ویب سائٹ دفتر رہبر معظم انقلاب اسلامی

رہبر معظم کا بیجار شہر کے عوام کے شاندار اجتماع سے خطاب

 

بسم‏اللَّه‏الرّحمن‏الّرحيم‏
والحمد للَّ
ه ربّ العالمين و الصّلاة و السّلام على سيّدنا و نبيّنا أبى القاسم المصطفى محمد و على اله الأطيبين الأطهرين و صحبه المنتجبين سيّما بقيّة اللَّه فى الأرضين‏

میں بہت خوش قسمت ہوں کہ مجھےبیجار اور گروس کے درخشاں تاریخی سوابق کے حامل اور دلیر و شجاع عوام کے پرجوش و خروش اور مہر و محبت سے مملو اجتماع میں حاضر ہونے کا موقع ملا۔ بیجار کے عوام نے تاریخ میں اپنے بڑے کارناموں کے علاوہ موجودہ دور میں بھی انقلاب کے مختلف واقعات، مسلط کردہ جنگ اور مقدس دفاع کے دوران ملک کی سرحدوں کی حفاظت کے سلسلے میں اپنا نمایاں کردار ادا کیا۔ یہاں کے مردوں ،عورتوں اور بوڑھوں اور جوانوں نے ایسی شجاعت کا مظاہرہ کیا جو کبھی فراموش نہیں کی جا سکتی۔ ابھی چند لمحے قبل ہم نے گلزار شہداء میں اسکول کےچند طلباء کی مقدس قبروں کی زیارت کی جو ایک ساتھ میدان جہاد میں گئے اور درجہ شہادت پر فائز ہوئے۔ یہ کسی بھی قوم اور کسی بھی شہر کے لئے بڑی عظیم نشانیاں ہیں۔ تاریخ انہیں چیزوں کی بنیاد پر نتیجہ اخذ کرتی ہے۔ ماضی میں صاحبان اقتدار اور مرکز میں مقیم عہدیداروں کا یہ طرز عمل رہا کہ انہوں نے دور دراز کے علاقوں اور وہاں آباد قوموں کو بالکل نظر انداز کیا لیکن آج اسلامی جمہوری نظام میں اس طویل و عریض ایرانی سرزمین کے ہر گوشے میں آباد ایرانی شہری کو خصوصی اہمیت کا حامل سمجھا جاتا ہے۔ انہیں اہمیتوں اور انہیں الگ الگ شخصیتوں کے مالک افراد، انہیں ارادوں اور جذبات کے مجموعے کا نام ہے ایران کی بزرگ اورعظیم قوم۔ وہ عظیم قوم جس نے عصر حاضر میں دنیا کی سامراجی طاقتوں کی مرضی کے برخلاف اپنے وجود، اپنے عزم وارادے اور اپنے اثرات کو مخالفین سے بھی تسلیم کروا لیا۔ ایرانی عوام کی استقامت آج ایک شاندارمثال اور بہت سی قوموں کے لئے نمونہ عمل بن چکی ہے جو ملک کے ہر فرد کی استقامت کا مظہر ہے۔ یہ ملک کی ہر قوم، ہر شہر اور ہر گوشہ وکنار کی مخصوص شناخت کا مجموعی نتیجہ ہے۔

