رہبر انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمیٰ خامنہ ای نے آج صبح یونیورسٹی اور کالجوں کے ہزاروں طالبعلموں سے ملاقات کی۔ آپ نے استکبار سے ملت ایران کے مقابلے کو منطقی، عقلمندانہ اور تاریخی تجربات پر منحصر قرار دیتے ہوئے اور امریکا پر اعتماد کی وجہ سے پیدا ہونے والی مشکلات، مسائل اور عصری تاریخ میں بعض سیاسی شخصیات کی سادہ لوحی کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ امریکہ وہی قدیمی امریکہ ہے لیکن بعض خود غرض یا سادہ لوح افراد اس بات کی کوشش کر رہے ہیں کہ ملت کے عمومی افکار اس سادہ لوح دشمن کو فراموش کردیں اور اس سے غافل ہو جائیں تاکہ امریکہ مناسب موقع دیکھ کر پیٹھ میں خنجر گھونپ دے۔
اس ملاقات میں کہ جو تیرہ آبان، یعنی عالمی استکبار سے مقابلے کے قومی دن کے موقع پر انجام پائی رہبر انقلاب اسلامی نے موجودہ دور میں ملت ایران بالخصوص نوجوانوں کی عزت کے ثبات اور ایرانیوں کی پیشرفت و ترقی کے نقشہ پیش کرنے اور ہوشیاری، عمومی بصیرت و آگاہی کوبہت زیادہ اہمیت کا حامل قرار دیا ۔
آپ نے فرمایا کہ موجودہ حالات میں فہم و تحلیل اور ملک کے لئے مستقبل کے سفر کا نقشہ کھینچنے کا اہم اور بنیادی نکتہ اس حقیقیت کا درک کیا جانا ہے کہ بعض افراد کی باتوں کے برخلاف اسلامی جمہوریہ ایران اور ملت ایران کا استکبار سے مقابلہ ، کوئی غیر منطقی اور جذباتی عمل نہیں ہے بلکہ عقل، تجربے اور علمی پس منظر سے لیس مقابلہ ہے۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے اس بات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہ قوموں کے عبرت آموز تجربات پر توجہ کئے جانے سے نظر کے دھوکے اور اندازوں کی غلطی سے بچا جا سکتا ہے فرمایا کہ اگر ہم صرف قرآن مجید کی ظلم اور استکبار سے مقابلے اور ظلم کے مقابلے میں قیام سے متعلق صریح آیات کو ہی سامنے رکھیں تو ۱۹ اگست ۱۹۵۳ کی عظیم بغاوت اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ امریکہ سے کس طرح کا برتاو کیا جانا چاہئے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے تیل کی صنعت کو قومیائے جانے کے زمانے کے حادثات اور واقعات کو بیان کرتے ہوئے، امریکہ پر اعتماد اور اس سے امید لگائے جانے کو اس وقت کے وزیر اعظم ڈاکٹر مصدق کی تاریخی غلطی قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ مصدق نے برطانیہ سے مقابلہ کرنے کے لئے امریکہ پر تکیہ کیا اور یہی خوش فہمی، سادہ لوحی اور غفلت، امریکی بغاوت کی کامیابی کا سبب بنی، وہ بغاوت کہ جس نے تیل کو قومیائے جانے کے سلسلے میں ملت ایران کی تمام تر زحمتوں پر پانی پھیر دیا، جس نے مستبد اور استکبار سے وابستہ پہلوی حکومت کو زندہ کر دیا اور عزیز ملک ایران کو ۲۵ سال شدید ترین قومی صدمات اور سیاسی، معاشی اور ثقافتی مسائل میں دھکیل دیا۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے ۱۹ اگست ۱۹۵۳ کی بغاوت کے بعد امریکیوں کے وسیع اور گہرے اثر و رسوخ کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ اس طرح کی مشکلات کے مقابلے میں اگر ملتوں کے پاس شایستہ رہبر اور لیڈر نہ ہوں تو وہ ہمت ہار جاتی ہیں اور سر تسلیم خم کر لیتی ہیں لیکن ملت ایران عظیم الہی نعمت یعنی امام خمینی کی رہبری میں بتدریج آگاہ سے آگاہ تر ہوتی چلی گئی اور اسلامی تحریک کے ذریعے اس نے پہلوی خاندان سے وابستہ حکومت اور اس کے اصلی حامی امریکہ کو اپنا ہدف بنایا۔
