رہبر انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمیٰ خامنہ ای نے یونیورسٹیوں، اور اعلیٰ تعلیمی مراکز اور انسٹی ٹیوٹس، سائنس اور ٹیکنالوجی پارکس، اور ملک کے تحقیقاتی اداروں کے سربراہوں سے ملاقات میں اسلام سے پہلے اور اسلام کے بعد ملک کی تاریخ، علمی تجربے، میراث اور عصری تاریخ بالخصوص اسلامی تحریک اور اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد یونیورسٹیوں کا مقام اور انکے کردار کو تفصیل کے ساتھ بیان کئے جانے کے لئے اور جدید اسلامی تمدن کے سلسلے میں اہم کردار ادا کرنے کے لئے یونیورسٹیوں اور علمی مراکز میں پلاننگ کئے جانے اور اس عظیم الشان ورثے اور علمی تجربے سے استفادہ کئے جانے پر تاکید کرتے ہوئے فرمایا کہ اپنے حال اور مستقبل کے لئے علمی ضرورتوں کی تشخیص، علمی پیشرفت و ترقی کی رفتار میں کمی کی روک تھام، علمی جامع پلان کا دقیق اجرا، اعلیٰ تعلیم کی کیفیت پر توجہ، صنعت اور یونیورسٹیوں کے درمیان رابطے کی سنجیدگی کے ساتھ کوششوں، مزاحمتی معیشت میں یونیورسٹیوں کے فعال کردار، اسلامی اور ایمانی ثقافت کی ترویج، دینی اور سیاسی بصیرت کو مزید مستحکم کرنے اور قابل قدر، انقلابی اور دیندار اساتذہ اور طالبعلموں کو زمینہ فراہم کرنا جدید اسلامی تمدن کی تشکیل میں یونیورسٹیوں کے کردار کا لوازمات میں سے ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے اس ملاقات میں یونیورسٹیوں کے طالبعلوں کے ساتھ ملاقاتوں کو بہترین اور شیریں جلسوں میں سے ایک قرار دیا اور علم کو پیشرفت و ترقی اور اقتدار کا ایک ہتھیار قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ یونیورسٹی ملک کے مستقبل کے مدیروں کی تربیت کا اہم ترین مرکز ہے اس طرح کہ یونیورسٹیوں کے مناسب یا غیر مناسب عملکرد ملک کے مستقبل پر اثر انداز ہوگی۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے ایران میں مختلف شعبوں میں فارابی، ابن سینا، زکریا رازی، خوارزمی سمیت متعدد عظیم شخصیات اور علمی ہستیوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ ایران اپنی پوری تاریخ میں ، فکر و علم کی تولید کا منارہ رہا ہے اور اس کا سلسلہ قاجاری اور پہلوی دور تک جاری رہا ہے۔
آپ نے فرمایا کہ افسوس کے ساتھ قاجاریوں اور پہلویوں کے دور میں خاص مسائل کی وجہ سے ملک میں علمی ارتقا کا سلسلہ رک گیا اور جب یورپ میں علم کی شکوفائی کا زمانہ تھا ہم اس زمانے میں اپنی صلاحیتوں اور علمی میدانوں اور علمی اخلاق سے استفادہ نہ کر سکے۔ بنا بر ایں ہم دنیا کے علمی قافلے سے پیچھے رہ گئے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے مغربی طرز تفکر اور طرز زندگی کی اساس پر یونیورسٹیوں کے زریعے عہدیداروں کی تربیت کے لئے تیسری دنیا کے ممالک کے سلسلے میں مغرب کی پلاننگ کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ لوگ ایران میں اپنے اس پلان کو اجرا کرنے کے سلسلے میں ایرانی شناخت اور اسی طرح یونیورسٹیوں اور طالبعلموں کے درمیان وسیع و گہرے دینی اور اسلامی افکار موجود ہونے کی وجہ سے یہ طاقتیں اپنے منصوبے کو جامہ عمل نہیں پہنا سکے اور سن ۱۳۴۱ میں اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد یونیورسٹیوں میں ایک عظیم تحریک شروع ہوگئی اور دینی بالیدگی میں اضافہ ہوگیا۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے فرمایا کہ اسلامی انقلاب کی کامیابی نے کے جو مغرب و مشرق کے لئے زلزلے کی مانند تھی، یونیورسٹیوں پر بہت زیادہ اثرات مرتب کئے اور انقلاب کے بہت سارے فداکار اور صادق ترین ساتھی یونیورسٹیوں کے طالبعلم تھے۔
