بسم الله الرّحمن الرّحیم(۱)
و الحمدلله ربّ العالمین و الصّلاة و السّلام علی سیّدنا و نبیّنا و حبیب قلوبنا ابیالقاسم المصطفی محمّد و علی آله الاطیبین الاطهرین المنتجبین سیّما بقیّة الله فی الارضین ارواحنا له الفداء۔
سب سے پہلے تو ہم اس عظیم پروردگار کے بے حد شکر گزار ہیں جس نے کئی سالوں کی محرومیت کے بعد ایک بار پھر ہمیں اس شہر کے معزز لوگوں اور ملک کے مختلف حصوں سے یہاں آنے والے معزز زائرین کی زیارت کا موقع دیا۔ درحقیقت یہ ہمارے عزیز اور وسیع ملک کی بہترین اور خوبصورت ترین جگہ ہے اور میں خدا کا شکر ادا کرتا ہوں کہ روحانیت کے اس اہم مرکز اور مقام اور اس جگہ پر جہاں آسمانی فرشتے اترتے ہیں، میں آپ یعنی ہمارے پیارے، وفادار اور حوصلہ مند عوام اور زائرین سے ملاقات کرسکوں۔
ان دو تین سالوں میں ایک وبا پھیلی تھی جو خدا کا شکر ہے کافی حد تک قابو میں آچکی ہے۔ یہاں، میں ان تمام لوگوں کا تہہ دل سے شکریہ ادا کرنا اپنا فرض سمجھتا ہوں جنہوں نے اس وبا اور مسری بیماری کو روکنے کی کوشش کی۔ ملک کی مختلف لیبارٹریوں میں اس پراسرار وائرس پر تحقیق کرنے والے اور اس کی ویکسین تیار کرنے والے محققین سے لے کر ملک کے ادویہ سازی اور صحت کے مراکز میں اس ویکسین کو آمادہ کرنے اور اس کی تشہیر کرنے والے ڈاکٹروں اور نرسوں تک جنہوں نے اس ویکسین کی عوام تک فراہمی میں مدد کی، مریضوں کی تیمارداری کی، جو لوگ ڈاکٹروں اور نرسوں کے ہمراہ مریضوں کی مدد کرنے کے لیے رضاکارانہ طور پر آگے آئے، ان لوگوں کی جنہوں نے بیماریوں سے بچاؤ کے لیے حفاظتی سامان کی تیاری میں مدد کی تھی، جیسے کہ ویکسین، دوسری سہولیات جن کا تیار کرنا ضروری تھا، انہوں نے ساتھ دیا، انہوں نے مدد کی، مجھے ان سب کا شکریہ ادا کرناضروری سمجھتا ہوں۔ اور اللہ تعالیٰ سے دعا کریں کہ وہ ہماری پیاری قوم، مسلم اقوام اور تمام دنیا کے لوگوں سے اس آفت کو دور فرمائے، انشاء اللہ۔ اگر انشاءاللہ ہمارے پیارے بھائی اور بہنیں، اس شور و گل کو تھوڑا سا کم کر دیں تو میں جو میں نے آپ کے سامنے عرض کرنے کے لیے تیار کیا ہے، عرض کرسکوں گا۔ اب اس شور کو روکنے میں مدد کرنے کے لیے، بلند آواز سے درود بھیجیں۔
میں نے آج کی بحث کے لیے جس موضوع کا انتخاب کیا ہے وہ سال کی آغاز کی دعا سے لیا گیا ہے۔ سال کے تبدیل ہونے کی دعا میں ہم پڑھتے ہیں: یا مُحَوِّلَ الحَولِ وَ الاَحوالِ حَوِّل حالَنا اِلیٰ اَحسَنِ الحال.(۲) آج کا میرا موضوع تبدیلی و تحول ہے، حالات میں تبدیلی۔ بے شک، اس کو خدا سے مانگنا چاہئے، لیکن کوشش لازمی ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعائیں، التجائیں اور تقاضے اکثر اس وقت قبول ہوتے ہیں جب کوئی شخص اس چیز کے راستے پر چلتا ہے جو اس نے خدا سے مانگا ہے۔ آپ اپنی بیماری کے علاج کے لیے دعا کرتے ہیں، لیکن آپ ڈاکٹر کے پاس بھی جاتے ہیں، اور اللہ تعالیٰ آپ کی دعا کا جواب دیتا ہے۔ ہم خدا سے تبدیلی کے لیے دعا گو ہیں، لیکن ہمیں خود بھی محنت کرنی ہوگی ۔ یہ ہماری کوشش ہے کہ خداتعالیٰ اپنے فضل و عنایت کو ہمارے شامل حال کرتا ہے اور اس نتیجے کو سامنے لاتا ہے۔
ماضی میں، میں نے کئی بار عمومی تقریروں میں معاشرے، نظام، ملک میں تبدیلی کے بارے میں بات کی ہے۔ آج میں اس حوالے سے کچھ اور زاویون سے بات کروں گا۔ یہ مسئلہ کی اہمیت کا تقاضا ہے۔ آپ دیکھیں، بنیادی مسائل کو رائے عامہ کے سامنے پیش ہونا چاہیے، رائے عامہ کو بنیادی مسائل سے آشنا ہونا چاہیے۔ [ایسے] افکار کو تحرک ملے گا۔ نئے خیالات، نوجوان مفکرین اہم مسائل کے بارے میں سرگرم ہو جاتے ہیں جو رائے عامہ کے سامنے رکھے جاتے ہیں، وہ اسے ضروری حد تک پہنچاتے ہیں۔ لہذا، ہم تبدیلی کے مسئلے سمیت اہم مسائل بیان کرتے ہیں۔ اگر رائے عامہ کسی فکر کا خیرمقدم نہیں کرتی ہے تو اس فکر کو عملی شکل نہیں دی جا سکے گی۔ یہ فضا میں صرف ایک لہر کی مانند ہوگی، ایک شخص کچھ کہتا ہے، پھر اسے بھلا دیا جاتا ہے؛ یا کاغذ پر موجود کچھ سطروں کی مانند ہوں گی۔ عظیم مطالبات اور تقاصوں کو عملی جامہ پہنانے کے لیے عوام کے سامنے، مفکرین کے سمانے، عوام کی رائے عامہ کے ساتھ بات چیت ہونی چاہیے۔ خیر، آج میں اس مسئلے کو اٹھاؤں گا اور اس مسئلے کے کچھ پہلوؤں پر بات کروں گا، [لیکن] بحث کا تسلسل اور بحث کا آگے برھانا آپ پر منحصر ہے۔ یہ آپ نوجوانوں پر منحصر ہے، یہ آپ دانشوروں پر منحصر ہے، یہ آپ طلباء اور ماہرین تعلیم پر منحصر ہے۔ آپ بیٹھ کر بحث کریں۔
اس باب میں مجھے پہلی بات یہ ہے کہ تبدیلی سے ہماری کیا مراد ہے۔ تبدیلی کا کیا مطلب ہے؟ تبدیلی کا مطلب ہے تغیر۔ ہم کیا بدلنا چاہتے ہیں اور کس چیز میں تغیر لانا چاہتے ہیں؟ سب سے اہم مسئلہ یہ ہے۔ اسلامی نظام کے دشمن بھی تبدیلی چاہتے ہیں، وہ بھی تبدیلی کی تلاش میں ہیں، [لیکن] وہ جو تبدیلی چاہتے ہیں وہ اس کے بالکل برعکس ہے جو ہم چاہتے ہیں۔ وہ اس تبدیلی کی تجویز پیش کرتے ہیں، اور بدقسمتی سے، کچھ لوگ ان کی پیروی کرتے ہیں یا ان کی تقلید کرتے ہیں اور دوسری تشریحات کے ساتھ وہی بات کہتے ہیں: مثال کے طور پر، آئین میں تبدیلی یا اسلامی نظام کی ساخت میں تبدیلی؛ یہ غیروں کے وہی الفاظ ہیں، دشمنوں کے وہی الفاظ ہیں، لیکن اندرونی عناصر کبھی غفلت، بے حسی، کبھی دوسرے مقاصد کے ساتھ ان الفاظ کو دہراتے ہیں۔ دشمن جس چیز کی تلاش میں ہے اور اسے تبدیلی کا نام دے رہا ہے وہ اسلامی جمہوریہ کے تشخص کو بدلنا ہے۔ اسلامی ایران کے دشمن استکبار اور صیہونیت ہیں۔ یہ اسلامی جمہوریہ کے تشخص کے خلاف ہیں۔ اگر وہ کہتے ہیں کہ تبدیلی، تغیر، ساختی تبدیلی، انقلاب وغیرہ تو ان کا مطلب یہ ہے کہ اسلامی جمہوریہ کا تشخص بدل دیا جائے۔ ان کا مقصد ہر اس چیز کو راستے سے ہٹانا ہے جو لوگوں کو انقلاب اور اسلام کی یاد دلاتی ہے، خالص اسلام اور انقلابی اسلام۔ وہ امام خمینی رح کے نام لینے کے خلاف ہیں، امام خمینی رح کی تعلیمات کے فروغ کے خلاف ہیں، ولایت فقیہ کے مسئلے کے خلاف ہیں، 22 بہمن کے خلاف ہیں، یوم قدس کے خلاف ہیں، اسلامی جمہوریہ کے انتخابات اور عوام کی پرجوش شرکت کے خلاف ہیں، ہر اس چیز کے خلاف ہیں جو کہ انقلابی اسلام کی علامت ہے اور اسلامی جمہوریہ اس میں ظاہر ہے۔ ان کی رائے یہ ہے کہ ان چیزوں کو تبدیل کیا جائے۔ اگر وہ ساختی تبدیلی کا نام لیتے ہیں اور تبدیلی چاہتے ہیں، تو ان کا مقصد یہ ہے کہ وہ ان چیزوں کو ختم کرنا چاہتے ہیں جو ہمارے نظام کے مضبوط پہلو ہیں، اسلامی جمہوریہ کی طاقت ہیں۔
مختصر یہ کہ دشمن کا ہدف اسلامی جمہوریت کو استکبار کی من مانی صوابدیدی حکومت میں تبدیل کرنا ہے۔ ایران میں، وہ ایسی حکومت کی تلاش میں ہیں جو استکبار کی خواہشات کے عین مطابق ہو یا ایک انفرادی حکومت جس میں ان کا فرمانبردار شخص بسرکار ہو، یا ایسی حکومت جو مغربی جمہوریت کی مانند ہو، جو کہ [حقیقت میں] ایک جمہوریت کا فریب ہے، حکومت میں آئے لیکن ان کے چھتری کے نیچے، ان کی مٹھی میں، ان کی مرضی کے مطابق حرکت کرے اور ان کے حکم کے ماتحت رہے؛ وہ یہ چاہتے ہیں۔ ایران میں استکبار ایک ایسی حکومت کا مطالبہ کرتا ہے جسے وہ دھمکا سکے یا بہکا سکے اور دھمکیاں دے کر اپنی مطالبات پورے کروا سکے، ملک کو لوٹ سکے، سیاسی یا اقتصادی غلبہ حاصل کر سکے۔ وہ اس کی تلاش میں ہیں۔ وہ تبدیلی جسے دشمن کہتے ہیں، وہ تبدیلی جو اسلامی جمہوریہ کے دشمن تجویز کرتے ہیں، اس قسم کی تبدیلی ہے۔
میں جو تبدیلی کے طور پر پیش کر رہا ہوں وہ اس تبدیلی سے بالکل مختلف ہے جو بعض اوقات دشمنوں کی زبان میں دہرائی جاتی ہے۔ لفظ "تبدیلی" سے میرا مطلب اجزاء اور نقائص کی تبدیلی ہے۔ اسلامی نظام اور ایرانی سماج دونوں میں۔ ہمارے نقائص ہیں، ہمارے کچھ اجزاء کمزور ہیں، ہماری کمزوریاں ہیں۔ ہمیں ان کمزوریوں کی نشاندہی کرنی چاہیے، ہمیں ان نکات کی نشاندہی کرنی چاہیے، اور پختہ ارادے کے ساتھ - جسے میں بیان کروں گا کہ یہ کوئی آسان کام نہیں ہے - ہمیں کمزوریوں کو دور کرکے انہیں اپنی طاقت میں بدلنا چاہیے، جس کی چند مثالیں بعد میں بیان کروں گا۔
یقیناً یہ ایک مشکل اور پیچیدہ کام ہے اور اس کے لیے قومی خود اعتمادی کی ضرورت ہے۔ اگر کسی قوم کو اپنی صلاحیتوں پر بھروسہ ہے، اسے اپنی استعداد پر بھروسہ ہے، وہ تبدیلی لانے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ ایک خود اعتماد قوم تبدیلی کے اقدامات کو بخوبی انجام دے سکتی ہے۔ اس قوم کے حکام تبدیلی اور عمل کی جرأت کرتے ہیں۔ خدا کا شکر ہے کہ ہماری قوم میں خود اعتمادی ہے۔ ہماری قوم ایک خوددار، خود اعتماد، خود مختار، بہادر قوم ہے جس کی مثالیں آپ سب نے اب دیکھی ہیں، میں بعد میں چند مثالیں عرض کروں گا۔ ہماری قوم نے مختلف شعبوں میں یہ ثابت کیا ہے کہ اسے خود پر بھروسہ ہے، اسے اپنی صلاحیتوں پر بھروسہ ہے۔
یہ ایک نکتہ ہے کہ اگر ہم تبدیلی لانا چاہتے ہیں تو ہمیں قومی خود اعتمادی کی ضرورت ہے۔ یہ پہلی بات۔ دوسرا، ہمیں ہوشیاری کی ضرورت ہے۔ اگر ہم ہوشیار نہیں ہیں، اگر ہم لاپرواہ ہیں، تبدیلی کے طور پر، تبدیلی کے نام پر، ہم اپنے مضبوط پہلوؤں کو ہی نشانہ بنا سکتے ہیں۔ انسان کبھی کبھی اس کا مشاہدہ کرتا ہے۔ کچھ لوگ نظام سے ہمدردی رکھتے ہیں، اسلامی نظام اور انقلاب سے دلچسپی رکھتے ہیں، لیکن بعض اوقات وہ غفلت برتتے ہیں، ایک اچھا اقدام، اصلاحی اقدام کرنے کے لیے، وہ لاپرواہی دکھاتے ہیں اور مضبوط پہلوؤں کو ٹھیس پہنچاتے ہیں۔ ہمیں محتاط رہنا چاہئے کہ مضبوط پہلوؤں کو نقصان نہ پہنچائیں۔ اس نکتے کو ذہن میں رکھیں۔
اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے مضبوط پہلو متاثر نہ ہوں تو ہمیں اپنے مضبوط پہلوؤں کو جاننا چاہیے۔ ہمارے معاشرے کے مضبوط پہلو کیا ہیں؟ ہمیں صحیح طریقے سے شناخت کرنی چاہئے، توجہ دینا چاہئے، جاننا چاہئے۔ ایک دو کا ذکر کروں گا۔ یقیناً یہ طویل اور مفصل بحثیں ہیں۔ مفکرین بالخصوص نوجوانوں کو ان پر بیٹھ کر سوچنا اور کام کرنا چاہیے۔ پیارے نوجوانو! مجھے آپ سے بہت توقعات ہیں۔ (3) (بہت شکریہ، توجہ فرمائیں!) آج میں ان خوبیوں کا صرف ایک گوشہ مختصراً پیش کروں گا، باقی آپ پر منحصر ہے۔
ایرانی قوم اور ہمارے اسلامی معاشرے کی سب سے اہم طاقت یہ ہے کہ ہمارے اسلامی معاشرے کی اندرونی بنیاد مضبوط اور مستحکم ہے۔ اس بارے میں سوچیں؛ یہ بہت اہم ہے؛ اسلامی نظام اور ملت ایران کی داخلی بنیاد کی مضبوطی۔ میں نے کچھ عرصہ پہلے ایک تقریر (4) میں اس مسئلے کا حوالہ دیا تھا۔ اب میں اس کے بارے میں تھوڑی سی مزید وضاحت کروں گا۔ اسلامی نظام کی بنیاد کی یہ مضبوطی، اسلامی نظام کی بنیاد کا یہ استحکام، اسلامی نظام اور ملت ایران کی یہ اندرونی طاقت ایمان کی وجہ سے ہے۔ ایرانی لوگ باایمان ہیں۔ یہاں تک کہ وہ لوگ جو کچھ اسلامی اصولوں پر عمل نہیں کرتے نظر آتے ہیں، ان کا قلبی کا ایمان محکم ہے؛ وہ خدا کو مانتے ہیں، وہ مذہب کو مانتے ہیں، وہ قرآن کو مانتے ہیں، وہ اماموں کو مانتے ہیں۔ لوگ باایمان ہیں۔ ایرانی قوم ایمان، عزت نفس، خود اعتمادی کی حامل ہے۔ ان کی وجہ سے ایرانی قوم کا اندرونی ڈھانچہ اور اسلامی نظام مضبوط ہوا ہے۔ ہم اس طاقت کو کہاں پہچان سکتے ہیں، دیکھ سکتے ہیں اور محسوس سکتے ہیں؟ اس طاقت کی علامت کیا ہے؟ میں ان میں سے دو تین نشانیاں پیش کروں گا۔
