ویب سائٹ دفتر رہبر معظم انقلاب اسلامی

رہبر انقلاب اسلامی کی امام حسین ع یونیورسٹی کی پاسنگ آوٹ پریڈ میں شرکت

دشمن اثر و رسوخ کے درپے ہے / استکبار ملت ایران کی استقامت اور عظیم جہاد کی وجہ غضبناک ہے

تین خرداد، خرم شہر کی آزادی اور آپریشن بیت المقدس کے عظیم دن کے موقع پر رہبر انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمیٰ خامنہ ای کی موجودگی میں امام حسین یونیورسٹی میں کیڈٹس کی پاسنگ آوٹ پریڈ کی تقریبات کا آغاز ہوا۔
رہبر انقلاب اسلامی نے میدان میں داخل ہو کر سب سے پہلے گمنام شہداء کے مزار پر فاتحہ خوانی کی، مقدس دفاع کے شہیدوں کو خراج تحسین پیش کیا اور خداوند متعال سے ان کی بلندی درجات کے لئے دعا کی۔
سپریم لیڈر نے اس موقع پر میدان میں ایک یونٹ کی پریڈ کا معائنہ کیا۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے اس کے بعد میدان میں موجود جانبازوں من جملہ چند جانباز مدافعین حرم اور چند شہیدوں کے اہل خانہ سے بھی ملاقات کی۔
رہبر انقلاب اسلامی نے اس تقریب میں اپنی اہم گفتگو کے دوران استقامت اور استکباری محاذ کی پیروی نہ کرنے کو قرآنی اور اسلامی منطق یعنی عظیم جہاد کا معنی قرار دیا۔ اسلامی جمہوری نظام میں اسکے زاویوں اور ضرورت کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے اور استکبار کی جانب سے اسلامی نظام کی شناخت کو بدلنے اور اس میں اثر و رسوخ حاصل کرنے کے لئے کی جانے والی منظم منصوبہ بندی اور کوششوں کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ اس وقت " انقلابی نعروں اور مفاہیم کی گہرائی اور عمق کو بیان کرنے اور انکا پرچار کرنے کے لئے سنجیدہ اقدامات"، " سطحی اقدامات سے پرہیز"، " مستقبل کے لئے افردای قوت تیار کرنے" اور" انقلاب کے گذشتہ سینتیس سالوں کے حیرت انگیز اور غنی علمی تجربات کی تدوین" یونیورسٹیوں، مدرسوں، مومن اور انقلابی افراد اور جوانوں، اسی طرح سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کی اہم ذمہ داریاں ہیں۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے قطب عالم امکاں حضرت صاحب الزماں عج کی ولادت باسعادت کی مبارک باد دیتے ہوئے اور ساتھ ہی ساتھ تین خرداد کو خرم شہر کی فتح پر خراج تحسین پیش کرتے ہوئے اس دن کو انقلاب کی تاریخ میں یادگار دنوں میں سے ایک دن قرار دیا اور اسے قدرت الہی کا مظہر قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ خرم شہر کی آزادی کے لئے کئے گئے آپریشن اور اسی طرح مقدس دفاع کے دوسرے آپریشنوں کے بارے میں بہت زیادہ تفصیلات موجود ہیں کہ جن سے شاید عوام اور خاص طور پر ہماری جوان نسل آشنا نہ ہو، اسی وجہ سے یہ تاکید کی جاتی ہے کہ ان آپریشنوں سے متعلق کتابوں کا ضرور مطالعہ کیا جائے۔
