ویب سائٹ دفتر رہبر معظم انقلاب اسلامی

رہبر معظم نے نماز عید فطر کے بعد خطبے پیش کئے

نماز عید سعید فطر کے خطبے

 پہلا خطبہ

بسم اللہ الرّحمن الرّحیم

الحمد للہ ربّ العالمین الحمد للہ الّذی خلق السّموات و الارض و جعل الظّلمات و النور ثم الذین کفروا بربھم یعدلون احمدہ و استعینہ و استغفرہ و اتوکّل علیہ و اصلّی و اسلّم علی حبیبہ و نجیبہ و خیرتہ فی خلقہ حافظ سرّہ و مبلغ رسالاتہ حبیب قلوبنا ابی القاسم المصطفی محمد و علی آلہ الاطیبین الاطھرین المنتجبین الھداۃ المھدیین سیّما بقیۃ اللہ فی الارضین و صل علی ائمۃ المسلمین و حماۃ المستضعفین و ھداۃ المؤمنین اوصیکم عباد اللہ و نفسی بتقوی اللہ ۔
عید سعید فطر کے موقع پرپوری امت اسلامیہ، ایران کی عزیر و غیور قوم اور آپ محترم اور مکرم نماز گذاروں کو مبارک باد پیش کرتا ہوں آپ سب حضرات اور خود اپنے آپ کو پرہیزگاری اور تقوائے الہی کا پاس و لحاظ رکھنےاور اپنی تمام رفتار و گفتار میں اللہ تعالی کے امر ونہی کو مد نظر رکھنے اور واجبات پر عمل کرنے اور محرمات کو ترک کرنے کی سفارش و نصیحت کرتا ہوں

ہم خداوند متعال کے شکر گزار ہیں کہ اس نے ہمیں موقع عطا فرمایا، عمر عطا کی اور ہمیں ایک اور ماہ رمضان المبارک اور ایک اور عید فطر دیکھنے کی سعادت حاصل ہوئی۔ یہ ایک بہت بڑی نعمت ہے۔ اللہ تعالی کی میہمانی میں شرکت کی عظیم نعمت ہے، ہماری قوم  نے در حقیقت اس مہینے سے بھر پور استفادہ کیا اور عوام نے اس عزیز اور عظیم مہینے کی قدر قدر و قیمت کو بخوبی درک کیا، عزيز قوم اور جوانوں نےان تمام مجلسوں، ان محفلوں، ان تلاوتوں، ان تسبیحوں، ان دعاؤں اور ان تمام پروگراموں میں بھر پور شرکت کی جنھوں نے زیادہ سے زیادہ نوجوانوں کے پاک و پاکیزہ قلوب اور روحوں کو اپنی طرف جذب کیااور انشاء اللہ ایرانی قوم  کے لئے اللہ تعالی کی رحمت کے دریچے کھل گئے اور ہمیں اس کی قدر کرنی چاہیے۔


ہمارے عوام کے وجود میں اللہ تعالی سے محبت، عشق و الفت اور معنویت گھر کرچکی ہے اور اس کی جڑیں بہت عمیق اور گہری ہوچکی ہیں ۔ ممکن ہے بعض افراد خطا و اشتباہ سے دوچار ہوں، اپنی انفرادی زندگی میں غلطیوں کا ارتکاب کر بیٹھیں لیکن ماہ رمضان المبارک انہیں بھی یہ موقع فراہم کر تاہے کہ وہ اپنے پروردگار کی طرف پلٹ آئیں، اپنے خدا کو یاد کریں ، اللہ تعالی کا ذکر اور اس کی  تسبیح کریں اور اپنے پرودگار سے توبہ و استغفار کریں۔ ہر انسان کے اندرخدا وند متعال سے رابطہ پیدا کرنے والی روح اور معنوی جذبہ موجود ہے؛ شاعرانہ زبان میں اس کو یوں بیان کیا گيا ہے:

خاک دل آن روز کہ می بیختند شبنمی از عشق در او ریختند (1)
"خاک دل کا خمیر جب تیار کیا جا رہا تھا تو اسی وقت اس میں محبت اورعشق کی شبنم کو ملا دیا گيا تھا"

