ویب سائٹ دفتر رہبر معظم انقلاب اسلامی

رہبر معظم کا غدیر کے دن 110 ہزار بسجیوں کے اجتماع سے خطاب

بسم‌اللَّه‌الرّحمن‌الرّحيم‌
الحمد للَّه ربّ العالمين و الصّلاة و السّلام على سيّدنا و نبيّنا ابى‌القاسم المصطفى محمّد و على اله الأطيبين الأطهرين المنتجبين الهداة المهديّين المعصومين سيّما بقيّةاللَّه فى الأرضين‌.
الحمد للَّه الّذى جعلنا من المتمسّكين بولاية علىّ اميرالمؤمنين و الائمّة المعصومين الطّاهرين‌.

 میں عید سعید غدیر کے موقع پر اس عظیم اور پر شکوہ اجتماع میں شریک آپ حضرات ، پورے ملک کے تمام مخلص رضاکاروں ، بسیجیوں ، پوری دنیا میں اسلام اور اسلام کی حاکمیت سے عہد کرنے والوں اور حضرت علی بن ابی طالب (ع) کے مبارک نام کا احترام کرنے والے تمام انسانوں کو مبارک باد پیش کرتا ہوں ۔

عید غدیر اگرچہ شیعہ امامیہ کی پہچان اور طرہ امتیاز ہے، لیکن اس واقعہ کے وسیع مضمون و مفہوم  اور متون کے پیش نظر یہ عید تمام مسلمانوں سے متعلق ہے، بلکہ جو تشریح میں کچھ دیر بعد عرض کروں گا اس کی روشنی میں یہ عید ان تمام انسانوں کی عید ہے جن کے دل  انسان کی فلاح و بہبود اورکامیابی کے لئے تڑپتے ہیں۔

ہم شیعوں کا یقینی اور ٹھوس دلائل کی بنیاد پر امیر المؤمنین حضرت علی علیہ السلام کی امامت کے بارے میں راسخ، ناقابل تردید اور پختہ عقیدہ ہے، اس متواتر حدیث یعنی حدیث غدیر کو اسلام کے تمام بڑے شیعہ اور سنی محدثین نے نقل کیا ہے یہ حدیث ہمارے پختہ عقیدے کی ایک اہم سند ہے۔

پیغمبر اسلام (ص) نے ایک دن دھوپ کی شدت ، دن کی گرمی اور ایک حساس نقطہ میں اپنے بعد لوگوں کے سامنے حضرت علی بن ابی طالب (علیہ الصلاۃ و السلام ) کو اسلامی امور کا ولی امر اور مسلمانوں کا امام وپیشوا قراردیا اور اپنا جانشین مقرر کیا؛ " من کنت مولاہ فھذا  علی مولاہ " (1) یہ امر متعدد آیات سے عیاں اور آشکارہے کہ  اللہ تعالی کی طرف سے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ولایت واضح طور پر بیان ہوچکی ہے؛ " انما و لیکم اللہ و رسولہ " (2) اور دوسری متعدد آیات میں بھی یہ بات روز روشن کی طرح واضح  ہے، پیغمبراسلام (ص)  فرماتے ہیں: وہ شخص جس کا میں مولا ہوں اس کے یہ علی (ع) مولا ہیں ، ولایت کے جو معنی پیغمبر اسلام (ص) کے لئے ہیں وہی معنی  حضرت علی (ع) کے لئے بھی ہیں ، پیغمبر اسلام (ص) نے حضرت علی (ع) کو اپنا جانشین اور لوگوں کا ولی مقرر کیا ہے۔یہ ایک مضبوط ، مستحکم اور ناقابل تردید دلیل ہے ، اس سلسلے میں بزرگوں نے بحث کی ہے اعتقادی بحثوں میں وارد ہونا ضروری نہیں سمجھتا ، یہ ایک مسلّم مسئلہ ہے۔

اس دور میں امیرالمؤمنین حضرت علی علیہ السلام کو لوگوں نے قریب سے آزما رکھا تھا، اور کسی کو حضرت علی علیہ اسلام کی جانشینی پر کوئی اعتراض نہیں تھا  اور نہ ہی انھیں اس سلسلے میں کوئی  تردید تھی اور سبھی کو معلوم  تھا کہ یہ فداکار، مخلص ، ایمان اور تقوی کی اعلی مرتبوں پر فائز ہونے والی شخصیت ، پیغمبر اسلام (ص) کی جانب سے اس منصب کی حقدار اور سزاوار ہے اور یہ امر در حقیقت اللہ تعالی کی طرف سے ہے، یہ تقرر در حقیقت نبی کریم (ص) کی طرف سے تقرر نہیں تھا بلکہ یہ تقررالہی تقرر تھا ؛ یہ اللہ تعالی کا امر تھا جسے پیغمبر اسلام (ص) نے اپنی امت اور مؤمنوں تک پہنچایا۔

