رہبر انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے افغانستان کے چیف ایگزیکٹیو ڈاکٹر عبداللہ عبد اللہ سے ملاقات میں افغانستان میں " قومی وحدت" کو اس ملک کی مشکلات کا اہم ترین حل قرار دیتے ہوئے اور ایران اور افغانستان کے درمیان سابقہ تعلقات اور ایک دوسرے سے تعاون کے بے پناہ مواقع موجود ہونے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ اسلامی جمہوریہ ایران افغانستان میں امن و ثبات اور ترقی و پیشرفت کو اپنا امن و ثبات اور ترقی و پیشرفت سمجھتا ہے۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے افغانستان میں قومی وحدت کی حکومت کی تشکیل کو بہترین جدت عمل قرار دیا اور افغانستان کے مسائل کے حل کی امید ظاہر کرتے ہوئے فرمایا کہ ان شاء اللہ قومی وحدت پر مبنی حکومت حقیقی اور اصلی شکل اختیار کرے گی، کیونکہ افغانستان کی مشکلات کا حل قومیتوں اور حکام کے درمیان حقیقی اتحاد و ہم ہنگی میں مضمر ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے افغانستان میں مختلف قوموں اور شیعہ سنی مسلمانوں کی ایک طویل عرصے سے پرامن بقائے باہمی کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ ہم قدیم زمانے سے افغانستان کے عوام کو صابر، قناعت پسند، سخت جان، دیندار اور ادبی ذوق کے حامل افراد کی حیثیت سے پہچانتے ہیں، لیکن قوموں کے اختلافات اور تفرقے کے اسباب کسی بھی قوم کو کمزور کر سکتے ہیں۔
آپ نے ایران کی جانب سے افغان عوام کی حمایت کئے جانے من جملہ افغانستان پر سوویت یونین کے قبضے کی اسلامی جمہوریہ ایران کی جانب سے مخالفت اور افغان مجاہدین کی حمایت کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ اسلامی جمہوریہ ایران آج بھی افغانستان کے ساتھ کھڑا ہے اور تقریبا 30 لاکھ افغان مہاجرین کا میزبان ہے۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے ایران میں 16 ہزار افغان اسٹوڈنٹس اور یونیورسٹیوں سے فارغ التحصیل طلبا کی موجودگی کا ذکر کرتے ہوئے اور اسے افغانستان کے لئے قابل قدر موقع قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ افغان حکومت کو چاہئے کہ ان طلبا کی حوصلہ افزائی پر مبنی پروگراموں کے ذریعے انھیں واپس جاکر اپنے وطن کی خدمت کرنے کی ترغیب دلائے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے سائنس و ٹیکنالوجی اور معیشت کے میدانوں میں ایران کے وسیع وسائل اور صلاحیتوں اور افغانستان میں قدرتی ذخائر اور افرادی قوت کی موجودگی کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ تعاون کی سطح میں فروغ دونوں ملکوں کے مفاد میں ہے اور دوستانہ ماحول اور باہمی تعاون کے ذریعے بعض اختلافات من جملہ آبی سرحدوں کے مسئلے جیسے اختلافی امور کو حل کیا جانا چاہئے۔
آپ نے گزشتہ برسوں کے دوران افغان مجاہدین کو گوشہ نشین کرنے کی سیاست کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ 'جنگ سالار' جیسے نام دیکر مجاہدین کو گوشہ نشین کرنا غلط پالیسی ہے، اور ایسا ملک جو عسکری حملوں اور گہرے فتنوں کی زد میں ہو، خود عوام کو بھی مجاہدت کے جذبے کے ساتھ دفاع وطن کے لئے آمادہ رہنا چاہئے۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے اپنے دفاع کی قوت نہ ہونے کو اغیار کی مداخلت کا راستہ قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ ہم نے مشاہدہ کیا ہے کہ امریکیوں نے افغانستان میں کتنے انسانوں کو قتل کیا اور کتنا نقصان پہنچایا اور اب بھی پیچھا نہیں چھوڑ رہے ہیں۔