پہلی نشانی ایرانی قوم کی کئی دہائیوں سے جاری دشمنیوں کے سلسلہ پر فتح ہے۔ آپ کس ملک کو جانتے ہیں، آپ کو کون سا انقلاب معلوم ہے جو کئی سالوں سے دنیا کے طاقتور ترین ممالک کی ضربوں کے سامنے ڈٹ جانے، مزاحمت کرنے اور گھٹنے نہ ٹیکنے میں کامیاب رہا؟ ایرانی قوم دشمن کی سازشوں اور دشمن کی چالوں کے اس طویل سلسلے کے مقابلے میں ثابت قدم رہی۔ فسادات کے خلاف، پابندی کے خلاف، سیاسی دباؤ کے خلاف، میڈیا حملوں کے خلاف؛ انہوں نے دنیا میں ایران فوبیا اور انقلاب فوبیا ایجاد کرنے کے لیے جو نرم جنگ شروع کی ہے وہ بے مثال ہے۔ ایسی چیز کی کبھی کوئی مثال نہیں ملتی۔ سیکیورٹی سازشوں کے مقابلے میں ملت ایران کے علاوہ کون سی قوم ان کا مقابلہ کر سکی ہے یا کر سکتی ہے؟ یہ اندرونی طاقت ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ملت ایران کی بنیاد ایک مضبوط بنیاد ہے۔ سب کی نظروں کے سامنے اس کی واضح مثال ان حالیہ فسادات میں ہے، جب چند ماہ قبل انہوں نے ہنگامہ آرائی شروع کی اور سب شامل ہوگئے۔ دیکھیں یہ اہم نکات ہیں۔ امریکہ جیسے ملک کے صدر نے ملک میں فسادات کی کھل کر حمایت کی۔ بعض یورپی ممالک کے صدور اور حکومت کے سربراہان نے بھی ان فسادات - جو کہ ایرانی قوم کا ایک بہت ہی کم فیصد تھے؛ بہت بہت بہت بہت کم - انہوں نے حمایت کی۔ نہ صرف لسانی حمایت، [بلکہ] مسلحانہ حمایت، مالی مدد، سیکورٹی حمایت۔ انہوں نے ان فسادات میں ہر طرح سے تعاون کیا۔ یعنی حقیقت میں انہوں نے اسلامی جمہوریہ کو کم از کم کمزور کرنے کے لیے خود کو تیار کیا۔ اس کا مقصد اسلامی جمہوریہ کو کمزور کرنا تھا، لیکن منظر پر جو کچھ ہوا وہ اس کے بالکل برعکس تھا جو وہ چاہتے تھے۔ اسلامی جمہوریہ نے دکھایا کہ وہ مضبوط ہے کمزور نہیں۔ اس نے ایسے خلفشار، ایسی عالمی سازش پر قابو پا کر دنیا کو دکھایا کہ وہ مضبوط ہے۔ 1401 کا 22 بہمن گزشتہ چند سالوں میں تمام 22 بہمن سے زیادہ پرجوش اور ہجوم تھا۔ یہ ایرانی قوم کی اندرونی طاقت کو ظاہر کرتا ہے۔ پس ہم نے کہا کہ ایرانی قوم طاقتور اور مضبوط بنیاد کی حامل ہے۔ اس کی ایک نشانی میں نے جو کہا بڑی سازشوں کا ڈٹ کر مقابلہ کرنا ہے۔
ایک اور نشانی ایرانی قوم کی عظیم ترقی ہے۔ وہ ان الفاظ کو دہرانے نہیں دینا چاہتے۔ دشمن ان الفاظ کو دہرانے سے، ان الفاظ کے اظہار سے بہت پریشان اور ناراض ہوتا ہے، لیکن یہ حقیقت ہے۔ ہم نے پیش رفت کی ہے جس کا میں اب مختصراً کچھ ذکر کروں گا، اور یہ تمام پیشرفت پابندیوں کے دوران، اقتصادی ناکہ بندی کے دوران، اس وقت تک ہونے والے شدید ترین معاشی دباؤ کے دوران ہوئی ہے۔ خود امریکیوں نے یہ کہا۔ امریکیوں نے کہا کہ ہم نے ایران پر جو معاشی دباؤ ڈالا ہے اس کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔ وہ سچ بول رہے ہیں، اپنے تمام جھوٹ کے ساتھ، انہوں نے یہ سچ کہا، یہ سب سے بے مثال معاشی دباؤ تھا۔ ایسے میں ملت ایران نے ترقی کی۔ اس نے سائنس کے میدان میں ترقی کی، اس نے ٹیکنالوجی کے میدان میں ترقی کی، کچھ سائنسی شعبوں میں دنیا کی پہلی صفوں میں جگہ حاصل کی۔ ایک جگہ دنیا کے سرفہرست پانچ ممالک میں ، ایک جگہ دنیا کے سرفہرست دس ممالک میں، ایک جگہ دنیا کے اول کے تین ممالک میں؛ دو سو ممالک کے درمیان۔ ہماری سائنسی ترقی، ہماری تکنیکی ترقی اس طرح ہے؛ نینو سائنس میں، بائیو ٹیکنالوجی میں، مختلف شعبوں میں؛ صحت کے شعبے میں ایران کی ترقی دنیا کے بہت سے ترقی یافتہ ممالک سے بہتر رہی ہے۔ یہ مسئلہ خود کو کورونا کے معاملے میں ظاہر کرتا ہے۔ جوہری شعبے میں، ایرو اسپیس کے شعبے میں، دفاعی شعبے میں؛ وہ سب کہتے اور تسلیم کرتے ہیں کہ دفاعی شعبے میں ان کی [ترقی] ہے۔ اسلامی جمہوریہ کے خلاف ماحول سازی کرنے کے لیے وہ تسلیم کرتے ہیں کہ ایران نے دفاع اور ہتھیاروں کے لحاظ سے ترقی کی ہے۔ بائیو ٹیکنالوجی کے میدان میں ہم نے بہت ترقی کی ہے۔ دنیا نے ہماری تعریف کی، دنیا کے سائنسدانوں نے ہمارے سائنسدانوں کی تعریف کی، ہمارے نوجوان سائنسدانوں کی تعریف کی۔
ملک کے بنیادی ڈھانچے میں ترقی؛ سڑکوں میں، ریل میں، ڈیموں کی تعمیر میں، پانی کے انعکاس میں - [جیسے] غدیر انعکاس پروجیکٹ جسے کا حال ہی میں [افتتاح ہوا] (5) - ریفائنری کی تعمیر میں، اسپتال کی تعمیر میں ; ان میں سے بہت سے کام 1401 میں کیے گئے ہیں۔ کہ ایک حصہ، جنوبی پارس کا ایک حصہ اول تا آخر مکمل طور پر ایرانی ساخت ہے۔ یہ [ترقی] ہوئی؛ کب؟ جب بہت ساری پابندیاں ہیں، ایسا معاشی دباؤ ہے۔ مائع گیس کی پیداوار میں [پیش رفت]، جو کہ سب سے اہم کاموں میں سے ایک تھا - جو ملک کے لیے بہتری پیدا کرے گا، انشاء اللہ - اسی حالیہ دور میں ایجاد کیا گیا۔ ماضی میں بھی مفصل کام ہوچکے ہیں۔