رہبر انقلاب اسلامی نے امام خمینی کی جانب سے سن ۱۹۶۳ میں ملت ایران کی امریکی صدر سے سخت نفرت سے متعلق گفتگو کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ مقتدر اور مصمم ارادوں کے مالک رہبر نے کہ جو خداوند متعال کے وعدے پر محکم ایمان رکھتے تھے اس تحریک کی ابتدا میں ہی لوگوں پر واضح کردیا تھا کہ جو بھی سازش اور فتنہ ہے وہ امریکہ کی وجہ سے ہی ہے۔
آپ نے انقلاب کی کامیابی کے ابتدائی مہینوں میں ہی اسلامی انقلاب سے امریکہ کی دشمنی کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ انقلاب کے بعد امریکی کافی عرصے تک تہران کے سفارتخانے میں موجود رہے اور انکے ایرانی حکومت سے رابطے تھے لیکن انہوں نے ایک دن بھی سازشوں سے ہاتھ نہیں اٹھایا اور یہ تاریخی تجربہ ہے جو بعض افراد کو یہ سمجھانے کے لئے کافی ہے کہ ان سے روابط اور دوستی امریکیوں کی سازشوں اور فتنوں کے خاتمے کا سبب نہیں بن سکتا۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے طالبعلموں کے ہاتھوں امریکی سفارت خانے کی تسخیر کو واشنگٹن کی سازشوں اور امریکیوں کی جانب سے ملت ایران کے قطعی دشمن محمد رضا شاہ پہلوی کو پناہ دیئے جانے کا ردعمل قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ امریکی سفارتخانے سے جو دستاویزات برآمد ہوئی ہیں ان سے پتہ چلتا ہے کہ یہ سفارتخانہ حقیقت میں جاسوسی کا گڑھ اور ملت ایران اور نوزائیدہ اسلامی انقلاب کے خلاف مستقل بنیادوں پر سازشوں کا مرکز تھا۔
آپ نے جاسوسی کے گڑھ سے دریافت ہونے والے دستاویزات پر غور و فکر کرنے کو اہم، ضروری اور عبرت آموز قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ یہ دستاویزات صراحت کے ساتھ اس بات کی نشاندہی کرتی ہیں کہ امریکیوں نے تحریک کے آغاز ، بادشاہت کے ننگین نظام کے خلاف عوام کے قیام اور اسی طرح انقلاب کے بعد ملت ایران کو مسلسل نقصان پہچانے کی کوششیں کی ہیں۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے امریکی جنرل ہایزر کی یادداشتوں کا تذکرہ کرتے ہوئے کہ جو سن ۱۹۷۸ کے موسم سرما میں شاہی حکومت کو نجات دلانے کے لئے ایران آیا تھا فرمایا کہ یہ یادداشتیں واضح طور پر نشاندہی کرتی ہیں کہ امریکہ عملی طور پر ایرانی عوام کے قتل عام کے لئے پہلوی جنرلوں کی حوصلہ افزائی اور رہنمائی کرتا تھا۔
رہبر انقلاب اسلامی نے انقلاب مخالف اور ملک کے ٹکڑے کرنے کی سازشوں، نوژہ سے موسوم بغاوت، ایران پر حملے کے لئے صدام کی حوصلہ افزائی، اور بغداد کے منفور ڈکٹیٹر کی آٹھ سالہ مسلط کردہ جنگ میں مدد و حمایت کو امریکا کی سازشوں کی دیگر کڑیاں قرار دیا۔