آپ نے گذشتہ ۳۷ سالوں کے دوران یونیورسٹیوں کی کیفیت، نشیب و فراز اور یونیورسٹیوں کے سسٹم اور مختلف فکری گروہوں میں مختلف سلیقوں کے افراد کی موجودگی کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ آج سب سے اہم سوال یہ ہے کہ یونیورسٹیاں اسلامی انقلاب کے اس گرانقدر تجربے اور تاریخی اور علمی میراث سے استفادہ کرتے ہوئے کس طرح جدید اسلامی تمدن کی تشکیل میں اپنا کردار ادا کرتی ہیں کہ جو اسلام کا آئیڈیل معاشرہ ہے ۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے اس سمت میں حرکت کرنے کا لازمہ وزارت تعلیم و صحت کے عہدیداروں کا یونیورسٹیوں کی حقیقی صورتحال کے بارے میں دقیق اور زمینی حقائق سے آشنا ہونے کو قرار دیا اور تاکید فرمائی کہ صرف رپورٹوں پر اکتفا نہیں کرنا چاہئے بلکہ زمینی حقائق بھی مد نظر رکھنے چاہئیں تاکہ یہ معلوم ہو سکے کہ مورد نظر اہداف کس حد تک حاصل کئے جاچکے ہیں۔
آپ نے علمی حرکت کے لئے با صلاحیت افراد کی موجودگی کو اہم قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ با استعداد اور با صلاحیت افراد سے زیادہ اہم کام علمی سمت کا تعین ہے چونکہ اگر علمی سمت صحیح اور اخلاق و معنویت کے دائرے میں نہ ہو تو اسکی وجہ سے بہت زیادہ منفی رجحانات پیدا ہوں گے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے ایٹم بم اور استعمار کو علم کے غلط راستے میں استعمال کے نتائج کے دو تاریخی نمونے قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ ہمیں چاہئے کہ ہمیشہ ہوشیار رہیں تاکہ اخلاقیات اور معنویت علم کے ساتھ قرار پائیں۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے علمی ضرورتوں کی نشاندہی کو ملک کے حال اور مستقبل کے لئے ضروری قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ علمی حرکت میں ملک کی موجودہ اور مستقبل کی ضرورتوں کو مدنظر رکھنا چاہئے اور ملک کی ضرورتوں کے مختلف میدانوں میں سرمایہ گذاری ہونی چاہئے۔
آپ نے علمی مقالات اور ڈاکٹریٹ کے تھیسس کو ملک کی موجودہ اور مستقبل کی ضرورتوں کے لئے جہت دینے کو ایک اہم موضوع قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ ایٹمی ٹیکنالوجی ملک کے لئے ضروری اور اہم موضوعات میں سے ایک ہے کہ کئی سال پہلے اس پر سرمایہ گذاری کی گئی ہے کیونکہ اگر تیل سے استفادہ ممکن نہ ہو یا تیل کے ذخائر ختم ہو جائیں تو قطعا ہمیں ایٹمی انرجی کی ضرورت پڑے گی۔
رہبر انقلاب اسلامی نے ایک بار پھر ایرانی جوان سائنسدانوں کے ہاتھوں یورینیم کی بیس فیصد افزودگی کے موضوع کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ ایک زمانے میں ریڈیو ایکٹو دواوں کی تیاری کے لئے تہران کے ایٹمی ری ایکٹر میں ایندھن ختم ہو چکا تھا اور مغربی ممالک نے اس ایندھن کی فراہمی کے لئے انتہائی شرمناک شرائط سامنے رکھیں لیکن ہمارے با صلاحیت اور مومن جوانوں نے دن رات محنت اور جد وجہد کر کے یورینیم کی بیس فیصد افزودگی کی اور ملکی ضرورت کو پورا کیا۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے اس بات پر تاکید کرتے ہوئے کہ یورینیم کی افزودگی کا سخت ترین مرحلہ اسکی بیس فیصد افزودگی ہے اور اس سے زیادہ افزودگی تک دسترسی ننانوے فیصد آسانی کے ساتھ امکان پذیر ہے فرمایا کہ مغربی ممالک کی اس سلسلے میں پریشانی کی وجہ یہی موضوع تھا، البتہ اگر اسی وقت تہران کے ری ایکٹر کے لئے ہمیں ایندھن دے دیتے تو ہم بیس فیصد افزودگی کے پیچھے نہیں جاتے۔
