ویب سائٹ دفتر رہبر معظم انقلاب اسلامی

رہبر معظم انقلاب اسلامی :

عادلانہ ، پیشرفتہ اور معنوی معاشرے تک پہنچنا، اسلامی نظام کے اصلی اور سرفہرست اہداف میں شامل/ تمام شرائط میں حقیقت کے ساتھ اہداف کی جانب گامزن رہیں/ ذمہ داری پر عمل اور نتیجہ تک پہنچنے میں کوئی تضاد نہیں ہے

رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای سے آج سہ پہر کو یونیورسٹیوں اور اعلی تعلمی مراکز کے ایک ہزار طلباء نے صمیمی ماحول میں ملاقات کی اس ملاقات میں طلباء نے سیاسی، سماجی، علمی ، ثقافتی ، اقتصادی اور یونیورسٹیوں کے مختلف موضوعات کے بارے میں اپنے نظریات کو پیش کیا۔

اس ملاقات کا آغاز سہ پہر 5 بجے سے ہوا اوراس کا سلسلہ نماز مغرب و عشا تک جاری رہا۔ طلباء کی مختلف انجمنوں کے 12 نمائندوں نے اپنے مسائل ، مطالبات اور مؤقف کو پیش کیا۔

 رہبرمعظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے بیان شدہ مسائل کے متعلق جواب دیتے ہوئےبعض نکات بیان کئے، حقائق اور اہداف کی نسبت کی تشریح ، طلباء کی ذمہ داریوں ،وظائف اور یونیورسٹیوں میں شوق و نشاط پیدا کرنے کی راہوں پر روشنی ڈالی۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے طلباء کے بانشاط ،صمیمی اور ولولہ انگیز اجتماع سے ملاقات پر اللہ تعالی کا شکر ادا کیا اور اس ملاقات میں بیان شدہ موضوعات اور مطالب کو پختہ اور سنجیدہ قراردیتے ہوئے مختلف اداروں کو طلباء کی  تجاویز کے محقق ہونے کی راہوں کے بارے میں غور و فکر کرنے کی سفارش فرمائي۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے ایک طالب علم کی طرف سے اعتدال کے معنی بیان کرنے کے سلسلے میں سوال کا جواب دیتے ہوئے فرمایا: منتخب صدر محترم نے اس نعرے کو بیان کیا ہے اور یقینی طور پر وہ اپنے اس نعرے اور اعتدال کے معنی اور مفہوم کو بھی بیان کریں گے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے ایک اور طالب علم کی طرف سے منتخب صدر کی حکومت کے ساتھ تعاون پر مبنی سوال کا جواب دیتے ہوئے فرمایا: جیسا کہ تمام حکومتوں کے ساتھ تعاون جاری رہا ہے اس حکومت کے ساتھ بھی تعاون کرنا چاہیے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: بعض لوگ کہتے ہیں کہ اگر حکومت ایسا کرےگی تو تعاون کریں گے ورنہ تنقید کریں گے، میں تنقید کے خلاف نہیں ہوں لیکن تنقید اور عیب جوئی میں بڑا فرق ہے اور دوسری بات یہ ہے کہ پہلے کام کرنے ، تلاش و کوشش اور خدمت  کا موقع دینا چاہیے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے قوہ مجریہ کے کام کو حقیقت میں سخت اور دشوار قراردیتے ہوئے فرمایا: کوئی شخص ایسا نہیں ہے جس میں کمزور نقطہ موجود نہ ہو، لہذا توقعات کو اتنا بلند و بالا نہیں لے جانا چاہیے جن پر پورا اترنا انسان کی توانائی سے خارج ہوجائے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے حقائق اور مشکلات کو مد نظر رکھنےکی ضرورت پر تاکید کرتے ہوئے فرمایا: تمام فعال سیاسی جماعتوں، اور یونیورسٹیوں کے افراد کو ایکدوسرے کے ہاتھ میں ہاتھ دینا چاہیے تاکہ اللہ تعالی کے فضل و کرم سے تمام اموردرست اور صحیح انجام پذیر ہوں۔