رہبر انقلاب اسلامی نے برطانیہ، سابق سوویت یونین اور حالیہ برسوں میں امریکا کی جارحیت کے مقابلے میں افغان عوام کے جذبہ استقامت کی قدر دانی کرتے ہوئے فرمایا کہ افغان عوام میں استقامت اور دینداری کا جذبہ بہت گہرا ہے اور تاریخ میں یہ بات بہت مشہور ہے کہ کوئی بھی قابض قوت افغانستان میں اپنے قدم نہیں جما سکی۔
اس ملاقات میں ایران کے نائب صدر اسحاق جہانگیری بھی موجود تھے۔ افغانستان کے چیف ایگزیکٹیو ڈاکٹر عبداللہ عبد اللہ نے افغانستان کے عوام اور حکومت کو ایران کی جانب سے حاصل حمایتوں کی قدردانی کی اور کہا کہ افغانستان میں قومی وحدت کی حکومت کی تشکیل ایک اچھا نمونہ تھا اور اس سے متعدد مشکلات کا سد باب ہو گيا۔
افغانستان کے چیف ایگزیکٹیو نے افغانستان کی سب سے بڑی مشکل بدامنی اور دہشت گرد تنظیمیں کو قرار دیتے ہوئے کہا کہ ہماری یہی کوشش ہے کہ اللہ پر توکل کرتے ہوئے عوام کے اتحاد اور حمایت سے نیز اپنے ایرانی بھائیوں اور دوستوں کے تعاون سے جو جہاد اور استقامت کے زمانے سے لیکر اب تک ہمیشہ جاری رہا ہے، مشکلات کا خاتمہ کریں اور تمام شعبوں میں عدل و مساوات قائم کریں۔
ڈاکٹر عبد اللہ نے رہبر انقلاب اسلامی کی طرف سے افغانستان کے عوام کی حمایت اور افغان طلبہ کی تعلیم کے سلسلے میں آپ کے حالیہ حکم کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ ان حمایتوں کی وجہ سے افغانستان کی حکومت اور عوام کی نظر میں ایران کا بہت خاص اور نمایاں مقام ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ایران اور افغانستان کے درمیان تعاون کے بہت اچھے امکانات موجود ہیں اور ہم ایرانی حکام سے اپنی ملاقاتوں میں یہ کوشش کر رہے ہیں کہ تعاون کی سطح بڑھانے کے طریقوں کا جائزہ لیا جائے۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے افغانستان میں قومی وحدت کی حکومت کی تشکیل کو بہترین جدت عمل قرار دیا اور افغانستان کے مسائل کے حل کی امید ظاہر کرتے ہوئے فرمایا کہ ان شاء اللہ قومی وحدت پر مبنی حکومت حقیقی اور اصلی شکل اختیار کرے گی، کیونکہ افغانستان کی مشکلات کا حل قومیتوں اور حکام کے درمیان حقیقی اتحاد و ہم ہنگی میں مضمر ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے افغانستان میں مختلف قوموں اور شیعہ سنی مسلمانوں کی ایک طویل عرصے سے پرامن بقائے باہمی کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ ہم قدیم زمانے سے افغانستان کے عوام کو صابر، قناعت پسند، سخت جان، دیندار اور ادبی ذوق کے حامل افراد کی حیثیت سے پہچانتے ہیں، لیکن قوموں کے اختلافات اور تفرقے کے اسباب کسی بھی قوم کو کمزور کر سکتے ہیں۔