بیجار شہر کی ایک اہم اور قابل توجہ خصوصیت یہ ہے، یہاں کے لوگ محب اہلبیت ہیں خواہ وہ سنی ہوں یا شیعہ۔ یہ لوگ بڑے بڑے امتحانوں میں کاماب و سرافراز وسربلند رہے ہیں۔ ان عزیزوں نے ملک کی سرحدوں کی حفاظت میں بڑی شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔ کردستان کے عوام پورے صوبے منجملہ شہر بیجار میں جو شیعوں کا مرکز ہے شیعہ سنی ایک دوسرے کے ساتھ آپس میں ملکر زندگی بسر کر رہے ہیں اور اسلامی اتحاد و یکجہتی کا عملی نمونہ ہیں۔ یہ چیزیں قابل قدر ہیں۔ ہم نے حالیہ برسوں اور ماضی میں اس علاقہ کے بارے میں جو مطالعہ اور جو تجزیہ کیا اس میں یہ محسوس ہوا کہ طاغوتی دور میں اس علاقے کے بارے میں منفی سوچ پائی جاتی تھی۔ اس علاقے کے لوگوں کو غیر سمجھا جاتا تھا، یہاں کے لوگ بے توجہی کا شکار رہے۔ اسی وجہ سے انقلاب کے فورا بعد امام خمینی (رہ) کے فرمان پر پہلا تعمیراتی گروہ، کردستان تعمیراتی دفتر کے قیام کی غرض سے اس علاقے میں آیا تاکہ اس علاقہ میں خدمت رسانی کا سلسلہ شروع ہو اور عرصہ دراز سے جاری مشکلات کو برطرف کیا جائے۔ البتہ انقلاب دشمن عناصر نے کچھ عرصے تک جو بد امنی پھیلائی اس سے ترقی و تعمیر کے کافی مواقع ہاتھ سے نکل گئے کاموں میں خلل پڑ گیا لیکن وطن عزیز کے نوجوانوں نے خواہ وہ " جہادسا زندگی " سے وابستہ ہوں یاان کا تعلق سپاہ پاسداران انقلاب سے ہو یا پولیس اور فوج سے منسلک ہوں انہوں نے آپ لوگوں کی حمایت سے اس صوبے اور اس علاقے میں نمایاں کام انجام دئیے۔ البتہ پسماندگی اب بھی کافی ہے۔

یہاں کےمحترم امام جمعہ نے بعض مطالبات کی جانب اشارہ کیا۔ خوشی کی بات یہ ہے کہ عوامی خدمت کے جذبے سے سرشار حکومت نے اپنے اجلاس منجملہ دو روز قبل سنندج میں منعقدہ اجلاس میں صوبہ کو درپیش مشکلات و مسائل کا جائزہ لیا اور بیجار کے علاقے کے سلسلے میں اہم فیصلے کئے گئے ہیں۔ اس کی رپورٹ ہمیں بھی پیش کی گئی ہے ہم نے بھی تاکید کی کہ اس پر پوری توجہ رکھیں اور انشاء اللہ پوری توجہ رہے گی۔ اللہ تعالی نے چاہا تو آپ لوگوں کے تعاون سے عوام کی خدمت گذار حکومت اس علاقے اور یہاں کے عوام اورآپ عزیزوں کے لئے اہم کام انجام دے گی۔ میں ایک نکتے کی جانب اشارہ کرنا چاہوں گا جس کا تعلق ملک اور انقلاب کے تمام اہم امور سے ہے البتہ بیجار کے مسائل سے بھی اس کا گہرا رابطہ ہے اور وہ یہ کہ ایرانی قوم نے یہ عظیم کارنامہ تین بنیادی عناصر کے سہارے انجام دیا ہے جس سے دنیا والے دنگ رہ گئے ہیں ۔ ایک اتحاد، دوسرے باہمی تعاون اور تیسرے آگاہی و بیداری۔ ایرانی قوم نے اپنے اتحاد سے، اپنے تعاون اور شراکت سے اور اپنی آگاہی و بیداری سے یہ بڑا قدم اٹھایا اوردنیا کے سیاسی ، فکری شعبہ میں نئی ثقافت اور جدید تمدن کی بنیاد رکھی۔ مسلمان قوموں کو اپنا تشخص ملا اور انہیں اپنی شناخت کا اندازہ ہوا۔ انہیں معلوم ہوا کہ امت مسلمہ پر جو پسماندگی مسلط کی گئی ہے اس سے نجات حاصل کی جا سکتی ہے۔ لہذا آپ دیکھ رہے ہیں کہ شمالی افریقہ سے لیکر مشرقی ایشیاء تک تمام مسلمان اقوام پر ایرانی عوام کی تحریک کے نمایاں اثرات مرتب ہوئے اور قوموں میں بیداری کی لہر پیدا ہوئی۔ فلسطین کے معاملے میں، لبنان کے معاملے میں اور عراق و افغانستان کے معاملے میں جگہ جگہ اور قدم قدم پر ایرانی عوام کی تحریک کے اثرات نظر آتے ہیں۔ یہ عظیم کارنامہ انہیں تین عناصر کے سہارے انجام پایا۔