آپ نے اپنی گفتگو کے اس حصے کے اختتام پر فرمایا کہ علمی ضرورتوں کا تعین اور ملکی ضرورت پوری کرنے کے لئے علم و دانش میں سرمایہ گذاری ایک اہم امر ہے اور اس پر ہمیشہ نظر رہنی چاہئے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے علمی پیشرفت و ترقی میں تیزرفتاری کو پسماندگی کے ازالے اور علمی حرکت میں تسلسل کے لئے اہم اور بنیادی قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ افسوس کہ بعض افراد جو خود بھی یونیورسٹی کے اسٹوڈنٹ ہیں وہ یونیورسٹیوں میں طالبعلموں سے کہتے ہیں کہ یہ علمی پیشرفت و ترقی محض جھوٹ ہے، اگر یہ حقیقت پر مبنی نہیں ہے تو غاصب صیہونی حکومت کا تحقیقاتی مرکز ایران کی علمی ترقی کے بارے میں اپنی سراسیمگی کا اظہار کیوں کرتا ہے؟
آپ نے ملک کی علمی تاریخ کی پسماندگی کی جانب اشارہ کرتے ہوئے تاکید کے ساتھ فرمایا کہ اگر ملک کی علمی پیشرفت اور ترقی کی رفتار کم ہوجائے، دنیا کی علمی کارواں سے ہمارا فاصلہ زیادہ ہوجائے گا، بنا بر ایں ہمیں اپنی پیشرفت اور ترقی کی رفتار کی حفاظت کرنا ہوگی۔
رہبر انقلاب اسلامی نے یونیورسٹیوں کو تحقیقات و اختراعات کے محور پر کام کرنے والے اداروں میں تبدیل کر نے، جامع علمی منصوبے کو عملی جامہ پہنانے، اعلی تعلیم کے معیار پر توجہ، حقائق پر مبنی اور اس سے مکمل مطابقت رکھنے والے معیار اور یونیورسٹیوں کو صنعتوں سے ہم آہنگ کرنے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے فرمایا کہ یونیورسٹیوں سے تعلیم حاصل کرنے والوں کے لئے روزگار فراہم کرنے کا ایک طریقہ صنعتوں اور یونیورسٹیوں میں ہم آہنگی پیدا کرنا ہے اور اس کے لئے ضروری ہے کہ متعلقہ وزراء منصوبہ بندی کریں اور سرکاری و غیر سرکاری صنعتوں اور یونیورسٹیوں کے ما بین بھرپور تعاون کا آغاز کروائیں۔
رہبر انقلاب اسلامی نے نالج بیسڈ کمپنیوں کے ذریعے مستحکم مزاحمتی معیشت میں یونیورسٹیوں کے تعاون کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ مزاحمتی معیشت کو عملی جامہ پہنانے سے متعلق جو کام ہونا چاہئے تھا ابھی تک انجام نہیں پا سکا ہے۔ آپ نے فرمایا کہ حکومتی عہدیداروں نے حال ہی میں مزاحمتی معیشت کو عملی جامہ پہنانے کے سلسلے میں اپنے پیش نظر پروگراموں کی ایک رپورٹ مجھے دی ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے یونیورسٹیوں کے اندر ثقافتی امور کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے بعض اقدامات پر تنقید کی اور فرمایا کہ کچھ لوگ غلط طور پر ثقافتی کاموں کو کنسرٹ اور لڑکے لڑکیوں کی مشترکہ کیمپنگ سے تعبیر کرتے ہیں اور اپنے اس غلط کام کی توجیہ کے لئے کہتے ہیں کہ اسٹوڈنٹس کا خوش رہنا ضروری ہے۔ آپ نے فرمایا کہ ہر ماحول کے لئے خوشی اور نشاط ضروری ہے لیکن کس قیمت پر؟ کیا لڑکوں اور لڑکیوں کی مشترکہ پروگراموں اور کیمپنگ کے ذریعے؟ آخر مغربی ملکوں کو ان مشترکہ سرگرمیوں سے موجودہ جنسی جرائم کے علاوہ کیا حاصل ہوا ہے جو ہم بھی اسی راستے پر انکی پیروی کرنا چاہتے ہیں!
آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ ثقافتی امور کی ایک الگ ماہیت ہے فرمایا کہ یونیورسٹیوں کے ثقافتی شعبوں کے عہدیداران سمجھنے کی کوشش کریں کہ وہ کیا کر رہے ہیں؟ درست ثقافتی پروگرام وہ ہے جس کے ذریعے مومن، با اخلاق، انقلابی، اقداروں کے پابند، وطن اور اسلامی نظام سے محبت کرنے والے اور گہری دینی و سیاسی بصیرت رکھنے والے انسانوں کی تربیت ہو۔
آپ نے نوجوانوں کے لغزشوں سے خود کو بچانے کے لئے سیاسی و دینی بصیرت موجود ہونے اور اسکی اہمیت پر زور دیا اور فرمایا کہ سنہ 2009 کے فتنے کی وجہ بہت سے ایسے افراد کی لغزش تھی، جو برے انسان نہیں تھے، لیکن ان میں بصیرت کا فقدان تھا۔ جب ایک فریق واشگاف الفاظ میں کہہ رہا ہے کہ انتخابات تو بس بہانہ ہیں، خود اسلامی نظام ہمارے نشانے پر ہے۔ تو یہ سن لینے کے بعد اسلامی نظام پر عقیدہ رکھنے والے انسان کو کیا کرنا چاہئے؟ اگر بصیرت نہ ہو تو اس لمحے کے ضروری فریضے پر عمل نہیں ہو پائے گا۔