آپ نے تاکید کے ساتھ فرمایا کہ امریکیوں نے ایران کی حقیقتوں کی بد فہمی اور ان کی تحلیل میں ناتوانی کے ساتھ ساتھ گذشتہ ۳۷ سالوں کے دوران انقلاب کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کی کوشش کی ہے لیکن خداوند متعال کے فضل سے انہیں شکست ہوئی اور وہ آئندہ بھی ناکام رہیں گے۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے شیطان بزرگ کی سازشوں کی زنجیر کے تذکرے کا ہدف امریکا کی دقیق شناخت کو قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ گذشتہ سالوں میں بعض افراد نے اپنی خود غرضی، امریکہ کی گائیڈ لائن یا اپنی سادگی کی وجہ سے یہ کوشش کی کہ ملت ایران کے بار بار تجربوں سے چشم پوشی اختیار کرتے ہوئے امریکہ کے فریبکارانہ چہرے کو پیش کر کے یہ باور کروانے کی کوشش کی اگر امریکی کبھی ایران کے دشمن تھے تو آج انہوں نے سازشوں سے ہاتھ اٹھا لیا ہے۔
آپ نے فرمایا کہ ان کوششوں کا مقصد یہ ہے کہ دشمن کے حقیقی چہرے کو ذہنوں سے محو کر دیا جائے تاکہ امریکی پوشیدہ انداز میں اپنی دشمنی کو جاری رکھیں اور مناسب موقع دیکھ کر پیٹھ پر خنجر گھونپ دیں۔
رہبر انقلاب اسلامی نے تاکید کے ساتھ فرمایا حقیقت یہ ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران کے مقابلے میں امریکہ کے اہداف میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے اور اگر وہ اسلامی جمہوریہ کو نابود کرنے کی توانائی رکھتے تو ایک لمحے کے لئے بھی فکر نہیں کرتے لیکن وہ ایسا کر نہیں سکتے، اور حق کی مدد، نوجوانوں کی ہمت کے سائے میں، ایران کی ترقی و پیشرفت، اور ملت کی گہری بصیرت اور اس میں توسیع کے سبب مستقبل میں بھی وہ اپنے اس ہدف کو حاصل کرنے میں ناکام رہیں گے۔
آپ نے مذاکرات میں امریکی حکام کی جانب سے ظاہری نرمی کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ امریکہ اپنے باطن میں اپنے انہی گذشتہ مضموم اہداف کے حصول کے درپے ہے لیکن ملت ایران اس حقیقت کو کبھی فراموش نہیں کرے گی۔
رہبر انقلاب نے اسی سلسلے میں مزید فرمایا کہ مذاکرات میں ایک امریکی عہدیدار نے جنگ سے نفرت کا اظہار کیا حتی گریہ بھی کیا، بعض سادہ لوح افراد شاید اس بات کا یقین بھی کر لیں لیکن قصاب اورانسانیت کی قاتل، صیہونی حکومت کی بے دریغ اور مسلسل حمایت اور یمن کے عوام کے خلاف سنگین جرائم کی حمایت، اس دعوے اور اس گریہ کی حقیقت کو برملا کرتے ہیں۔
رہبر انقلاب اسلامی نے اسلامی جمہوریہ ایران کے دنیا کے مختلف ممالک حتیٰ ان حکومتوں سے بھی کہ جن کے دل ملت ایران کے لئے صاف نہیں ہیں معمول کے روابط کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ ایران کے عوام اپنے اس رویے کے باوجود امریکہ کو کہ جو ہر بہانے سے ملت ایران کو نقصان پہچانے اور اسلامی جمہوریہ کی نابودی کے درپے رہتا ہے ایک دوست کی نظر سے نہیں دیکھیں گے اور اس کی جانب دوستی کا ہاتھ نہیں بڑھائیں گے چونکہ شریعت، عقل اور ضمیر ملت ایران کو اس بات کی اجازت نہیں دیتا۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف امریکہ کی ہمہ جانبہ سرگرمیوں کے جاری رہنے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ بتدریج یہ بات جان چکے ہیں کہ ملت کی استقامت، دینی اعتقادات پر یقین کی وجہ سے ہے اسی وجہ سے اس نے جدید ہتھیاروں کے ذریعے ان اعتقادات اور اقداروں کو اپنے حملے کا ہدف قرار دیا ہے لیکن ہمارے اسکول و کالج اور یونیورسٹیوں کے طالبعلم اور ہمارے سارے نوجوان، اس سازش کو بے اثر کر دیں گے۔