آپ نے خرم شہر کی آزادی کے لئے کیئے جانے والے آپریشن کے ایک اہم نکتے اور قدرت الہی کی حمایت کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ امام بزرگوار، اس مرد خدا اور حقیقی حکیم الہی نے فرمایا تھا کہ خرم شہر کو خدا نے آزاد کیا ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے مزید فرمایا کہ اس لحاظ سے، جب تمام جدوجہد اور کوششیں انجام دی جائیں اور اپنی پوری توانائی کے ساتھ میدان میں اترا جائے اور پھر خدا پر توکل کیا جائے، تو ایسے موقع پر دست خدا مستحکم حمایت کے عنوان سے مدد کو پہنچے گا، اور دشمن کے ہاتھ سے خرم شہر کی آزادی کے سلسلے میں یہ تمام امکانات اور وسائل موجود تھے۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے فرمایا کہ اس لحاظ سے استکبار کے زیر قبضہ موجود پوری دنیا اور فلسطین کی آزادی کے امکانات موجود ہیں اور اس بات کا امکان بھی موجود ہے کہ پوری دنیا میں کوئی قوم بھی مستضعف نہ ہو۔
آپ نے تاکید کے ساتھ فرمایا کہ جو قوم بھی اس منطق یا نظریئے کی حامل ہو اور اپنی پوری جدوجہد اور کوششیں کرے اور خدا پر توکل کرے، وہ کبھی بھی بڑی طاقتوں کی فوجی، مالی، تشہیراتی اور سیاسی طاقت سے مرعوب نہیں ہوگی۔
رہبر انقلاب اسلامی نے گذشتہ سینتیس سالوں کے دوران اسلامی انقلاب کو شکست دینے کے لئے استکباری محاذ کی کوششوں اور انکی مختلف سازشوں اور منصوبہ بندیوں کی ناکامی کو جدوجہد اور خدا پر توکل کے ساتھ استقامت کے نظریئے کی پیروی قرار دیا اور فرمایا کہ ملت ایران اسی طرح میدان میں موجود ہے اور جوانوں کی ایک بڑی تعداد حاضر ہے کہ اپنی جانیں انقلاب کی راہ میں فدا کردے اور یہ وہی چیز ہے جس نے خدائی طاقت و قدرت کو اپنی جانب متوجہ کیا ہے۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے استکباری محاذ کا اس انداز میں سامنا کرنے کو نامنظم جنگ کا نام دیا اور فرمایا کہ اس نا منظم جنگ میں دونوں جانب طاقت اور توانائیوں کے ایسے ذخیرے موجود ہیں کہ جو فریق مقابل کے پاس موجود نہیں ہیں اور اسلامی نظام کی قدرت اور طاقت کا سرچشمہ خدا پر اعتماد اور توکل، کامیابی کا یقین اور مومن انسانوں کے ارادے کی طاقت پر اعتماد کیا جانا ہے۔
آپ نے اس بات پر تاکید کرتے ہوئے کہ یہ نا منظم جنگیں ارادوں کی جنگیں ہیں، فرمایا کہ اس جنگ کے میدان میں، اگر دونوں فریقوں میں سے کسی ایک کا بھی ارادہ سست پڑا تو اسے یقینی طور پر شکست کا سامنا کرنا پڑے گا، بنا بر ایں ہمیں اس بات کا خیال رکھنا چاہئے کہ کہیں دشمن کے وسوسے اور اسکی تشہیرات ہمارے ارادوں میں خلل پیدا نہ کردیں۔
رہبر انقلاب نے اس جنگ کو زمینی جنگ سے زیادہ وسیع اور ایک طرح کے جہاد سے تعبیر کرتے ہوئے فرمایا کہ آج ہمارے ملک کے خلاف کسی بھی طرح کی روایتی جنگ کے امکانات بہت کم ہیں لیکن جہاد کا موضوع باقی ہے اور یہ جہاد کہ جو قرآن اور اسلام کی منطق ہے یہ " عظیم جہاد" یعنی" استقامت، مزاحمت اور کفار و مشرکین کی پیروی نہ کرنے" کے معنی میں ہے۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے اس بات پر تاکید کرتے ہوئے کہ یہ عظیم جہاد سیاسی، اقتصادی، ثقافتی اور ہنری میدانوں میں بھی موجود اور متجلی ہے، فرمایا کہ ان تمام میدانوں میں، کافروں اور مشرکوں کی پیروی کرنے کے بجائے ہمیں چاہئے کہ ہم  اسلام اور قرآن کے ایجنڈے کی اطاعت کریں۔