خارجہ تعلقات کے میدان میں پیش رفت۔ مغربی ممالک کا ایران کو تنہا کرنے کے لیے دباؤ تھا؛ امریکہ اور یورپ نے ایران کو تنہا کرنے کے لیے دباؤ ڈالا۔ خارجہ پالیسی کی اصطلاح میں "تنہائی" کا مطلب ممالک سے تعلقات منقطع کرنا ہے۔ [جب] ممالک کسی ملک کے ساتھ تعلقات نہیں رکھتے، وہ کہتے ہیں کہ یہ ملک تنہا ہے۔ جو ہوا اس کا نتیجہ الٹ ہوا۔ ہاں، مغرب کے ساتھ ہمارے تعلقات کمزور ہوئے - ہمارا امریکہ سے تعلق نہیں رہا، یورپ کے ساتھ بھی ہمارے تعلقات کمزور ہوئے - لیکن ہم نے ایشیا کے ساتھ اپنے تعلقات کو سو فیصد مضبوط کیا؛ اس کے بعد بھی، ہم اسی طرح جاری رکھیں گے؛ ہم ایشیائی ممالک کے اہم حصے کے ساتھ اپنے سیاسی، اقتصادی، تکنیکی اور سائنسی تعلقات کو جاری رکھیں گے۔ ہم کچھ اہم معاہدوں کے رکن بنے۔ دشمن ہمیں الگ تھلگ کرنا چاہتا تھا، ایرانی قوم کی کوششوں اور صلاحیتوں نے ہمیں کچھ اہم اور موثر علاقائی معاہدوں میں شامل ہونے کے قابل بنایا؛ ہم تنہا نہیں ہوئے، اس کے برعکس ہم نمایاں ہوئے اور علاقائی حکومتوں اور علاقائی اقوام کے ساتھ ہمارے تعلقات مضبوط ہوئے۔ افریقہ اور لاطینی امریکہ کے ساتھ مضبوط روابط ہمارے قطعی منصوبوں میں شامل ہیں اور انشاء اللہ ہم اس منصوبے پر عمل کریں گے۔ یقیناً ہم یورپ سے بھی ناراض نہیں ہیں۔ ہم ایسے کسی بھی یورپی ممالک اور یورپی حکومتوں کے ساتھ کام کرنے کے لیے تیار ہیں جو امریکی پالیسیوں پر آنکھیں بند کرکے عمل نہیں کرتے۔
یہ ترقی کی گئی ہے۔ یہ پیش رفت ایرانی قوم اور اسلامی نظام کی بنیاد کی مضبوطی کی علامت ہے۔ یہ پیش رفت ایمان کے سائے میں، قومی غیرت کے احساس کے سائے میں، اندرونی طاقت کی احساس کے سائے میں ہوئی ہے۔ یعنی ہماری قوم اور ہمارے حکام نے محسوس کیا کہ انہیں اندرونی طاقت کی ضرورت ہے۔ پہلے وہ دوسروں پر بھروسہ کرتے تھے، غیروں پر، پھر وہ سمجھ گئے کہ دوسروں پر یہ بھروسہ جائز نہیں ہے۔ ایک دن وہ ہے، دوسرے دن وہ نہیں ہے۔ آپ کو اپنی اندرونی طاقت پر بھروسہ کرنا ہوگا۔ جب ہم نے "مزاحمتی معیشت" کا اعلان کیا تو ہم نے کہا کہ مزاحمتی معیشت "اندرونی" بھی ہے اور "بیرونی" ہے(6)؛ اندرونی سے مراد، اندرونی توان، استعداد اور صلاحیت معیشت میں حصہ ڈالے۔ بیرونی سے مراد یہ کہ ہم تمام ممالک سے اقتصادی رابطے کے لیے تیار ہیں۔ ہم نے یہ محسوس کیا؛ ایرانی قوم نے محسوس کیا، ہمارے نوجوانوں نے محسوس کیا، اور ہمارے حکام نے محسوس کیا کہ انہیں اپنی اندرونی طاقت پر بھروسہ کرنے کی ضرورت ہے۔
اس لیے ہمارے مضبوط پہلو بہت ہیں۔ اندرونی طاقت بیان کی، ترقی بیان کی، اور بہت سی باتیں ہیں جن پر یہاں بات کرنے کا موقع نہیں ۔ یہ ہماری طاقتیں ہیں۔ ان کو متاثر نہیں ہونا چاہئے۔ اسلامی نظام "اسلامی جمہوریہ" ہے؛ نہ ’’جمہوریہ‘‘ کو نقصان پہنچنا چاہئے اور نہ ہی ’’اسلامی‘‘ کو۔ یہ طاقتیں ہیں۔ کسی بھی تبدیلی میں، ان طاقتوں پر بھروسہ کیا جانا چاہئے، ان میں اضافہ کیا جانا چاہئے، طاقتوں کو اجاگر اور بڑھاوا دینا چاہئے، لیکن کمزوریاں بھی ہیں۔ تبدیلی سے مراد کمزور نکات کی تبدیلی ہے۔ کمزوریوں پر بھی مختصر بات کروں گا، دو تین باتیں عرض کروں گا۔
ہمارے ملک میں اگر چار پانچ اہم کمزوریاں ہیں تو ان سب سے اوپر ملکی معیشت کا مسئلہ ہے۔ ملکی معیشت ایمانداری سے ہماری کمزوریوں میں سے ایک ہے۔ بہت سی معاشی پالیسیاں ماضی کی میراث ہیں۔ "ماضی" کا مطلب انقلاب سے پہلے کا ماضی ہے، کچھ مسائل انقلاب کے بعد نمودار ہوئے۔ ان میں سے کچھ معاشی مسائل اور بنیادی معاشی انفراسٹرکچر کا تعلق انقلاب سے پہلے سے ہے، کچھ کا تعلق انقلاب کے بعد سے ہے۔
یہ کہا جا سکتا ہے کہ ہماری معیشت کا سب سے اہم مسئلہ معیشت کی ریاستی نوعیت ہے۔ 60 کی دہائی میں ہم نے ملکی معیشت کی کنجی حکومت کے حوالے کرنے پر توجہ مرکوز کی۔ اس نے ہماری معیشت کو متاثر کیا۔ یہ ہمارا کام تھاے، ہم نے خود کیا۔ ہماری معیشت کا شاید سب سے اہم کمزور نکتہ ضرورت سے زیادہ ریاستی نوعیت ہے۔ جب عوام معاشی انتظام اور معاشی سرگرمیوں سے کنارہ کشی اختیار کرلیتے ہیں، ملک کے بڑے کام، اہم کمپنیاں، اور دولت پیدا کرنے والی پیداواری صلاحیتیں حکومت کو دے دی جاتی ہیں نہ کہ فعال عوامی معاشی عناصر کو، تو وہی مسائل پیش آتے ہیں جو آج ہم اپنی معیشت میں دیکھ رہے ہیں۔ ہمارا سب سے اہم مسئلہ ’’ممعیشت کی ریاستی نوعیت‘‘ ہے۔
آرٹیکل 44 کی معاشی پالیسیوں کو بنانے اور ان کا پیش کرنے میں، ہم نے کئی ماہرین کی مدد سے اس پر سنجیدگی سے کام کیا - یعنی ماہرین نے کام کیا - اور پالیسیوں کا اعلان کیا گیا۔ ان پالیسیوں کی بنیاد عوام کو درکار انتظامی اور معاشی سرگرمیوں کو عوام کے حوالے کرنا تھا۔ یقیناً کچھ شعبے ایسے ہیں جو یا تو عوام نہیں چاہتے یا وہ سرکاری اداروں کے ہاتھ میں ہونے چاہئیں۔ وہ ایک طرف لیکن معیشت کے اہم حصے عوام کے ہاتھ میں ہونے چاہئیں۔ ہم نے یہ بات کئی بار دہرائی ہے کہ ریاستی ادارے، ریاستی کمپنیاں، نیم ریاستی کمپنیاں - جنہیں انتہائی بری اصطلاح "خصولتی" سے تعبیر کیا جاتا ہے جو کہ اچھی اصطلاح نہیں ہے۔ [بلکہ] یہ نیم ریاستی ہیں - انہیں نجی کمپنیوں سے مقابلہ نہیں کرنا چاہئے اور پیداوار کو لوگوں کے ہاتھ میں دینا چاہئے۔ اس دن جب ہم نے تمام کام حکومت کو سونپے تو ہم نے معاشی عدل و انصاف قائم کرنے کی نیت سے کیا۔ اور معاشی انصاف قائم نہیں ہوا۔ انہوں نے غلط سوچا کہ اگر معیشت کی کنجی حکومت کے ہاتھ میں ہو گی تو معاشی انصاف پیدا ہو جائے گا۔ یہ ایک غلطی تھی اور ایسا کچھ نہیں ہوا۔ حکومت کو اپنی معاشی سرگرمیوں کو کم کرنا چاہیے اور اپنی نگرانی میں اضافہ کرنا چاہیے۔ مداخلت کو کم کریں، نگرانی میں اضافہ کریں۔ ہماری معیشت کی سب سے بڑی خامیوں میں سے ایک، شاید ہماری معیشت کی سب سے بڑی خامی یہ ہے؛ آنے والی متعدد حکومتوں میں سے ہر ایک کو تاکید کی گئی کہ کاموں کو عوام کے حوالے کریں۔ ان میں سے کچھ میں حوالے نہیں کیے گئے، کچھ میں غلط طریقے سے کیے گئے۔ عوام کے فائدے میں حوالے کرنے کی بجائے بعض صورتوں میں اسے عوام کے نقصان میں حوالے کر دیا گیا۔ جس کی وجہ سے یہ کام نہ ہو سکا۔ آج بھی ایک بنیادی کام جو محترم حکومت کو کرنا چاہیے وہ یہ ہے کہ معاشی نظم و نسق کو احتیاط کے ساتھ، دقت کے ساتھ اور ضروری نگرانی کے ساتھ لوگوں کے حوالے کیا جائے۔
ہماری معیشت کا ایک اور اہم نقص خام تیل کی برآمدات پر انحصار ہے۔ ہم خام تیل برآمد کرتے ہیں، جبکہ ہمارے پاس خام تیل کا اختیار نہیں ہے۔ وہ ملک جو ہمارا تیل درآمد کرتا ہے - جب یورپی ہمارا تیل خریدتے اور درآمد کرتے تھے - وہ اس تیل کی درآمد سے ہم سے زیادہ منافع کماتے تھے، جبکہ تیل ہمارا تھا اور ہم نے اسے تیل کے کنوؤں سے نکال کر اسے بیچا تھا۔ وہ جو ٹیکس وصول کرتے اور اس سے فائدہ اٹھاتے تیل کے مالکان سے زیادہ تھا۔ اب بھی ایسا ہی ہے۔ ہمیں خام تیل کی برآمد سے معیشت کی نال کاٹ کر تیل کے علاوہ سرگرمیوں پر زیادہ توجہ دینی چاہیے۔ خوش قسمتی سے، جیسا کہ رپورٹس میں ہے، تیل کے علاوہ اشیاء کی برآمدات اور ان سے متعلق اقتصادی سرگرمیوں میں اضافے کی تحریک شروع ہو گئی ہے اور اچھے اقدامات انجام پارہے ہیں۔
ہماری معیشت کا ایک مسئلہ ڈالر پر انحصار ہے۔ جن ممالک پر پابندیاں لگائی گئیں ان میں سے کچھ نے ڈالر پر انحصار ختم کر دیا اور ان کی صورتحال بہتر ہوئی۔ ہم ایسے ممالک کے بارے میں جانتے ہیں - میں نام نہیں لینا چاہتا - جن پر مغرب کی طرف سے سخت پابندیاں لگائی گئی ہیں اور SWIFT سے انکا رابطہ منقطع ہوگیا، جو کہ ایک بین الاقوامی سسٹم ہے، ابھوں نے ڈالر کو کنارہ کش کردیا، مقامی کرنسیوں میں تجارت کی، اور برآمد اور درآمد انجام دی۔ ان کی صورتحال بہتر ہوگئی۔ ہمیں بھی یہ کرنا چاہیے۔
معیشت کے بارے میں مجھے جو کچھ کہنا ہے ان میں سے ایک - کہ یہ ہمارے بنیادی مسائل ہیں اور میں چاہوں گا کہ رائے عامہ ان مسائل پر توجہ دے، ان کی منظوری دے اور انھیں نشر کرے - ایک اہم ترین مسئلہ جس کی ہمیں ضرورت ہے تاکہ معیشت کی حالت بہتر ہوسکے، مسلسل اور تیز ترقی ہے۔ ہماری معاشی ترقی کمزور رہی ہے۔ ہم نے حکومتوں کو جو اقتصادی پالیسیوں کا اعلان کیا، ان میں آٹھ فیصد ترقی کا منصوبہ تھا جب کہ 90 کی دہائی کے کئی سالوں میں ہماری ترقی صفر سے نیچے تھی۔ مجموعی طور پر، جب بھی حکومت کی منتقلی اور تبدیلی انجام پائی، ترقی بہت کم تھی؛ اب میں دقیق اعداد و شمار کو شیئر نہیں کرنا چاہتا، مثال کے طور پر، تقریباً ایک فیصد یا اس سے کم۔ ہمیں تیز رفتار اور مسلسل اقتصادی ترقی کی ضرورت ہے۔ ایسا نہ ہو کہ ایک سال ترقی ہو اور یہ سلسلہ پھر دوبارہ رک جائے۔ ہم اس تیز رفتار اور مسلسل ترقی کو کب حاصل کر سکتے ہیں؟ جب ہم لوگوں کی مدد اور رہنمائی سے پیداوار بڑھا سکیں گے۔ معزز سرکاری افسران اور پارلیمنٹ میں عوامی نمائندوں کو چاہیے کہ وہ لوگوں کو معیشت میں پیداواری کردار ادا کرنے کی ترغیب دیں اور ان کی رہنمائی کریں۔ نجی شعبے کے لیے سرمایہ کاری اور کاروباری سرگرمیوں میں حصہ لینے کیلئے اعتماد کی فضا قائم کرنی چاہیے؛ نجی شعبہ کر سکتا ہے۔ 1401 میں، فروری کے مہینے میں، ملک کے چند اہم تکنیکی ماہرین نے حسینیہ امام خمینی رح میں مجھ سے ملاقات کی، (7) ان میں سے کچھ نے گفتگو کی۔ انہوں نے جو باتیں کہی، جو حقائق انہوں نے بیان کئے، اور جو نمونے انہوں نے دکھائے وہ حیران کن ہیں۔ یعنی یہ ایرانی قوم کی توانائی کو ظاہر کرتا ہے۔ ہمارے پاس بہت صلاحیت ہے، ہم بڑے کام کر سکتے ہیں۔ اگر قوم کی صلاحیت کو معاشی شعبے میں استعمال کیا جائے تو یقیناً عوام کے حالات زندگی بہتر ہوں گے اور مہنگائی کی صورتحال میں بھی بہتری آئے گی۔ ہم نے سال کا نعرہ کو افراط زر پر قابو پانے اور پیداوار میں اضافہ؛ (8) "افراط زر پر قابو اور پیداوار میں اضافہ" قرار دیا۔ افراط زر پر قابو پیداوار بڑھانے پر منحصر ہے اور پیداوار میں اضافہ عوام کے ہاتھ میں ہے۔ اگر لوگ اقدام کریں، کوشش کریں تو یہ کام عملی ہے اور کیا جا سکتا ہے۔
ہمارے ہاں ایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ہم نے لوگوں کی شراکت کے طریقوں کے بارے میں نہیں سوچا۔ یہاں پر میں معزز حکام، معاشی ماہرین اور ملک کی ترقی میں دلچسپی رکھنے والوں کو مشورہ دیتا ہوں کہ وہ بیٹھیں اور معاشی مسائل میں عوامی شراکت کی راہیں تلاش کریں۔ جہاں بھی لوگ شریک ہوئے ہیں ہم نے ترقی کی ہے۔ مقدس دفاع میں لوگ شریک ہوئے، ہم جیت گئے۔ ملک کے سیاسی مسائل میں جہاں بھی عوام شریک ہوئے، ہم جیت گئے۔ معاشی معاملات میں بھی ایسا ہی ہے۔ لوگ شریک ہوں گے، لوگ حصہ لیں گے، ہم جیتیں گے، ہم کامیاب ہوں گے۔ لیکن لوگ کیسے شامل ہوں گے؟ عوام کو معیشت میں شراکت کا منصوبہ بتایا جائے۔ یقیناً، پچھلے سالوں میں، میں نے چھوٹی کمپنیاں بنانے اور چھوٹی کمپنیوں کی معاونت پر انحصار کیا ہے؛ (9) اس معاملے میں ناکام تجربات بھی سامنے آئے۔ وہ کام انجام پائے جن پر مکمل طور پر غور نہیں کیا گیا۔ ایسے اقدامات اٹھائے جانے چاہئیں۔