امیرالمؤمنین حضرت علی علیہ السلام جس دن پیغمبر اسلام (ص) کے ہمراہ مدینہ میں وارد ہوئے تھے اس دن وہ بائیس یا تئیس سالہ جوان تھے آج کے بائیس و تئیس سالہ جوان اپنی رفتار کا ان چیزوں کے ساتھ موازنہ کریں جو تاریخ انسانیت کے اس ممتاز جوان نے پیش کی ہیں، یہی جوان تھا جو جنگ بدر کا ہیرو اور فاتح ہوا، یہی جوان تھا جس نے جنگ احد میں اپنی شجاعت کے درخشاں جوہر دکھائے اور تمام  مسلمان اس کے عمل کی عظمت سے آگاہ و باخبر ہیں؛ یہی جوان تھا  جس نے تمام غزوات میں پیغمبر اسلام کی ہمراہی اور نصرت کی ، اور محاذ کفر کے مقابلے میں ہمیشہ پیغمبر اسلام (ص) کے ساتھ ساتھ رہا؛ یہی جوان تھا جس نے دنیا کے ساتھ دلچسپی کا اظہار نہیں کیا، جس دن پیغمبر اسلام (ص)نے جوانی کے عالم میں اس جوان کو اپنا جانشین مقرر کیا، مسلمانوں کی نظر میں اس کی عظيم عظمت تھی اور یہ عظمت کسی کے لئے نا قابل انکارتھی ہر شخص ان کی عظمت کا معترف تھا، اور اس کو کسی نے بھی انکار نہیں کیا ؛ نہ اس دور میں کسی نے انکار کیا اور نہ ہی بعد میں اس کا کسی نے انکار کیا۔

غدیر کا واقعہ میں صرف پیغمبر اسلام (ص) کے جانشین کا تقرر ہی نہیں تھا بلکہ  غدیر کے دو پہلو ہیں: ایک پہلوجانشین کے تقرر کا ہے دوسرا پہلو مسئلہ امامت پر توجہ دلانا ہے؛ امامت اسی معنی میں جس معنی میں اسےتمام مسلمان سمجھتے تھے۔ امامت یعنی انسانوں کے رہنما ، پیشوا، دین اور دنیا کے امر میں معاشرے اور سماج کی پیشوائی اور رہنمائی؛ یہ مسئلہ انسان کی طولانی تاریخ کے اہم سمائل میں شامل رہا ہے، امامت کا مسئلہ مسلمانوں سے مخصوص مسئلہ یا شیعوں سے مخصوص مسئلہ نہیں ہے، امامت یعنی معاشرے پر ایک فرد یا ایک گروہ  کی حکمرانی  کا مسئلہ جو دنیا و آخرت کے معنوی اور مادی امور میں ان کی رہنمائی کرتا ہے، یہ مسئلہ ہمہ گیر مسئلہ ہے جو تمام  معاشروں کو درپیش مسئلہ ہے۔

