حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے اتوار کی شام ترکمانستان کے صدر قربان قلی بردی اف سے ملاقات میں ایران اور ترکمانستان کے قریبی تعلقات اور دو جانبہ تعاون کو توسیع دینے کے سلسلے میں موجود امکانات اور خطے میں فتنے اور سازش کو ہوا دیئے جانے کا مقابلہ کرنے کی تاکید کرتے ہوئے فرمایا کہ دہشتگرد عناصر سے مقابلے اور انکے اثر و رسوخ کو ختم کرنے کے لئے عوام کے درمیان صحیح اسلامی سرگرمیوں کا فروغ اور معتدل اور عقلانی اسلامی افکار پر مبنی تحریکوں کی تقویت کے زریعے ممکن ہے۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے اس ملاقات میں ایران اور ترکمنستان کی ملتوں کو ایسا ہمسایہ کہ جو عزیز و اقارب کی مانند ہیں قرار دیا اور آپس میں تعاون کے لئے موجود امکانات سے استفادہ کرنے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے فرمایا کہ ضروری ہے کہ نہایت سنجیدگی کے ساتھ معاہدوں کے اجرا کے لئے موثر اور عملی اقدامات انجام دیئے جائیں۔
رہبر انقلاب نے ہمسایہ اور اسلامی ممالک کے امن و امان، فلاح و بہبود اور پیشرفت و ترقی کو اسلامی جمہوریہ ایران کے فائدے میں قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ ایران اور ترکمنستان کی سرحدیں امن و امان اور صلح پر مبنی سرحدیں ہیں اور یہ بات دونوں ممالک کے آرام و آسائش کا سبب ہے اور ایران کے راستے خلیج فارس اور آزاد پانیوں تک ترکمانستان کی رسائی ترکمانستان کے لئے ایک قیمتی موقع ہے۔
آپ نے خطے کی موجودہ کشیدہ صورتحال کے باوجود ایران اور ترکمانستان میں امن و امان کی صورتحال کی جانب اشارہ کرتے ہوئے موجودہ صورتحال کے ثبات کے لئے باہمی تعاون کے فروغ پر زور دیا اور فرمایا کہ داعش اور تکفیری گروہوں کے وحشیانہ اقدامات اور دہشتگردی کے مقابلے میں کہ جو اسلام کے نام پر ان سنگین جرائم کا ارتکاب کررہے ہیں، ضروری ہے کہ عوام کو صحیح اسلامی سرگرمیوں کے امکانات فراہم کئے جائیں اور ان عناصر کے اثر و رسوخ کو ختم کرنے کے لئے معتدل اور عقلی اسلامی افکار پر مبنی تحریکوں کی تقویت کی جائے۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے دہشتگرد عناصر کی جانب سے سر تن سے جدا کرنے اور انسانوں کو زندہ جلا کر مارنے جیسے وحشیانہ اقدامات کو ان عناصر کی اسلام سے مکمل بیگانگی کی علامت قرار دیتے ہوئے تاکید فرمائی کہ اسلام بھائی چارے، محبت اور ایک دوسرے کے ساتھ خیر خواہی کا مذہب ہے اور ان جرائم کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
اس ملاقات میں سینئر نائب صدر اسحاق جہانگیری بھی موجود تھے۔ ترکمانستان کے صدر قربان قلی بردی محمد اف نے اپنے تہران کے سفر پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے رہبر انقلاب اسلامی سے ملاقات کو اپنے لئے باعث فخر قرار دیتے ہوئے کہا کہ ایران اور ترکمانستان کے ہمیشہ اچھے اور تاریخی تعلقات رہے ہیں اور یہ دونوں ممالک ہمیشہ ایک دوسرے کی خوشی اور غم میں برابر کے شریک رہے ہیں اور آپ کی یہ گفتگو کہ یہ دونوں ممالک نہ صرف یہ کہ ایک دوسرے کے ہمسائے ہیں بلکہ عزیز و اقارب کی مانند ہیں ترکمانستان کی حکومت اور عوام کی حوصلہ افزائی کا باعث ہے۔
ترکمانستان کے صدر نے اپنے پچھلے سفر میں رہبر انقلاب اسلامی کی جانب سے کی گئی نصیحتوں کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ ایک دانا رہبر و لیڈر اور متفکر شخصیت کے عنوان سے آپ کی نصیحتیں ہمارے لئے نہایت قابل قدر ہیں اور آپ کی نصیحتوں پر عمل کرنے سے کافی اچھے نتائج حاصل ہوئے ہیں۔
انہوں نے باہمی تعلقات میں توسیع خاص طور پر گیس، حمل ونقل اور مواصلات کے شعبوں میں موجود امکانات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ایران اور ترکمانستان کے تجارت اور تعمیرات کے شعبوں میں مشترکہ پروجیکٹس کی تکمیل پورے خطے کے لئے فائدہ مند ہے۔
ترکمانستان کے صدر نے شاہراہ ریشم کی تاریخی اہمیت کو تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ بعض ممالک کی خواہش ہے کہ وہ ایران اور ترکمانستان کے زریعے سمندر تک رسائی حاصل کر سکیں۔