رہبر انقلاب اسلامی نے نوجوانوں میں خود اعتمادی اور مستقبل کے سلسلے میں انکے اندر جذبہ امید پیدا کئے جانے کو بھی یونیورسٹیوں کے ثقافتی پروگراموں کا اہم مقصد قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ ملک کے اندر بے شمار حوصلہ افزا چیزیں موجود ہیں جن میں وطن عزیز کی موجودہ پوزیشن، اقتدار نیز وسیع امکانات و مواقع شامل ہیں۔
رہبر انقلاب اسلامی نے احساس کمتری کو بڑا خطرہ قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ احساس کمتری اور ملک و ملت کی توانائیوں کو کمتر سمجھنے کا نتیجہ یہ ہے کہ موجودہ حالات میں جب ساری دنیا علاقے میں اسلامی جمہوریہ ایران کے گہر اثر و رسوخ او قوت و توانائی کی بات کر رہی ہے تو ملک کے اندر بیٹھا ہوا کوئی شخص یہ کہتا ہے کہ ہم تو کسی کھاتے ہی میں نہیں ہیں اور الگ تھلگ پڑے ہوئے ہیں۔
آپ نے فکری، سیاسی، ثقافتی اور اقتصادی خود مختاری اور عدم انحصار پر یقین رکھنے والے نوجوانوں کی تربیت کو یونیورسٹیوں کے ثقافتی پروگراموں کا اہم مقصد قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ بعض یونیورسٹیوں سے جو اطلاعات مجھے مل رہی ہیں، اور مجھے امید ہے کہ وہ صحیح نہیں ہوں گی، وہ ان اہداف و مقاصد کے برخلاف ہیں، کیونکہ وہ انقلابی، مومن اور اچھی فکر رکھنے والی تنظیموں پر دباو ڈال رہی ہیں۔
رہبر انقلاب اسلامی نے وزارت علوم کے عہدیداروں اور یونیورسٹیوں کے سربراہوں سے کہا کہ انقلابی، مومن، اچھی فکر کے حامل، دیندار اور عزت نفس رکھنے والے نوجوانوں کو پلیٹ فارم مہیا کریں تاکہ ماحول ان کے اختیار میں رہے۔
آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے اپنے خطاب کے آخری حصے میں یونیورسٹیوں، اساتذہ اور طلبا سے اپنے گہرے اور دیرینہ لگاؤ کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ آج یونیورسٹی اور طلبا سازشوں کی سب سے بڑی آماجگاہ بنے ہوئے ہیں اور دشمن آج میدان میں انقلابی و اقدامی جذبے سے سرشار یونیورسٹی طلبا کی موجودگی، علم و دانش کا پرچم بلند ہونے، انقلابی نعروں کا زور بڑھنے اور ان دشمنوں کے ذریعے معین کردہ ریڈ لائنوں پر کوئي توجہ نہ دئے جانے سے وحشت زدہ ہیں اور اس مہم کا مقابلہ کرنے کے لئے سازشوں میں لگے ہوئے ہیں اور کافی سرمایہ لگا رہے ہیں۔
آپ نے موجودہ دور میں استعمار کی پالیسیوں میں آنے والی تبدیلی کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ اب توسیع پسند طاقتیں اس کوشش میں لگ گئی ہیں کہ ملکوں کے سرگرم، باہوش اور ممتاز صلاحیتوں کے مالک افراد کی ذہنیت اس طرح تبدیل کر دیں کہ یہی افراد ان کے اہداف پورے کرنے لگیں۔
رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے یونیورسٹی کے ماحول میں اقدار کی ترویج کی ضرورت پر زور دیا اور کہا کہ اقدار کے پابند انقلابی طلبا اور اسی طرح یونیورسٹیوں میں ہزاروں کی تعداد میں موجود انقلابی اور مومن اساتذہ کی تشویش پر توجہ دی جانی چاہئے اور ان اساتذہ کی قدردانی ہونی چاہئے۔
رہبر انقلاب اسلامی کے خطاب سے قبل وزیر علوم، تحقیقات و ٹیکنالوجی ڈاکٹر فرہادی نے نالج بیسڈ معیشت اور سائنس و ٹیکنالوجی کے ذریعے سرمایے کی پیداوار پر توجہ کو مزاحمتی معیشت کے میدان میں اس وزارت کا ترجیحی پروگراموں قرار دیتے ہوئے کہا کہ مزاحمتی معیشت سے متعلق دستاویز کی تدوین اور منظوری، نصاب کی کتب کی اصلاح اور ان پر نظر ثانی، ملک کی صنعتوں اور خدمات کے شعبوں سے تعاون، اسلامی یونیورسٹی سے متعلق دستاویز کے نفاذ پر توجہ، آزادانہ بحث کے پروگراموں کا انعقاد اور یونیورسٹیوں میں دینی و انقلابی ماحول کی ترویج اور فروغ وزارت علوم کے اہم اقدامات ہیں۔