ایک اور طالب علم نےسیاسی اور سماجی  تحلیل اور تجزيہ کی بنا پر طلباء کے درمیان کینہ ، عداوت اورکدورت پیدا ہونے کی طرف اشارہ کیا۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نےسیاسی اور سماجی تحلیل اور تجزيہ کو دشمنی اور کدورت میں بدلنے سے اجتناب اور پرہیز کرنے کی تاکید کرتے ہوئے فرمایا: مختلف سلیقوں کے حامی طلباء سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ سیاسی و سماجی تحلیل اور تجزيہ کو خصومت، دشمنی اور بغض و کینہ میں تبدیل ہونے کی اجازت نہ دیں۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اسی سلسلے میں فرمایا: حضرت امام (رہ) کی سفارش کے مطابق دینی طلباء کی طرح رہیں جو مباحثہ کے وقت بہت ہی سنجیدہ ہوتے ہیں لیکن دوسرے اوقات میں آپس میں محبت ،دوستی اور الفت سے پیش آتے ہیں۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نےسن 1388 ہجری شمسی کے فتنہ کے بارے میں بعض طلباء کے مطالب کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: اس تلخ و ناگوار واقعہ میں کچھ لوگ قانون شکنی پر اترآئے اور وہ قانون کے مقابلے میں کھڑے ہوگئے جس کی وجہ سے ایران کو بہت بڑا نقصان اٹھانا پڑا۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: البتہ ممکن ہے کہ ایک بڑے واقعہ کے ساتھ کچھ دوسرے واقعات بھی رونما ہوں جن میں ایک شخص ظالم یا مظلوم واقع ہوجائے لیکن ہر حال میں اس مسئلہ کی بنا پر دیگر مسائل کی راہ کو گم نہیں کرنا چاہیے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اسی سلسلے میں بنیادی اور اساسی سوال بیان کرتے ہوئے فرمایا: سن 1388 ہجری شمسی کے انتخابات میں دھاندلی کے مدعی افراد نے قانون کا راستہ اختیار کرنے کے بجائے سڑکوں کا راستہ کیوں اختیار کیا؟

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: ہم نےمتعدد بار اس سوال کو عام اجتماعات میں بیان کرنے کے بجائے جواب دینے کی شکل میں پیش کیا ہے پھر وہ کیوں جواب نہیں دیتے اور معذرت طلب نہیں کرتے ہیں؟

رہبر معظم انقلاب اسلامی نےفرمایا: وہ خصوصی نشستوں میں انتخابات میں دھاندلی نہ ہونے کا اعتراف کرتے ہیں پھر انھوں نے کس بنا پر ملک کو اتنے بڑے نقصان اور خطرےسے دوچار کیا؟

رہبر معظم انقلاب اسلامی نےبعض علاقائی ممالک میں بحران اور خونریز حالات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: آپ جانتے ہیں کہ اگر سن 1388 ہجری شمسی کے فتنہ میں اللہ تعالی کی مدد و نصرت شامل حال  نہ ہوتی  اور عوامی گروہ ایکدوسرے کے ساتھ دست و گریباں ہوجاتے تو ملک کو کن سخت اور ناگوار حالات کا سامنا کرنا پڑتا؟ البتہ اللہ تعالی نے حفاظت فرمائی اور قوم نے بھی بصیرت سے کام لیا۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے ایک طالب علم کی طرف سے  سختی سے پیش آنے پر مبنی سوال کے جواب میں منطقی بحث میں سختی کو سنجیدگی اور استقامت کے معنی میں قابل قبول امر قراردیتے ہوئے فرمایا: اگر سختی کرنے سے مراد طاقت اور زور کے بل بوتے پر مخالفت ہو تو میں اس کے خلاف ہوں۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے ایک اور طالب علم کی طرف سے تمام اداروں بالخصوص پارلیمنٹ ، عدلیہ اور ریڈیو ٹی وی پر نگرانی کے بارے میں سوال کی تائید کرتے ہوئے فرمایا: پارلیمنٹ اور عدلیہ پر نگرانی اور نظارت کیسے ہو یہ ایک اہم مطلب ہے اور فعال طلباء اس سلسلے میں کام کرسکتے ہیں اور اپنی تجاویز پیش کرسکتے ہیں۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب میں کچھ سوالات اور ان کے جوابات پیش کئے اور طلباء پر زوردیا کہ وہ یونیورسٹیوں میں ان موضوعات کے بارے میں بحث اور تبادلہ خیال کریں۔