انہوں نے خطے کے سیاسی حالات کو ناساز قرار دیتے ہوئے اور دہشتگرد گروہ داعش کے جرائم کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ داعش اور اس جیسے دوسرے گروہوں کا اسلام سے دور دور سے کوئی تعلق نہیں ہے اور افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ بعض ممالک انکی مدد اور حمایت میں مشغول ہیں۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے اس ملاقات میں ایران اور ترکمنستان کی ملتوں کو ایسا ہمسایہ کہ جو عزیز و اقارب کی مانند ہیں قرار دیا اور آپس میں تعاون کے لئے موجود امکانات سے استفادہ کرنے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے فرمایا کہ ضروری ہے کہ نہایت سنجیدگی کے ساتھ معاہدوں کے اجرا کے لئے موثر اور عملی اقدامات انجام دیئے جائیں۔
رہبر انقلاب نے ہمسایہ اور اسلامی ممالک کے امن و امان، فلاح و بہبود اور پیشرفت و ترقی کو اسلامی جمہوریہ ایران کے فائدے میں قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ ایران اور ترکمنستان کی سرحدیں امن و امان اور صلح پر مبنی سرحدیں ہیں اور یہ بات دونوں ممالک کے آرام و آسائش کا سبب ہے اور ایران کے راستے خلیج فارس اور آزاد پانیوں تک ترکمانستان کی رسائی ترکمانستان کے لئے ایک قیمتی موقع ہے۔
آپ نے خطے کی موجودہ کشیدہ صورتحال کے باوجود ایران اور ترکمانستان میں امن و امان کی صورتحال کی جانب اشارہ کرتے ہوئے موجودہ صورتحال کے ثبات کے لئے باہمی تعاون کے فروغ پر زور دیا اور فرمایا کہ داعش اور تکفیری گروہوں کے وحشیانہ اقدامات اور دہشتگردی کے مقابلے میں کہ جو اسلام کے نام پر ان سنگین جرائم کا ارتکاب کررہے ہیں، ضروری ہے کہ عوام کو صحیح اسلامی سرگرمیوں کے امکانات فراہم کئے جائیں اور ان عناصر کے اثر و رسوخ کو ختم کرنے کے لئے معتدل اور عقلی اسلامی افکار پر مبنی تحریکوں کی تقویت کی جائے۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے دہشتگرد عناصر کی جانب سے سر تن سے جدا کرنے اور انسانوں کو زندہ جلا کر مارنے جیسے وحشیانہ اقدامات کو ان عناصر کی اسلام سے مکمل بیگانگی کی علامت قرار دیتے ہوئے تاکید فرمائی کہ اسلام بھائی چارے، محبت اور ایک دوسرے کے ساتھ خیر خواہی کا مذہب ہے اور ان جرائم کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
اس ملاقات میں سینئر نائب صدر اسحاق جہانگیری بھی موجود تھے۔ ترکمانستان کے صدر قربان قلی بردی محمد اف نے اپنے تہران کے سفر پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے رہبر انقلاب اسلامی سے ملاقات کو اپنے لئے باعث فخر قرار دیتے ہوئے کہا کہ ایران اور ترکمانستان کے ہمیشہ اچھے اور تاریخی تعلقات رہے ہیں اور یہ دونوں ممالک ہمیشہ ایک دوسرے کی خوشی اور غم میں برابر کے شریک رہے ہیں اور آپ کی یہ گفتگو کہ یہ دونوں ممالک نہ صرف یہ کہ ایک دوسرے کے ہمسائے ہیں بلکہ عزیز و اقارب کی مانند ہیں ترکمانستان کی حکومت اور عوام کی حوصلہ افزائی کا باعث ہے۔
ترکمانستان کے صدر نے اپنے پچھلے سفر میں رہبر انقلاب اسلامی کی جانب سے کی گئی نصیحتوں کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ ایک دانا رہبر و لیڈر اور متفکر شخصیت کے عنوان سے آپ کی نصیحتیں ہمارے لئے نہایت قابل قدر ہیں اور آپ کی نصیحتوں پر عمل کرنے سے کافی اچھے نتائج حاصل ہوئے ہیں۔
انہوں نے باہمی تعلقات میں توسیع خاص طور پر گیس، حمل ونقل اور مواصلات کے شعبوں میں موجود امکانات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ایران اور ترکمانستان کے تجارت اور تعمیرات کے شعبوں میں مشترکہ پروجیکٹس کی تکمیل پورے خطے کے لئے فائدہ مند ہے۔
ترکمانستان کے صدر نے شاہراہ ریشم کی تاریخی اہمیت کو تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ بعض ممالک کی خواہش ہے کہ وہ ایران اور ترکمانستان کے زریعے سمندر تک رسائی حاصل کر سکیں۔
انہوں نے خطے کے سیاسی حالات کو ناساز قرار دیتے ہوئے اور دہشتگرد گروہ داعش کے جرائم کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ داعش اور اس جیسے دوسرے گروہوں کا اسلام سے دور دور سے کوئی تعلق نہیں ہے اور افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ بعض ممالک انکی مدد اور حمایت میں مشغول ہیں۔