یہ عشق ، مادی عشق نہیں ہے، یہ عشق ہو و ہوس میں آلودہ عشق نہیں ہے یہ عشق ، خدا وند متعال کا عشق ہے یہ حق تعالی اورذات باری تعالی کا عشق ہے، یہ جوہر وجود کا عشق ہے جو تمام انسانوں کے اندر موجود ہے، اللہ تعالی کا قرآن مجید میں ارشاد ہے: " فطرت اللہ الّتی فطر النّاس علیھا " (2)"یہ الہی فطرت ہے جس پر حق تعالی نے انسانوں کو پیدا کیا ہے "

مادی عوامل و محرکات، مادی جذبات اور مادی کشش ، اس گوہر کے اردگرد خس و خاشاک اور گرد و غبار کی طرح جمع ہوجاتے ہیں۔ جب رمضان المبارک کا مہینہ آتا ہے جو گویا ایک نسیم ہے جو اس گرد و غبار کو صاف اور برطرف کر دیتی ہے۔ یہ گوہر آشکار اور نمایاں ہوجاتا ہے اور اس کی خداوند متعال کی طرف دوبارہ توجہ مبذول ہوجاتی ہے لہذا اس رمضان المبارک میں بھی ہم نے مشاہدہ کیا کہ مختلف مزاج، مختلف رفتار و گفتار اور مختلف انداز کے لوگوں نے مجالس بالخصوص قدر کی مبارک راتوں میں بھر پور شرکت کی اور ان کے فیوض و برکات سے مستفیض ہوئے اور اللہ تعالی کی بارگاہ راز و نیاز کیا اور آنسو بہائے ۔

دل چو بہ آن قطرہ غم اندود شد
بود کبابی کہ نمک سود شد
دیدہ ی عاشق کہ دھد اشک ناب
ھست ھمان خون کہ چکد از کباب
(3)

یہ آنسو جو آنکھوں سے جاری ہوتے ہیں در حقیقت پاک و بیدار دلوں سے نکلتے اور جاری ہوتے ہیں۔ ہمارے عزيز و محترم عوام کو اس کی قدر کرنا چاہیے۔ آپ کے ہاتھ  میں ایک عظیم خزانہ آیا ہے۔ اس مبارک مہینےمیں ہاتھ آنے والے اس عظیم خزانے کی حفاظت کیجئے ؛ قرآن کے ساتھ جو انس و لگاؤ پیدا ہوا ہے اس کی حفاظت کیجئے، قرآن مجید کے ساتھ یہ انس ولگاؤ  ہاتھ سے جانے نہ پائے۔ یہ اول وقت نماز جماعت، مسجد میں نماز پڑھنے کی عادت، یہ کیفیت اور حضور قلب کے ساتھ نماز کی ادائیگی، جہاں تک بھی ممکن ہے پورے سال اس کا سلسلہ اسی طرح جاری رہنا چاہیے۔ ہرگز اس کی اجازت نہ دیجئے گا کہ مادی محرکات، یہ خس و خاشاک، مادی گرد و غبار کے ڈھیر اس گوہر پر دوبارہ بیٹھ جائیں۔ جو قوم ان خصوصیات کی حفاظت کرتی اور معنوی عروج اور معنوی کمال کو باقی رکھتی ہے وہ قوم تمام میدانوں میں، مادی میدان میں ، معنوی میدان میں ، عزت و شرف کے میدان میں، اقتدار کے میدان میں، ہر قسم کے قومی سرمائے کی ایجاد میں کامیاب و کامراں  رہتی ہے اور انشاء اللہ ہماری قوم بھی اس مقام تک ضرور پہنچ جائے گی۔
آج کا دن عید فطر کا دن ہے جو علل الشرائع کی روایت کے مطابق : "
فيكون يوم عيد و يوم اجتماع و يوم فطر و يوم زكاة و يوم رغبة و يوم تضرّع " (4)یہ دن عید کا دن بھی ہے، لوگوں کے اجتماع کا دن بھی ہے۔ آج کے دن پورے عالم اسلام میں تمام مسلمان عید فطر مناتے ہیں۔ یہ ایک ہی وقت میں ایک نقطے اور مرکز کی طرف توجہ امت اسلامیہ کے لئے ایک عظیم موقع ہے، " يوم زكاة و یوم رغبۃ " یہ دن  زکات کا دن ہے یہ دہ اللہ تعالی کی طرف آپ کی توجہ اور رغبت کا دن ہے "و یوم تضرع " یہ دن تضرع و زاری اور گریہ کا دن ہے ۔ یہ عید، توجہ اور حاضری دینے کی عید ہے، یہ عید معنی و مفہوم کی عید ہے۔
امید ہے کہ خداوند متعال ہمیں توفیق عطا فرمائے، آپ کو اور ہم سب کو توفیق مرحمت کرے کہ ہم سب آج کے دن، جو عید کا دن ہے اور جمعہ کا مبارک دن بھی ہے اللہ تعالی کی برکاتاور اس کے فیوضات سے استفادہ کریں اور فائدہ اٹھائیں۔