پہلا سوال: انقلاب کے اہداف کے ساتھ انقلابی عنصر اور طالب علم کی نسبت کیا ہے؟ رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اس سوال کا جواب دیتے ہوئے ابتدائی طور پرانقلاب کے اہداف کی تشریح اور معاشرتی حقائق کے ساتھ ان کے رابطہ کے بارے میں بحث کی۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اس اہم نکتہ کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: جوانوں کی ہمت، شجاعت، نشاط اور طاقت کے بغیر انقلاب کے اہداف تک پہنچنا ممکن نہیں ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: انقلاب کے اہداف کو عملی جامہ پہنانے کے لئے جوانوں کے نقش و کردار پر سنجیدگی کے ساتھ توجہ مبذول کرنی چاہیے کیونکہ میرا اس بات پر اعتقاد ہے کہ  جوانوں کے اندر گرہیں کھولنے کی طاقت اور توانائی موجود ہے۔

رہبرمعظم انقلاب اسلامی نے اس مقدمہ کو پیش کرنے کے بعد انقلاب اسلامی کے اہداف اور اصولوں کی تشریح کرتے ہوئے فرمایا: اسلامی نظام کئی اہداف اور اصولوں پر مشتمل ہے اور ان تمام اہداف تک پہنچنے کےسلسلے میں تلاش وکوشش کرنی چاہیے لیکن ان اہداف کے مختلف درجات اور مراحل ہیں۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے عادلانہ، پیشرفتہ اور معنوی معاشرے کو اسلامی نظام کے سر فہرست اہداف میں قراردیتے ہوئے فرمایا: عادلانہ معاشرہ وہ معاشرہ ہے جس میں حکام کی رفتار منصفانہ اور عادلانہ ہوتی ہے اورعوام بھی ایکدوسرے کے ساتھ عدل و انصاف سے پیش آتے ہیں اور اس کے ساتھ یہ معاشرہ علمی سیاسی، اور ثقافتی سطح پر بھی پیشرفتہ اور معنوی لحاظ سے بھی سیراب ہوتا ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے ایسے اہداف تک پہنچنے کو ممکن اور قابل عمل قراردیتے ہوئے فرمایا: اب تک اس سلسلے میں اہم اور اچھی پیشرفت حاصل ہوئی ہے اور ایسا معاشرہ اسلامی اور غیر اسلامی ممالک کے لئے نمونہ عمل بن سکتا ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اصلی اہداف کے بعد اسلامی نظام کے بعض دیگر اہداف کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: پائدار اور مزاحمتی اقتصاد ، معاشرے میں امن و سلامتی، پیشرفتہ صنعت و پیشرفتہ زراعت، بارونق و با نشاط تجارت، علمی پیشرفت ، عالمی سطح پر سیاسی اور ثقافتی نفوذ یہ سب کے سب اسلامی نظام کے اہداف ہیں جو محقق ہوسکتے ہیں۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے دوسرا سوال  حقائق کے ساتھ اہداف کی نسبت کے بارے میں طلباء کے سامنے پیش کیا۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: مثال کے طور پراقتصادی پابندیاں ایک حقیقت ہیں اور دوسری طرف اقتصادی ترقی و پیشرفت انقلاب کے اہداف میں سے ایک ہدف ہے اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اقتصادی پابندیوں کے باوجود اقتصادی پیشرفت کیسے ممکن ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: حقائق کے ساتھ اہداف اور اصول کے موضوع میں ہمیں اصول و ہدف کو بھی مد نظر رکھنا چاہیے اور حقیقت کو بھی مد نظر رکھنا چاہیے۔

رہبرمعظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: حقیقت پر توجہ کئے بغیر ہدف وہم اور خیالی تصور میں تبدیل ہوجائے گا ، البتہ اصلی حقائق میں اور حقائق کو بنا کر پیش کرنے کی کوشش میں نمایاں فرق ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے نفسیاتی جنگ میں غیر واقعی حقائق کو پیش کرنے کے طریقوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: بصیرت کا ایک اہم کام یہ ہے کہ جو حقیقت ہے اس کو حقیقت کے طور پر دیکھے اور اس میں کسی غلطی اور اشتباہ سے دوچار نہ ہو۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے بعض حقائق کو بڑا بنا کر پیش کرنے اور بعض دیگر حقائق کو نظر انداز کرنے کو نفسیاتی جنگ کی دوسری تکنیک قراردیتے ہوئے فرمایا: مثال کے طور پر ایک حقیقت یہ ہے کہ بعض ممتاز دانشور ملک سے باہر جارہے ہیں لیکن اس کے ساتھ ایک اور حقیقت بھی موجود ہے اور وہ یہ کہ ملک میں دانشور طلباء میں خاطر خواہ اضافہ ہورہا ہے لیکن دشمن کے پروپیگنڈے میں پہلی بات کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا ہے اور دوسری حقیقت کو نظر انداز کیا جاتا ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نےاس بحث کا نتیجہ اخذ کرتے ہوئے فرمایا: حقائق پر نظر رکھنے والے طلباء کامیابی اور ناکامی کسی بھی حالت میں مایوس اور منفعل نہیں ہوتے ہیں کیونکہ صحیح اصولوں پر گامزن رہنے میں ان کے لئے کوئی رکاوٹ نہیں ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: عزیز طلباء سے میری توقع یہ ہے کہ وہ تمام شرائط میں حقیقی نگاہ کے ساتھ اہداف کی جانب گامزن رہیں۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اپنے تیسرے سوال کو اس طرح پیش کیا : " تکلیف و  ذمہ داری اور نتیجے تک پہنچنے کا باہمی رابطہ کیا ہے؟ رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اس سوال کے جواب میں حضرت امام خمینی (رہ) کے معروف جملے" ہم ذمہ داری اور تکلیف انجام دینے کی تلاش میں ہیں " کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: کیا اس جملہ کا مطلب یہ ہے کہ امام خمینی (رہ) کئی سال تک ان تمام سختیوں اور زحمتوں کو برداشت کرنے کے باوجود نتیجے کی تلاش میں نہیں تھے؟ یقینی طور پر ایسا سوچنا غلط ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: تکلیف اور ذمہ داری پر صحیح عمل یہ ہے کہ انسان مطلوب نتیجے تک پہنچنے کے سلسلے میں اپنی ذمہ داری اور تکلیف پر عمل کرے اور غلط اور غیر ذمہ دارانہ کام کرنے سے اجتناب اور پرہیز کرے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے فرمایا: اگر انسان نتیجہ تک پہنچنے کے سلسلے میں اپنی ذمہ داری اور تکلیف کی بنیاد پر عمل کرےگا تو آگر وہ مطلوب نتیجے تک نہ بھی پہنچ  پائے تواسے پشیمانی اور شرمندگی کا احساس نہیں ہوگا۔