ہماری معیشت کے مسائل میں سے ایک بیرون ملکی تجارت میں شراکت کا فقدان ہے۔ ہماری اندرونی پیداواری صلاحیت زیادہ ہے۔ چاہے زرعی شعبے میں ہو یا صنعتی شعبے میں؛ عالمی منڈیاں بھی بہت وسیع ہیں۔ ہم اپنی غیر ملکی تجارت کو بڑھا سکتے ہیں اور آگے لیجا سکتے ہیں اور اس کام کو ترتیب دے سکتے ہیں جس کا واقعی براہ راست تعلق لوگوں کے معاش اور اخراجات سے ہے، انشاء اللہ، جو کہ سب سے اہم چیزوں میں سے ایک ہے۔ آج ہم غیر ملکی تجارت میں زیادہ سرگرم نہیں ہیں۔ ہمارے طرزعمل بعض اوقات غلط ہوتے ہیں۔ ان میں تبدیلی کی ضرورت ہے۔ اسے تبدیلی کی ضرورت ہے۔ تبدیلی لانے والے معاملات میں سے ایک غیر ملکی تجارت کا مسئلہ ہے۔
علم محور کمپنیوں کی معاونت کرنا جن کی میں نے گزشتہ سال تاکید کی تھی، اور خوش قسمتی سے یہ ہوا بھی؛ اگرچہ یہ اتنا نہیں کیا گیا جتنا ہم چاہتے تھے، لیکن اسے میں وسعت دی گئی۔ علم محور کمپنیوں نے بہت کچھ کیا۔ ان کی کوششوں میں اضافہ ہوا، ان کی مصنوعات میں اضافہ ہوا، اور ان کی آمدنی میں اضافہ ہوا۔ چھوٹے کاروباری ادارے، علم محور بڑی فیکٹریوں کا قیام، وہ مفید اقدامات ہیں جو اس تبدیلی میں مدد کریں گے۔
ایک اور شعبہ جس میں تبدیلی کی ضرورت ہے، جس پر پارلیمنٹ کے عزیز بھائیوں اور بہنوں کی توجہ ہونی چاہیے، قانون سازی کے شعبے میں تبدیلی ہے۔ قانون سازی. قانون سازی کی عمومی پالیسیوں کا اعلان کیا گیا ہے؛ (10) ان پالیسیوں کو مدنظر رکھا جائے اور قانون سازی آج کے مقابلے میں زیادہ کامل اور سنجیدہ طور پر انجام۔ اور ایک چیز جو مختلف حکومتوں میں مقننہ اور حکومت کے درمیان اکثر تمام ادوار میں باعث اختلاف رہی ہے - اب جب کہ خدا کا شکر ہے کہ دونوں شاخیں ایک ساتھ کام کر رہی ہیں اور ایک دوسرے کے قریب ہیں - بشمول موجودہ دور میں یہ شکایت رہی ہے کہ کبھی کبھی پارلیمنٹ میں سالانہ بجٹ کا قانون پاس کیا جاتا ہے، قطعی اخراجات کی منظوری دی جاتی ہے اور اس کے مقابل پر غیر متعین آمدنی منظور کی جاتی ہے۔ کہ یہ بجٹ میں خسارے کا باعث بنتا ہے۔ جیسا کہ ہم نے کہا، بجٹ کا خسارہ بڑی معاشی آفات میں سے ایک ہے۔ ایسے کام نہیں ہونے چاہیے۔ مختلف شعبوں میں ہماری اور بھی کمزوریاں ہیں، جنہیں ہم دوسرے مواقع کے لیے چھوڑ دیتے ہیں، انشاء اللہ۔
ملک میں تبدیلی کی تحریک کا نقطہ مخالف - کہ اس تبدیلی کا مقصد مضبوط پہلوؤں کو اور مضبوط کرنا اور کمزوریوں کو برطرف کرنا ہے - دشمنان اسلام اور اسلامی جمہوریہ کے دشمنوں کی پالیسی ہے؛ وہ کوشش کرتے ہیں اور کام کرتے ہیں اور اس تبدیلی کی تحریک کے بالکل مخالف سمت مین کارروائی کرتے ہیں۔ جس کا مقصد مضبوط پہلوؤں کو نشانہ بنانا ہے، جیسا کہ میں نے پہلے ذکر کیا ہے۔ ہمیں ان باتوں کو لوگوں کے سامنے بیان کرنا چاہیے، لوگوں کو معلوم ہونا چاہیے۔ جس دن صدام نے [مقدس دفاع کے دوران] ہم پر حملہ کیا، ہم نے اسی دن لوگوں کو بتایا کہ ملک میں جنگ ہے یعنی رائے عامہ کو اسی وقت اس بڑے حادثے سے آگاہ رکھا گیا۔
یقیناً آج اس مرکب جنگ میں، کوئی فوجی حملہ نہیں ہے۔ دشمن فوجی حملہ نہیں کرتا، وہ دوسرے کام کرتا ہے۔ یہاں بھی مطلع کرنا ضروری ہے، تاکہ عوام کو دشمن کے طریقے اور پالیسیوں کا علم ہو اور واقعات کو شفاف انداز میں دیکھیں۔ جب ہمارے معزز عوام حالات سے آشنا ہوتے ہیں تو جو بھی واقعہ پیش آئے وہ اس واقعے کو کھلے دماغ اور آنکھوں سے دیکھتے ہیں۔
ہاں، مرکب جنگ میں، یہ فوجی حملہ نہیں، بلکہ مذہبی اور سیاسی عقائد پر حملہ ہے۔ دشمن کا حملہ مذہبی عقائد اور سیاسی عقائد پر ہے۔ کہ آپ سورہ "قُل اَعوذُ بِرَبِّ النّاس" میں پڑھتے ہیں: "مِن شَرِّ الوَسواسِ الخَنّاسِ * اَلَّذی یُوَسوِسُ فی صُدورِ النّاسِ * مِنَ الجِنَّةِ وَ النّاس" (11) یعنی کہ یہ غیر ملکی پروپیگنڈہ کرنے والے اور اندر سے ان کے پیروکار یہی خنّاس ہیں۔ وہ وسوسہ کرتے ہیں، حقائق کو بدل دیتے ہیں۔ ان کا مقصد قوم کی قوت ارادی کو کمزور کرنا ہے، ان کا مقصد امیدوں کو بجھانا ہے، وہ ہمارے نوجوانوں کے دلوں میں امید کے شعلے کو بجھانا چاہتے ہیں، نوجوانوں کو مایوس کرنا چاہتے ہیں۔ مایوسی کا مطلب ہے تعطل؛ جب ایک نوجوان ترقی سے مایوس ہوتا ہے، مستقبل سے مایوس ہوتا ہے، تو وہ تعطل کا احساس کرتا ہے۔ جس شخص میں تعطل کا احساس موجود ہوتا ہے اس سے آپ مناسب طریقے سے کام کرنے کی توقع نہیں کر سکتے۔ وہ تفرقہ پھیلانا چاہتے ہیں، وہ ملک میں دوئیت پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ وہ ملک کی قومی طاقت کا اصل سافٹ ویئر جو ایمان ہے، قوم کے ہاتھ سے چھیننا چاہتے ہیں، اسے غیر موثر بنانا چاہتے ہیں۔ یہ سافٹ ویئر لوگوں کے ایمان، لوگوں کی مذہبی اقدار، لوگوں کی قومی اقدار، لوگوں کے عقائد پر مشتمل ہے۔ جب وہ یہ کام کرتے ہیں تو انکا ہدف ملک میں عدم استحکام پیدا کرنا، عدم تحفظ پیدا کرنا ہوتا ہے، تاکہ وہ وہ خانہ جنگی شروع کروا سکیں۔ یقیناً ان انکی ساری چالیں ناکام رہی ہیں اور رہیں گی۔