بسم اللہ الرّحمن الرّحیم
قل ھو اللہ احد، اللہ الصمد ، لم یلد و لم یولد ، و لم یکن لّہ کفوا احد
(5)


دوسرا خطبہ

بسم اللہ الرّحمن الرّحیم

الحمد للہ ربّ العالمین و الصّلاۃ و السّلام علی سیّدنا و نبیّنا ابی القاسم المصطفی محمّد و علی آلہ الاطیبین الاطھرین المنتجبین الھداۃ المھدیین سیّما علی امیرالمومنین و الصّدّیقۃ الطاھرۃ و الحسن و الحسین سیّدی الشباب اھل الجنّۃ و علیّ بن الحسین و محمد بن علی و جعفر بن محمد و موسی بن جعفر و علیّ بن موسی و محمد بن علی و علیّ بن محمد و الحسن بن علی و الخلف القائم المھدی صلوات اللہ علیھم اجمعین و صلّ علی ائمّۃ المسلمین و حماۃ المستضعفین و ھداۃ المؤمنین، اوصیکم و نفسی عباد اللہ بتقوی اللہ ۔

دوسرے خطبہ میں سب سے پہلا مطلب جو میں بیان کرنا چاہتا ہوں وہ  یہ ہے کہ یوم قدس کے موقع پر ایرانی عوام کی عظیم الشان ریلیوں میں بھر پور شرکت میں میں ان کا شکریہ ادا کرتا ہوں ؛ ایرانی عوام نے ان عظیم الشان ریلیوں اور اجتماعات میں اپنا جوش و خروش ، اپنا جذبہ اپنا پختہ عزم و ارادہ اور اپنی موقع شناسی بھر پور مظاہرہ کیا ہے۔ حضرت امام خمینی رضوان اللہ علیہ نےجب یوم قدس کا اعلان کیا تھا اس وقت سے لیکر اب تک اکتیس سال بیت چکے ہیں ۔دشمنوں کو یہ توقع اور امیدتھی کہ اس کا رنگ روز بروز پھیکا پڑتا جائے گا اور یہ دن عدم توجہ اورفراموشی کی نذر ہوجائے گا لیکن خدا کا  لاکھ شکر کہ لوگوں کے دل اور ان کے عمل میں یہ جذبہ روز بروز بڑھتا ،شعلہ ور ہوتا اور  نمایاں بنتا چلا گیا۔
اس سال مختلف ممالک میں، ایشیا میں، مشرق وسطی میں، افریقہ میں، امریکہ میں، یورپ میں دنیا کے مختلف حصوں میں مسلمانوں نے اس دن کو عزت و احترام کے ساتھ منایا ہے اور ایرانی قوم نے اس دن کو مزيد عقیدت اور اچھے و شاندار انداز میں منایا ہے  ایران کی عظيم قوم در حقیقت امت اسلامیہ کے اس عظیم الشان اقدام کا اصل محور ہے اور اس نےدنیا کو دکھا دیا ہے کہ بین الاقوامی سطح پر رونما ہونے والے شرائط، حالات اور تقاضوں کے پیش نظر  وہ اپنے فرائض اور ذمہ داریوں کو مزید جوش و خروش کے ساتھ، اشتیاق و دلچسپی کے ساتھ اور ولولہ و عزم کے ساتھ انجام دیتی ہے۔
صیہونی حکومت نےاپنی قساوت اورشقاوت کو  اعلی پیمانے پر پہنچا دیا ہے، دنیا کے گوشہ و کنار سے فلسطینیوں کی حمایت میں بلند ہونے والی آوازوں پر صہیونی حکومت نے کوئي توجہ نہیں دی ، اور فلسطینیوں پرمسلسل ظلم و ستم کے پہاڑ توڑرہی ہے، ان حالات میں ایران کی مسلمان قوم نے ہرسال سے زیادہ جوش و جذبے اور ولولہ کے ساتھ یوم قدس شاندار انداز میں منعقد کیا۔ اسلامی جمہوریۂ ایران کے خلاف مغرب خصوصا" امریکہ کی موذیانہ کوششوں اور سازشوں نے ہماری قوم کے جذبے اور جوش و خروش کو مزید جوان کر دیا ، جبکہ عالمی استکبار اور عالمی تسلط پسندطاقتیں  فلسطین کے مسئلہ کو ایک فراموش شدہ مسئلہ تصور کرتی ہیں اور مسئلہ فلسطین کو وہ ہر قیمت پر مسلمانوں کے ذہنوں سے محو کر دینا چاہتی ہیں، لیکن ایرانی قوم نے اس مسئلے کو مرکزي مسئلہ بنا دیا ہے۔ اس قوم کو شاباش ہو اس عظیم قوم کو آفرین ہو جس نے اس مسئلہ کو پھر زندہ کردیا ہے۔