اچھا، یہ امام دو طرح کے ہوسکتے ہیں: ایک وہ امام جن کے بارے میں  اللہ تعالی کا قرآن میں ارشاد ہے: " و جعلنا هم ائمّة يهدون بأمرنا و اوحينا اليهم فعل الخيرات و اقام الصّلوة و ايتاء الزّكوة و كانوا لنا عابدين "(3) یہ وہ امامت ہے جو اللہ تعالی کے حکم سے لوگوں کی ہدایت و رہنمائی کرتی ہے؛ لوگوں کو خطرات سے، مشکلات سے اور لغزشوں سے عبور کرنے میں مدد فراہم کرتی ہے؛ اللہ تعالی نےلوگوں کو جو زندگی عطا کی ہے آئمہ انسان کو دنیوی زندگی میں منزل مقصود و مطلوب تک پہنچنے میں ہدایت کرتے ہیں یہ امام کی ایک قسم ہے جس کا مصداق انبیاء الہی ہیں ، جس کا مصداق پیغمبر اکرم (ص) ہیں، امام محمد باقرعلیہ السلام نے لوگوں کو منی میں جمع کرکے فرمایا: " انّ رسول اللَّه كان هو الامام " پیغمبر اسلام (ص) خود پہلے امام ہیں، انبیاء الہی، انبیاء کے اوصیاء و جانشین ، آئمہ کی پہلی قسم سے ہیں؛ ان کا کام ہدایت ہے، وہ اللہ تعالی کی طرف سے ہادی و راہنما ہوتے ہیں، وہ ہدایت و راہنمائی عوام کو منتقل کرتے ہیں: " و اوحينا اليهم فعل الخيرات" ان کا کام نیک کام ہے، " و اقام الصّلوة" وہ نماز قائم کرتے ہیں، نماز خدا کے ساتھ متصل ہونے اور رابطہ رکھنے کی رمز ہے،" كانوا لنا عابدين" وہ خدا کے بندے ہیں، انبیاء علیھم السلام بھی تمام انسانوں کی طرح خدا کے بندے ہیں، دنیاوی عزت ذرہ برابر ان کے وجود اور ان کے دل میں اللہ تعالی کی بندگی کو نقصان نہیں پہنچا سکتی ، یہ آئمہ کا ایک گروہ ہے۔                               

 آئمہ کا ایک دوسرا گروہ ہے: " و جعلنا هم ائمّة يدعون الى النّار " (4) فرعون کے بارے میں قرآن میں وارد ہوا ہے، یہاں بھی لفظ امام اسی معنی میں ہے جس معنی میں پہلی آیت میں وارد ہوا ہے؛ لوگوں کی دنیا، لوگوں کا دین، لوگوں کی آخرت، لوگوں کا جسم ، لوگوں کی روح اس کے قبضہ قدرت میں ہے،لیکن یہ امام  " یدعون الی النار " لوگوں کو جہنم کی طرف دعوت کرتا ہے، لوگوں کو ہلاکت اور تباہی کی طرف بلاتا ہے ، دنیا کی سیکولر حکومتوں نے بھی اپنے دعوے کے برخلاف  لوگوں کی دنیا اور آخرت کو اپنے ہاتھوں میں لے رکھا ہے چاہے وہ سمجھیں یا نہ سمجھیں، یہ عظیم ثقافتی ادارے جوآج  دنیا کے گوشہ گوشہ میں نوجوان نسل کو فساد و تباہی اور غیر اخلاقی حرکتوں کی طرف دعوت دیتے ہیں، یہ وہی امام ہیں جولوگوں کو آگ کی طرف دعوت دیتے ہیں" یدعون الی النار "  یہ قدرتمند ادارے اپنے مفادات کے لئے، اپنی ظالمانہ حاکمیت کے لئے، اپنے مختلف سیاسی اہداف تک پہنچنے کے لئے لوگوں کو فساد اور تباہی کی طرف کھینچتے ہیں؛ لوگوں کی دنیا بھی ان کے ہاتھ میں ہے، لوگوں کی آخرت بھی ان کے ہاتھ میں ہے لوگوں کا جسم ، لوگوں کی جان ان کےاختیار میں ہے۔

یہ جو دعوی کیا جاتا ہے کہ گرجا گھر آخرت کے بارے میں کام کرتا ہے اور حکومت دنیا کے امور کے بارے میں کام کرتی ہے یہ ایک شبہ اور مغالطہ ہے، جہاں قدرت دین سے بیگانہ لوگوں اور فاسد افراد کے ہاتھ میں ہوتی ہے وہاں گرجا گھر بھی ان کی خدمت کرتا ہے، ان کے اقتدار کے پنجہ میں معنویت بھی ختم  اور نابود ہوجاتی ہے؛ لوگوں کے جسم وجاں ان کے عوامل کے زیر اثر آجاتے ہیں اور یہ مسئلہ بشر کو ہمیشہ در پیش رہا ہے۔

معاشرہ یا عادل امام کے زیر اثر ہے، جو اللہ کی طرف سے ہے نیکی اور اچھائی کا ہادی ہے حق و صداقت کا ہادی ہے، یا معاشرہ ایسے لوگوں کے ہاتھ میں ہے جو حق سے بیگانہ اور بے بہرہ ہیں، حق سے  نا آشنا ہیں اور اکثر اوقات حق کے ساتھ عداوت رکھتے ہیں کیونکہ حق ان کے ذاتی مفادات اور مادی مفادات کی حفاظت نہیں کرتا اس لئے وہ حق کے ساتھ عداوت رکھتے ہیں لہذا معاشرہ میں یہ دو صورتیں پائی جاتی ہیں ؛ معاشرہ ان دو حالتوں سے باہر نہیں ہے۔