آپ نے فرمایا کہ دشمن بہت زیادہ اس کوشش میں مصروف ہے کہ وہ یونیورسٹیوں کو پہلوی حکومت کی ننگی جارحیت کو دور کی طرح مغرب کی جانب ایک پل میں تبدیل کردے، لیکن ہمارے عزیز نوجوانوں کی ہوشیاری نے یونیورسٹیوں کو بلند اہداف کے حصول کے وسیلے میں تبدیل کردیا ہے اور ہمارے نوجوان اس موثر پوزیشن کی حفاظت کریں گے۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے ملت ایران کی پیشرفت اور اقتدار کو دشمنوں کی جانب سے ایٹمی مذاکرات کی حامی بھرنے کا اصل سبب قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ انہوں نے ان مذکرات میں بھی اپنی مکارانہ تدبیروں کا استعمال کیا ہے تاکہ ملت ایران کی پیشرفت کا راستہ روک سکیں۔
رہبر انقلاب نے فرمایا کہ ملت ایران کے ساتھ امریکہ کی گہری دشمنی کی شناخت کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اپنی اندرونی کمزوریوں سے چشم پوشی کر لی جائے۔ آپ نے فرمایا کہ الیسی سازی، اجرائی اقدامات، سعی و کوشش، مسائل کی درجہ بندی اور کچھ دیگر میدانوں میں کچھ خامیاں موجود ہیں کہ دشمن بہت سارے مواقع پر ان سے استفادہ کرتا ہے۔
آپ نے اصلی دشمن سے غفلت اور داخلی اختلافات میں مبتلا ہونے کو عظیم غلطی قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ بعض افراد کمزوریوں اور داخلی مسائل کا بہانہ بنا کر بیرونی دشمن کو فراموش کردیتے ہیں۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے تاکید کے ساتھ فرمایا کہ ہمیں یہ غلطی نہیں کرنی چاہئے کہ ان افراد کو کہ جن سے اختلاف نظر ہے دشمن سمجھ بیٹھیں، دشمن وہ ہے جو اپنی پوری طاقت و توانائی کے ساتھ اس کوشش میں ہے کہ ملت کو نقصان پہنچائے اور ایک ایسی حکومت قائم کرے جو اسکی دست پروردہ، دلباختہ، تسلیم شدہ اور مگرب کے زیر اثر ہو اور اس کینہ پرور، آگاہ اور سنجیدہ دشمن کو کسی بھی حال میں فراموش نہیں کرنا چاہئے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ تنقید، پیشرفت کا سبب ہوتی ہے، معاشرہ آزاد ہے اور اسے تنقید کا حق حاصل ہے، لیکن امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ کا یہ تاریخی فرمان ہمیں کبھی نہیں بھولنا چاہئے جو انہوں نے متعدد بار فرمایا کہ جتنا چیخنا ہے امریکا کے خلاف چیخئے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے طلبا کو تعلیم و تحصیل علم پر سنجیدگی سے توجہ ، ذاتی خواہشات پرعمومی مفادات کو ترجیح اور اپنی اطلاعات اور تحلیل و تجزئے کی صلاحیت میں اضافہ کی تاکید کرتے ہوئے فرمایا کہ ملت ایران کی آواز واحد موثر آواز ہے جو دنیا کی اس آشفتہ حالی میں ظلم و استحصال و استکبار کے خلاف بلند ہوئی ہے اور جس نے قوموں اور دانشوروں کو اپنی طرف متوجہ کیا ہے اور ہمیں چاہئے کہ اس موثر آواز کو ہرگز خاموش نہ ہونے دیں۔
رہبر انقلاب اسلامی نے کہ جن کی گفتگو طلبا کی جانب سے پرجوش 'امریکا مردہ باد' کے نعروں میں جاری تھی فرمایا کہ ملت ایران کا امریکا مردہ باد کا نعرہ مستحکم عقلی و منطقی پس منظر کا حامل اور آئین اور اصولی فکر و نظر سے اخذ شدہ ہے کہ جو ظلم و ستم سے میل نہیں کھاتا۔
آپ نے مزید فرمایا کہ اس نعرے کا مطلب و مفہوم امریکی اور استکباری سیاست مردہ باد ہے اور اس منطق کی تشریح جس قوم کے سامنے بھی پیش کی جائیگی وہ اسے ضرور قبول کریگی۔