قومی اتحاد نے دلوں کو ایکدوسرے کےنزدیک کیا، سب نے ایک ہی آواز بلند کی اور اپنی بات پوری دنیا تک پہنچائی۔ ملک کی مختلف قوموں اور مذاہب سے تعلق رکھنے والے افراد اسلامی جمہوری نظام اور پرچم اسلام کی سربلندی کے لئے ایک دوسرے کے معاون و مددگار بن گئے سبھی باہمی عہد و پیمان منسلک ہوئے اور سب نے ایک ہی آواز بلند کی۔ اس اتحاد و ہم آہنگی نے انقلاب کے آغاز میں ہی دشمن پر ایسا رعب و دبدبہ قائم کیا کہ طاغوتی حکومت کی کمر ٹوٹ گئی۔ اس کے بعد بھی آج تک مختلف دشوار مراحل میں ایرانی قوم نےاتحاد کے ذریعہ دشمن کو اپنا پیغام بار بار پہنچایا ہے اور ایرانی عوام نےدشمن کو اپنی صفوں میں اختلاف ڈالنے کے سلسلے میں ناکام اور مایوس کر دیا ہے اور اس اتحاد کی حفاظت بہت ہی اہم اور لازمی ہے۔
یہ بات میں نے سنندج میں بھی کہی اور یہاں بھی اس کا اعادہ کررہا ہوں کہ مسلمان بھائی اسلامی اتحاد کو شیعہ و سنی اختلاف پر ترجیح دیں اور مذہبی اختلاف کو روش اور مؤقف کے اختلاف میں تبدیل نہ ہونے دیں۔ ایرانی اقوام کا اتحاد، اسلامی مکاتب فکر کا اتحاد اور مختلف سیاسی احزاب کا اتحاد ملک کی عظمت و ہیبت کا ضامن ہے۔ یہاں بھی سب کو میری یہی نصیحت ہے، جن علاقوں میں سنی بھائیوں کی اکثریت ہے وہاں بھی میں نے یہی نصیحت کی ہے اور اس شیعہ علاقے میں بھی میں یہی بات کہوں گا کہ ایک دوسرے کے ساتھ برادرانہ سلوک کیجئے، ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کیجئے، ایک دوسرے کی مدد اور نصرتکیجئے۔ یہ ہے پہلا نکتہ۔
دوسرا نکتہ شراکت اور تعاون پر مبنی ہے ۔ میدان عمل میں حکومت کے ساتھ عوام کے تعاون سےدشمن کو مایوسی ہوئی۔ اگر ان تیس برسوں میں عوام انتخابات میں 22 بہمن اور یوم قدس کی ریلیوں میں شرکت نہ کرتے، مختلف پروگراموں میں حصہ نہ لیتے اور اپنے اس عظیم اور قابل قدر تعاون کا دشمن کے سامنے مظاہرہ نہ کرتے تو یقینا ایرانی قوم کا جو رعب ودبدبہ آج ہے وہ نہ ہوتا۔ اس تعاون کو برقرار رکھیے۔
ہماری طرف سے ہمیشہ انتخابات اور دیگر میدانوں میں عوام کی بھرپور شرکت پر جو تاکید رہتی ہے اس کی اصل وجہ یہی ہے۔ یہ شراکت اور تعاون صرف انتخابات اور سیاسی میدان تک محدود نہیں ہے بلکہ ترقی اور معیشت کے میدان میں بھی عوام کا تعاون ضروری ہے اور جیسا کہ میں نے عرض کیا یہ بات پوری قوم سے متعلق ہے اور بیجار کے سلسلے میں بھی یہ چیز صادق آتی ہے۔ بیجار کے عوام اپنے شہر اپنے سرسبز و شاداب میدانوں اور اپنے نہایت با برکت علاقے کی قدر کو پہچانیں۔ اس علاقے سے دیگر علاقوں کی جانب عوام کی ہجرت کی جو خبریں ملتی ہیں وہ عوام کے تعاون اور شراکت کے خلاف ہیں ، معاشی تعاون کے منافی ہیں۔ اسی علاقہ میں رہ کر اسے آباد کیجئے۔ وہ زمانہ گذرچکا ہے جب حکومتیں دور دراز علاقوں پر توجہ نہیں دیتی تھیں۔ خوش قسمتی سے آج حکومت کی توجہ ملک کے دور دراز کے علاقوں پر بھی ہے اور ان علاقوں کے مسائل کا غور سے جائزہ لیا جا رہا ہے۔ میں خود بھی دیکھ رہا ہوں اور نزدیک سے مشاہدہ اور نگرانی کر رہا ہوں، میں خود محسوس کر رہا ہوں کہ صوبوں اور اضلاع کے مسائل پر کتنی توجہ دی جا رہی ہے۔ اس دن میں نے دیکھا کہ اسی بیجار کے علاقے کے سلسلے میں حکومتی اہلکاروں نے اس علاقے کی مشکلات کی بالکل صحیح نشاندہی کی۔ پانی کی قلت کا مسئلہ، ڈیمز کے پانی کا دوسرے صوبوں کی طرف بہاؤ اور اس علاقے کی پانی سے محرومی کی جانب ان کی پوری توجہ ہے حکام ان مسائل کا حل نکالنے کی فکر میں لگے ہوئے ہیں۔ ان مسائل کے حل کے لئے کوشاں ہیں۔ یہ بہت اہم بات ہے کہ ملک کے اعلی حکام ملک کے مختلف مسائل کے حل کی فکر میں مصروف ہیں خواہ وہ علاقہ جات مرکز اور دارالحکومت سے دور ہی کیوں نہ ہوں اور بہت سے لوگوں کے لئے اجنبی جگہ ہی کیوں نہ ہو۔ یہ بڑی اچھی اور قابل قدر بات ہے۔ اب خود اس علاقے کے عوام کو بھی تعاون کرنا چاہیے۔ آپ تعاون کیجئے اورمیدان عمل میں موجود رہیے۔ یہ تعاون ان اہم ترین امور میں ہے جو ملک کی سطح پر اور صوبے کی سطح پر قوم کی عظیم پیشرفت کے سلسلے میں توجہ کا مرکز شمار کئے جاتے ہیں۔ آپ اپنے شہر، اپنی بستی ، اپنی پرکشش با برکت اور سرسبز سرزمین کی قدر کیجئے، اس سے استفادہ کیجئے۔ حکام بھی بھرپور مدد کریں ایک دوسرے کا ساتھ دیں ۔ یہ بات تعاون کے متعلق تھی۔
تیسرا عنصر آگاہی و بیداری پر مبنی ہےیہ عنصر بھی بڑے اہم کردار کا حامل ہے بالکل اتحاد اور میدان عمل میں موجودگی اور تعاون کی مانند۔ ایرانی قوم نے ثابت کر دیا ہے کہ یہ بیدار قوم ہے۔ اگر قوم بیدار و ہوشیار نہ ہوتی تو انقلاب کے آغاز ہی میں انقلاب سے دلچسپی نہ رکھنے والے عناصر،ملک کو کسی برے انجام تک پہنچا چکے ہوتے۔ جو لوگ آشکارا کہتے تھے کہ انقلاب سے انہیں کوئی دلچپسی نہیں، جو لوگ کہتے تھے کہ وہ امریکہ سے خوفزدہ ہیں، جو لوگ بڑی طاقتوں کے سامنے نرمی دکھانے، توہین برداشت کرنے اور سر تسلیم خم کر دینے پر مائل تھے، اگر وہ اقتدار میں رہ جاتے تو آج ہماری قوم کسی اور ہی راستے اور منزل پر پہنچی ہوتی۔ نہ عزت و وقار ہوتا، نہ ترقی و پیشرفت ہوتی اور نہ عالمی سطح پر ایرانی قوم کی موجودہ عظمت وہیبت کا کوئی نام و نشان ہوتا۔ ہمارے امام (رہ) نے استقامت کا مظاہرہ کیا اور اپنی آگاہی کی بدولت عوام امام خمینی (رہ) کی حمایت میں میدان میں آگئے۔ آگاہی و بیداری نے عوام کی مدد کی۔