اسلام نے مدینہ میں حکومت کی تشکیل اور نبوی مدنی معاشرے کی تشکیل کے ذریعہ ثابت کردیا کہ اسلام صرف نصیحت کرنے اور زبانی طور پر پند و موعظہ کرنے کا دین نہیں ہے، اسلام احکام الہی کے حقائق کو معاشرے میں عملی جامہ پہنانا چاہتا ہے؛ اور الہی قدرت ایجاد کرنے کے بغیر ایسا ممکن نہیں ہے۔

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنی عمرشریف کے آخری ایام  میں اللہ تعالی کے حکم سے اپنے بعد والے فرد کو بھی مقرر کردیا۔ البتہ تاریخ اسلام کسی دوسرے راستے پر چلی پڑی، وہ چیز جو پیغمبر اسلام (ص)چاہتے تھے، وہ چیز جو اسلام چاہتا تھا وہ یہ تھا یہ ایک منصوبہ اور نقشہ تھا جو تاریخ میں ہی رہ گیا البتہ یہ تصور نہیں کرنا چاہیے کہ پیغمبر اسلام (ص)کا منصوبہ ناکام ہوگیا ، پیغمبر اسلام (ص)کا منصوبہ ناکام نہیں ہوا ؛بلکہ اس دور میں پیغمبر اسلام (ص) کا منصوبہ محقق نہیں ہوسکا، لیکن یہ واضح اور روشن معیار و ملاک اسلامی معاشرے اور اسلامی تاریخ میں باقی ہے آج آپ عالم اسلام کے اس گوشہ میں اس کے نتائج کا مشاہدہ کررہے ہیں اور اللہ تعالی کے فضل و کرم اور اس کی مدد و نصرت سے یہ واضح اور روشن ملاک و معیار روز بروز وسیع تر اور ہمہ گیر ہوتا جائے گا؛ یہ غدیر کا مضمون اور مفہوم ہے۔

لہذاغدیر کا مسئلہ صرف شیعوں کا مسئلہ نہیں ہے؛ یہ تمام مسلمانوں کا مسئلہ ہے، بلکہ یہ تمام انسانوں کا مسئلہ ہے اگر غور کیا جائے تو یہ بات سمجھ میں آجائے گی کہ یہ راستہ واضح اور روشن راستہ ہے جو تمام انسانوں سے متعلق ہے؛ اس کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ موجود نہیں ہے، اگر انسانی معاشرے میں قدرت شیطان صفت انسانوں کے ہاتھ میں ہو، تو دنیا اسی راستہ پر گامزن رہےگی جس راستہ پر آج ماڈرن دنیا کو چلتے ہوئےدیکھ رہے ہیں دنیا جتنی ماڈرن ہوتی جائے گی ان حکومتوں کا خطرہ بھی زیادہ ہوتا جائے گا البتہ دنیا علم و معرفت کے لحاظ سے جتنی آگے جائے اور پیشرفت کرے ہدایت اور رہنمائی کا امکان بھی اتنا ہی زيادہ ہوتا جائے گا، ایسا نہیں ہے کہ ہم یہ محسوس کریں کہ علم کی پیشرفت سے ہدایت کا کام پیچھے رہ جائے گا ، ایسا نہیں بلکہ ہدایت و رہنمائی میں بھی پیشرفت و ترقی حاصل ہوگی۔

آج ہمارے ملک میں عوامی بسیج و رضاکار اور بسیج مستضعفین  اوررضاکار دستے ایک واضح اور آشکارا حقیقت ہیں آپ ملک بھر کے بوستان بسیج کا ایک شاندار مجموعہ ہیں، اس بوستان کی بنیاد ہمارے امام (رہ) نے رکھی تھی اس  کو ہمارے امام (رہ) نے تشکیل دیا تھا اور اپنے کلمات و بیانات کے ذریعہ اس کی آبیاری کی  اور الحمد للہ یہ شجرہ طیبہ  روز بروز فخر کا باعث اورمثمر ثمر واقع ہورہا ہے، آج ہمارے ملک میں بسیج ایک عظیم ، ناقابل انکار اور بے مثال حقیقت ہے۔