مرکب جنگ میں، دشمن میڈیا کا استعمال کرتا ہے، ثقافتی عنصر کا استعمال کرتا ہے، سیکورٹی عنصر کا استعمال کرتا ہے، نفوز کا استعمال کرتا ہے، اقتصادی عنصر کا استعمال کرتا ہے؛ وہ ان تمام عوامل کو قوم کو محاصرے میں رکھنے، قوم کو مایوس کرنے، قوم کو اپنی طاقت کو فراموش کرنے کے لیے استعمال کرتا ہے۔ وہ قوم کو معلومات کے ذرائع سے جدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہمارے پاس لوگوں کو آگاہ کرنے کے ذرائع ہیں۔ وہ لوگوں کو ان سے بدگمان کرتے ہیں: ریڈیو اور ٹیلی ویژن نہ سنیں، ان کی خبریں جھوٹی ہیں۔ حکام کی رپورٹ پر توجہ نہ دیں، ان کی رپورٹ جھوٹی ہے۔ رہبر کی باتوں پر کان نہ دھریں، رہبر کی باتیں تکراری ہوتی ہیں۔ تکراری ہوتی ہیں؟ برسوں سے دشمن کے محاذ نے بلند آواز سے اعلان کیا ہے کہ وہ اسلامی جمہوریہ کو گھٹنیوں کے بل لانا چاہتے ہیں، لیکن رہبر مقابلے میں کہتا ہے کہ "تم غلط ہو"۔ یہ تکرار نہیں ہے۔ یہ استقامت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں ایک حکم دیا ہے - نبی ص کو حکم ہر ایک کے لیے حکم ہے، یہ ہمارے لیے حکم ہے - کہ "فَاستَقِم کَما اُمِرتَ وَ مَن تابَ مَعَک"۔ یہ استقامت ہے! دل میں حق اور اس کی حفاظت کرنا اور اپنے پاؤں پر کھڑا ہونا؛ یہ تکرار نہیں ہے۔ اللہ کا شکر ہے، لوگ بیدار ہیں، لوگ کھڑے ہیں، لوگ میدان میں ہیں۔ ہمارے پیارے عوام نے کئی سالوں میں یہ کر دکھایا ہے۔ ملت ایران نے ان تمام لوگوں کو طمانچہ رسید کیا جنہوں نے حالیہ فسادات میں [عوام] کو اکسایا یا فسادات کی حمایت کی اور انشاء اللہ آئندہ بھی ملت ایران اپنے دشمنوں کو طمانچہ رسید کرے گی۔
میں پورے یقین سے اعلان کرتا ہوں کہ ایرانی قوم مضبوط ہے، ایرانی قوم ترقی کر رہی ہے، ایرانی قوم اپنی خامیوں کو دور کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے، وہ تبدیلی پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے، وہ خامیوں کو دور کر سکتی ہے، ایرانی قوم مزاحمتی محاذ کی حمایت کرتی ہے۔ ہم واضح طور پر مزاحمتی محاذ کے لیے اپنی حمایت کا اعلان کرتے ہیں، اور ہم یوکرین کی جنگ میں شرکت کو واضح طور پر مسترد کرتے ہیں۔ انہوں نے جھوٹا دعویٰ کیا کہ ایران یوکرین کی جنگ میں ملوث ہے۔ ایسی کوئی بات نہیں ہے؛ ہماری کوئی شراکت نہیں ہے۔ یوکرین میں جنگ دراصل امریکہ نے شروع کی تھی۔ نیٹو کو مشرق میں وسعت دینے کے لیے، اس جنگ کے ابتدائی مراحل دراصل امریکہ نے تیار کئے تھے۔ اس وقت بھی یوکرین کی جنگ کا سب سے زیادہ فائدہ امریکہ کو ہو رہا ہے۔ یوکرین کے غریب عوام مشکل میں ہیں، امریکی اسلحہ ساز فیکٹریاں منافع لے رہی ہیں۔ لہذا، وہ یوکرین میں جنگ کے خاتمے کے حامی نہیں ہیں؛ امریکہ ان اقدامات کو روک رہا ہے جو اس جنگ کو ختم کرنے کے لیے کیے جانے چاہئیں اور انھیں نہیں ہونے دے رہا ہے۔ وہ یوکرین میں جنگ کے خاتمے کے حامی نہیں ہیں۔
خیر، تقریر کے آخر میں میں نے نظام کی خامیوں کا ذکر کیا اور کچھ خامیوں کی نشاندہی کی؛ بحیثیت انسان ہم میں کچھ خامیاں ہیں جنہیں ہمیں ٹھیک کرنا چاہیے۔ ہم لوگوں میں کچھ خرابیاں ایسی ہوتی ہیں جن کا تعلق معاشی مسائل سے ہوتا ہے۔ ان میں سے ایک اسراف ہے۔ ہم بہت اسراف کرتے ہیں۔ ہم پانی ضائع کرتے ہیں، ہم روٹی ضائع کرتے ہیں، ہم بجلی ضائع کرتے ہیں، ہم گیس ضائع کرتے ہیں۔ ہم فضول خرجی کرتے ہیں۔ کچھ ممالک جن کی آبادی ہماری آبادی سے کئی گنا زیادہ ہے، ان کی گیس کی کھپت ہم سے کم ہے، ان کے پٹرول کی کھپت ہم سے کم ہے۔ ہمارے پٹرول کی کھپت زیادہ ہے، ہماری گیس کی کھپت زیادہ ہے۔ ہم فضول خرجی کرتے ہیں۔ ہم پانی ضائع کرتے ہیں، روٹی پھینک دیتے ہیں۔ یہ ایک بڑی خامی ہے؛ ہمیں اسے ٹھیک کرنا ہے۔ میں نے خاص طور پر کچھ سال پہلے اس پر تاکید کی تھی۔
ہم عوام کے درمیان دیگر مسائل میں سے ایک انتہائی تعیش پسندی ہے۔ عیش و آرام پسندی۔ یہی وجہ ہے کہ شادیاں مشکل ہو گئی ہیں۔ شادی کی عمر کا نوجوان - خواہ لڑکی ہو یا لڑکا - شادی کرنے کے قابل نہیں ہے۔ کیوں؟ کیونکہ اس کے والدین اپنے رشتے داروں کے سامنے مجبور ہیں؛ فلاں فلاں جہیز، فلاں فلاں حق مہر، فلاں عیش و عشرت والا سامان، فلاں دعوت! شادی کے اخراجات بڑھ گئے ہیں۔ آپکو عیش و عشرت کی اس دوڑ سے نکلنا ہو گا۔ بعض نے عیش و عشرت کا مقابلہ شروع کر دیا ہے۔ آپ کو خود کو اس دوڑ سے نکالنا ہوگا۔ یہ ہماری خامیوں میں سے ایک ہے۔
ہماری ایک اور اہم خامی یہ ہے کہ ہم ملکی مصنوعات کے حوالے سے تعصب نہیں رکھتے۔ تعصب بہت سی جگہوں پر بری چیز ہے، لیکن یہاں یہ اچھی چیز ہے۔ ہمیں ملکی پیداوار کے لئے متعصب ہونا چاہیے۔ ایک ایسی جنس ہے جو مقامی طور پر پیدا کی جاتی ہے اور وہ اپنے غیر ملکی رقیب اجناس سے ملتی جلتی ہے - یقیناً درآمد کنندہ کو اسے درآمد نہیں کرنا چاہیے تھا، اب اس نے اسے درآمد کیا ہے - بعض اوقات اس ملکی جنس کا معیار غیر ملکی اجناس سے کم نہیں ہوتا، بعض اوقات زیادہ اچھا ہوتا ہے، [لیکن] ہم غیر ملکی اجناس کے پیچھے جاتے ہیں۔ کیوں؟ آپ اس ایرانی مزدور کی حمایت کیوں نہیں کرتے؟ یہ مقامی جنس ایک ایرانی محنت کش نے بنائی ہے۔ جب آپ نہیں خریدیں گے تو وہ محنت کش بے روزگار ہو جائے گا۔ آپ غیر ملکی اجناس خریدتے ہیں، آپ اسے مقامی اجناس پر ترجیح دیتے ہیں۔ یہ ایک بڑا نقص ہے جو ہم پر اثر انداز ہوتا ہے۔ یہ ہماری اپنی خامیاں ہیں۔ تمام خرابیوں کا تعلق ملکی نظام اور ملک کے اجرائی شعبوں سے نہیں ہے۔ کچھ بمسائل ہم سے متعلق ہیں۔