تکلیف پرعمل اور نتیجےکی تلاش میں رہنے میں کوئی منافات نہیں ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اس کے بعد یونیورسٹیوں میں شوق و نشاط کے موضوع پر زوردیا۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: یونیورسٹیوں کے مختلف سیاسی، سماجی اور علمی شعبوں میں شوق و نشاط کی فضا کو نمایاں رہنا چاہیے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے یونیورسٹیوں کو ملک کے بڑے اور مختلف سیاسی مسائل میں تحقیق و جستجو کا اہم مرکز قراردیتے ہوئے فرمایا: یونیورسٹیوں میں مختلف داخلی اور عالمی مسائل کے صحیح فہم اور تحلیل کا راستہ شوق و نشاط پیدا کرنے کا ایک اہم راستہ ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اصلی مسائل کی شناخت و پہچان اور انھیں فرعی اور جزوی مسائل سے جدا کرنے اور غیر ترجیحی مسائل میں سرگرم نہ ہونے کو یونیورسٹیوں میں شوق و نشاط پیدا کرنے کا دوسرا راستہ قراردیا۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: یونیورسٹیوں کے طلباء بانشاط اور خلاق مباحث کے ذریعہ مسائل کی ترجیحی رتبہ بندی میں ملکی حکام کی مدد کرسکتے ہیں۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اقتصادی رزم و جہاد کے موضوع کو یونیورسٹیوں میں شوق و نشاط پیدا کرنے کا ایک اہم مصداق قراردیا۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: اقتصادی رزم و جہاد ملک کے اہم مسائل میں ہے اور یونیورسٹی کے طلباء اس موضوع کے بارے میں تحقیق کرکے  ملک کی پیشرفت میں بہت بڑی مدد پہنچا سکتے ہیں۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: البتہ اقتصادی رزم و جہاد کا مسئلہ کوئی چند مہینے میں حل ہونے والا مسئلہ نہیں بلکہ ایک طویل المدت کام ہے جس کا سلسلہ رواں سال میں جاری ہونا چاہیے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے مزاحمتی اقتصاد اور طرز زندگی کو دوسرے حقیقی موضوعات قراردیا جن کے مختلف پہلوؤں پر غور و فکر کرکے یونیورسٹیوں کے پیکر میں نئی جان اورنیا خون دوڑایا جاسکتا ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے علاقائی ممالک میں جاری اسلامی بیداری اور اس کے نشیب و فراز کے بارے میں طلباء کو غور و فکر کرنےکی دعوت دیتے ہوئے فرمایا: اسلامی بیداری بہت بڑا اور اہم واقعہ ہے جو سامراجی اور مغربی ممالک کی مخالفت سے ختم نہیں ہوگا۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے بعض علاقائی ممالک میں جاری واقعات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: ان واقعات سے ظاہر ہوتا ہے کہ علاقائی ممالک میں اسلامی بیداری کی جڑیں بہت ہی گہری اور مضبوط ہیں لیکن چونکہ حالات کا مقابلہ اچھے انداز اور اچھی مدیریت سے نہیں کیا گيا، اشتباہات اور غلطیوں کا ارتکاب کیا گيا جس کی وجہ سے آج مصر کے حالات بہت ہی دردناک حد تک پہنچ گئے ہیں ۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: طلباء کی انجمنیں اسلامی بیداری کے بارے میں مباحث کے ذریعہ  اس اہم واقعہ کے مقابلے میں سامراجی طاقتوں کی طویل رکاوٹ، علاقائی ممالک میں رونما ہونے والے اشتباہات  اور ان واقعات کا ایران کے اسلامی جمہوری نظام کے ساتھ موازنہ کرکے  قوم و ملک کی اہم خدمت کرسکتے ہیں۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: علاقہ کے حالات پر حقیقی نگاہ ڈالنے سے پتہ چلتا ہے کہ بعض موضوعات اسلامی جمہوریہ ایران کے استحکام اور اسلامی جمہوریہ ایران کی مؤثر اور گہری اسٹراٹیجک کا مظہر ہیں۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے فرمایا: ملک سے باہر انقلابی گروہ تشکیل دینے کے بارے میں حضرت امام خمینی (رہ) کے صریح بیان کا ہدف، یہی گہری اسٹراٹیجک پالیسی تھی جس کا آج سامراجی اور استکباری طاقتیں مقابلہ کررہی ہیں لیکن انھیں کامیابی نصیب نہیں ہوگی۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے شیعہ اور سنی مسلمانوں کے درمیان اختلاف اور دشمنی ڈالنے کے سلسلے میں دشمن کی کوششوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: شیعوں کو مختلف جگہوں پر سرکوب اور قتل کیا جارہا ہے کیونکہ دشمن کا یہ خیال ہے کہ شیعہ اسلامی جمہوریہ ایران کے حامی اور طرفدار ہیں لیکن دشمن کو اس بات کا انداز نہیں ہے کہ بہت سے اسلامی ممالک میں اہلسنت حضرات بھی انقلاب اسلامی ایران کا کہیں زيادہ اور بڑھ چڑھ کردفاع کرتے ہیں۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب کے اس حصہ میں طلباء کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: زندگی کے حقائق پر مبنی سیاسی اور سماجی مسائل یونیورسٹیوں میں تحقیق اورعلمی شوق و نشاط کا باعث بن سکتے ہیں اور علمی مباحث کے نتائج کو حکام کے سامنے نمونہ کے طور پرپیش کیا جاسکتا ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب کو جاری رکھتے ہوئے یونیورسٹیوں میں علمی تلاش و کوشش اور جد وجہد کو شوق و نشاط کا اہم پہلو قراردیا۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے علمی ضرورت کو ملک کی پہلی اور سرفہرست ضرورت قراردیتے ہوئےحالیہ دس سالوں میں ہونے والی علمی ترقیات کودگنا تلاش و کوشش کے ساتھ جاری رکھنے پر تاکید کی۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے علمی ترقیات کو سیاسی، اقتصادی اور سماجی مشکلات کو حل کرنے کے سلسلے میں اہم قراردیتے ہوئے فرمایا: یونیورسٹیوں اور ملک میں علمی کام کو جہاد کی شکل میں انجام دینا چاہیے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے طلباء کو بہترین اور فکری اساتید کے ساتھ رابطہ مضبوط کرنے اور قابل اعتماد اور سالم فکری مراکز کے ساتھ روابط کو فروغ دینے اور فکری مطالعہ کی سفارش کی۔