یہ بات درست ہے کہ بسیج کے دشمن اور ملک کے اندران کے حامی بسیج کے خلاف  پروپیگنڈے میں مشغول ہیں بسیج کی توہین اور تذلیل کرنے میں مشغول ہیں ؛ یہ وہی لوگ ہیں جنھوں نے کلام الہی کی بھی توہین کی، پیغمبر اسلام (ص) کی بھی توہین کی لیکن وہ چیز جو باطنی طور پردرخشاں اور تابناک ہے توہین کرنے والوں کی توہین اورتہمت لگانے والوں کی تہمت سے اس کی روشنی،  درخشندگی اور چمک میں کوئی فرق نہیں پڑےگا۔

ہمارے ملک میں بسیج آج ایک عظيم ، روشن اور درخشاں حقیقت ہے؛ جس کا کوئی دوسرا نمونہ نہیں ہے، آپ ملاحظہ کریں اور دیکھیں ؛ بسیج میں مختلف اور گوناگوں طبقات کے افراد کی رکنیت ہے جن میں ملک بھر کے مرد و خواتین، نوجوان و جوان، پیر و ضعیف، مختلف اصناف کے افراد، طالب علم ، عالم دین، یونیورسٹی کے استاد ، مدرسہ کے استاد، مزدور، کسان، دکاندار ، تاجر سب کے سب شامل ہیں، یہ سب بسیج و رضاکار فورس کے رکن ہیں ، سب بسیج میں شریک ہیں یعنی تمام اصناف کے لوگ اس میں موجود ہیں ، ہر جنس کے لوگ اس میں حاضر ہیں، ہر زبان اور ہر قوم کے لوگ بسیج میں موجود ہیں ، ابھی آپ کے اسی اجتماع میں ترک ، کرد، لر، فارس، بلوچ اور دیگر ایرانی اقوام کے لوگ موجود ہیں، پورے ملک میں ایسا ہی ہے۔بسیج ایک منظم و مرتب ادارہ ہے جس کا ہدف مشخص ہے بسیج کی وسعت ، بسیج کی عظيم کمیت و ایمانی کیفیت کی مثال دیگر اداروں میں نہیں پائی جاتی ہے۔

آپ کا دل بسیج اور رضاکار فورس سے متعلق ہے،دنیا میں احزاب کا وجود ہوتا ہے، ممکن ہے احزاب بھی بیشمار ہوں ، البتہ جو عظمت و کمیت بسیج کے کئی ملین مجموعہ میں ہےوہ دنیا کی کسی حزب میں موجود نہ ہولیکن وہی کمیت جو احزاب میں پائی جاتی ہے، ان کا جسم ، ان کی زبان، ان کی مادی توانائی حزب سے متعلق ہے ؛ لیکن معلوم نہیں، ضروری نہیں  کہ ان کا دل اور ان کا ایمان اس حزب سے جڑا ہوا ہو،لیکن بسیج کی جگہ دلوں میں ہے ، بسیج دلوں کی گہرائی میں ہے، بسیج جانوں کے عمق میں ہے، بسیج عطوفت و مہربانی کا نام  ہے، بسیج عقائد و ایمان پر استواررہنے کا نام ہے؛ اور یہی وجہ ہے کہ بسیج دشوارمشکلات میں قوم کی مدد و نصرت کے لئے حاضر ہوتی ہے، جس دن قومیں مشکلات سے دوچار ہوں ، اس دن جسموں کا کوئی فائدہ نہیں ، اس دن دلوں کو میدان میں ہونا چاہیے، اس دن صف شکن ہونا چاہیے، جنھوں نے جنگ میں پہلی صفوں کو توڑا اور صف شکنی کی ان کے بدن کوئی قوی بدن نہیں تھے؛ ان کے دل اور ایمان قوی تھے جنھوں نے پہاڑوں میں شگاف پیدا کردیئے، جنھوں نے دشوار اور سخت راستوں کو طے کیا اور سنگلاخ گھاٹیوں سے عبور کرکے خود کو منزل مقصود تک پہنچا دیا، بسیج ایک ایسی درخشاں حقیقت ہے؛ اس کی ہمیں قدر و قیمت پہچاننی چاہیے، سب پہلے خود بسیجی و رضاکار کو اس کی قدر پہچاننی چاہیے جیسا کہ ہم نے ابھی اس عہدنامہ میں سنا  اور ان عزیز جوانوں نے بسیجی جوانوں کی ترجمانی کرتے ہوئے بیان کیا، انھوں نے اللہ تعالی کی حمد و ثنا بیان کی، اس کا سپاس و شکریہ ادا کیا اس لئے کہ وہ بسیج کے رکن ہیںحقیقت بھی یہی ہے؛ اللہ تعالی کا شکر ادا کرنا چاہیےکہ وہ ایسے ادارے اور مجموعہ میں وارد ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔

بسیج کی دوسری اہمیت یہ ہے کہ بسیج کی کوئی ایک سمت ، ایک جہت اورایک نقظہ نگاہ نہیں ہے بسیج کا ایک پہلو فوجی پہلو بھی ہے اور جنگ میں محاذ کے اگلے مورچوں میں اور جہاں کہیں بھی ضرورت محسوس ہوئی بسیج نے اپنا کردار ادا کیا اور سخت سے سخت اور دشوار سے دشوار امور کو اپنے ہاتھ میں لیکر انجام دیا ہے، بسیج ہر کام کو انجام دینے کی صلاحیت سے سرشار ہے؛ یعنی بسیج جب تمام میدانوں میں حاضر ہو تو وہ پیشقدم اور پیشگام ہے آج ہمارے بسیجی جوان علم کے میدان میں بھی آگے اور پیشقدم ہیں، بسیجی اساتذہ بھی علمی امور میں سب سے آگے اور کامیاب ہیں، ہنر مند بسیجی بھی جب بسیجی جذبہ کے تحت میدان میں وارد ہوئے تو انھوں نے بھی نمایاں کامیابیاں حاصل کیں اور زیادہ سے زیادہ مخاطبین کی توجہ مبذول کرنے میں کامیاب ہوئے جس میدان میں بھی بسیجی جذبے کے ساتھ، بسیجی اخلاص کے ساتھ، بسیجی ایمان کے ساتھ، بسیجی شہامت و شجاعت اور دلاوری کے ساتھ ، بسیجی قدرت و خلاقیت کے ساتھ وارد ہوں تو وہ اس میدان میں عظیم کام انجام دے سکتے ہیں، یہ بسیج کی اصل حقیقت ہے۔

عزیز بسیجیوں کو اس بات کی قدر کرنی چاہیے اور بسیج کی رکنیت کے جذبہ کو اپنے اندرمزید قوی  اور مضبوط بنانا چاہیے، بسیجی ہونے کے کچھ اصول ، شرائط اورارکان ہیں ہمیں ان اصولوں اور ارکان کو روزبروز اپنے اندر مضبوط بنانا چاہیے، عزیز جوانو! ہم نے متعدد بار تاکید کی ہےکہ سب سے پہلے نمبر پر اخلاص کا چذبہ اور بصیرت کا جذبہ ہے، اخلاص اور بصیرت دونوں کا ایکدوسرے پر اثر ہوتا ہے، آپ کی بصیرت جتنی زیادہ ہوگی وہ آپ کو اخلاص پر مبنی عمل سے قریب تر کرےگی، اور جتنا آپ کا عمل اخلاص  پر مبنی ہوگا اللہ تعالی اتنی ہی بصیرت آپ کے اندر زیادہ کرےگا " اللہ ولیّ الّذین امنو یخرجھم من الظلمات الی النور "  اللہ تعالی آپ کا ولی ہے جتنا آپ اللہ تعالی کے نزدیک تر ہوں گے اتنی ہی بصیرت آپ کے اندر زیادہ ہوگی، اور آپ حقائق کو زیادہ سے زیادہ مشاہدہ کریں گے، جب نور موجود ہو تو انسان حقائق کو مشاہدہ کرسکتا ہے، جب نور نہ ہو ، تو انسان حقائق کو بھی مشاہدہ نہیں کرسکتا، ؛ " والّذین کفروا اولیائھم الطاغوت یخرجھم من النور الی الظلمات" ،(5)  جب انسان کی آنکھوں کے سامنے، بغاوت و  طغیانی آجائے،جب انسان پر خواہشات نفسانی کا غلبہ پیدا ہوجائے جو اصلی و حقیقی طاغوت ہیں، جو خود ہمارے وجود میں فرعون سے بد تر ہیں جو ہماری آنکھوں پر پردہ کا کام کرتے ہیں ، جب جاہ طلبی ، حسد، بغض ، کینہ ، حب دنیا، ہوس پرستی ، نفس پرستی اور شہوترانی ہماری آنکھوں کے سامنے آجائیں تو اس وقت ہم حقائق کو نہیں دیکھ سکیں گے۔