رہبر انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب کے آخر میں تاکید کے ساتھ فرمایا کہ ملت ایران اپنے مصمم ارادے اور امید کے ساتھ اپنے سفر کو جاری رکھے گی اور آج کے یہ نوجوان ایمان و بصیرت میں اضافے اور اصلی معیاروں پر ثابت قدمی کے ساتھ بلا شبہ وہ دور دیکھیں گے جب قومیں خوف و ہراس سے آزاد ہو چکی ہوں گی اور ایران تمام قوموں کی نگاہ میں انتہائی محترم، پیشرفتہ اور حوصلہ بخش ملک بن چکا ہوگا۔
اس ملاقات میں کہ جو تیرہ آبان، یعنی عالمی استکبار سے مقابلے کے قومی دن کے موقع پر انجام پائی رہبر انقلاب اسلامی نے موجودہ دور میں ملت ایران بالخصوص نوجوانوں کی عزت کے ثبات اور ایرانیوں کی پیشرفت و ترقی کے نقشہ پیش کرنے اور ہوشیاری، عمومی بصیرت و آگاہی کوبہت زیادہ اہمیت کا حامل قرار دیا ۔
آپ نے فرمایا کہ موجودہ حالات میں فہم و تحلیل اور ملک کے لئے مستقبل کے سفر کا نقشہ کھینچنے کا اہم اور بنیادی نکتہ اس حقیقیت کا درک کیا جانا ہے کہ بعض افراد کی باتوں کے برخلاف اسلامی جمہوریہ ایران اور ملت ایران کا استکبار سے مقابلہ ، کوئی غیر منطقی اور جذباتی عمل نہیں ہے بلکہ عقل، تجربے اور علمی پس منظر سے لیس مقابلہ ہے۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے اس بات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہ قوموں کے عبرت آموز تجربات پر توجہ کئے جانے سے نظر کے دھوکے اور اندازوں کی غلطی سے بچا جا سکتا ہے فرمایا کہ اگر ہم صرف قرآن مجید کی ظلم اور استکبار سے مقابلے اور ظلم کے مقابلے میں قیام سے متعلق صریح آیات کو ہی سامنے رکھیں تو ۱۹ اگست ۱۹۵۳ کی عظیم بغاوت اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ امریکہ سے کس طرح کا برتاو کیا جانا چاہئے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے تیل کی صنعت کو قومیائے جانے کے زمانے کے حادثات اور واقعات کو بیان کرتے ہوئے، امریکہ پر اعتماد اور اس سے امید لگائے جانے کو اس وقت کے وزیر اعظم ڈاکٹر مصدق کی تاریخی غلطی قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ مصدق نے برطانیہ سے مقابلہ کرنے کے لئے امریکہ پر تکیہ کیا اور یہی خوش فہمی، سادہ لوحی اور غفلت، امریکی بغاوت کی کامیابی کا سبب بنی، وہ بغاوت کہ جس نے تیل کو قومیائے جانے کے سلسلے میں ملت ایران کی تمام تر زحمتوں پر پانی پھیر دیا، جس نے مستبد اور استکبار سے وابستہ پہلوی حکومت کو زندہ کر دیا اور عزیز ملک ایران کو ۲۵ سال شدید ترین قومی صدمات اور سیاسی، معاشی اور ثقافتی مسائل میں دھکیل دیا۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے ۱۹ اگست ۱۹۵۳ کی بغاوت کے بعد امریکیوں کے وسیع اور گہرے اثر و رسوخ کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ اس طرح کی مشکلات کے مقابلے میں اگر ملتوں کے پاس شایستہ رہبر اور لیڈر نہ ہوں تو وہ ہمت ہار جاتی ہیں اور سر تسلیم خم کر لیتی ہیں لیکن ملت ایران عظیم الہی نعمت یعنی امام خمینی کی رہبری میں بتدریج آگاہ سے آگاہ تر ہوتی چلی گئی اور اسلامی تحریک کے ذریعے اس نے پہلوی خاندان سے وابستہ حکومت اور اس کے اصلی حامی امریکہ کو اپنا ہدف بنایا۔