وزیر ہیلتھ اینڈ میڈیکل ایجوکیشن ڈاکٹر قاضی زادہ ہاشمی نے بھی اپنی تقریر میں کہا کہ ریسرچ پیپرز تدوین کرنے کے اعتبار سے میڈیکل رینکنگ میں ایران علاقے میں پہلے اور دنیا میں چوبیسویں مقام پر ہے۔ انھوں نے کہا کہ علاقے میں ملک کو علمی مرجع میں تبدیل کرنا، بین الاقوامی فورموں پر موثر شراکت، روایتی طب اور اخلاقیات پر توجہ، طب و دین فیکلٹی کا قیام، بیماروں کے حقوق کا پاس و لحاظ اور خواتین کے لئے خصوصی اسپتالوں کا قیام ان کی وزارت کے ایجنڈے میں شامل ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے اس ملاقات میں یونیورسٹیوں کے طالبعلوں کے ساتھ ملاقاتوں کو بہترین اور شیریں جلسوں میں سے ایک قرار دیا اور علم کو پیشرفت و ترقی اور اقتدار کا ایک ہتھیار قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ یونیورسٹی ملک کے مستقبل کے مدیروں کی تربیت کا اہم ترین مرکز ہے اس طرح کہ یونیورسٹیوں کے مناسب یا غیر مناسب عملکرد ملک کے مستقبل پر اثر انداز ہوگی۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے ایران میں مختلف شعبوں میں فارابی، ابن سینا، زکریا رازی، خوارزمی سمیت متعدد عظیم شخصیات اور علمی ہستیوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ ایران اپنی پوری تاریخ میں ، فکر و علم کی تولید کا منارہ رہا ہے اور اس کا سلسلہ قاجاری اور پہلوی دور تک جاری رہا ہے۔
آپ نے فرمایا کہ افسوس کے ساتھ قاجاریوں اور پہلویوں کے دور میں خاص مسائل کی وجہ سے ملک میں علمی ارتقا کا سلسلہ رک گیا اور جب یورپ میں علم کی شکوفائی کا زمانہ تھا ہم اس زمانے میں اپنی صلاحیتوں اور علمی میدانوں اور علمی اخلاق سے استفادہ نہ کر سکے۔ بنا بر ایں ہم دنیا کے علمی قافلے سے پیچھے رہ گئے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے مغربی طرز تفکر اور طرز زندگی کی اساس پر یونیورسٹیوں کے زریعے عہدیداروں کی تربیت کے لئے تیسری دنیا کے ممالک کے سلسلے میں مغرب کی پلاننگ کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ لوگ ایران میں اپنے اس پلان کو اجرا کرنے کے سلسلے میں ایرانی شناخت اور اسی طرح یونیورسٹیوں اور طالبعلموں کے درمیان وسیع و گہرے دینی اور اسلامی افکار موجود ہونے کی وجہ سے یہ طاقتیں اپنے منصوبے کو جامہ عمل نہیں پہنا سکے اور سن ۱۳۴۱ میں اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد یونیورسٹیوں میں ایک عظیم تحریک شروع ہوگئی اور دینی بالیدگی میں اضافہ ہوگیا۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے فرمایا کہ اسلامی انقلاب کی کامیابی نے کے جو مغرب و مشرق کے لئے زلزلے کی مانند تھی، یونیورسٹیوں پر بہت زیادہ اثرات مرتب کئے اور انقلاب کے بہت سارے فداکار اور صادق ترین ساتھی یونیورسٹیوں کے طالبعلم تھے۔
آپ نے گذشتہ ۳۷ سالوں کے دوران یونیورسٹیوں کی کیفیت، نشیب و فراز اور یونیورسٹیوں کے سسٹم اور مختلف فکری گروہوں میں مختلف سلیقوں کے افراد کی موجودگی کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ آج سب سے اہم سوال یہ ہے کہ یونیورسٹیاں اسلامی انقلاب کے اس گرانقدر تجربے اور تاریخی اور علمی میراث سے استفادہ کرتے ہوئے کس طرح جدید اسلامی تمدن کی تشکیل میں اپنا کردار ادا کرتی ہیں کہ جو اسلام کا آئیڈیل معاشرہ ہے ۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے اس سمت میں حرکت کرنے کا لازمہ وزارت تعلیم و صحت کے عہدیداروں کا یونیورسٹیوں کی حقیقی صورتحال کے بارے میں دقیق اور زمینی حقائق سے آشنا ہونے کو قرار دیا اور تاکید فرمائی کہ صرف رپورٹوں پر اکتفا نہیں کرنا چاہئے بلکہ زمینی حقائق بھی مد نظر رکھنے چاہئیں تاکہ یہ معلوم ہو سکے کہ مورد نظر اہداف کس حد تک حاصل کئے جاچکے ہیں۔