 ہماری عزیز قوم کی رفتار و گفتار میں امید اور جوش و جذبہ موجیں مار رہا ہے۔ میں نے اس سال رمضان المبارک میں  یونیورسٹی کے طلبہ سے ملاقات کے دوران اس امید اور جذبے کی درخشندگی کو مشاہدہ کیا ، میں نےیونیورسٹیوں کے اساتذہ کے ساتھ ملاقات میں اس جذبہ کو بخوبی دیکھا، میں نےملک اور نظام کے اعلی حکام اور ملازمین کے ساتھ ملاقات کے دوران اس جذبہ کو دیکھا، مختلف اداروں کے سربراہوں اور عہدہ داروں، افسروں اور محنت کش طبقے کے ساتھ ملاقات اور مختلف طبقوں اور گروہوں کے ساتھ ملاقاتوں کے دوران ان کے اندر اس جذبہ کو موجزن پایا میں نے ان کے ساتھ گفتگو اور بات چیت کے دوران اس جذبہ کو مشاہدہ کیا ہے۔  اور جو قوم اس طرح کی امید سے سرشار ہو اور مستقبل کے سلسلے میں اس طرح کی امید و حوصلہ رکھتی اور پختہ عزم و ارادہ کی مالک ہو، بیشک اور بلا شبہ ایسی قوم  عظيم اوربلند چوٹیوں تک پہنچ جائے گي۔
امت اسلامیہ کو عالمی اور علاقائی سطح پر بہت سےمسائل کا سامنا ہے امت اسلامی کے لئےبہت سے دیگر مسائل اہم ہیں لیکن جو مسئلہ اس وقت فوری طور پر درپیش ہے وہ پاکستان میں سیلاب کا مسئلہ ہے۔ اس کا نام تو سیلاب ہے لیکن حقیقت میں یہ ایک عظيم بلا اور مصیبت ہے۔ پاکستانی قوم کے لئے یہ ایک بہت بڑی مصیبت ہے۔ پاکستانی قوم ، امت اسلامیہ کو درپیش گوناں گوں اور مختلف مسائل میں ہمیشہ پیش پیش رہی ہے پاکستانی قوم دینداری میں، دینی غیرت و حمیت کے مظاہرے میں اور دین کی پابندی کے سلسلے میں جانی پہچانی قوم ہے۔ آج یہ قوم ایک عظیم مصیبت میں مبتلا ہے، دریائے سندھ نے شمال سے جنوب تک تباہی پھیلا رکھی ہے۔ پاکستان کے شمال میں چین کی سرحدوں سے لیکر پاکستان کے جنوب میں بحر ہند تک اس طویل و عریض خطے میں ایک عظیم سیلاب، ایک عظیم طغیانی اور ایک عظیم طوفان نے لوگوں کی زندگي کو بری طرح متاثر اور دگرگوں کر دیا ہے۔ دس ہزار سے زیادہ دیہات زیر آب آگئے ہیں۔ تمام کھیت ، زراعت اور باغات جو اس قوم کی غذا و خوراک کا سرچشمہ تھے اس قوم کی درآمد کی امید اور ثروت و آمدنی کا ذریعہ تھے پوری طرح تباہ و برباد ہو گئے ہیں۔ دسیوں ہزار مدرسے، مسجدیں اور امام باڑے جو اس طویل و عریض خطے پر واقع تھے وہ سب ویران ہو گئے ہیں۔ جیسا کہ مجھے رپورٹ ملی ہے  اس کے مطابق دریائے سندھ کا عرض، ، عام حالات میں تقریبا" دو کلومیٹر ، ایک کلومیٹر اور  بعض جگہ آدھا کلومیٹر ہے لیکن اس وقت خاص طور پر جس جگہ دوسری ندیاں اس سے ملی ہیں وہاں تقریبا" نوے کلومیٹر کے عرض میں پانی ہی پانی پھیلا ہوا ہے! لوگوں ، مال مویشی، زندگیاں، گھر کاشانے اور امیدیں سب کچھ ختم ہوچکی ہیں، بعض اندازوں کے مطابق اس سیلاب سے پاکستان کو تقریبا چالیس سے لیکر پچاس ارب ڈالر تک نقصان پہنچا ہے ۔ تقریبا دو کروڑ افراد آوارہ وطن اور ہزاروں مرد ، عورتیں بچے اور بوڑھے اس سیلاب میں جاں بحق ہو چکے ہیں ۔
پاکستان میں سیلاب سے متاثرہ لوگوں کو آج پانی کی ضرورت ہے، غذا کی ضرورت ہے، لباس کی ضرورت ہے، سر چھپانے کی جگہ کی ضرورت ہے۔ یہ لوگ زندگي کی اشیائے ضروریہ کے محتاج ہیں ، رمضان المبارک کے مہینے میں پاکستانی قوم نے ان سخت حالات میں روزہ رکھا ہے۔ عید فطر کا دن ہے، اجتماع کا دن ہے، امت اسلامیہ کا دن ہے، ہمارے عوام کو ہمت سے کام لینا چاہیے۔  اسلامی جمہوریہ ایران کی حکومت نے امدادی سامان روانہ کیا ہے۔ بعض افراد نے نجی طور پر بھی امداد کی ہے لیکن سیلاب کی تباہی کو دیکھتے ہوئے یہ اقدامات کافی نہیں ہیں بہت زيادہ امداد کی ضرورت ہے۔ یہ ہم سبھی کا فریضہ ہے۔ ہمارے مومن بھائی، ہمارے مسلمان بھائی، پاکستان میں اس وقت ایک عظیم مصیبت اور سخت مشکل میں مبتلا ہیں۔ میراصرف ایرانی قوم سے خطاب نہیں ہے، بلکہ پورے عالم اسلام سے خطاب ہے۔ تمام قوموں سے خطاب ہے۔ تمام مسلم ممالک کے مسلمانوں سے خطاب ہے۔ اسلامی کانفرنس تنظیم سے خطاب ہے۔ سبھی کو ہمت سے کام لینا چاہیے۔ سب کو مدد کرنا چاہیے، جو امدادی سامان جمع ہوا ہے کہتے ہیں کہ وہ ایک ارب دو ارب!  یہ امداد کہاں اور پاکستانی عوام کی ضروریات کہاں؟! ان چیزوں سے ان کی ضروریات پوری نہیں ہوں گي۔ پاکستان کو بہت ہی سخت نقصان پہنچا ہے۔ جس قدر بھی ممکن ہو سکے مدد کرنی چاہیے۔ خداوند عالم توفیق عطا کرے کہ عوام جہاں تک ممکن ہوسکے پاکستان میں سیلاب سے متاثر افراد کی مدد کریں ؛ یہ ایک اہم مسئلہ ہے۔