آپ نے اسلامی جمہوریہ ایران اور استکبار کے لئے اہم مسئلہ پیروی کے موضوع کو قرار دیا اور فرمایا کہ وہ اپنے تمام تر وسائل، دھونس دھمکیاں، دبائو، ثقافتی، سیاسی اور تشہیراتی کوششیں اور اپنے خائن پٹھووں کو بروئے کار لا رہے ہیں تاکہ اسلامی نظام کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیں اور اسے اپنی اطاعت پر مجبور کردیں، لیکن ملت ایران سے انکی ناراضگی کا جو سبب ہے وہ یہ ہے کہ ہمارے عوام مسلمان ہونے کی وجہ سے استکبار کی اطاعت کے لئے تیار نہیں ہیں۔
رہبر انقلاب اسلامی نے ایٹمی انرجی، میزائیل کی طاقت اور انسانی حقوق جیسے موضوعات چھیڑے جانے کو ایک بہانہ قرار دیا اور تاکید کے ساتھ فرمایا کہ ان تمام تر دشمنیوں اور بہانے بازیوں کی اصل وجہ استکبار کی اطاعت نہ کرنا ہے کیونکہ اگر ملت ایران انکی اطاعت کرنے کے لئے تیار ہوتی تو وہ بھی قطعا میزائیل کی طاقت اور ایٹمی انرجی جیسے موضوعات میں سمجھوتہ کر لیتے اور کبھی بھی انسانی حقوق کا نام بھی نہیں لیتے۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے میزائیل کے موضوع پر خاص طور پر ایک اہم بات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے تاکید کے ساتھ فرمایا کہ ابھی چند دنوں سے انہوں نے ایران کے  میزائیلوں کے خلاف ایک جنجال کھڑا کیا ہوا ہے لیکن وہ جان لیں کہ اس شور شرابے کا کوئی اثر نہیں ہوگا اور وہ ہمارا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتے۔
آپ نے دشمن کی اسلامی نظام سے دشمنی کی وجوہات بیان کرتے ہوئے مزید فرمایا کہ امریکی اس بات کی بہت زیادہ کوششیں کرتے ہیں کہ اپنی دشمنی کی اصل وجہ کو زبان پر نہ لائیں لیکن بعض اوقات انکی گفتگو میں اس مسئلے کا راز فاش ہوجاتا ہے، جیسا کہ چند دنوں پہلے ایک امریکی عہدے دار نے ایران پر ہمیشہ کی طرح لگائے جانے والے الزامات کی تکرار کرتے ہوئے ناچاہتے ہوئے بھی آئیڈیالوجی یعنی اسی اسلامی تفکر کا تذکرہ کیا کہ جس کی وجہ سے ایران استکباری اور کفر کے محاذ کے دبائو میں نہیں آیا۔
رہبر انقلاب اسلامی نے استقامت، دشمن کی اطاعت نہ کرنے اور اسلامی اور انقلابی شناخت کی حفاظت کو اسلامی نظام اور ایرانی عوام کے اقتدار کی اصل وجہ قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ امریکہ اور دوسری طاقتیں، اس بات پر بہت زیادہ ناراض ہیں اور ان کے پاس کوئی چارہ بھی نہیں ہے اسی لئے وہ بہت زیادہ کوششیں کررہے ہیں کہ شاید وہ اس ملک کے فیصلے کرنے والے اور ملک کے بارے میں لائحہ عمل تیار کرنے والے اداروں کو اپنی دسترس میں لے آئیں لیکن وہ یہ نہیں کرپائے اور خداوند متعال کی توفیقات کی وجہ سے وہ ایسا کر بھی نہیں پائیں گے۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے مزید فرمایا کہ سپاہ کی اصلی ذمہ داری انقلاب کی پاسداری ہے، بنابرایں عظیم جہاد، سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کے منصوبوں میں اولویت کا حامل ہونا چہائے۔
