رہبر انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے پارلیمنٹ کے دسویں دور کے نو منتخب اسپیکر اور اراکین سے ملاقات میں مجلس شورائے اسلامی کے تمام امور سے بالاتر ہونے، اور اسکی ہیبت و وقار کی حفاظت کی تاکید کرتے ہوئے بہترین قوانین کی منظوری کو پارلیمنٹ کا لازمہ قرار دیا اور خطے اور عالمی سطح پر سیاست، ثقافت اور استقامتی معیشت جیسے میدانوں میں مجلس کے امور کی اولویت کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ مجلس شورائے اسلامی کو چاہئے کہ ملک میں امن و سکون کی روح پھونکنے کے ساتھ ساتھ انقلابی بھی ہو اور قوانین کے اجراء میں انقلابی طرز عمل اپنائے اور امریکہ کی خود غرضانہ اور دشمنانہ مواقف پر شدید ردعمل دکھائے اور استکبار کی سیاست کے مقابلے میں استقامت کا مظاہرہ کرے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے اپنی گفتگو کے آغاز میں دسویں پارلیمنٹ کے نو منتخب اراکین کو قوہ مقننہ میں خدمت گذاری کی توفیق حاصل ہونے پر مبارکباد پیش کرتے ہوئے اس ادارے کو والا مقام اور اعلیٰ و ارفع قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ پارلیمنٹ کی قانون سازی کی ذمہ داری بہت زیادہ اہم اور حکومت کی حرکت کے لئے پٹری بچھانے کے مترادف ہے۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے اس بات پر تاکید کرتے ہوئے کہ پارلیمنٹ کی مختلف امور پر نظارت کی ذمہ داری کا حکومت سے تعاون کے موضوع سے کوئی تضاد نہیں ہے، فرمایا کہ یہ تعاون پارلیمنٹ کا اپنے حقوق سے دستبردار ہونے کے معنی میں نہیں ہے اور پارلیمنٹ کے نمائندے اپنے تحقیق اور جستجو جیسے قانونی اختیارات سے استفادہ کرتے ہوئے قانونی کے صحیح اجراء کی نظارت کریں۔
آپ نے پارلیمنٹ کے نمائندوں کی جانب سے اسلامی معارف اور انقلاب کی نتائج اور آثار کی حفاظت کا حلف اٹھانے کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ پارلیمنٹ کو تمام تر امور سے بالاتر ہونا چاہئے اور پارلیمنٹ کے مقام اور اسکی حقیقی ہیبت و وقار کے تحفظ کی ذمہ داری پارلیمنٹ کے اراکین پر عائد ہوتی ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے اس بات پر تاکید کی کہ مجلس شورائے اسلامی کے مقام و منزلت کی حفاظت کی ضمانت مِیں سے ایک پارلیمنٹ کی جانب سے خود اپنی نظارت کیا جانا ہے۔ آپ نے بہترین قانون سازی اور اسکے لئے لازمی شرائط کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ قانون کو کیفیت کا حامل، مثالی، جامع، واضح، دوسرے قوانین سے تضاد کا حامل نہ ہونے، فساد کے خلاف، حکام بالا کی سیاست سے مطابقت کا حامل، حکومت اور حکومت کے باہر موجود ماہرین کی آراء سے اخذ شدہ اور مقامی مصلحتوں کا حامل ہونے کے بجائے قومی مصلحتوں کا حامل ہونا چاہئے۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے چھٹے شیڈول کے بل کو نئی پارلیمنٹ کا ایک انتہائی اہم ایجنڈا قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ اس وقت ملک کی موجودہ شرائط بہت حساس ہیں، بنا برایں چھٹے شیڈول کے بل کو توجہ، کسی رواداری اور کوتاہی کے بغیر، جائزہ لینے اور منظوری کے لئے پیش کیا جائے۔
آپ نے اسی طرح دسویں پارلیمنٹ میں نئے اراکین کی قابل توجہ تعداد کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ میں اس موضوع کو ایک بہترین موقع سمجھتا ہوں کیونکہ با تجربہ اراکین کے ساتھ نئے اور تازہ نفس اراکین کی موجودگی، ایک با نشاط اور متحرک پارلیمنٹ کے لئے زمینہ فراہم کرے گی کہ جس میں با تجربہ اراکین پارلیمنٹ کے تجربات سے استفادہ کیا جائے گا۔