آپ نے دیکھا کہ بعض لوگ اپنی آنکھوں کے سامنے موجود حقائق کو نہیں دیکھ سکے ، حقائق کوتشخیص نہیں دے سکے، سنہ 1388 ہجری شمسی مطابق 2009 ء کا فتنہ طے شدہ اور پیچیدہ منصوبہ تھا  جو عوام کے سامنے تھا؛ لیکن دشمن نے اجازت نہیں دی کہ ایک گروپ ان حقائق کو دیکھ لے ، سمجھ لے، انھوں نے نہیں دیکھا اور وہ نہیں سمجھ پائے، جب کسی ملک میں فتنہ انگیز لوگ پیدا ہوتے ہیں جو اپنی جاہ طلبی اور قدرت تک پہنچنے کے لئے، اپنی ان تمناؤں اور آرزؤں تک پہنچنے کے لئے جو ان کے دلوں میں جمع اور موجزن ہیں تو وہ ملک کے مفادات کا سودا کرنے اور راہ حق سے منہ پھیرنے کے لئے تیار ہوجاتے ہیں، وہ راہ حق کو چھوڑ دیتے ہیں ایسا کام کرتے ہیں جس سے ایرانی قوم کے صف اول کے دشمن اور مغربی ممالک کے رہنما شاد اور خوشحال ہوجاتے ہیں، اوروہ  شوق و خوشی کے ساتھ ان کی حمایت کا اعلان کرتے ہیں، یہ ایک واضح حقیقت ہے؛ یہ چیز عیاں ہے ایسی چیز نہیں ہے کہ نور کی موجودگی میں انسان اسے نہ دیکھ سکے، لیکن بعض نے اس حقیقت کو مشاہدہ نہیں کیا ، بعض نے اس حقیقت کو درک نہیں کیا بعض کے دل اتنے تاریک ہیں کہ وہ اس حقیقت کو درک کرنے کے باوجود اس کو چھوڑنے کے لئے آمادہ نہیں ہیں؛ یہ تمام عوارض خواہشات نفسانی کی بنا پر ہیں؛ یہ تمام چیزیں اندرونی فرعون کے امر و نہی کا نتیجہ ہیں یہ وہی ہوا و ہوس میں سرمست ہاتھی ہے اور شرع مقدس نے خواہشات کے اس  سرمست ہاتھی کے سرپر مارنے کے لئےزہد و ورع کا ہتھوڑا  مؤمن کے ہاتھ میں دیا ہے کہ وہ اس ہتھوڑے کو اس ہاتھی کے سرپر مار کر اسے اپنا مطیع بنائے،  اگر ہم نے اپنے اندر موجود خواہشات پر قابو پالیا اپنی خواہشات پر کنٹرول کرلیا تو اس وقت دنیا نورانی ہوجائے گی، ہم تمام چیزوں کا مشاہدہ کریں گے، ہماری آنکھ تمام چیزوں کو دیکھ لےگی؛ لیکن جب ہوس پرستی ہوگی اس وقت نہیں دیکھ پائے گی۔ آپ بسیجی ہیں ، آپ کے دل پاک ہیں، آپ کے دل نورانی ہیں، آپ اپنے پاکیزہ باطن کے ذریعہ اس جذبہ کو اپنے اندر قوی اور مضبوط بنا سکتے ہیں، بسیجی پاکیزہ ہے بسیجی نورانی ہے۔

میرے عزیزو! آپ کومبارک ہو کہ آپ بسیجی ہیں ، لیکن بسیجی باقی رہیں ، اس راستہ میں استقامت دکھانا بہت ہی اہم ہے، بسیجی باقی رہنا اس بات پر منحصر ہے کہ ہم ہمیشہ اپنی مراقبت اور  نگرانی رکھیں ، ہوشیار رہیں اپنے راستے سے باہر نہ جائیں ، ایرانی قوم نے عظیم کارنامہ انجام دیا ہے وہ دنیا جو متحد ہوکر جہنم کی طرف رواں دواں تھی اس نے عملی اقدام کے ذریعہ دنیا کے ایک حصہ کو الگ کرلیا ہے آج دنیا کے بہت سے لوگ اس حقیقت سے آگاہ اور آشنا ہوگئے ہیں ایرانی قوم نے پیشقدمی کرکے راستہ کوتبدیل کردیا ہے، راہ کو بدل دیا ہے انسانی معاشرے کی حرکت اللہ کی طرف ہونی چاہیے، انسانی معاشرے کی حرکت بہشت کی جانب ہونی چاہیے، انسانی سماج کی حرکت حقیقت اور حق کی جانب ہونی چاہیے، اورواضح ہے کہ ایران کی عظيم قوم نے اس کام کو انجام دیا ہے، باطل پرست طاقتیں بھی آرام و سکون کے ساتھ  ہاتھ پر ہاتھ رکھ کرنہیں بیٹھی ہیں، وہ لوگ جو باطل سے وابستہ ہیں وہ افراد جو ظلم اور ظالموں سے منسلک ہیں وہ لوگ جو قوموں کے سروں پر چوٹ لگاتے ہیں یہ لوگ آرام و سکون سے نہیں بیٹھیں گےوہ لوگ کوشش کریں گے کہ ایرانی قوم حقیقت اور ہدایت کے بارے میں کوئی کام انجام نہ دے سکے ، لوگوں کو بیدار نہ کرسکے؛ وہ ایرانی قوم کے ساتھ مقابلہ کرتے ہیں۔