آپ نے سپاہ پر بہت زیادہ تہمتیں اور الزامات کی بوچھاڑ کئے جانے کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ اس غصے کی اصل وجہ سپاہ کی جانب سے انقلاب کی راہ پر استقامت، اپنے آپ کو وابستگیوں سے بچانا اور اسکی انقلابی اور اسلامی فکر ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے ملک کے جوانوں اور اس تقریب میں موجود طالبعلموں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ انقلاب کا مستقبل آپ سے وابستہ ہے اور یہ آپ ہیں کہ جنہیں اس عزت دار تاریخ کی حفاظت کرنا ہے اور آپ کو یہ بات بھی جان لینی چاہئے کہ مستقبل میں مزید خرم شہر جیسے واقعات درپیش ہیں، البتہ دوبدو لڑائی کے میدانوں میں نہیں بلکہ ایسے میدانوں میں جہاں دوبدو لڑائی کی ویرانیاں نہیں ہیں اور اس کے برعکس خوشحالی بھی آئے گی لیکن یہ جنگ دوبدو لڑائی سے کہیں زیادہ سخت تر ہے۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے تمام زاویوں سے اقتصاد، ثقافت اور معاشرے میں موجود عظیم جہاد کے مختلف پہلووں کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے فرمایا کہ استقامتی معیشت کے عملی ہونے پر تاکید اسی جہاد کا اقتصادی پہلو ہے، اس بات پر تاکید کہ مومن، انقلابی اور حزب اللہی جوان اپنی ثقافتی سرگرمیوں کو پوری قدرت و طاقت کے ساتھ انجام دیں اور دوسرے ثقافتی ادارے بھی اسی سمت حرکت کریں، یہ اس جہاد کا ثقافتی پہلو ہے، اور اس بات پر تاکید کہ ملک کی تمام تر توانائیوں اور صلاحیتوں کو ترقی و پیشرفت کے لئے استعمال کیا جائے یہ اس عظیم جہاد کا سرگرم سماجی پہلو ہے۔
آپ نے اس حرکت کے مخالفین کی جانب سے ناروا تہمتیں لگائے جانے اور اس بات کا دعویٰ کئے جانے کا ذکر کرتے ہوئے کہ اندرونی توانائیوں اور صلاحیتوں سے استفادہ کیا جانا دراصل دنیا سے تعلقات ختم کرنے کے مترادف ہے فرمایا کہ ہم کبھی بھی دنیا سے تعلقات منقطع کرنے اور اپنے گرد حصار کھینچنے کے قائل نہیں ہیں بلکہ ہم یہ کہتے ہیں کہ ہمارے رابطے سیاسی اور اقتصادی مبادلے کے حامل ہونے چاہئیں، لیکن اپنی شخصیت اور اصل شناخت کو نہ بھولیں اور جب آپ بات کرنا چاہیں یا معاہدہ کرنا چاہیں تو اسلامی جمہوریہ ایران کے نمائندے بن کر گفتگو کریں اور معاہدے کی میز پر بیٹھیں اور ہوشیاری کے ساتھ اقدامات کریں۔
رہبر انقلاب اسلامی نے اس بات پر تاکید کرتے ہوئے کہ عظیم جہاد کو ہوشیاری اور اخلاص کی ضرورت ہے، دشمن کی جانب سے اثر و رسوخ پیدا کرنے کی امیدیں لگانے اور کوششیں کرنے کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ آج دشمن، اسلامی نظام پر کاری ضرب لگانے کے بارے میں مایوس ہوچکا ہے لیکن وہ مختلف پیچیدہ طریقوں سے اثر و رسوخ کے درپے ہے تاکہ ایرانی جوانوں کی شناخت کو امریکہ اور استکبار کی پسندیدہ شناخت میں تبدیل کردے کیونکہ اس طرح اسے اپنے اہداف اور اپنے منصوبوں کے اجرا میں کسی قسم کی پریشانی نہیں ہو گی نہ ہی اسے سرمایہ خرچ کرنا پڑے گا۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے امریکہ اور استکباری محاذ کو، ملت ایران کی صحیح شناخت نہ ہونے کا سبب، انکے غلط اندازوں کو قرار دیا اور فرمایا کہ البتہ وہ اثر و رسوخ پیدا کرنے کے بارے میں نا امید نہیں ہوئے ہیں اور ایسی صورتحال میں ملت ایران کے غم خواروں، اسلامی نظام من جملہ سپاہ پاسدارن کے کاندھوں پر بھاری ذمہ داریاں عاءد ہوتی ہیں۔