رہبر انقلاب اسلامی نے اس کے بعد پارلیمنٹ کی ترجیحات میں شامل اہم امور کے موضوع پر گفتگو کی اور اس بات کی تاکید کرتے ہوئے کہ اقتصاد ایک بنیادی موضوع ہے، فرمایا کہ اراکین پارلیمنٹ استقامتی معیشت کے عملی ہونے میں بہت موثر واقع ہو سکتے ہیں کیونکہ وہ حکومت کے اقتصادی اقدامات کی سمت کو استقامتی معیشت کی سمت میں تبدیل کر سکتے ہیں اور اس سلسلے میں حکومت سے مطالبات بھی کرسکتے ہیں۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے دشمن کی جانب سے اسلامی نظام پر کاری ضرب لگانے کے لئے اقتصاد کے حربے سے استفادے کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ اگرچہ خطائیں وقوع پذیر ہوئیں اور بعض مواقف اور بعض مایوس کنندہ باتوں نے پابندیوں کا حربہ استعمال کرنے کے لئے دشمن کی حوصلہ افزائی بھی کی لیکن اقتصادی مشکلات خاص طور پر کساد بازاری اور ملازمتوں کے مسئلے کو حل ہونا چاہئے اور صرف باتوں کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔
آپ نے کساد بازاری اور ملازمتوں کے مسئلے کو حل کئے جانے اور داخلی پیداوار کو مستحکم کئے جانے کو اقتصاد کے شعبے میں ایک انتہائی اہم اور بنیادی ترجیح قرار دیا اور فرمایا کہ ایک جوان کی بے روزگاری کی وجہ سے نظام کو ہونے والی شرمندگی اس بے روزگار جوان کی اپنے گھر میں شرمندہ ہونے سے کہیں زیادہ ہے بنا بر ایں اس مشکل کے حل کے لئے سنجیدہ اقدامات کئے جانے چاہئیں۔
رہبر انقلاب اسلامی نے اسمگلنگ کے مسئلے کے سدباب کو اقتصاد کے موضوع پر پارلیمنٹ کی اہم ترجیحات میں سے قرار دیا اور فرمایا کہ اسمگلنگ، اسلامی نظام کی پیٹھ پر گھونپے جانے والے چھرے کی مانند ہے اور اس کا مقابلہ کوئی آسان کام نہیں لیکن حکومت کو چاہئے کہ وہ اس لعنت سے مقابلہ کرے اور پارلیمنٹ حکومت کے اس اقدام کی حمایت کرے۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے اس کے بعد ثقافت کے موضوع کو دسویں پارلیمنٹ کی ایک اور ترجیح قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ اقتصاد کا مسئلہ بہت زیادہ ترجیح رکھتا ہے اور ایک فوری حل کیا جانے والا مسئلہ ہے لیکن طویل مدتی منصوبہ بندی میں ثقافت کے مسئلے کو اقتصاد کے مسئلے پر فوقیت حاصل ہے۔
آپ نے مزید فرمایا کہ ثقافت کے موضوع پر ثقافتی اداروں کی جانب سے ایک طرح کی سستی دیکھنے کو ملی، کیونکہ مفید ثقافتی اشیاء کی پیداوار کے لئے اور مضر اشیاء کی پیداوار کا راستہ روکنے کے سلسلے میں کوتاہی کی گئی ہے۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے مزید فرمایا کہ بعض مواقع پر غیر ثقافتی اشیاء مثلا کھانے پینے کی بعض چیزوں سے پرہیز کرنے کے بارے میں ثقافتی اشیاء سے بھی کہیں زیادہ تاکید کی جاتی ہے، حالانکہ ان اشیاء کے عوام پر دوسری چیزوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ برے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
آپ نے مزید فرمایا کہ بعض اوقات بعض مضر ثقافتی اشیاء کی تولید یا انہیں درآمد کرنے کا سدباب اور ان کے خلاف اقدامات نہیں کئے جاتے، کیونکہ یہ خوف پایا جاتا ہے کہ ملزم اطلاعات کے آزادنہ بہائو کی راہ میں موجود رکاوٹوں کا فاءدہ اٹھاتے ہوئے آزاد ہوجائیں گے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے امریکہ اور یورپ کی جانب سے انفارمیشن کو شدت کے ساتھ کنٹرول کئے جانے کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ ہم ایسے عالم میں ان کے بے بنیاد الزامات خاص طور پر معلومات کے آزادانہ بہاو کے بارے میں خوف کھاتے ہیں کہ جب اس چیز پر ہماری طرح کے کنٹرول کا دسواں حصہ بھی ان ممالک میں نہیں پایا جاتا۔
