ذخائر تین گنا زیادہ ہوچکے ہیں اور رواں سال گندم کی ۱۰ میلین ٹن تولید کی پیشن گوئی کی جا رہی ہے کہ جو ملکی ضرورت کے عین مطابق ہے۔
صدر روحانی نے تیل کی صنعت کی پیشرفت کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ پارس جنوبی گیس فیلڈ کے ۱۲، ۱۵، ۱۶ اور ۱۷ فیز کا افتتاح کیا جاچکا ہے اور اس سال کے آخر تک تین سے چار فیز کا مزید افتتاح کر دیاجائے گا۔
صدر مملکت نے کہا کہ اس پورے عرصے کے دوران گیس کی پیداوار ۱۵۰ میلین میٹر مکعب تک جا پہنچی ہے۔
انہوں نے ملک میں ٹرین لائن میں اضافے کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ریل کی پٹریوں مین ۴۷۵ کلومیٹر کا اضافہ کر دیا گیا ہے اور دیگر ۷۰۰ کلومیٹر کے لئے منسوبہ بندی کی جارہی ہے کہ جو ریل اور ٹرانزٹ کے میدان میں ایک بہت بڑا تحول شمار ہوتی ہے۔
صدر روحانی نے اس بات کا ذکر کرتے ہوئے کہ غیر ملکی تجارت میں بھی ہم نے مثبت تبدیلی کا مشاہدہ کیا ہے کہا کہ گذشتہ سال تقریبا ۶۰ سالوں کے بعد پہلی مرتبہ ہماری نان آئل برآمدات کو نان آئل درآمدات پر سبقت حاصل ہوئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ متوسط اندازے کے مطابق گذشتہ آٹھ سالوں کے دوران ملک کا تجارتی توازن منفی ۲۵ بیلین ڈالر تھا لیکن پہلی مرتبہ ہمارا تجاری توازن مثبت ہوچکا ہے۔
صدر روحانی نے اسی طرح ایٹمی مذاکرات کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ ان مذاکرات میں ہم نے ملت ایران کے ایٹمی حقوق کو ثابت کیا ہے اور ہم پر عائد پابندیوں کا خاتمہ ہوا ہے۔
صدر مملکت نے پابندیاں کتم ہونے کے بعد پہلا قدم تیل صادر کرنے والی منڈیوں کی دستیابی کو قرار دیا اور کہا کہ اس سلسلے میں تقریبا ہم پابندیوں سے پہلی والی شرائط کے نزدیک پہنچ چکے ہیں۔
صدر روحانی نے اس بات کا ذکر کرتے ہوئے کہ تیل کی پیداوار ۳۷۰ ہزار بیرل سے ۳۹۰ ہزار بیرل تک جا پہنچی ہے کہا کہ خام تیل کی برآمدات میں دو میلین بیرل کا اضافہ ہوا ہے۔
انہوں نے تاکید کے ساتھ کہا کہ آض ہمیں اپنے اہداف تک پہنچنے کے لئے استقامت اور اتحاد کی ضرورت ہے۔
انہوں نے بے روزگاری کو ملک کا اہم مسئلہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ حکومت نے تین سالوں کے دوران ایک میلین تین لاکھ چالیس ہزار نئے روزگار کے مواقع پیدا کئے ہیں اور اس وقت تقریبا ۲۲ میلین افراد روزگار میں مشغول ہیں۔
صدر روحانی نے اقتصادی ترقی کی راہ میں حائل ایک رکاوٹ مانگ کی کمی کو قرار دیتے ہوئے کہا کہ نئی منڈیوں کے بغیر ہم مطلوبہ اقتصادی ترقی تک نہیں پہنچ سکتے اس لحاظ سے ہمیں ملک کے اندر اور باہر نئی منڈیوں کی تلاش اور غیر ملکی سرمایہ کاری کی کوشش کرنی چاہئے۔
صدر مملکت نے نوجوانوں کی بے روزگاری سے متعلق رہبر انقلاب اسلامی کی گفتگو کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ یہ حکومت کے لئے بھی شرم کا مقام ہے کہ ایرانی تعلیم یافتہ نوجوان بے روزگار پھریں۔
صدر روحانی نے اس بات کا تذکرہ کرتے ہوئے کہ گذشتہ سال رہبر انقلاب اسلامی کے حکم کے مطابق استقامتی معیشت کے مرکز کا قیام عمل میں آیا ہے کہا کہ اس مرکز نے اب تک ۱۹ اجلاس بلائے ہیں اور ۱۱۰ منصوبوں کو اپنی ترجیحات میں شامل کیا ہے۔
صدر روحانی نے حکومت اور عوام کے درمیان اعتماد کے رشتے کے سست نہ پڑنے پر تاکیدکرتے ہوئے کہا کہ اگر کسی کونے میں کچھ افراد بہت زیادہ تنخواہیں لیتے ہیں تو اس کو ایک قومی مسئلے میں تبدیل نہ کریں اور حکومت بھی اس سلسلے میں تنقید سننے کے لئے تیار ہے۔
 

 

700 /