آپ نے اس بات پر تاکید کرتے ہوئے کہ سپاہ کو چاہئے کہ فوجی صلاحیتوں کے اعتبار سے ہمیشہ بہترین اور جدید ترین شکل میں آمادہ و تیار رہے، مزید فرمایا کہ لیکن سپاہ کی ذمہ داری صرف جنگ کے میدان میں نہیں ہے بلکہ موجودہ دور میں، انقلاب کے دلسوز، دوست اور وفادار ساتھیوں من جملہ سپاہ کا ایک اہم وظیفہ عوام کے سامنے انقلاب کے گہرے اور عمیق مفاہیم کی وضاحت، انہیں بیان کرنا اور ان سے لوگوں کو آشنا کروانا ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے تمام افراد کو ان مفاہیم کے بیان کرنے اور انکی وضاحت کرنے اور اساسی کام انجام دینے کی نصیحت کرتے ہوئے مزید فرمایا کہ انقلابی مفاہیم کے بیان کرنے اور ان کی گہرائیوں کی وضاحت کیا جانا اس عظیم جہاد کی بنیادی ضرورتوں میں سے ہے کیونکہ انقلابی مفاہیم ، راستے کی علامتوں کی مانند انقلاب کے صحیح راستے اور صراط مستقیم کی نشاندہی کرتے ہیں۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے انقلابی حقائق اور مفاہیم کے ادراک کے لئے جذبات اور احساسات کو ضروری مگر ناکافی قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ اگر ان مسائل کو سنجیدہ اور عمیق انداز میں بیان کیا جائے تو یقیننا عوام کا ان مفاہیم پر یقین کبھی بھی ختم نہیں ہو گا اور اس میں دائمی ثبات پیدا ہوجائے گا۔
آپ نے انقلاب کے مختلف مرحلوں میں بعض افراد کی ایک سو اسی درجہ مخالفت کی اصل وجہ ان مسائل پر انکی سطحی نگاہ اور انکی فکر کے پختہ نہ ہونے کو قرار دیا اور فرمایا کہ انقلاب کے اصلی مسائل اور مفاہیم کے سلسلے میں فکر کی گہرائیوں میں جانا چاہئے اور صالح اساتذہ سے استفادہ کیا جانا چاہئے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے "مستقبل کے لئے افردای قوت تیار کرنے" اور" انقلاب کے گذشتہ سینتیس سالوں کے حیرت انگیز اور غنی علمی تجربات کی تدوین" کو اس عظیم جہاد کے لئے دیگر اہم موضوعات قرار دیتے ہوئے مزید فرمایا کہ ان موضوعات پر کام کرنا تمام یونیورسٹیوں، مدرسوں اور خاص طور پر امام حسین ع یونیورسٹی کا وظیفہ اور انکی ذمہ داری ہے۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے سنجیدہ اقدامات کی ضرورت پر گفتگو کرتے ہوئے بعض غیر منطقی اقدامات پر تنقید کی اور تاکید کے ساتھ فرمایا کہ بعض اوقات بعض افراد اور جوان کہ جو ممکن ہے کہ مومن اور صالح بھی ہوں ، کسی ایک فرد یا ایک گفتگو کی مخالفت کی وجہ سے شور شرابہ کردیتے ہیں اور اس تقریب کو درہم برہم کردیتے ہیں، حالانکہ میں پہلے سے ہی ان کاموں کا مخالف ہوں جنکا کوئی فائدہ ہی نہیں ہے اور میرا یہ ماننا ہے کہ کام کو درست اور ہوشیاری سے انجام دینے اور انہیں گفتگو کرنے میں ہی فائدہ ہے۔
