بسم اللہ الرحمن الرحیم
و الحمد لله ربّ العالمین و الصّلاة و السّلام علی سیّدنا محمّد و آله الطّاهرین سیّما بقیّة الله فی الارضین۔
آج کی نشست ہمارے لیے بہت روح پرور اور خوشگوار نشست تھی۔ درحقیقت، آج، آپ نے اپنی موجودگی اور پرکشش اور خوبصورت پروگراموں سے ماہِ رمضان کا افتتاح کیا، آپ نے اس خوبصورت اور شاندار آغاز کے ساتھ ہمارے لیے سال کو شیریں کر دیا۔ بہت شکریہ۔ جو پروگرام اجرا کیے گئے وہ بہت اچھے تھے۔ جناب یراقبافان (2) جو ہمیشہ کی طرح جواہرات کو پرونے میں مصروف عمل تھے۔ خدا ان کی حفاظت کرے۔
میں کسی حد تک تلاوت ریڈیو اور قرآن ٹی وی کی نشریات سنتا و دیکھتا ہوں۔ میں جب بھی کوئی تلاوت سنتا ہوں جو مجھے پرکشش، پختہ اور ممتاز لگتی ہے، میں دل کی گہرائیوں سے اللہ کا شکر ادا کرتا ہوں۔ اور خدا کا شکر ہے کہ ایسا بہت زیادہ ہوتا ہے۔ یعنی کہ آج ہمارے ملک میں بہت سے ممتاز قاری موجود ہیں جو اچھی تلاوت کرتے ہیں اور صحیح تلاوت کرتے ہیں جو تلاوت کی اچھی روشوں سے واقف ہیں۔ انسان واقعی اس طرح ایک کے بعد ایک کا مشاہدہ کرتا ہے۔ ہمیں اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے۔ اگر ہم انقلاب سے پہلے کا موازنہ کرنا چاہیں تو اصلا اس کا موازنہ ہی نہیں ہے۔ انقلاب سے پہلے پورے مشہد مقدس میں جو قراءت و تلاوت کے اہم مراکز میں شمار ہوتا تھا، شاید دو یا زیادہ سے زیادہ تین قاری موجود نہ ہوں جو قرآن کی صحیح اور اچھی تلاوت کر سکیں۔ اب مجھے ان سن رسیدہ اساتید سے سروکار نہیں۔ جو لوگ ہماری مجلسوں میں شریک ہوتے تھے اور ہم نے انہیں دیکھا، مثلاً فرض کریں کہ جناب فاطمی صاحب، جناب مختاری، یہ دو تین لوگ سے زیادہ نہیں تھے۔ [لیکن] آج اسے شمار نہیں کیا جا سکتا۔ الحمدللہ، ملک میں ہر جگہ [کا تعداد] قرآن تلاوت کرنے والے موجود ہیں۔ اچھا، آپ نے اس بوشہری (3) نوجوان کو دیکھا، جس کے حوالے سے مجھے یاد آیا کہ اس سال جب انہوں نے یہاں تلاوت کی، تو انہوں نے بتایا کہ وہ ایک گاؤں سے ہیں جہاں سب قرآنی امور میں مصروف ہیں۔ ایک گاؤں ہے جو قرآن کا مرکز ہے۔ یہ [آپ دیکھ سکتے ہیں] ، اور پورے ملک میں ان جیسے بہت سے ہیں، الحمدللہ، اور یہ شکر گزار ہونے کا مقام ہے۔ احباب نے مجھے بتایا کہ معاشرے میں قرآنی امور کی ترقی ملک میں ترقی کے تمام اشاریوں سے زیادہ ہے۔ یہ بہت خوشی اور مسرت کا باعث ہے۔