اس ملاقات میں رہبر معظم انقلاب اسلامی کے خطاب سے قبل یونیورسٹیوں کی علمی ، ثقافتی، سیاسی  اور قرآنی انجمنوں کی نمائندگی کرتے ہوئے مندرجہ ذیل  12 طلباء نے مختلف مسائل کے بارے میں اپنے اپنے نظریات پیش کئے۔

٭ ابو الفضل چمندی ، جامعہ اسلامی طلباء یونین کے رکن

٭ سہیل عظیمی ، قرآنی انجمن کے نمائندے

٭ مصطفی دینی ، تہران یونیورسٹی اور تہران میڈیکل یونیورسٹی کی اسلامی انجمن کے رکن

٭ احمد مداحی، رضاکار طلباء انجمن کے رکن

٭ محمد رضایتی ، مستقل طلباء کی اسلامی انجمنوں کی یونین کے رکن

٭ مہدی زینالو، سائنسی شعبہ کے رکن

٭ علی محمد زادہ ، طلباء کی جسٹس تحریک کے رکن

٭ امین عباسی ، آزاد یونیورسٹی کی اسلامی انجمنوں کے نمائندے

٭ مصطفی صادقی فر، دفتر تحکیم وحدت کے نمائندے

٭ محمد مہدی کرامتی ، سائنسی ماہر اور پی ایچ ڈی کے طالب علم

٭ حمید رضا صالحیان ،  طلباء کی جہادی انجمنوں کے نمائندے

٭ محترمہ فرزانہ فرشید نیک ، علمی و سائنسی انجمنوں کی نمائندہ

مذکورہ طلباء نے مندرجہ ذیل موضوعات کے بارے میں اپنے اپنے خیالات پیش کئے۔

٭ سن 1388 ہجری شمسی میں فتنہ پرور افراد اور ان کے حامیوں کو بےگناہ قراردینے والے گروہوں کی مذمت

٭ حکومتی خدمات کے سلسلے میں بعض افراد اور گروہوں کے اعتراض پر تنقید

٭ منتخب صدر کی جانب سے اعتدال کے معنی کی تشریح پر تاکید

٭ آزاد فکری کرسیوں کو عملی جامہ پہنانے کے لئے اسلامی کالجوں کی تشکیل پر تاکید

٭ یونیورسٹیوں میں با شوق و نشاط اور علمی و عقلی فضا کے فراہم کرنے پر تاکید

٭ اقتصادی مشکلات کو حل کرنے اور پابندیوں کو اٹھانے کے سلسلے میں امریکہ کے ساتھ ممکنہ مذاکرات میں ہوشیاری پر تاکید

٭ آزاد فکری کرسیوں کے بارے میں صوری اور غلط نگاہ پر تنقید

٭ یونیورسٹیوں کو اسلامی بنانے میں صحیح زاویہ نگاہ پر تاکید

٭ مختلف سلیقوں اور تنقیدی نظریات کے طلباء کی انجمنوں کی تشکیل کے لئے مناسب اقدامات انجام دینے پر تاکید

٭ تربیت معلم اور قرآنی استاد یونیورسٹی کی تشکیل کی تجویز

٭ یونیورسٹیوں میں تحصیلی رشتوں کے مطابق معارف پر مبنی دورس کی تدوین پر تاکید

٭ سن 1388 ہجری شمسی کے فتنہ میں ملک اور عوام پر ہونے والے عظیم ظلم پر تنقید اور فتنہ پرور افراد کو پاک کرنے کی کوششوں کی مذمت