آپ نے علمی حرکت کے لئے با صلاحیت افراد کی موجودگی کو اہم قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ با استعداد اور با صلاحیت افراد سے زیادہ اہم کام علمی سمت کا تعین ہے چونکہ اگر علمی سمت صحیح اور اخلاق و معنویت کے دائرے میں نہ ہو تو اسکی وجہ سے بہت زیادہ منفی رجحانات پیدا ہوں گے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے ایٹم بم اور استعمار کو علم کے غلط راستے میں استعمال کے نتائج کے دو تاریخی نمونے قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ ہمیں چاہئے کہ ہمیشہ ہوشیار رہیں تاکہ اخلاقیات اور معنویت علم کے ساتھ قرار پائیں۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے علمی ضرورتوں کی نشاندہی کو ملک کے حال اور مستقبل کے لئے ضروری قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ علمی حرکت میں ملک کی موجودہ اور مستقبل کی ضرورتوں کو مدنظر رکھنا چاہئے اور ملک کی ضرورتوں کے مختلف میدانوں میں سرمایہ گذاری ہونی چاہئے۔
آپ نے علمی مقالات اور ڈاکٹریٹ کے تھیسس کو ملک کی موجودہ اور مستقبل کی ضرورتوں کے لئے جہت دینے کو ایک اہم موضوع قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ ایٹمی ٹیکنالوجی ملک کے لئے ضروری اور اہم موضوعات میں سے ایک ہے کہ کئی سال پہلے اس پر سرمایہ گذاری کی گئی ہے کیونکہ اگر تیل سے استفادہ ممکن نہ ہو یا تیل کے ذخائر ختم ہو جائیں تو قطعا ہمیں ایٹمی انرجی کی ضرورت پڑے گی۔
رہبر انقلاب اسلامی نے ایک بار پھر ایرانی جوان سائنسدانوں کے ہاتھوں یورینیم کی بیس فیصد افزودگی کے موضوع کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ ایک زمانے میں ریڈیو ایکٹو دواوں کی تیاری کے لئے تہران کے ایٹمی ری ایکٹر میں ایندھن ختم ہو چکا تھا اور مغربی ممالک نے اس ایندھن کی فراہمی کے لئے انتہائی شرمناک شرائط سامنے رکھیں لیکن ہمارے با صلاحیت اور مومن جوانوں نے دن رات محنت اور جد وجہد کر کے یورینیم کی بیس فیصد افزودگی کی اور ملکی ضرورت کو پورا کیا۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے اس بات پر تاکید کرتے ہوئے کہ یورینیم کی افزودگی کا سخت ترین مرحلہ اسکی بیس فیصد افزودگی ہے اور اس سے زیادہ افزودگی تک دسترسی ننانوے فیصد آسانی کے ساتھ امکان پذیر ہے فرمایا کہ مغربی ممالک کی اس سلسلے میں پریشانی کی وجہ یہی موضوع تھا، البتہ اگر اسی وقت تہران کے ری ایکٹر کے لئے ہمیں ایندھن دے دیتے تو ہم بیس فیصد افزودگی کے پیچھے نہیں جاتے۔
آپ نے اپنی گفتگو کے اس حصے کے اختتام پر فرمایا کہ علمی ضرورتوں کا تعین اور ملکی ضرورت پوری کرنے کے لئے علم و دانش میں سرمایہ گذاری ایک اہم امر ہے اور اس پر ہمیشہ نظر رہنی چاہئے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے علمی پیشرفت و ترقی میں تیزرفتاری کو پسماندگی کے ازالے اور علمی حرکت میں تسلسل کے لئے اہم اور بنیادی قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ افسوس کہ بعض افراد جو خود بھی یونیورسٹی کے اسٹوڈنٹ ہیں وہ یونیورسٹیوں میں طالبعلموں سے کہتے ہیں کہ یہ علمی پیشرفت و ترقی محض جھوٹ ہے، اگر یہ حقیقت پر مبنی نہیں ہے تو غاصب صیہونی حکومت کا تحقیقاتی مرکز ایران کی علمی ترقی کے بارے میں اپنی سراسیمگی کا اظہار کیوں کرتا ہے؟