بعض جگہوں پر عفو و درگزر ضروری ہے، [لیکن] ہم اس سے کام نہیں لیتے۔ ہم ایک چھوٹے سے اختلاف پر ایک دوسرے کے گریبان پکڑ لیتے ہیں۔ کیوں؟ ممکن ہے کہ دو لوگوں میں کسی مسئلے پر اختلاف رائے ہو - مثال کے طور پر، کسی سیاسی مسئلے پر؛ ٹھیک ہے، ہوتا رہے؛ ہر وہ کیوں لڑیں؟ وہ ایک دوسرے کے گریبان کیوں پکڑیں؟ معاشرے میں دوئیت کیوں پیدا کی جائے؟ عفو و درگزر کرنا چاہیے۔ کچھ جگہوں پر نظر انداز کرنا چاہیے، برداشت کرنا چاہیے۔ یہ ہمارے نقائص میں سے ایک ہے۔
ان تمام لوگوں کو میرا ایک اہم مشورہ، جو لوگوں سے بات کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور ان کے اختیار میں میڈیا ہے - چاہے سائبر اسپیس میں ہو، پریس میں ہو یا ریڈیو پر - امید افزائی کرنا ہے۔ دشمن ہمارے نوجوانوں کو مایوس کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ ہمیں جواب میں امید پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ ملک میں بہت سے امید افزا پہلو ہیں۔ یہ باتیں ہیں جو میں نے کہی ہیں اور اس سے دس گنا زیادہ، یہ سب امیدیں دلاتی ہیں اور لوگوں کو امیدوار کرتی ہیں۔ امید افزائی سب کی ذمہ دار ہے۔ اس کو سنجیدگی سے لیں۔
امید افزائی خود فریبی نہیں ہے۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ امید پیدا کرنا کمزوریوں کو چھپانا ہے، یہ خود فریبی ہے۔ نہیں، کمزوریوں کا اظہار بھی کرنا چاہیے، کوئی حرج نہیں؛ لیکن کمزوریوں کے اظہار کے ساتھ ساتھ امید بھی دلانی چاہیے، مستقبل اور روشن افق کو آنکھوں کے سامنے کھولا جانا چاہیے۔ اللہ کا شکر ہے کہ ہماری صورتحال اچھی ہے۔ ہمیں آج اس آیت شریفہ پر غور کرنا چاہیے: "و لا تھنوا"، کمزور نہ ہو، "و لا تحزنوا"، غم نہ کرو، "و انتم الاَعلَون"، آپ بہترین ہیں، "اِن کُنتُم مُؤمِنین"؛ (13) آپکا ایمان آپکی سربلندی کا سبب ہے، تمہاری برتری کا سبب ہے۔ اس خطے میں آج ہماری صورتحال کے بالکل برعکس ہمارے سخت ترین دشمن امریکی کی صورتحال ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ ہم خطے میں کیا کر رہے ہیں۔ ہماری پالیسی واضح ہے، ہمارا راستہ صاف ہے۔ امریکی پریشان ہیں کہ خطے میں رہنا چاہئے یا خطے سے نکل جانا چاہئے۔ رہیں گے تو قوموں کی نفرتیں روز بروز بڑھتی جائیں گی۔ امریکی مضبوط فوجی دستوں کے ساتھ افغانستان میں داخل ہوئے اور بیس سال تک افغانستان میں رہے۔ انہوں نے افغان عوام کو اپنے آپ سے ناخوش کیا، ان کو ناراض کیا، وہ وہاں سے نکلنے پر مجبور ہوئے۔ اگر وہ ٹھہرتے ہیں تو نفرت کا شکار ہونگے، اگر وہ چلے جاتے ہیں تو عزت کھو دیں گے۔ ان کے یہاں مفادات ہیں، امریکیوں کے شام میں مفادات ہیں، عراق میں ان کے مفادات ہیں، اس سارے خطے میں ان کے مفادات ہیں۔ اگر وہ انہیں جانے دیتے ہیں تو یہ مفادات ہاتھ سے چلے جائیں گے۔ وہ نہیں جانتے کہ کیا کرنا ہے۔ رک جائیں، چلے جائیں؛ متحیر ہیں۔ ہم اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں کہ ہمارا راستہ صاف ہے، ہماری بصیرت واضح ہے، ہم ثابت قدم ہیں، اللہ کا شکر ہے، اور ہمارا دشمن کمزور ہے۔
پروردگار! ان کامیابیوں میں دن بدن اضافہ فرما۔ رب! ہمارے عظیم امام خمینی رح کو جنھوں نے ہمارے لیے یہ راستہ کھولا ہے اپنے اولیاء کے ساتھ محشور کر۔ پروردگار! ہمارے پیارے شہداء، جو اس عظیم تحریک کو پایہ تکمیل تک پہنچانے میں کامیاب ہوئے، پیغمبر اسلام ص کے ساتھ، اوائل اسلام کے شہداء کے ساتھ محشور کر۔ پروردگار! اپنے ولی اور اپنی حجت کے دل کو ہم سے راضی کر دے، ان کی دعاؤں اور شفاعت کو ہمارے شامل حال فرما۔ ہماری قوم کو ہمیشہ سربلند، عزیز اور خوش رکھ۔
والسّلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
(1) اس ملاقات کے آغاز میں آستان قدس رضوی (امام رضا علیہ السلام کے روضۂ اطہر) کے متولی حجت الاسلام والمسلمین احمد مروی نے کچھ باتیں بیان کیں۔
(2) زاد المعاد، صفحہ 328، اے سال اور حالات کو بدلنے والے! اے دن اور رات کا نظام چلانے والے! ہمارے حال کو بہترین حال میں بدل دے۔
(3) حاضرین کے نعرے
(4) ماہرین اسمبلی کے اراکین سے ملاقات (23/2/2023)
(5) غدیر واٹر سپلائي پروجیکٹ، جس کا افتتاح 2/9/2022 کو ہوا، ملک میں آب رسانی کا سب سے بڑا پروجیکٹ ہے جو صوبۂ خوزستان کے مرکز، جنوب اور مغرب میں واقع 26 شہروں اور 1608 دیہاتوں کو پینے کا صاف پانی فراہم کرنے کی راہ ہموار کرتا ہے۔
(6) استقامتی معیشت کی جنرل پالیسیوں کا نوٹیفکیشن (18/2/2014)
(7) ملک کے کچھ صنعت کاروں، انٹرپرینیورز اور نالج بیسڈ کمپنیوں کے مالکوں سے ملاقات (30/1/2023)
(8) نئے سال کے آغاز کی مناسبت سے نوروز کا پیغام (21/3/2023)
(9) امام رضا علیہ السلام کے روضۂ اطہر کے زائرین اور مقامی افراد کے اجتماع سے خطاب (20/3/2016)
(10) حکومت، عدلیہ اور پارلیمنٹ کو قانون سازی کی جنرل پالیسیز کا نوٹیفکیشن (28/9/2019)
(11) سورۂ ناس، آيت4،5،6 ، (اے رسول!(ص) آپ کہہ دیجیے کہ میں لوگوں کے پروردگار سے پناہ لیتا ہوں بار بار وسوسہ ڈالنے بار بار پسپا ہونے والے کے شر سے۔ جو لوگوں کے دلوں میں وسوسہ ڈالتا ہے۔ خواہ وہ جِنوں میں سے ہو یا انسانوں میں سے۔)
(12) سورۂ ہود، آيت 112، (اے رسول(ص) جس طرح آپ کو حکم دیا گیا ہے (راہِ راست پر) ثابت قدم رہیں اور وہ لوگ بھی جنھوں نے (کفر و عصیان سے) توبہ کر لی ہے اور آپ کے ساتھ ہیں، وہ بھی یہی کریں۔)
(13) سورۂ آل عمران، آيت 139، (اے مسلمانو! کمزوری نہ دکھاؤ اور غمگین نہ ہو، اگر تم مومن ہو تو تم ہی غالب و برتر ہوگے۔)