آپ نے ایران کی جانب سے افغان عوام کی حمایت کئے جانے من جملہ افغانستان پر سوویت یونین کے قبضے کی اسلامی جمہوریہ ایران کی جانب سے مخالفت اور افغان مجاہدین کی حمایت کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ اسلامی جمہوریہ ایران آج بھی افغانستان کے ساتھ کھڑا ہے اور تقریبا 30 لاکھ افغان مہاجرین کا میزبان ہے۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے ایران میں 16 ہزار افغان اسٹوڈنٹس اور یونیورسٹیوں سے فارغ التحصیل طلبا کی موجودگی کا ذکر کرتے ہوئے اور اسے افغانستان کے لئے قابل قدر موقع قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ افغان حکومت کو چاہئے کہ ان طلبا کی حوصلہ افزائی پر مبنی پروگراموں کے ذریعے انھیں واپس جاکر اپنے وطن کی خدمت کرنے کی ترغیب دلائے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے سائنس و ٹیکنالوجی اور معیشت کے میدانوں میں ایران کے وسیع وسائل اور صلاحیتوں اور افغانستان میں قدرتی ذخائر اور افرادی قوت کی موجودگی کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ تعاون کی سطح میں فروغ دونوں ملکوں کے مفاد میں ہے اور دوستانہ ماحول اور باہمی تعاون کے ذریعے بعض اختلافات من جملہ آبی سرحدوں کے مسئلے جیسے اختلافی امور کو حل کیا جانا چاہئے۔
آپ نے گزشتہ برسوں کے دوران افغان مجاہدین کو گوشہ نشین کرنے کی سیاست کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ 'جنگ سالار' جیسے نام دیکر مجاہدین کو گوشہ نشین کرنا غلط پالیسی ہے، اور ایسا ملک جو عسکری حملوں اور گہرے فتنوں کی زد میں ہو، خود عوام کو بھی مجاہدت کے جذبے کے ساتھ دفاع وطن کے لئے آمادہ رہنا چاہئے۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے اپنے دفاع کی قوت نہ ہونے کو اغیار کی مداخلت کا راستہ قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ ہم نے مشاہدہ کیا ہے کہ امریکیوں نے افغانستان میں کتنے انسانوں کو قتل کیا اور کتنا نقصان پہنچایا اور اب بھی پیچھا نہیں چھوڑ رہے ہیں۔
رہبر انقلاب اسلامی نے برطانیہ، سابق سوویت یونین اور حالیہ برسوں میں امریکا کی جارحیت کے مقابلے میں افغان عوام کے جذبہ استقامت کی قدر دانی کرتے ہوئے فرمایا کہ افغان عوام میں استقامت اور دینداری کا جذبہ بہت گہرا ہے اور تاریخ میں یہ بات بہت مشہور ہے کہ کوئی بھی قابض قوت افغانستان میں اپنے قدم نہیں جما سکی۔
اس ملاقات میں ایران کے نائب صدر اسحاق جہانگیری بھی موجود تھے۔ افغانستان کے چیف ایگزیکٹیو ڈاکٹر عبداللہ عبد اللہ نے افغانستان کے عوام اور حکومت کو ایران کی جانب سے حاصل حمایتوں کی قدردانی کی اور کہا کہ افغانستان میں قومی وحدت کی حکومت کی تشکیل ایک اچھا نمونہ تھا اور اس سے متعدد مشکلات کا سد باب ہو گيا۔
افغانستان کے چیف ایگزیکٹیو نے افغانستان کی سب سے بڑی مشکل بدامنی اور دہشت گرد تنظیمیں کو قرار دیتے ہوئے کہا کہ ہماری یہی کوشش ہے کہ اللہ پر توکل کرتے ہوئے عوام کے اتحاد اور حمایت سے نیز اپنے ایرانی بھائیوں اور دوستوں کے تعاون سے جو جہاد اور استقامت کے زمانے سے لیکر اب تک ہمیشہ جاری رہا ہے، مشکلات کا خاتمہ کریں اور تمام شعبوں میں عدل و مساوات قائم کریں۔
ڈاکٹر عبد اللہ نے رہبر انقلاب اسلامی کی طرف سے افغانستان کے عوام کی حمایت اور افغان طلبہ کی تعلیم کے سلسلے میں آپ کے حالیہ حکم کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ ان حمایتوں کی وجہ سے افغانستان کی حکومت اور عوام کی نظر میں ایران کا بہت خاص اور نمایاں مقام ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ایران اور افغانستان کے درمیان تعاون کے بہت اچھے امکانات موجود ہیں اور ہم ایرانی حکام سے اپنی ملاقاتوں میں یہ کوشش کر رہے ہیں کہ تعاون کی سطح بڑھانے کے طریقوں کا جائزہ لیا جائے۔