البتہ اگر ہم اپنی استقامت کو جاری رکھیں گے ، تویہ مقابلہ روشنی اور نور کا باعث بنےگا؛ " ولینصرنّ اللہ من ینصرہ "(6) بیشک اللہ تعالی کی مدد ونصرت ان لوگوں کے لئے ہےجو حق کی طرف گامزن رہتے ہیں جو حق کی طرف حرکت کرتے ہیں حق کی طرف دعوت دیتے ہیں؛ اور ہم نے اس کا تجربہ کیا ہے، تیس سال سے دشمن ایرانی قوم کے خلاف سازش پروپیگنڈہ کررہے ہیں، جد وجہد کررہے ہیں؛ لیکن ایرانی قوم استقامت کی بدولت ، ایمان کی بدولت روز بروز مضبوط اور قوی ہوتی جارہی ہے؛ دشمن بھی روز بروز کمزور اور ضعیف ہوتا جارہا ہے؛  آج ہماری استقامت کی طاقت بیس سال پہلے سے کہیں زيادہ ہے؛ یہ ہمارا تجربہ ہے، لہذا اس مقابلہ میں اسلام اور مسلمانوں کو کامیابی اور فتح نصیب ہوگی، البتہ اس بات پر توجہ رکھنی چاہیے کہ چیلنج اور مقابلہ کا سلسلہ بھی جاری ہے؛ آپ کو ہمیشہ آمادہ رہنا چاہیے ، آپ کو ہر روز تیار رہنا چاہیے، آپ ہر روز اپنی بصیرت کی حفاظت کریں آپ ہر روز اپنے اخلاص کی حفاظت کریں، آپ ہر روز بسیجی ہیں اور ہمیشہ بسیجی باقی رہیں ؛یہ ایرانی قوم اور ایران کے عظيم معاشرے کی کامیابی کی رمز ہے۔

ان شاء اللہ آپ جوان اس دن کو مشاہدہ کریں گے جب آپ  ترقی اور پیشرفت کی عظمی بلندیوں پر فائز ہونگے۔، جیسا کہ قرآن مجید نے وعد کیا ہے: " لتکونوا شھداء علی الناس" (7) آپ لوگوں کے شاہد اور گواہ ہونگے  اور بلندیوں پر فائز ہونگے اور دیگر قومیں آپ کو دیکھ کر ان بلندیوں کی سمت گامزن ہوں گی۔

پروردگارا! اپنے ولی کے ظہور، سرکار دوعالم کے نور نظر کے ظہور کو روز بروز قریب تر فرما، پروردگارا ! ہمیں ان کی ولایت اور ان کے اجداد طاہرین کی ولایت کا پابند اور متمسک قراردے، پروردگارا! ہم کو حقیقی معنی میں مؤمن، بسیجی اور انقلابی بنادے، پروردگارا! محمد و آل محمد کے طفیل ایران کی عزيز اور عظیم قوم کو اپنے بلند اور اعلی اہداف تک پہنچا دے، امام راحل (رہ) کی مطہر روح اور عزیز  شہیدوں کی روحوں پر اپنے فیوضات اور برکات کو ہمیشہ نازل فرما۔

والسّلام عليكم و رحمةاللَّه و بركاته‌

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
1)
)كافى، ج 1، ص 420
2)
)مائده: 55
3)
)انبياء: 73
(4)
قصص: 41
5)
)بقره: 257
6)
)حج: 40
7)
)بقره: 143