آپ نے ملک کی علمی تاریخ کی پسماندگی کی جانب اشارہ کرتے ہوئے تاکید کے ساتھ فرمایا کہ اگر ملک کی علمی پیشرفت اور ترقی کی رفتار کم ہوجائے، دنیا کی علمی کارواں سے ہمارا فاصلہ زیادہ ہوجائے گا، بنا بر ایں ہمیں اپنی پیشرفت اور ترقی کی رفتار کی حفاظت کرنا ہوگی۔
رہبر انقلاب اسلامی نے یونیورسٹیوں کو تحقیقات و اختراعات کے محور پر کام کرنے والے اداروں میں تبدیل کر نے، جامع علمی منصوبے کو عملی جامہ پہنانے، اعلی تعلیم کے معیار پر توجہ، حقائق پر مبنی اور اس سے مکمل مطابقت رکھنے والے معیار اور یونیورسٹیوں کو صنعتوں سے ہم آہنگ کرنے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے فرمایا کہ یونیورسٹیوں سے تعلیم حاصل کرنے والوں کے لئے روزگار فراہم کرنے کا ایک طریقہ صنعتوں اور یونیورسٹیوں میں ہم آہنگی پیدا کرنا ہے اور اس کے لئے ضروری ہے کہ متعلقہ وزراء منصوبہ بندی کریں اور سرکاری و غیر سرکاری صنعتوں اور یونیورسٹیوں کے ما بین بھرپور تعاون کا آغاز کروائیں۔
رہبر انقلاب اسلامی نے نالج بیسڈ کمپنیوں کے ذریعے مستحکم مزاحمتی معیشت میں یونیورسٹیوں کے تعاون کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ مزاحمتی معیشت کو عملی جامہ پہنانے سے متعلق جو کام ہونا چاہئے تھا ابھی تک انجام نہیں پا سکا ہے۔ آپ نے فرمایا کہ حکومتی عہدیداروں نے حال ہی میں مزاحمتی معیشت کو عملی جامہ پہنانے کے سلسلے میں اپنے پیش نظر پروگراموں کی ایک رپورٹ مجھے دی ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے یونیورسٹیوں کے اندر ثقافتی امور کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے بعض اقدامات پر تنقید کی اور فرمایا کہ کچھ لوگ غلط طور پر ثقافتی کاموں کو کنسرٹ اور لڑکے لڑکیوں کی مشترکہ کیمپنگ سے تعبیر کرتے ہیں اور اپنے اس غلط کام کی توجیہ کے لئے کہتے ہیں کہ اسٹوڈنٹس کا خوش رہنا ضروری ہے۔ آپ نے فرمایا کہ ہر ماحول کے لئے خوشی اور نشاط ضروری ہے لیکن کس قیمت پر؟ کیا لڑکوں اور لڑکیوں کی مشترکہ پروگراموں اور کیمپنگ کے ذریعے؟ آخر مغربی ملکوں کو ان مشترکہ سرگرمیوں سے موجودہ جنسی جرائم کے علاوہ کیا حاصل ہوا ہے جو ہم بھی اسی راستے پر انکی پیروی کرنا چاہتے ہیں!
آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ ثقافتی امور کی ایک الگ ماہیت ہے فرمایا کہ یونیورسٹیوں کے ثقافتی شعبوں کے عہدیداران سمجھنے کی کوشش کریں کہ وہ کیا کر رہے ہیں؟ درست ثقافتی پروگرام وہ ہے جس کے ذریعے مومن، با اخلاق، انقلابی، اقداروں کے پابند، وطن اور اسلامی نظام سے محبت کرنے والے اور گہری دینی و سیاسی بصیرت رکھنے والے انسانوں کی تربیت ہو۔
آپ نے نوجوانوں کے لغزشوں سے خود کو بچانے کے لئے سیاسی و دینی بصیرت موجود ہونے اور اسکی اہمیت پر زور دیا اور فرمایا کہ سنہ 2009 کے فتنے کی وجہ بہت سے ایسے افراد کی لغزش تھی، جو برے انسان نہیں تھے، لیکن ان میں بصیرت کا فقدان تھا۔ جب ایک فریق واشگاف الفاظ میں کہہ رہا ہے کہ انتخابات تو بس بہانہ ہیں، خود اسلامی نظام ہمارے نشانے پر ہے۔ تو یہ سن لینے کے بعد اسلامی نظام پر عقیدہ رکھنے والے انسان کو کیا کرنا چاہئے؟ اگر بصیرت نہ ہو تو اس لمحے کے ضروری فریضے پر عمل نہیں ہو پائے گا۔
رہبر انقلاب اسلامی نے نوجوانوں میں خود اعتمادی اور مستقبل کے سلسلے میں انکے اندر جذبہ امید پیدا کئے جانے کو بھی یونیورسٹیوں کے ثقافتی پروگراموں کا اہم مقصد قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ ملک کے اندر بے شمار حوصلہ افزا چیزیں موجود ہیں جن میں وطن عزیز کی موجودہ پوزیشن، اقتدار نیز وسیع امکانات و مواقع شامل ہیں۔