آپ نے مومن اور انقلابی جوانوں کو ہوشیاری کی دعوت دیتے ہوئے فرمایا کہ البتہ بعض اوقات بعض افراد اپنی مقاصد کے حصول کے لئے غلط کام انجام دیتے ہیں اور پھر ایسا ظاہر کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ جیسے یہ حزب اللہی اور مومن جوانوں کا کام ہے، بنا برایں ہمیں ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے سنجیدہ اور تفصیل کے ساتھ وضاحت کئے جانے اور ہوشیاری کے ساتھ صحیح اقدامات انجام دیئے جانے کو اصل ذمہ داری قرار دیتے ہوئے تاکید کے ساتھ فرمایا کہ یہ تمام تر اقدامات اس وقت موثر واقع ہوں گے کہ جب ہم خداوند متعال سے توکل اور اس سے توسل کریں۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے اپنی گفتگو کے اختتام پر قرآن سے زیادہ انسیت اور آیات الہی میں غور و فکر کئے جانے، نماز پر توجہ کئے جانے اور اسے حضور قلب کے ساتھ ادا کئے جانے، اور ماہ مبارک شعبان اور رمضان کے موقع سے بھرپور فائدہ اٹھانے کو خداوند متعال سے قلبی رابطے کو مستحکم کرنے کے لئے ضروری قرار دیا۔
اس تقریب میں سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کے سربراہ میجر جنرل محمد علی جعفری نے امریکہ کے بے جا تقاضوں کے سامنے استقامت دکھانے کو اسلامی نظام کے اقتدار کی اصل وجہ قرار دیا اور کہا کہ سپاہ نے دشمنوں کی سازشوں کو ناکام بنانے کے لئے " انقلاب کی پاسداری کے لئے قدرت و طاقت میں اضافے"، " اسلامی انقلاب کی صورت اور سیرت کی تکرار"، اور " رہبر انقلاب اسلامی کی تدبیروں کو عملی میدان میں منتقل کرنے" جیسی اسٹریٹجیز پر اپنی توجہ مرکوز کر رکھی ہے۔
سپاہ کے سربراہ نے خطے کی رجعت پسند طاقتوں کی جانب سے امریکہ کی نیابت میں جنگ کی آگ بھڑکانے کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ بیداری اور اسلامی مزاحمت اب بھی جاری ہے اور تسلط پسند نظام کی سازشیں اسلامی انقلاب اور اسلامی بیداری کا راستہ نہیں روک سکتیں۔
میجر جنرل جعفری نے مزید کہا کہ ہمارے جوان پاسدار، مستقبل میں دشوار ترین اور پیچیدہ ترین محاذوں پر اسلام، انقلاب اور اسلامی نظام کی عزت کا پوری قوت و طاقت سے دفاع کرنے کے لئے آمادہ و تیار ہیں۔
اس موقع پرامام حسین ع یونیورسٹی کے سربراہ ایڈمیرل مرتضی صفاری نے بھی اس یونیورسٹی کی علمی، ثقافتی، تعلیمی سرگرمیوں اور جوانوں کی فوجی صلاحیتوں کے بارے میں رپورٹ پیش کی۔
اس تقریب میں امام حسین یونیورسٹی کے متعدد افسروں، مدروں، محققین، طالبعلموں کے نمائندوں اور ممتاز طالبعلموں نے رہبر معظم انقلاب سے اپنے انعامات اور تحائف وسول کئے اور امام حسین یونیورسٹی کے طالبعلموں کے نمائندے نے فوجی اعزاز حاصل کیا۔
" عبادی الصالحون" نامی پروگرام امام حسین یونیورسٹی کی پاسنگ آوٹ پریڈ کی تقریب کا ایک اہم پروگرام تھا۔
اس تقریب میں میدان میں موجود فوجی یونٹوں نے سپریم لیڈر کے سامنے پریڈ کی۔

 

700 /