٭ سیاسی، ثقافتی ، اقتصادی اور سماجی حرکت کے صحیح اور درست  معیار کے عنوان سے حضرت امام خمینی (رہ) کے نظریہ کی اہمیت پر تاکید

٭ ملک کی برق رفتارسائنسی ترقی کو جاری رکھنے کے لئے آرام و سکون کے ماحول کو مضبوط بنانے پر تاکید

٭ یونیورسٹیوں میں حکام کی عدم موجودگی پر شکوہ

٭ گذشتہ حکومتوں کی طرح گیارہویں حکومت کی کارکردگی پر طلباء انجمنوں کی واضح اور آشکارا اور منصفانہ  تنقید پر تاکید

٭ تکلیف و ذمہ داری اور نتیجہ کی حد بندی کے تعین پر تاکید

٭ اعلی تعلیم و ٹیکنالوجی کے نئے وزیر کے انتخاب میں سیاسی رفتار سے پرہیزکرنے پر تاکید

٭  سن 1392 ہجری شمسی کے صدارتی انتخابات ، ملک میں انتخاباتی نظام کے صحیح و سالم ہونے اور فتنہ پرور افراد کے جھوٹ کا مظہر

٭ ملک کے مختلف علاقوں بالخصوص پسماندہ علاقوں کی مشکلات اور مسائل کے بارے میں میڈيا کی غیر منصفانہ رفتار

٭ حکومتی اور نجی شعبوں پرجامع اور متوازن توجہ کرنے پر تاکید

٭ خارجہ پالیسی میں غیر سرکاری اور عوامی تنظیموں سے استفادہ پر تاکید

٭ ثقافتی سرگرمیوں کے سلسلے میں بعض اداروں پر سرسری نگاہ پر تنقید

٭ بعض اداروں کی جانب سے صاف و شفاف جواب نہ دینے پر تنقید

٭ گارڈین کونسل کی جانب سے صلاحیتوں پر پورا اترنے کے معیاروں کی واضح تشریح پر تاکید

٭  صدارتی انتخابات میں بعض شخصیات اور گروہوں کی غلط رفتار پہچاننے پر تاکید

٭ مختلف اداروں پر نگرانی اور نظارت کےجامع دائرہ کار کی تدوین پر تاکید

٭ بنیادی آئین کے مکمل نفاذ اور قانون کی حکمرانی پر تاکید

٭ سیاسی نقش کی طرح  اقتصادی رزم و جہاد کو عملی جامہ پہنانے کے سلسلے میں عوامی نقش اور دفعہ 44 کے مکمل اجرا اور نفاذ پر تاکید

٭ یونیورسٹیوں میں بعض طلباء تنظیموں کے ساتھ غیر منصفانہ رفتار پر شکوہ

٭ یونیورسٹیوں میں سلیقہ پر مبنی رفتار کی روک تھام کے لئے بانشاط فضا کی خصوصیات بیان کرنے پر تاکید

٭ علوم انسانی کے ترجمہ کے مآخذ پر نظر ثانی اور مقامی علمی پیداوار پر تاکید

٭ عوام کے مختلف طبقات کے درمیان فروغ دینے کے لئے انقلاب اسلامی پر مبنی گفتگو کی اہمیت پر تاکید

٭ یونیورسٹی کے مالی ذرائع کی ترتیب و تنظیم اور فراہمی کے لئے جامع منصوبہ کی تدوین پر تاکید

٭ ملکی مدیریت کی مختلف سطحوں پر طلباء کی ظرفیت سے استفادہ پر تاکید

٭ اسلامی طرز زندگی کے محقق ہونے کے لئے دینی امور کے ماہرین اور اسلامی ہنر پر زیادہ سے زیادہ توجہ دینے پر تاکید

٭ ثقافتی تربیت کے سلسلے میں جہادی تنظیموں کی فراواں برکات پر تاکید

دیہاتوں اور پسماندہ علاقوں پر زیادہ سے زیادہ توجہ اور دیہاتی ٹی وی کے اجراء کرنے کی تجویز

٭ جہادی گروہوں کی حمایت کے سلسلے میں غیر سرکاری تنظیموں کی تشکیل پر تاکید
700 /