رہبر انقلاب اسلامی نے امام خمینی کی جانب سے سن ۱۹۶۳ میں ملت ایران کی امریکی صدر سے سخت نفرت سے متعلق گفتگو کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ مقتدر اور مصمم ارادوں کے مالک رہبر نے کہ جو خداوند متعال کے وعدے پر محکم ایمان رکھتے تھے اس تحریک کی ابتدا میں ہی لوگوں پر واضح کردیا تھا کہ جو بھی سازش اور فتنہ ہے وہ امریکہ کی وجہ سے ہی ہے۔
آپ نے انقلاب کی کامیابی کے ابتدائی مہینوں میں ہی اسلامی انقلاب سے امریکہ کی دشمنی کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ انقلاب کے بعد امریکی کافی عرصے تک تہران کے سفارتخانے میں موجود رہے اور انکے ایرانی حکومت سے رابطے تھے لیکن انہوں نے ایک دن بھی سازشوں سے ہاتھ نہیں اٹھایا اور یہ تاریخی تجربہ ہے جو بعض افراد کو یہ سمجھانے کے لئے کافی ہے کہ ان سے روابط اور دوستی امریکیوں کی سازشوں اور فتنوں کے خاتمے کا سبب نہیں بن سکتا۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے طالبعلموں کے ہاتھوں امریکی سفارت خانے کی تسخیر کو واشنگٹن کی سازشوں اور امریکیوں کی جانب سے ملت ایران کے قطعی دشمن محمد رضا شاہ پہلوی کو پناہ دیئے جانے کا ردعمل قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ امریکی سفارتخانے سے جو دستاویزات برآمد ہوئی ہیں ان سے پتہ چلتا ہے کہ یہ سفارتخانہ حقیقت میں جاسوسی کا گڑھ اور ملت ایران اور نوزائیدہ اسلامی انقلاب کے خلاف مستقل بنیادوں پر سازشوں کا مرکز تھا۔
آپ نے جاسوسی کے گڑھ سے دریافت ہونے والے دستاویزات پر غور و فکر کرنے کو اہم، ضروری اور عبرت آموز قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ یہ دستاویزات صراحت کے ساتھ اس بات کی نشاندہی کرتی ہیں کہ امریکیوں نے تحریک کے آغاز ، بادشاہت کے ننگین نظام کے خلاف عوام کے قیام اور اسی طرح انقلاب کے بعد ملت ایران کو مسلسل نقصان پہچانے کی کوششیں کی ہیں۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے امریکی جنرل ہایزر کی یادداشتوں کا تذکرہ کرتے ہوئے کہ جو سن ۱۹۷۸ کے موسم سرما میں شاہی حکومت کو نجات دلانے کے لئے ایران آیا تھا فرمایا کہ یہ یادداشتیں واضح طور پر نشاندہی کرتی ہیں کہ امریکہ عملی طور پر ایرانی عوام کے قتل عام کے لئے پہلوی جنرلوں کی حوصلہ افزائی اور رہنمائی کرتا تھا۔
رہبر انقلاب اسلامی نے انقلاب مخالف اور ملک کے ٹکڑے کرنے کی سازشوں، نوژہ سے موسوم بغاوت، ایران پر حملے کے لئے صدام کی حوصلہ افزائی، اور بغداد کے منفور ڈکٹیٹر کی آٹھ سالہ مسلط کردہ جنگ میں مدد و حمایت کو امریکا کی سازشوں کی دیگر کڑیاں قرار دیا۔
آپ نے تاکید کے ساتھ فرمایا کہ امریکیوں نے ایران کی حقیقتوں کی بد فہمی اور ان کی تحلیل میں ناتوانی کے ساتھ ساتھ گذشتہ ۳۷ سالوں کے دوران انقلاب کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کی کوشش کی ہے لیکن خداوند متعال کے فضل سے انہیں شکست ہوئی اور وہ آئندہ بھی ناکام رہیں گے۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے شیطان بزرگ کی سازشوں کی زنجیر کے تذکرے کا ہدف امریکا کی دقیق شناخت کو قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ گذشتہ سالوں میں بعض افراد نے اپنی خود غرضی، امریکہ کی گائیڈ لائن یا اپنی سادگی کی وجہ سے یہ کوشش کی کہ ملت ایران کے بار بار تجربوں سے چشم پوشی اختیار کرتے ہوئے امریکہ کے فریبکارانہ چہرے کو پیش کر کے یہ باور کروانے کی کوشش کی اگر امریکی کبھی ایران کے دشمن تھے تو آج انہوں نے سازشوں سے ہاتھ اٹھا لیا ہے۔