پارلیمنٹ کے اراکین کے لئے رہبر انقلاب اسلامی کی اگلی نصیحت " انقلابی ہونے، انقلابی رہنے اور انقلابی عمل کرنے" کے بارے میں تھی۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے مجلس شورائے اسلامی کو ایک انقلابی اور انقلاب سے حاصل شدہ ادارہ قرار دیا اور اراکین پارلیمنٹ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ قانون سازی اور اپنے وظایف پر عمل کرنے کے مرحلے میں، اپنی گفتگو میں اور اپنے مواقف بیان کرتے ہوئے انقلابی روش اختیار کریں۔
آپ نے مختلف مسائل کے بارے میں پارلیمنٹ کے مواقف کو انتہائی اہم قرار دیا اور اس سلسلے میں پارلیمنٹ کے نویں دور کے فیصلوں کی قدردانی کرتے ہوئے مزید فرمایا کہ پارلیمنٹ کو چاہئے کہ وہ اسلامی انقلاب کے سیاسی معاند حلقوں کے مد مقابل واضح اور قاطع موقف اختیار کرے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف امریکی حکومت اور امریکی کانگریس کے دشمنانہ رویے کو تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ دشمنوں کی گستاخیوں کے مقابلے میں میدان میں آنا چاہئے اور اپنے بھرپور جواب سے ان کا منہ بند کروا دینا چاہئے، کیونکہ دشمن سیاسی میدان میں رد عمل کو سامنے رکھ کر محاسبہ کرتا ہے، اگر دیکھتا ہے کہ مقابل فریق سست اور عقب نشینی کرنے والا ہے تو پھر پیچھے نہیں ہٹتا اور بے جا مطالبات کرتا ہے۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے اسی سلسلے میں ایٹمی مذاکرات کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ امریکی حکمران چاہے وہ امریکی حکومت ہو یا کانگریس یا صدراتی انتاخابات کے امیدوار، مسلسل بے جا مطالبات کرتے ہیں، دھمکیاں دیتے ہیں اور ان کا رویہ اب بھی معاہدے طے پانے سے پہلے والے زمانے کا رویہ ہے اور اس گستاخی کے مقابلے میں خاموش نہیں بیٹھنا چاہئے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے اس کے بعد دشمن کی جانب سے ملک کے اندر اختلافات کو ہوا دینے کے منصوبے پر تفصیل سے گفتگو کرتے ہوئے فرمایا کہ دشمن اس بات کی کوشش کر رہا ہے کہ قومی، عقیدتی اور گروہی اختلافات کو فروغ دے اور اسے ایک زلزلے میں تبدیل کردے، بنا برایں پارلیمنٹ کے نمائندوں کو چاہئے کہ وہ اس سلسلے میں کوششیں انجام دیں تاکہ دشمن کے یہ منصوبے کامیاب نہ ہوسکں۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے مزید فرمایا کہ اراکین پارلیمنٹ اپنے نقطہ نگاہ اور اپنی سیاسی بصیرت کے مطابق ووٹ دے سکتے ہیں اور کسی بھی موضوع کی حمایت یا اسکی مخالفت میں اظہار نظر یا تنقید کر سکتے ہیں لیکن کسی بھی صورت پارلیمنٹ کے گذشتہ ادوار کی مانند نوبت اختلافات، زبانی نوک جھونک، گریبان تک ہاتھ پہنچنے یا بحران کھڑا کرنے تک بات نہیں پہنچنی چاہئے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے پارلیمنٹ میں بحران کھڑا کرنے کو معاشرے میں اسکی تنزلی، اور معاشرے میں سیاسی کشمکش اور اسکے منفی اثرات کو سبب قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ پارلیمنٹ میں آرام و سکون کی حکمرانی ہونی چاہئے اور یہ آرام و سکون یقینی طور پر معاشرے تک بھی منتقل ہوگا۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے اس کے بعد خطے میں دشمنوں کی سازشوں کی منصوبہ بندی پر گفتگو کرتے ہوئے فرمایا کہ دشمن نے مغربی ایشیا کے حساس اور اہم علاقے کے لئے منصوبہ بنا رکھا ہے اور اسکی کوشش ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران کی سیاست کو ناکام بنا دے کہ جو اس منصوبے کا سد راہ ہے۔