میں یہاں ایک جملہ کہتا ہوں تاکہ قاری اور تلاوت کرنے والے کی اہمیت ہم سب کے لیے اور انکے اپنے لیے بھی واضح ہو جائے۔ قاری اور قرآن کی تلاوت کرنے والے اللہ تعالٰی کا پیغام لوگوں تک پہنچانے والے ہیں۔ یعنی یہ کہ آپ جو یہاں تلاوت کر رہے ہیں، آپ ایک رسالت انجام دے رہے ہیں، آپ ایک پیغام رسانی کررہے ہیں، آپ ہمارے دلوں تک اللہ کا پیغام پہنچا رہے ہیں۔ یہ بہت اعلیٰ اور ممتاز مقام ہے، یہ بہت بڑا اعزاز ہے۔ اس پیغام کو اچھی طرح پہنچانے کے لیے آلات کی ضرورت ہے، جن میں سے ایک اچھی آواز ہے، جس میں سے ایک موثر تکنیک ہے، جیسے لحن اور کچھ دوسری خصوصیات، جن میں سے کچھ کا مختصر ذکر میں بعد میں کروں گا۔ اور میں دیکھتا ہوں کہ ہمارے کچھ عزیز قارئین، جن کی آوازیں میں تلاوت ریڈیو پر سنتا ہوں، ان نکات سے پوری طرح واقف ہیں اور ان کا اطلاق کرتے ہیں، ان کا استعمال کرتے ہیں اور ان کی تلاوت کی تاثیر بڑھ جاتی ہے۔
قرآن سننا ایک لازمی کام اور فریضہ ہے؛ اب یا تو اپنے لیے قرآن کی تلاوت کریں یا کسی اور سے قرآن سنیں۔ [تاہم] یہ ایک ضروری کام ہے۔ سب سے پہلے تو وحی پر ایمان لانے کا تقاضا ہے۔ اَلَّذینَ آتَیناهُمُ الکِتابَ یَتلونَهُ حَقَّ تِلاوَتِهِ اُولئِکَ یُؤمِنونَ بِه(4) جو لوگ قرآن کی تلاوت کرتے ہیں، اسکے تقاضے پورے کرنے کے ساتھ، وہ ہی ایمان والے ہیں۔ اس لیے قرآن کی تلاوت ایمان کا تقاضا ہے۔ یا [قرآن فرماتا ہے: ] "اَ فَلا یَتَدَبَّرونَ القُرآن"؛ (5) تو غور و فکر کب حاصل ہوگا؟ جب آپ تلاوت کرتے یا سنتے ہیں؛ اس صورت میں. اس لیے قرآن سننا کوئی پیشہ ورانہ امر نہیں ہے۔ میں ہمیشہ مختلف احباب، عہدیداروں اور عام لوگوں، نوجوانوں سے جب ہم قرآن کے بارے میں بات کرتے ہیں، کہتا ہوں کہ آپ کو ہر روز قرآن پڑھنا چاہیے۔ اب، میں یہ نہیں کہہ رہا ہوں کہ ایک دن، مثال کے طور پر، فرض کریں کہ آپ آدھا پارہ یا ایک حزب پڑھیں۔ [بلکہ] دن میں آدھا صفحہ، دن میں ایک صفحہ پڑھیں، لیکن بالکل ترک نہ کریں۔ سال میں کوئی دن ایسا نہ ہو کہ آپ قرآن کھول کر تلاوت نہ کریں۔ قرآن کو سننا سب سے پہلے ایمان کا تقاضا ہے، اور دوسرا، یہ خدا کی رحمت کیلئے زمینہ ساز ہے۔ قرآن فرماتا ہے: "وَ اِذا قُرِئَ القُرآنُ فَاستَمِعوا لَهُ وَ اَنصِتوا لَعَلَّکُم تُرحَمون" (6) یعنی قرآن سننا اور قرآن کا استماع خدا کی رحمت کا زمینہ ساز ہے۔ اس سے بہتر اور کیا ہو گا! یہ ان اہم ترین عوامل میں سے ایک ہے جو کسی شخص کو خدا کی رحمت سے ہمکنار کروا سکتا ہے۔
تلاوت تدبر کے ساتھ کرنی چاہیے۔ البتہ ہمارے لوگوں کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ قرآن کی زبان سے مکمل واقف نہیں ہیں۔ عرب ممالک میں، جہاں آپ عام لوگوں کو نماز کے لیے بیٹھے ہوئے دیکھتے ہیں، مثلاً مسجد امام حسین علیہ السلام (7) یا دیگر مقامات پر، جہاں قاری نماز سے پہلے قرآن پڑھتے ہیں، لوگ براہ راست اس کا مطلب سمجھتے ہیں، یعنی قرآن کا ظاہر۔ جس کا یقیناً "ظاهِرُهُ اَنیقٌ وَ باطِنُهُ عَمیق" ہے؛ (8) اس کا ایک گہرا باطن ہے جو شاید زیادہ تر لوگوں کے لیے قابل دسترس نہ ہو اور اسے اس کے ماہرین کی طرف سے مزید تشریح و توضیح کی ضرورت ہو، لیکن قرآن کی یہ ظاہری شکل سب کے لیے مفید ہے؛ ہر کوئی ایک اس کے ظاہر سے استفادہ کر سکتا ہے۔ ہمارا مسئلہ یہاں ہے؛ ہمیں اسے کسی نہ کسی طرح حل کرنا ہے۔