آپ نے فرمایا کہ ان کوششوں کا مقصد یہ ہے کہ دشمن کے حقیقی چہرے کو ذہنوں سے محو کر دیا جائے تاکہ امریکی پوشیدہ انداز میں اپنی دشمنی کو جاری رکھیں اور مناسب موقع دیکھ کر پیٹھ پر خنجر گھونپ دیں۔
رہبر انقلاب اسلامی نے تاکید کے ساتھ فرمایا حقیقت یہ ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران کے مقابلے میں امریکہ کے اہداف میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے اور اگر وہ اسلامی جمہوریہ کو نابود کرنے کی توانائی رکھتے تو ایک لمحے کے لئے بھی فکر نہیں کرتے لیکن وہ ایسا کر نہیں سکتے، اور حق کی مدد، نوجوانوں کی ہمت کے سائے میں، ایران کی ترقی و پیشرفت، اور ملت کی گہری بصیرت اور اس میں توسیع کے سبب مستقبل میں بھی وہ اپنے اس ہدف کو حاصل کرنے میں ناکام رہیں گے۔
آپ نے مذاکرات میں امریکی حکام کی جانب سے ظاہری نرمی کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ امریکہ اپنے باطن میں اپنے انہی گذشتہ مضموم اہداف کے حصول کے درپے ہے لیکن ملت ایران اس حقیقت کو کبھی فراموش نہیں کرے گی۔
رہبر انقلاب نے اسی سلسلے میں مزید فرمایا کہ مذاکرات میں ایک امریکی عہدیدار نے جنگ سے نفرت کا اظہار کیا حتی گریہ بھی کیا، بعض سادہ لوح افراد شاید اس بات کا یقین بھی کر لیں لیکن قصاب اورانسانیت کی قاتل، صیہونی حکومت کی بے دریغ اور مسلسل حمایت اور یمن کے عوام کے خلاف سنگین جرائم کی حمایت، اس دعوے اور اس گریہ کی حقیقت کو برملا کرتے ہیں۔
رہبر انقلاب اسلامی نے اسلامی جمہوریہ ایران کے دنیا کے مختلف ممالک حتیٰ ان حکومتوں سے بھی کہ جن کے دل ملت ایران کے لئے صاف نہیں ہیں معمول کے روابط کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ ایران کے عوام اپنے اس رویے کے باوجود امریکہ کو کہ جو ہر بہانے سے ملت ایران کو نقصان پہچانے اور اسلامی جمہوریہ کی نابودی کے درپے رہتا ہے ایک دوست کی نظر سے نہیں دیکھیں گے اور اس کی جانب دوستی کا ہاتھ نہیں بڑھائیں گے چونکہ شریعت، عقل اور ضمیر ملت ایران کو اس بات کی اجازت نہیں دیتا۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف امریکہ کی ہمہ جانبہ سرگرمیوں کے جاری رہنے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ بتدریج یہ بات جان چکے ہیں کہ ملت کی استقامت، دینی اعتقادات پر یقین کی وجہ سے ہے اسی وجہ سے اس نے جدید ہتھیاروں کے ذریعے ان اعتقادات اور اقداروں کو اپنے حملے کا ہدف قرار دیا ہے لیکن ہمارے اسکول و کالج اور یونیورسٹیوں کے طالبعلم اور ہمارے سارے نوجوان، اس سازش کو بے اثر کر دیں گے۔
آپ نے فرمایا کہ دشمن بہت زیادہ اس کوشش میں مصروف ہے کہ وہ یونیورسٹیوں کو پہلوی حکومت کی ننگی جارحیت کو دور کی طرح مغرب کی جانب ایک پل میں تبدیل کردے، لیکن ہمارے عزیز نوجوانوں کی ہوشیاری نے یونیورسٹیوں کو بلند اہداف کے حصول کے وسیلے میں تبدیل کردیا ہے اور ہمارے نوجوان اس موثر پوزیشن کی حفاظت کریں گے۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے ملت ایران کی پیشرفت اور اقتدار کو دشمنوں کی جانب سے ایٹمی مذاکرات کی حامی بھرنے کا اصل سبب قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ انہوں نے ان مذکرات میں بھی اپنی مکارانہ تدبیروں کا استعمال کیا ہے تاکہ ملت ایران کی پیشرفت کا راستہ روک سکیں۔