البتہ، ہمیں پاکستان کے سیاسی عدم ثبات اور عدم استحکام پر بھی تشویش ہے، علاقہ میں موجود تسلط پسند اور جارح طاقتیں اس صورتحال سے فائدہ اٹھا رہی ہیں، موقع پرست عناصر غلط فائدہ اٹھا رہے ہیں، بعض تسلط پسند منہ زور  اورجارح طاقتیں حکومتیں، پاکستان کو اپنی فوجی چھاؤنی میں تبدیل کر دینا چاہتی ہیں، یہ بھی ہو رہا ہے۔ یہ بھی ایک تشویشناک مسئلہ ہے اور ہمیں توقع ہے کہ پاکستان کی با شعور قوم خود اس موضوع کی طرف توجہ دے گی؛ حکومت پاکستان اپنے فرائض کو جانتی ہے اور انشاء اللہ خداوند عالم ان کی مدد کرے گا وہ بہترین انداز میں اپنی اس مصیبت سے باہر نکل آئیں گے۔
اسی طرح فلسطین کا مسئلہ، عالم اسلام کا پہلا مسئلہ ہے۔ غزہ میں اسرائیلی جرائم کا سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ دریائے اردن کے مغربی کنارے پر اسرائیلی مظالم کا سلسلہ جاری ہے۔ صیہونی حکومت نہایت ہی بے شرمی اور بے رحمی کے ساتھ فلسطین کے مظلوم عوام پر اپنے ظلم و ستم جاری رکھے ہوئے ہے اور ادھر واشنگٹن میں نام نہاد امن مذاکرات ہو رہے ہیں۔ امن مذاکرات کس کے ساتھ؟ وہ ان مذاکرات کے ذریعہ فلسطینی عوام پر ہونے  والے اسرائیلی جرائم پر پردہ ڈالنے کی کوشش کررہے ہیں اور اس طرح مسئلہ فلسطین سے  دنیا کی توجہ ہٹانا چاہتے ہیں ان مذاکرات کا نام انہوں نے " امن مذاکرات" رکھا ہے ! جبکہ ایک غاصب نے آکر ایک قوم کے گھر پراور اس کے کاشانے پر غاصبانہ قبضہ کر رکھاہے اور اس نےاسی پر اکتفا نہیں کیا، بلکہ وہ اس قوم  کا سر کچلنے کے لئے ہر قسم کے ممکنہ وسائل و امکانات کا استعمال بھی کررہا ہے۔ وہ بغیر کسی خوف و ڈر کے فلسطینی قوم کا سر دبا رہا ہے اور مغربی ممالک ، امریکہ اور دوسرے لوگ لاپروائی کے ساتھ بیٹھے ہوئے تماشہ دیکھ رہے ہیں جبکہ امریکہ اور مغربی ممالک حملہ آور ظالم و جابر اورسر کچلنے والے کی حوصلہ افزائی اور ترغیب بھی کر رہے ہیں اور اس کے ساتھ ہی امن کے لئے اجلاس بھی منعقد کر رہے ہیں۔ کون سی صلح؟ کیسی صلح ؟! کس کے اور کس کے درمیان صلح ؟ اس طرف بے شرم و بے غیرت ظالم و ستمگر صیہونی بھی نہایت ہی دیدہ دلیری کے ساتھ فلسطینیوں کے مقابلے میں کھڑے کہہ رہے ہیں ٹھہرو! یہودیوں کی آبادکاری کو قبول کرلو  زبان بند رکھو ، اسرائیل کو یہودی بستیوں کی تعمیر کرنے دو، صہیونیوں کا سب سے بڑا جرم یہ ہے کہ قدس شریف کو ،مسلمانوں کے قبلۂ اول کو ، فلسطین عزيز کو یہودی علاقہ بنا کر اپنے ظلم و ستم اور سازشوں کا مرکز بنانا چاہتے ہیں فلسطین ہمارا ایک اصلی مسئلہ ہے ۔