اب، میں نے یہاں نوٹ کیا ہے کہ ایک اہم کام یہ ہے کہ ہم قرآن کی تلاوت کو تشریحی ترجمہ کے ساتھ جوڑ سکیں، نہ صرف الفاظ کے معنی کا ترجمہ۔ ایک تشریحی ترجمہ کہ بعض تراجم جو آج رائج ہیں اور لوگوں کے پاس ہیں ان کی یہی خصوصیت ہے کہ انہوں نے وہاں بعض نکات پر توجہ دی ہے۔ خوش قسمتی سے، آج بہت اچھی اور روان تفسیریں موجود ہیں؛ یعنی آج ہمیں کتابوں کے معاملے میں، قرآن کے ترجمے کے معاملے میں، تفسیر کے معاملے میں کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ خدا کا شکر ہے، بہت کچھ دستیاب ہے۔ مثال کے طور پر یہی تفسیر نمونہ، اور بھی تفاسیر ہیں، اس طرح کی بہت سی تفاسیر موجود ہیں۔ آپ کو ایک روش اور طریقہ تلاش کرنا ہوگا۔ قرآنی امور کے ماہرین اور ان مسائل میں دلچسپی رکھنے والوں کو کوئی راستہ نکالنا چاہیے تاکہ ہم قرآنی حلقوں میں جہاں قرآن پڑھا جاتا ہے کسی طرح ترجمہ کو شامل کر سکیں۔
البتہ اب ریڈیو تلاوت پر ایک چھوٹیا سا کام ہو رہا ہے، جو مجھے اچھا لگتا ہے: تلاوت کو نشر کرنے سے قبل پیش کنندہ ان آیات کی ایک یا دو آیات کے مندرجات کا خلاصہ پڑھتا ہے جو قاری پڑھنے والا ہے، موجودہ رائج تفاسیر کی بنیاد پر؛ یہ بہت اچھا ہے۔ بہت اچھا ہے! اب اگر مثال کے طور پر ایک قاری بیس آیات، تیس آیات پڑھ لے، لیکن یہ پیش کنندہ ایک آیت یا دو آیتیں پڑھتا ہے، لیکن یہ اتنا بھی نعمت ہے۔ اب تلاوت ریڈیو پر یہ کیا جا رہا ہے۔ میں ایسا ہی کچھ انقلاب سے پہلے جلسوں میں کیا کرتا تھا جہاں میں قرآنی مسائل پر بات کرتا تھا۔ اس طرح میں کسی موضوع پر تفصیل سے بات کرتا تھا - مثال کے طور پر، ایک گھنٹے کے لیے؛ ہم نے اس موضوع کی آیات کا انتخاب کیا تھا۔ میری تقریر کے بعد ایک قاری، وہی دوست جو مشہد میں تھے، تلاوت کرنے والے جن میں سے کچھ الحمدللہ، ابھی تک حیات ہیں، اور کچھ انتقال فرما چکے ہیں، وہ آکر بیٹھتے تھے۔ میں کہتا تھا کہ [دوسروں] نے مجالس میں تقریر کا مقدمہ قرآن کو قرار دیا، میں اپنی تقریر کو قرآن کے مقدمے کے طور پر پیش کروں گا۔ میں تقریر کرتا تھا- کھڑے ہو کر تقریر کرتا تھا- پھر ایک کرسی تھی، ایک منبر تھا، ایک قاری آ کر اس منبر پر بیٹھ کر قرآن مجید کی تلاوت کرتا تھا۔ اس وقت ہم ایسا کرتے تھے، اب پتہ نہیں ان نشستوں میں ایسے کس حد تک ممکن ہیں۔ کسی بھی صورت میں، ایک مناسب طریقہ انتخاب کیا جانا چاہئے. یہ ان قرآنی مجموعوں کی ذمہ داری ہونی چاہئے کہ وہ دیکھیں کہ کیا کیا جا سکتا ہے تاکہ جب آپ تلاوت کریں تو لوگ اسی طرح موضوعات اور مفاہیم کو ادراک کرسکیں اور سمجھ سکیں۔