رہبر انقلاب نے فرمایا کہ ملت ایران کے ساتھ امریکہ کی گہری دشمنی کی شناخت کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اپنی اندرونی کمزوریوں سے چشم پوشی کر لی جائے۔ آپ نے فرمایا کہ الیسی سازی، اجرائی اقدامات، سعی و کوشش، مسائل کی درجہ بندی اور کچھ دیگر میدانوں میں کچھ خامیاں موجود ہیں کہ دشمن بہت سارے مواقع پر ان سے استفادہ کرتا ہے۔
آپ نے اصلی دشمن سے غفلت اور داخلی اختلافات میں مبتلا ہونے کو عظیم غلطی قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ بعض افراد کمزوریوں اور داخلی مسائل کا بہانہ بنا کر بیرونی دشمن کو فراموش کردیتے ہیں۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے تاکید کے ساتھ فرمایا کہ ہمیں یہ غلطی نہیں کرنی چاہئے کہ ان افراد کو کہ جن سے اختلاف نظر ہے دشمن سمجھ بیٹھیں، دشمن وہ ہے جو اپنی پوری طاقت و توانائی کے ساتھ اس کوشش میں ہے کہ ملت کو نقصان پہنچائے اور ایک ایسی حکومت قائم کرے جو اسکی دست پروردہ، دلباختہ، تسلیم شدہ اور مگرب کے زیر اثر ہو اور اس کینہ پرور، آگاہ اور سنجیدہ دشمن کو کسی بھی حال میں فراموش نہیں کرنا چاہئے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ تنقید، پیشرفت کا سبب ہوتی ہے، معاشرہ آزاد ہے اور اسے تنقید کا حق حاصل ہے، لیکن امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ کا یہ تاریخی فرمان ہمیں کبھی نہیں بھولنا چاہئے جو انہوں نے متعدد بار فرمایا کہ جتنا چیخنا ہے امریکا کے خلاف چیخئے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے طلبا کو تعلیم و تحصیل علم پر سنجیدگی سے توجہ ، ذاتی خواہشات پرعمومی مفادات کو ترجیح اور اپنی اطلاعات اور تحلیل و تجزئے کی صلاحیت میں اضافہ کی تاکید کرتے ہوئے فرمایا کہ ملت ایران کی آواز واحد موثر آواز ہے جو دنیا کی اس آشفتہ حالی میں ظلم و استحصال و استکبار کے خلاف بلند ہوئی ہے اور جس نے قوموں اور دانشوروں کو اپنی طرف متوجہ کیا ہے اور ہمیں چاہئے کہ اس موثر آواز کو ہرگز خاموش نہ ہونے دیں۔
رہبر انقلاب اسلامی نے کہ جن کی گفتگو طلبا کی جانب سے پرجوش 'امریکا مردہ باد' کے نعروں میں جاری تھی فرمایا کہ ملت ایران کا امریکا مردہ باد کا نعرہ مستحکم عقلی و منطقی پس منظر کا حامل اور آئین اور اصولی فکر و نظر سے اخذ شدہ ہے کہ جو ظلم و ستم سے میل نہیں کھاتا۔
آپ نے مزید فرمایا کہ اس نعرے کا مطلب و مفہوم امریکی اور استکباری سیاست مردہ باد ہے اور اس منطق کی تشریح جس قوم کے سامنے بھی پیش کی جائیگی وہ اسے ضرور قبول کریگی۔
رہبر انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب کے آخر میں تاکید کے ساتھ فرمایا کہ ملت ایران اپنے مصمم ارادے اور امید کے ساتھ اپنے سفر کو جاری رکھے گی اور آج کے یہ نوجوان ایمان و بصیرت میں اضافے اور اصلی معیاروں پر ثابت قدمی کے ساتھ بلا شبہ وہ دور دیکھیں گے جب قومیں خوف و ہراس سے آزاد ہو چکی ہوں گی اور ایران تمام قوموں کی نگاہ میں انتہائی محترم، پیشرفتہ اور حوصلہ بخش ملک بن چکا ہوگا۔