رہبر انقلاب اسلامی نے احساس کمتری کو بڑا خطرہ قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ احساس کمتری اور ملک و ملت کی توانائیوں کو کمتر سمجھنے کا نتیجہ یہ ہے کہ موجودہ حالات میں جب ساری دنیا علاقے میں اسلامی جمہوریہ ایران کے گہر اثر و رسوخ او قوت و توانائی کی بات کر رہی ہے تو ملک کے اندر بیٹھا ہوا کوئی شخص یہ کہتا ہے کہ ہم تو کسی کھاتے ہی میں نہیں ہیں اور الگ تھلگ پڑے ہوئے ہیں۔
آپ نے فکری، سیاسی، ثقافتی اور اقتصادی خود مختاری اور عدم انحصار پر یقین رکھنے والے نوجوانوں کی تربیت کو یونیورسٹیوں کے ثقافتی پروگراموں کا اہم مقصد قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ بعض یونیورسٹیوں سے جو اطلاعات مجھے مل رہی ہیں، اور مجھے امید ہے کہ وہ صحیح نہیں ہوں گی، وہ ان اہداف و مقاصد کے برخلاف ہیں، کیونکہ وہ انقلابی، مومن اور اچھی فکر رکھنے والی تنظیموں پر دباو ڈال رہی ہیں۔
رہبر انقلاب اسلامی نے وزارت علوم کے عہدیداروں اور یونیورسٹیوں کے سربراہوں سے کہا کہ انقلابی، مومن، اچھی فکر کے حامل، دیندار اور عزت نفس رکھنے والے نوجوانوں کو پلیٹ فارم مہیا کریں تاکہ ماحول ان کے اختیار میں رہے۔
آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے اپنے خطاب کے آخری حصے میں یونیورسٹیوں، اساتذہ اور طلبا سے اپنے گہرے اور دیرینہ لگاؤ کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ آج یونیورسٹی اور طلبا سازشوں کی سب سے بڑی آماجگاہ بنے ہوئے ہیں اور دشمن آج میدان میں انقلابی و اقدامی جذبے سے سرشار یونیورسٹی طلبا کی موجودگی، علم و دانش کا پرچم بلند ہونے، انقلابی نعروں کا زور بڑھنے اور ان دشمنوں کے ذریعے معین کردہ ریڈ لائنوں پر کوئي توجہ نہ دئے جانے سے وحشت زدہ ہیں اور اس مہم کا مقابلہ کرنے کے لئے سازشوں میں لگے ہوئے ہیں اور کافی سرمایہ لگا رہے ہیں۔
آپ نے موجودہ دور میں استعمار کی پالیسیوں میں آنے والی تبدیلی کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ اب توسیع پسند طاقتیں اس کوشش میں لگ گئی ہیں کہ ملکوں کے سرگرم، باہوش اور ممتاز صلاحیتوں کے مالک افراد کی ذہنیت اس طرح تبدیل کر دیں کہ یہی افراد ان کے اہداف پورے کرنے لگیں۔
رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے یونیورسٹی کے ماحول میں اقدار کی ترویج کی ضرورت پر زور دیا اور کہا کہ اقدار کے پابند انقلابی طلبا اور اسی طرح یونیورسٹیوں میں ہزاروں کی تعداد میں موجود انقلابی اور مومن اساتذہ کی تشویش پر توجہ دی جانی چاہئے اور ان اساتذہ کی قدردانی ہونی چاہئے۔
رہبر انقلاب اسلامی کے خطاب سے قبل وزیر علوم، تحقیقات و ٹیکنالوجی ڈاکٹر فرہادی نے نالج بیسڈ معیشت اور سائنس و ٹیکنالوجی کے ذریعے سرمایے کی پیداوار پر توجہ کو مزاحمتی معیشت کے میدان میں اس وزارت کا ترجیحی پروگراموں قرار دیتے ہوئے کہا کہ مزاحمتی معیشت سے متعلق دستاویز کی تدوین اور منظوری، نصاب کی کتب کی اصلاح اور ان پر نظر ثانی، ملک کی صنعتوں اور خدمات کے شعبوں سے تعاون، اسلامی یونیورسٹی سے متعلق دستاویز کے نفاذ پر توجہ، آزادانہ بحث کے پروگراموں کا انعقاد اور یونیورسٹیوں میں دینی و انقلابی ماحول کی ترویج اور فروغ وزارت علوم کے اہم اقدامات ہیں۔
وزیر ہیلتھ اینڈ میڈیکل ایجوکیشن ڈاکٹر قاضی زادہ ہاشمی نے بھی اپنی تقریر میں کہا کہ ریسرچ پیپرز تدوین کرنے کے اعتبار سے میڈیکل رینکنگ میں ایران علاقے میں پہلے اور دنیا میں چوبیسویں مقام پر ہے۔ انھوں نے کہا کہ علاقے میں ملک کو علمی مرجع میں تبدیل کرنا، بین الاقوامی فورموں پر موثر شراکت، روایتی طب اور اخلاقیات پر توجہ، طب و دین فیکلٹی کا قیام، بیماروں کے حقوق کا پاس و لحاظ اور خواتین کے لئے خصوصی اسپتالوں کا قیام ان کی وزارت کے ایجنڈے میں شامل ہے۔