بہت اچھی چیزوں میں سے ایک یہ ہے کہ تمام مساجد میں قرآن کی تلاوت اور استماع رائج ہے۔ بعض مساجد میں اس طرح ہے کہ تلاوت کی جاتی ہے۔ میرا مشورہ یہ ہے کہ اگر ہم کر سکتے ہیں تو ہر مسجد کو قرآن کا مرکز بنائیں۔ یعنی ایک یا دو قاریوں کو مدعو کیا جائے - الحمدللہ، بہت سے قاری ہیں - نماز سے پہلے وہاں آئیں؛ اب اگر ممکن ہو تو وہ یہ کام ہر روز کریں، جو کہ قدرے مشکل ہے، کم از کم ہفتے میں ایک بار ایک قاری، قرآن پڑھنے والا، مسجد میں آکر بیٹھ کر قرآن پڑھے اور لوگ سنیں۔ اس کے ساتھ ان کخلئے شخص ایک مختصر اور جامع تفسیر اور ترجمہ بیان کرے تاکہ لوگوں کو سمجھ آئے۔ میرے خیال میں یہ اچھا ہے۔
آپ کو قرآن سے متعلق مسائل پر کچھ توجہ دینی چاہیے۔ قرآن زندگی کی کتاب ہے، حکمت کی کتاب ہے، سبق آموز کتاب ہے۔ ہم اس بارے میں پہلے ہی بہت بات کر چکے ہیں، میں جو کچھ ہم نے کہا ہے اسے دہرانا نہیں چاہتا۔ قرآن میں زندگی کے تمام شعبوں کے لیے اسباق موجود ہیں۔ قرآن کا کوئی بھی صفحہ جس کو آپ دیکھیں، جب ہم توجہ اور غور کریں تو قرآن کے ہر صفحہ میں انسان کو زندگی کے لیے درجنوں بنیادی نکات مل سکتے ہیں۔ یہ اہم مسائل ہیں۔ نہ صرف آخرت سے متعلق مسائل - جو قرآن میں بہت دقیق، واضح اور محکم ہیں - بلکہ ہماری ذاتی زندگی سے متعلق مسائل، ہماری خاندانی زندگی، ہماری حکومت کا مسئلہ، ہمارے بین الاقوامی مسائل اور تعلقات، ان سب کے سلسلے میں اور ان سب کے لیے قرآن میں حکمت ہے، منصوبہ ہے۔ ہمیں اس سے استفادہ کرنا چاہئے، قرآن سے استفادہ کرنا چاہئے.
الحمدللہ آج قرآنی طبقہ وسیع ہے۔ ہم یہ باتیں ایک وقت کہہ رہے تھے، جب اس کے لیے کوئی انفراسٹرکچر نہیں تھا۔ اس دن چند لوگ قرآن سے واقف تھے اور وہ لوگ جو مثال کے طور پر لوگوں کو نصیحت اور وعظ کرتے تھے، بہت سے بیانات میں قرآن سے استفادہ نہیں کیا جاتا تھا۔ آج، خدا کا شکر ہے، بنیادی ڈھانچہ بہت وسیع ہے؛ ہمارے پاس بہت سے قاری قرآن ہیں، ہمارے پاس بہت سے قرآن حفظ کرنے والے ہیں، ہمارے پاس بہت سے قرآن پڑھنے والے ہیں، ہمارے پاس بہت سے سننے والے ہیں اور جو قرآن میں دلچسپی رکھتے ہیں؛ وہ قرآنی محافل میں شرکت کرتے ہیں، انسان دیکھ سکتا ہے۔ لہٰذا ہمیں قرآن مجید کی تلاوت، قرآن سے آشنائی اور قرآن کے مفہوم کے مسئلے پر زیادہ سے زیادہ کام کرنا چاہیے۔ یہ ایک اہم مسئلہ ہے۔
