ویب سائٹ دفتر رہبر معظم انقلاب اسلامی

رہبر معظم انقلاب اسلامی :

اقتدار کے اضافہ میں علم و ٹیکنالوجی، اقتصاد اور ثقافت کے تین عناصر اہم/ دنیا کے نئے نظام میں کردار ادا کرنے کے لئے قوی اور مضـوط ہونا چاہیے/مغربی میڈیا کی یلغار کے بارے میں تشریح پر تاکید/حکومت اور اداروں کی حمایت سب کی ذمہ داری

رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے اج صبح(بروز جمعرات) خبرگان کونسل کے نمائندوں کے ساتھ ملاقات میں دنیا میں نئے نظم کی تشکیل کے علائم ، ملکی ، علاقائي اور عالمی حالات پر جامع تحلیل اور تجزيہ پیش کیا اور دنیا کے موجودہ نظم اور مغربی ممالک کے تسلط کے فکری اور عملی ستونوں کے متزلزل اور کمزور ہونے کے علل و اسباب کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: اس حساس موقع پر سب سے اہم ذمہ داری ،دنیا کے نئے نظم کی تشکیل میں نقش آفرینی ، اثر انداز ہونے اور کردار ادا کرنے کے لئے ملک کے اقتدار میں اضافہ ہے اور ملکی اقتدار میں اضافہ علم و ٹیکنالوجی، اقتصاد اور ثقافت کے تین اہم ستونوں پر استوار ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: اتحاد اور ہمدلی ملک کی بنیادی ضرورت ہے اور حکومت اور اجرائی اداروں کی حمایت سب کی ذمہ داری ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے اس ملاقات کے آغاز میں خـبرگان کونسل کے سربراہ آیت اللہ مہدوی کنی کی شخصیت کی تعریف اور تجلیل کی  اور ان کی صحت و سلامتی کے لئے دعا فرمائي اور اس کے ساتھ گذشتہ مہینوں میں خبرگان کونسل کے بعض مرحوم نمائندوں کی یاد تازہ کرتے ہوئے ان کے لئے رحمت اور مغفرت طلب کی اور ماہ ذیقعدہ اور ماہ توبہ و انابہ کے فیوضات اور برکات سے سب کو استفادہ کرنے کی سفارش فرمائی۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اس کے بعد عالمی ، علاقائی اور ملکی حالات اور شرائط کے بارے میں جامع تحلیل اور تجزيہ پیش کرتے ہوئے فرمایا: موجودہ حالات اس بات کا مظہر ہیں کہ گذشتہ 70 سال کے عالمی نظام میں تبدیلی رونما ہورہی ہے جس بنیاد امریکہ اور یورپی ممالک نے رکھی تھی اور آج دنیا میں ایک نیا نظام تشکیل پارہا ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے گذشتہ ستر سال میں دنیا میں قائم نظم کے سیاسی، فوجی اور فکری و اقداری دو  ستونوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: حالیہ برسوں میں علاقائی اور عالمی سطح پر رونما ہونے والے واقعات سے واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ مغرب کے اقتدار کے دونوں ستون متزلزل اور کمزور ہوگئے ہیں اور انھیں سخت چیلنجوں کا سامنا ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے مغربی نظام کے فکری اور اقداری ستون کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: مغربی ممالک نے گذشتہ برسوں میں آزادی، ڈیموکریسی، انسانی حقوق اور انسانوں کا دفع کرنے جیسے جذاب اور خوبصورت الفاظ کے ذریعہ دنیا کے مختلف علاقوں، دیگر ادیانوں بالخصوص اسلام پر اپنا تسلط جمانے کی بھر پور کوشش کی اور افسوس ہے کہ مغربی ممالک  کے اس فریب میں عالم اسلام  کی بعض حکومتیں اور شخصیات آگئیں اور انھوں نے اقدار اور فکر کے سلسلے میں مغربی ممالک کے دعوؤں کا تسلیم کرلیا اور عالم اسلام میں  اس فکر کے اب بھی طرفدار موجود ہیں۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے مغربی تمدن کے سیاسی اور فوجی ستون کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: اگر مغربی ممالک کے فکری اور اقداری دعوؤں کے زیر اثر قومیں، حکومتیں اور سیاسی جماعتیں قرار نہ پاتیں  اور ان کے مقابلے میں استقامت اور پائداری کا مظاہرہ کرتیں اور ان کا سیاسی اور فوجی دباؤ کے ذریعہ مقابلہ کرتیں ، اور ان کے دباؤ کے موارد ایران سمیت متعدد ممالک میں موجود ہیں۔

حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے فرمایا: مغربی نظام اپنے تبلیغاتی اداروں کے فروغ اور پیشرفت کے ذریعہ ان دو ستونوں کو  دوسری قوموں کے منہ اور  رخ پر کھینچتا تھا اور اس طرح وہ قوموں ،دانشوروں اور روشنفکر افراد کو قائل کرتا تھا کہ مغربی نظام ہی دنیا کا برترین اور بہترین نظام ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے موجودہ شرائط میں مغرب کے عالمی نظام کے دونوں ستونوں کو متزلزل قراردیا اور مغربی ممالک کے معنوی تسلط ، فکری اور اقداری اصول کو چیلنج کرنے والے عوامل کی تشریح کرتے ہوئے فرمایا: مغربی ممالک میں عوام بالخصوص جوانوں میں  اخلاقی بحران جیسے بیہودگی ، بے حیائی ، نفسیاتی اور روحی بدامنی  کے روز بروز اضافہ ہونے، خاندان کی بنیاد متزلزل اور سست ہونے، عورت کے بارے میں غلط نظریہ قائم کرنے ، فیمنزم  پر سوالیہ نشان لگانے ، ہمجنس پرستی، غیر اخلاقی اقدار جیسے منکرات کا فروغ ، پہلا عامل ہے جو مغربی فکر و تمدن کے لئے بہت بڑا چیلنج بن گیا ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے مغربی ممالک میں مذہب بالخصوص اسلام کی جانب بڑھتے ہوئے رجحان اور قرآن مجید پر توجہ کو دوسرا عامل قراردیا اور مغربی ممالک کے پسندیدہ نعروں میں عملی تعارض اور تضاد کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: مغربی ممالک جو ہمیشہ آزادی، انسانی حقوق اور ڈیموکریسی کا دم بھرتے ہیں وہ عملی میدان میں ان نعروں کی خلاف ورزی کرتے ہیں اور آج مغربی ممالک کے یہ نعرے ایک بیہودہ اور ناقابل اعتماد  امر میں تبدیل ہوگئے ہیں۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے مستقل حکومتوں کے خلاف فوجی کودتا کی  مغربی ممالک کی جانب سےحمایت کے اعداد شمار کو تعجب خیزقراردیتے ہوئے فرمایا: بعض رپورٹوں کے مطابق امریکہ نے دوسری عالمي جنگ کے بعد 50 حکومتوں کو گرانے اور دسیوں عوامی تحریکوں کو دبانے اور کچلنے کا اقدام کیا ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے امریکہ کی جانب سے ایٹم بم کے استفادہ اور جاپان میں دو لاکھ افراد کے قتل عام، گوانتانامو ، ابو غریب جیلوں کے قیام اور یورپ میں دسیوں مخفی قیدخانوں کے قیام کو مغربی ممالک کے عمل اور مکر و فریب پر مبنی نعروں کے درمیان تعارض اور تضاد کے دیگر  نمونے قراردیتے ہوئے فرمایا: تسلط پسندی کی مخالف حکومتوں اور قوموں کے خلاف تشدد، طاقت اور زور سے استفادہ ، دہشت گرد گرو ہوں کی حمایت، قتل و غارتگری، عراق و افغانستان پر فوجی لشکر کشی، پاکستان پر مسلسل فضائی حملے اور پاکستانی فضائی حدود کی خلاف ورزی، مغربی ممالک کے فکری اور تمدنی اصول کے متزلزل ہونے کا چوتھا عامل ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے مغربی نظام ، فکر اور تمدن کو چيلنج کرنے والے پانچویں اور