میرے عزیزو! میں یہ عرض کرناچاہتا ہوں کہ آگاہی و بیداری ہر وقت ضروری ہے۔ آج بھی لازمی ہے اور کل بھی اس کی ضرورت رہے گی۔ خوش قسمتی سے ہماری آج کی نوجوان نسل ملک کی آبادی کا اکثریتی حصہ ہے۔ نوجوانوں کو بیدار اور ہوشیار رہنا چاہیے۔ معیار معین اور واضح ہیں۔ انتخابات میں اس آگاہی کا اثر ہونا چاہیے۔ قوم کے مطالبات پیش کرنے میں اس آگاہی کا اثر ہونا چاہیے، مختلف امور اور کارناموں میں اس آگاہی کا اثر ہونا چاہیے۔ میں نے انتخابات کے معیار اس دن بیان کئے تھے اور آج اسی کو مکمل کرنا چاہوں گا، انتخابات میں قوم اس بات کا خیال رکھے کہ اس کے ووٹوں سے ایسے افراد اقتدار میں نہ پہنچ جائیں جو دشمنوں کے سامنے دم ہلانے اور قوم کی عزت و وقار کھیلنے کو تیار ہیں۔ ایسے لوگ بر سر اقتدار نہ آنے پائیں جو مغرب کی چاپلوسی اور مغربی حکومتوں کی خوشامد کرکے عالمی سطح پر کوئی پوزیشن اور مقام حاصل کرنے کے خام خیال میں مبتلا ہوں۔ ان چیزوں کی ایرانی قوم کی نظر میں کوئی اہمیت نہیں ہے۔ ایسے لوگ اقتدار میں نہ آنے پائیں جن کو دیکھ کر دشمن کی امیدیں بڑھ جائیں اور وہ ان کے سہارے قوم کی صفوں میں اختلافات ڈالیں، عوام کو دین، اسلامی اصولوں اور انقلابی اقدار سے دور کردیں۔ قوم کو بیدار رہنا چاہئے۔ اگر اقتدار میں ایسے افراد آ گئے جو مختلف سیاسی اور اقتصادی مراکز میں جاکر امام (رحمت اللہ علیہ) کے نظریات پر عمل کرنے اور ان کے معین کردہ اصولوں کی پیروی کے بجائے کبھی کسی مغربی حکومت تو کبھی کسی بڑی طاقت کا دل جیتنے کی کوششوں میں لگ جائیں تو یہ ایرانی کے لئے بہت بڑی مصیبت ہوگی۔ قوم کو اس بات کا خیال رکھنا چاہیے۔
میں خدا وند متعال کا شکر گذار ہوں کہ کردستان کے اپنے اس سفر میں یہاں کے عزیز عوام کے بارے میں زیادہ معلومات حاصل ہوئی آپ جیسے گرمجوش، وفادار، شجاع، پاکیزہ اور محبتی لوگوں کے بارے میں مزید بہت سے حقائق سامنے آئے، البتہ اس سے قبل بھی میں نے اس علاقے کے بارے میں بہت کچھ پڑھا اور سنا تھا۔ میں امید کرتا ہوں کہ ملک کے حکام آپ جیسے مؤمن، با وفا اور نجیب افراد کی قدر و منزلت کا خیال رکھیں گے اور آپ بھی خدمت کے جذبے سے سرشار ان حکام کی قدر کریں۔ عوام اور حکام کے اتحاد و یکجہتی سے ہی ہمارا وطن عزیز ان اہداف کو حاصل کرنے میں کامیاب ہوگا جو اسلامی انقلاب اور دین اسلام نے معین کئے ہیں۔
خدایا! تجھے محمد و آل محمد کا واسطہ یہاں کے لوگوں پر اپنی رحمتیں، برکتیں اور فضل و کرم کی بارش نازل فرما، ان کی توفیقات میں اضافہ فرما۔ پروردگارا! اس عظیم علمی ہستی، اس فقیہ عارف (1) کی روح مطہرہ کو اپنےاولیاء کے ساتھ محشور فرما جس کی رحلت حقیقت میں ہمارے لئے دردناک اورجاں گداز ہے ۔ پروردگارا! ہمیں، تہذیب نفس اور حقیقی معرفت کے حصول کی توفیق مرحمت فرما۔

والسّلام عليكم و رحمةاللَّه و بركاته‏

1: آيةاللَّه بهجت‏