تلاوت کرنے والوں کے لیے کچھ نکات عرض کرتا ہون۔ آپ لوگ جو تلاوت کرتے ہیں اور لوگ اس سے استفادہ کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ نے آپ کو یہ عظیم اعزاز بخشا ہے، آپ کو یہ بڑی توفیق ملی ہے کہ آپ لوگوں تک الٰہی پیغام پہنچانے والے بن سکتے ہیں اور ہمارے دلوں کو اپنا سامع بنا سکتے ہیں۔ چند نکات بیان کرنا چاہوں گا. تلاوت سامعین پر اثرانداز ہونے کے لیے ہونی چاہیے، یقیناً اسکی کچھ تراکیب ہیں، جن میں سے کچھ بعد میں بیان کروں گا۔ یقیناً، آپ میں سے اکثر واقف بھی ہیں۔ "سامعین پر اثرانداز ہونا"؛ یعنی جب آپ تلاوت شروع کریں تو آپ کی نیت یہ ہونی چاہیے کہ آپ کی تلاوت کا اثر آپ کے سامعین پر ہو۔ ہمارے ہاں تلاوت کی دو قسمیں ہیں: ایک قسم کی تلاوت جس کا مقصد اثر انداز ہونا ہے اور ایک قسم کی تلاوت جس کا مقصد فن کا مظاہرہ ہے۔ آپ حیران ہوگئے؟ حیران نہ ہوں۔ اب آپ، الحمدللہ، کیونکہ آپ سب اچھے اور پاکیزہ ہیں اور آپ کے ارادے مخلص ہیں، یہ آپ کے لیے حیران کن ہو سکتا ہے۔ لیکن نہیں، وہ جو ان بیرون الملک قارئین کے ساتھ - ہمارے ملک سے باہر؛ میں ملک کا نام نہیں بتاؤں گا - سے واقف ہو، وہ دیکھے گا؛ ان میں سے کچھ ایسے ہیں جو جب تلاوت کرتے ہیں تو گویا ان کا مقصد سامعین کے سامنے لحن اور فن کا اظہار ہوتا ہے! سننے والا بھی ماہر ہوتا ہے، بعض کے پاس ماہر سامعین ہوتے ہیں۔ یہ شور جو آپ سنتے ہیں - اہ، اہ، وہ چیختے ہیں، آپ کو یہ بھی سمجھ نہیں آتا کہ وہ کیا کہہ رہے ہیں! یہ وہی سامعین ہیں؛ اکثر وہ بھی اس فن کی نمائش کے پیچھے رہتے ہیں۔ عوامی اجتماعات میں، جب آپ لوگوں کو کہتے ہوئے دیکھتے ہیں، "اللہ" کہتے ہیں، کبھی کبھی روتے ہیں، یہ اثر ہے۔ لیکن ان خاص محفلوں میں مثلاً بیس، پچاس یا سو لوگ ہوتے ہیں جو قاری کو گھیر لیتے ہیں، شور مچاتے ہیں، داد دیتے ہیں، وہ اس کے اظہار کردہ خوبصورت اور متحرک لحن سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ شاید وہ معانی پر بالکل توجہ نہیں دیتے۔ وہ قاری خود بھی ایسا ہی ہے۔
میں ایک مثال دوں گا۔ بالکل، میں نام نہیں بتانا چاہتا۔ ایک قاری جو اچھے لحن اور آواز کا مالک ہے، مثال کے طور پر محمد عمران - اب ہم نے ایک نام لے لیا ہے - بہت اچھی آواز والا ہے، وہ لحن میں بھی ماہر ہے۔ میں نے سنا ہے کہ وہ عربی الحان میں سب سے زیادہ ماہر ہیں۔ وہ قرآن پڑھتا ہے۔ سورہ یوسف کی تلاوت بِسمِ اللهِ الرَّحمٰنِ الرَّحیمِ * الر پھر اس کے بعد تِلکَ آیاتُ الکِتابِ المُبین۔ جب وہ چند آیات پڑھتا ہے تو وہ پلٹتا ہے [دوبارہ پڑھتا ہے:] «بِسمِ اللهِ الرَّحمٰنِ الرَّحیمِ * الر» اس کا تسلسل نہیں پڑھتا۔ پھر دوبارہ، «بِسمِ اللهِ الرَّحمٰنِ الرَّحیمِ * الر» پڑھتا ہے۔ میں نے ان ابتدائی چند منٹوں میں شمار کیا، شاید آٹھ یا نو بار، اس نے کہا: «بِسمِ اللهِ الرَّحمٰنِ الرَّحیمِ * الر»۔ تو کیوں؟ آیات کی تکرار بہت اچھی ہے۔ وَ مَن اَحسَنُ قَولاً مِمَّن دَعا اِلَی الله؛(۹) فرض کریں کہ قاری اسکو پڑھے، اس کا تکرار کرنا بھی بہت اچھا ہے۔ یہی پہلی آیات جو فردی صاحب نے پڑھی ہیں۔ میں انتظار کر رہا تھا کہ وہ پہلی دو تین آیات کو دہرائے گیں۔ یہ تکرار کے قابل ہیں؛ ان کو بعض جگہوں پر دہرانا بہت اچھا اور لازم اور ضروری ہے، یعنی ان کا اعادہ کرنا بھی اتنا ہی مؤثر ہے۔ لیکن «بِسمِ اللهِ الرَّحمٰنِ الرَّحیمِ * الر» کی تکرار کا کیا فائدہ ہے؟ اس کا سامعین پر کیا اثر پڑتا ہے؟ لحن کے مختلف طریقوں کے اظہار کے علاوہ - طرز کی نمائش کے علاوہ - اسکا کوئی مقصد نہیں؛ وہ بھی سنتے ہیں۔ ایسا پڑھنا، یہ تلاوت، کوئی مطلوبہ تلاوت نہیں ہے۔ تلاوت کو تاثیر کیلئے ہونا چاہیے۔ یقینا، اثر بنیادی طور پر خود قاری سے مربوط ہے. اگر قاری خود اپنی تلاوت سے متاثر ہوتا ہے - جسے دیکھا سکتا ہے کہ کچھ مصری قاری واقعی اپنی تلاوت سے متاثر ہورہے ہیں - اثر قدرتی طور پر زیادہ ہوتا ہے۔ کچھ ترکیبیں ہیں جو میں اب بیان کروں گا۔ میرا ایک مقصد ہے؛ ایسا نہیں ہے کہ میں آپ کو وہ ترکیبیں سکھانا چاہتا ہوں۔ آپ خود مجھ سے بہتر جانتے ہیں۔ اس کے بیان سے میرا ایک مقصد ہے۔
ان روشوں میں سے ایک قراءت کے اختلاف سے استفادہ کرنا ہے۔ کچھ قراءت کے اختلاف کو [صرف] نمائش کے لیے پڑھتے ہیں، یعنی واقعی اس کا کوئی فائدہ نہیں۔ شاز اور ضعیف پڑھنا پڑھنا، متروک شدہ قراءت پڑھنا۔ کبھی کبھی مثلاً فرض کریں کہ ایک آیت کو مختلف طریقوں سے پانچ یا چھ قراء ت میں دہرایا جائے تو اس کا کوئی فائدہ نہیں۔ اس قسم کا قراءت کے اختلاف پڑھنا مطلوب نہیں ہے، میں اس چیز کی تاکید نہیں کرتا۔ اگرچہ کچھ قراءت کے اختلاف بہت اچھے ہیں، اب میں ان کی مثالیں پیش کروں گا۔ کچھ قراءت کے اختلاف بہت اچھے ہیں، لیکن کچھ جگہیں ایسی ہیں جہاں قراءت کے اختلاف - جو دہرانے کا سبب بنتا ہے - کا کوئی اثر نہیں ہوتا ہے۔ بالکل نہیں۔ کبھی کبھی یہ کسی کے دماغ کو اور بھی الجھا دیتا ہے، دوسری چیزوں پر توجہ دلانے کا باعث بنتا ہے۔ لیکن یہ کچھ جگہوں پر بہت اچھا ہے۔ میں دو تین مثالیں ذکر کروں گا: ایک تو عبدالباسط کی سورہ یوسف میں هَیتَ لَک کی تلاوت ہے، جسے وہ یکے بعد دیگرے اسی طرح دہراتا ہے، یعنی وہ آیت کے ختم ہونے کا انتظار نہیں کرتا کہ پھر اسے دہرائیں ۔ وَ قالَت هَیتَ لَک، وَ قالَت هِئتَ لَک، وَ قالَت هِئتُ لَک(10) وہ اسی طرح دہراتا رہتا ہے۔ وہ اس مقام کی اہمیت کو ظاہر کرنا چاہتا ہے۔ وہ اسکی اہمیت دکھانا چاہتا ہے۔ اگر یہ اسی طرح پڑھے اور گزر جائے، تو اس کی اہمیت سننے والے کو محسوس نہیں ہوگی. ایک خالی کمرے میں ایک نوجوان اور ویسی عورت اس اصرار کے ساتھ اسکے پیچھے پڑی ہوئی ہے اور وہ انکار کررہا ہے۔ یہ اس مسئلے کی اہمیت ہے؛ یعنی وہ سامعین کے ذہن میں صورتحال کو اس طرح بیان کرنا چاہتا ہے کہ اسے محسوس ہو کہ یہ اس کی آنکھوں کے سامنے ہو رہا ہے، اسی لیے وہ اسے دہراتا ہے۔ اس قسم کی تکرار ممتاز عرب قاریوں کی قراء ت میں بھی بہت کم ہوتی ہے کہ وہ اسے یکے بعد دیگرے دہرائیں۔ یہ ایک مثال ہے۔ یہ اچھا ہے؛ یہ بہت اچھا ہے اگر دوست اس پر عمل کریں اور اس طرح عمل کریں اور اگر مثال کے طور پر کہیں قراءت میں اختلاف ہو تو اس کا اظہار کریں۔ اب مثال کے طور پر "«سَلامٌ عَلیٰ اِل یاسین»" (11) میں ورش کی تلاوت "آل یٰسین" ہے۔ "«سَلامٌ عَلیٰ اِل یاسین»"، "«سَلامٌ عَلیٰ اِل یاسین»"؛ تنہا ورش نے یہاں "آل یاسین" پڑھا ہے۔ باقی سب نے "ال یاسین" پڑھا ہے۔ مثال کے طور پر اسے دہرانا برا نہیں ہے۔ «سَلامٌ عَلیٰ اِل یاسین»، «سَلامٌ عَلیٰ آلِ یاسین»۔
ایک اور دلچسپ مثال، جو میرے لیے بہت جذاب اور پرکشش تھی، سورہ نمل میں شیخ مصطفیٰ اسماعیل کی تلاوت ہے، جب حضرت سلمان ع فرماتے ہیں، «اَیُّکُم یَأتینی بِعَرشِها» (12) یہاں «قالَ عِفریتٌ مِنَ الجِنّ»؛ یہاں [قرائت کا فرق] خود کو ظاہر کرتا ہے۔ یہاں، جنات حضرت سلیمان علیہ السلام کے ماتحت تھے لیکن ان کا دل حضرت سلیمان علیہ السلام کے ساتھ نہیں تھا، جیسا کہ «تَبَیَّنَتِ الجِنُّ اَن لَو کانوا یَعلَمونَ الغَیبَ ما لَبِثوا فِی العَذابِ المُهین» (13) - جو سورہ [سبا] میں ہے - اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ حکم کے تحت تھے، وہ مجبور تھے، حضرت سلیمان علیہ السلام نے انہیں تسخیر کرلیا تھا، لیکن ان کے دل ان کے ساتھ نہیں تھے۔ پیغمبر. اب یہاں [قرآن کہتا ہے] «قالَ عِفریتٌ مِنَ الجِنِّ اَنَا آتیکَ بِهِ قَبلَ اَن تَقومَ مِن مَقامِک» (14) شیخ مصطفی اسماعیل کیا کرتا ہے؟ پہلے وہی پڑھتا ہے: قالَ عِفریتٌ مِنَ الجِنِّ اَنَا آتیکَ بِهِ قَبلَ اَن تَقومَ مِن مَقامِک؛ [پھر] وہ ورش کی تلاوت کے ساتھ «اَنَا آتیکَ بِه» پڑھتا ہے۔ یعنی ورش کی تلاوت میں مطلب کو دہرانا۔ کیوں؟ کیونکہ یہاں ورش کی قراءت میں اس عفریت کا غرور زیادہ ظاہر ہوتا ہے۔ دیکھیں، یہ [پڑھنا] خود دکھا رہا ہے۔ اس لیے یہ دہرایا جاتا ہے۔ میری رائے میں، مصطفی اسماعیل - اس شناخت کے ساتھ جو اس عظیم اور شاندار قاری سے متعلق ہے - جان بوجھ کر اس تلاوت کو یہاں فوراً دہراتا ہے۔ یعنی وہ آیت ختم نہیں ہونے دیتا، کہ پھر دوبارہ سے شروع کرے۔ وہیں «اَنَا آتیک» کے بعد جو عاصم کی حفص سے مشہور قراءت ہے، ورش کی تلاوت لاتا ہے، یہ ظاہر کرنے کے لیے کہ وہ اپنی تعریف کر رہا ہے۔