آخری عامل کو القاعدہ اور داعش جیسی تنظیموں کی تشکیل قراردیتے ہوئے فرمایا: اگر چہ امریکہ اور مغربی ممالک یہ دعوی کرتے ہیں کہ ان تنظیموں کو انھوں نے تشکیل نہیں دیا ہے لیکن مختلف شواہد کی بنیاد پر اس میں کوئی شک و تردید نہیں ہے کہ ان دہشت گرد گروہوں کی تشکیل میں مغربی ممالک اور علاقہ میں ان کے عوامل کا ہاتھ ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے تاکید کرتے ہوئے  فرمایا: مغربی ممالک کے نظام اور ان کے اقدار و تمدن کو ان عوامل اور چیلنجوں کا سامنا ہے اور اب کوئی بھی ان کے انسانی حقوق ، آزادی اور جمہوریت کے دعوؤں کا طرفدار نہیں ہے اور نہ ہی کسی کو ان کے ان کھوکھلے نعروں پر اعتماد ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اس کے بعد مغربی ممالک کے سیاسی اور فوجی ستون کو درپیش چیلنجوں کی تشریح کرتے ہوئے فرمایا: مغربی ممالک کے اس ستون کے متزلزل ہونے میں انقلاب اسلامی کے قیام کا اہم کردار ہے اسلامی نظام  در حقیقت اسلامی افکار اور اصول کا حامل ہے انقلاب اسلامی کی تحریک ایسے علاقہ میں  وجود میں آئی جو مکمل طور پر امریکہ کے زیر اثر تھا اور اسلامی نظآم نے مغربی ممالک کے گوناگوں اقتصادی، معاشی، فوجی اور سیاسی حملوں کے مقابلے میں استقامت کا مظاہرہ کیا اور نہ صرف ختم نہیں ہوا بلکہ اب مقتدر اور طاقتور بھی بن گيا ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اسلامی جمہوری نظام کو ایک مقتدر اور مظلوم نظام قراردیتے ہوئے فرمایا: ایرانی عوام کی آٹھ سال تک  دفاع مقدس میں استقامت  کوئی معمولی بات نہیں ہے کیونکہ ایرانی عوام نے ثابت کردیا کہ عالمی جابر ، ظالم اور تسلط پسند طاقتیں کسی قوم کی استقامت کو ختم کرنے پر قادر نہیں ہیں۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے علاقائی حوادث منجملہ لبنان کی 33 روزہ جنگ، غزہ کی 22 روزہ جنگ، آٹھ روزہ جنگ اور حالیہ 50 روزہ جنگ کو مغربی ممالک کے سیاسی اور فوجی نظام کے متزلزل ہونے کا مظہر قراردیتے ہوئے فرمایا: غزہ کی حالیہ جنگ معجزنما ہے کیونکہ ایک محدود اور چھوٹےعلاقہ میں عوام کی استقامت غاصب اسرائیلی حکومت کی شکست و ناکامی کا موجب بن گئی جو علاقہ میں امریکی طاقت اور قدرت کی مظہر تھی  لیکن طاقت اور قدرت کے باوجود غزہ کے عوام نے اسے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیا اور غزہ کے عوام نے اپنے شرائط پورا نہ ہونے تک اسرائیل کی جانب سےجنگ بندی کی درحواست کو قبول نہیں کیا۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے مغربی ممالک کے بعض با اثر افراد کی جانب سے فوجی اّپشن کے غیر مؤثر ہونے کے نظریہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: اس بات کا مطلب یہ ہے کہ مغربی ممالک کی فوجی توانائیاں اور صلاحیتیں مکمل طور پر چيلنج ہوگئی ہیں۔

700 /