آپ نے مغربی ایشیا کے علاقے کی چند خصوصیات کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ اسلام اور مسلمانوں کی موجودگی، تیل اور معدنیات کے عظیم ذخائر، اور غاصب صیہونی حکومت کی اس خطے میں موجودگی نےاسکو بہت اہمیت کا حامل بنا دیا ہے اور انکا اس خطے کے لئے وہی منصوبہ ہے کہ جسے چند سال پہلے نئے مشرق وسطی یا عظیم مشرق وسطی کے نام سے پیش کیا گیا تھا۔
رہبر انقلاب اسلامی نے اسلامی جمہوریہ ایران کی استقامت کو اس خطے من جملہ عراق، شام، لبنان، اور فلسطین میں امریکی سازش کی ناکامی کی اہم وجہ قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ اس طرح کی تسلط پسندانہ سیاست کے مقابلے میں قیام کرنا چاہئے اور استکبار کی مذموم سازش کو عیاں کرنا چاہئے۔
آپ نے دشمن کی مورد پسند مواقف سے پرہیز کئے جانے کی تاکید کرتے ہوئے فرمایا کہ استکبار اور تسلط پسند نظام کی حقیقتوں اور اسکے اصلی کردار کو اپنے مواقف اور اپنی گفتگو میں بیان کریں اور اس بات کا خیال رکھیں کہ آپ کی گفتگو اور آپ کا کردار کہیں امریکہ اور غاصب صیہونی حکومت کی مدد نہ کر رہا ہو۔
رہبر انقلاب اسلامی نے اپنی گفتگو کے آخری حصے میں فرمایا کہ دشمن نے عالمی، خطے کی اور ملکی سطح پر اسلامی نظام کے خلاف منصوبہ بنا رکھا ہے۔ عالمی سطح پر تہمتیں لگانے، خطے کی سطح پر اپنے مذموم اہداف کی تکمیل کے لئے منصوبوں کے راستے پر موجود رکاوٹیں ہٹا کر اور ملکی سطح پر اختلافات کو ہوا دے کر اس کام کو انجام دے رہا ہے، بنا بر ایں تمام اداروں بالخصوص مجلس شورائے اسلامی کے نمائندوں اور اعلی حکام کو چاہئے کہ اس طرح کی سازشوں سے ہوشیار رہیں۔
رہبر انقلاب اسلامی نے اسی طرح ماہ ضیافت الہی یعنی ماہ مبارک رمضان کی آمد کو دعا، خود سازی اور عمل صالح کے لئے بہترین موقع قرار دیا اور فرمایا کہ آپ عزیزان کے پاس جو پارلیمنٹ میں موجودگی کا موقع ہے وہ جلد گذر جانے والا ہے اور آپ کو چاہئے کہ اس موقع کی قدر کو پہچانیں اور اپنے وظایف کی انجام دہی کے لئے خدا سے مدد طلب کریں۔
رہبر انقلاب اسلامی کی گفتگو سے پہلے مجلس شورائے اسلامی کے سربراہ جناب لاریجانی نے امام راحل کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے، دسویں پارلیمنٹ کی ترجیحات اور منصوبہ بندیوں کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ اسلامی انقلاب کے محکم قلعے کے دفاع کی ذمہ داری ہمارے کاندھوں پر ہے اور جو چیز اس وقت اس پر آشوب خطے کو امن و سکون اور پائیدار ثبات دے سکتی ہے اور اسلامی جمہوریہ ایران میں امن و امان برقرار رکھ سکتی ہے وہ انقلابی نقطہ نگاہ اور اس پر عمل کرنا ہے۔
انہوں نے کہا کہ انقلابی ہونا مجلس شورائے اسلامی کا بنیادی نقطہ ہے اور دسویں ارلیمنٹ خطے کو درپیش مسائل اور مشکلات کو اہم سمجھتے ہوئے انکا بہت سنجیدگی سے جائزہ لے گی۔
پارلیمنٹ کے اسپکیر نے ایٹمی معادے کے بعد امریکہ کی جانب سے مسائل کھڑے کرنے ککا تذکرہ کرتے ہوئے کہ جو اس بات کا غماز ہے کہ استکبار ملت ایران کے مفادات کو نقصان پہچانے کے درپے ہے، کہا کہ پارلیمنٹ کے اراکین اس بات کو اپنی ذمہ داری سمجھتے ہیں کہ وہ ملت ایران کے مفادات کے دفاع کے لئے پارلیمنٹ کو ایک سپر بنا کر اغیار کا مقابلہ کریں۔
جناب لاریجانی نے موجودہ شرائط میں حکومت اور عوام، اسی طرح مجریہ، عدلیہ اور مقننہ کے مابین تعاون اور ہم دلی کو ایک ضروری امر قرار دیا اور اس بات کا تذکرہ کرتے ہوئے کہ جمود سے باہر نکلنے کے لئے تیز اور سنجیدہ اقدامات انجام دیئے جانے کی ضرورت ہے کہا کہ پارلیمنٹ استقامتی معیشت کے احیاء کو اپنا محور قرار دے کر اپنے تمام کمیشنز میں اس موضوع کو اولویت دے گی اور استقامتی معیشت کے احیاء کے لئے ضروری منصوبہ بندی اور بل پیش کر کے اور اس اہم کام کی نظارت کے لئے ضروری اقدامات انجام دے گی۔