ہم امید رکھتے ہیں کہ خداوند متعال مسلمان قوموں کو توفیق عطا فرمائے ، مسلمان حکومتوں کی مدد کرے کہ وہ اس تلخ حادثے کے سلسلے میں اس تلخ واقعے کے بارے میں اپنے فرائض کو اچھی طرح پہچانیں، البتہ قسمتی کا مقام ہے  کہ فلسطینی قوم، ہر قسم کے دباؤ کے سامنے استقامت اور پائداری کے ساتھ کھڑی ہے  انسان کے لئےقابل یقین نہیں ؛ ایک قوم اس قدر ثابت قدم، اس قدر باہمت اور اس قدر باغیرت ہو سکتی ہے!! ان عجیب و غریب قسم کے دباؤ کے باوجود وہ ثابت قدم ہیں فلسطینی قوم نے مغربی اور امریکی سازشوں کے مقابلے میں پسپائی اختیار نہیں کی ہے بیس سا لے پہلے کی نسبت ،تیس سال پہلے کے مقابلے میں آج فلسطینیوں کی طاقت کہیں زيادہ ہے، وہ اور زيادہ پختہ عزم کے مالک اور مصمم نظر آتے ہیں۔ ان کی توانائیاں بھی بحمداللہ پہلے سے کہیں زیادہ  بہتر ہیں اور کسی شک و شبہ کے بغیر کہا جا سکتا ہے کہ فلسطینی جوان ایک دن غاصب صہیونیوں کو اپنی سرزمین سے باہر نکال کر ہی دم لیں گے اور وہ اس صہیونیوں کے جھوٹے اور فریبی نظام کی بساط کوسرزمین فلسطین سے ایک دن ضرور ختم کر دیں گے ۔
پروردگارا ! پروردگارا! رمضان المبارک کے مہینے میں انجام پانے والی اس قوم کی عبادت، اس قوم کی زحمات، اس قوم کے گریہ و زاری اور اخلاص و پاک دلی کو اپنے لطف و کرم کے ساتھ قبول فرما ۔ پروردگارا! اپنی رحمت و مغفرت کےدروازے اس قوم پر کھول دے۔ پروردگارا! لوگوں کو درپیش مشکلات حل فرمادے ۔ پروردگارا! اس قوم کو ترقی و پیشرفت  اور بلند چوٹیوں کو فتح کرنے کی سمت آسانی اور سرعت کے ساتھ گامزن رہنے کی توفیق عطا فرما۔ پروردگارا! ہم سب کو بخش دے ۔ پروردگارا! ہم سب کو ماہ رمضان المبارک کے فیوض اور عید سعید فطر کے برکات اور تضرع و زاری اورخضوع و خشوع کے فیض سے محروم نہ کرنا ۔ پروردگارا! ہمارےمرحومین پر اپنی رحمت و بخشش اور مغفرت نازل فرما ۔ پروردگارا! امت اسلامیہ کو روز بروز مزيد سربلندی و سرافرازي نصیب فرما۔

 بسم اللہ الرّحمن الرّحیم
و العصر، ان الانسان لفی خسر الّا الّذین امنوا و عملوا الصّالحات و تواصوا بالحق و تواصوا بالصّبر ۔

 

و السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

1) )شيخ بهائى‌
(2)
روم: 30
3)
)شيخ بهائى‌
4)
)علل الشرائع، ج 1، ص 268
5)
)اخلاص: 3-1