پھر، «اَلَّذی عِندَهُ عِلمٌ مِنَ الکِتاب» اس(عفریت جن) کو بری طرح مات دیتا ہے۔ وہ بھی کہتا ہے کہ «اَنَا آتیکَ بِهِ قَبلَ اَن یَرتَدَّ اِلَیکَ طَرفُک».(۱۵) ۔ یہاں بھی شیخ مصطفی اسماعیل یہی کام کرتا ہے۔ یہاں پر بھی اسی طرح پڑھتا ہے۔ یعنی درحقیقت «عِفریتٌ مِنَ الجِنّ» کے غلط، متکبرانہ طرزعمل کا جواب ایک خالص مومن حضرت سلیمان کے اصحاب میں سے دیتا ہے، اور درحقیقت اس کے منہ پر طمانچہ رسید کرتا ہے۔ آپ دیکھیں، اس طرح قرائت کے اختلاف سے یہ استفادہ بالکل اچھی چیز ہے۔ تاہم، اگر قرائت مین اختلاف ان جہات کے بغیر، ان احتیاطوں اور توجہ کے بغیر کیا جائے، ایک مختصر حد تک، میری رائے میں کوئی حرج نہیں۔ آپ جانتے ہیں کہ ورش مصر کا رہنے والا تھا اور درحقیقت نافع سے ورش کی قرائت مصریوں کا ورثہ ہے، اسی لیے وہ اس کو اہمیت دیتے ہیں۔ آپ نے سنا ہو گا کہ ان کے پاس فقط ورش کی ترتیلیں ہوتی ہیں جن شروع سے آخر تک صرف ورش پڑھتے ہیں۔ مصر اور شمالی افریقہ کے کچھ ممالک میں، جو اسلامی دنیا کا مغربی حصہ ہے، ورش کی تلاوت [عام] ہے۔ حمزہ کی قرائت میں بھی خوبصورتی ہے کیونکہ حروف ساکن کے بعد ہمزہ پڑھنے سے اس میں ایک سکت پیدا ہو جاتا ہے جو کہ بعض صورتوں میں خوبصورتی ایجاد کرتا ہے اور اس مین کوئی حرج بھی نہیں ہے۔ لیکن ان مختلف قرائتوں کے اظہار میں مبالغہ آرائی اور ان کے ہر قسم کے الفاظ اور خاص طور پر ان عجیب و غریب ہجے کا سہارا لینا جو وہ کرتے ہیں کہ انسان واقعی انھیں ٹھیک سے ہضم نہیں کر سکتا کہ ایسا کیوں کیا [صحیح نہیں ہے۔] آج مجھے نہیں لگتا کہ عرب دنیا میں، کوئی عرب اس قسم کے فن کا مظاہرہ کرتا ہوگا۔ اب، شاید وہ دن جب، مثال کے طور پر، سات قارئیوں میں سے ایک، جناب حمزہ نے کچھ ایسا بیان کیا، ان دنوں رائج ہوگا، لیکن میں نہیں سمجھتا کہ آج عرب دنیا میں - یعنی میں نے کبھی ایسا سنا یا دیکھا نہیں - کہ وہ اس طرح تلاوت کرتے ہوں یا زیر کو اس طرح کھینچتے ہوں۔ اب بہرحال، یہ اس بارے میں ہے.
ایک اور نکتہ دراصل ایک اور ترکیب ہے، یہ دراصل قطع و وصل کے بارے میں ہے۔ قابل احترام قارئین میں سے ایک جنہوں نے آج یہاں تلاوت کی ہے اس سلسلے میں بہت اچھا تھے۔ یعنی آج تلاوت کرنے والے تقریباً اکثر حضرات خصوصاً ان میں سے ایک آیتوں کے درمیان قطع میں بہت اچھے تھے تاکہ سننے والے کا دل ان کی طرف متوجہ ہوسکے۔ بعض اوقات قرآن کی آیت کے درمیان قطع کرنے سے مطلب ذہن میں سما جاتا ہے، بعض اوقات یہ مطلب کی اہمیت اور آیت کی خصوصیات اور نکات کو ظاہر کرنے کا سبب بنتا ہے۔ کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ قیناً ان کو مثالوں کے طور پر پیش کرنا چاہیے تاکہ یہ واضح ہو جائے کہ کیا مراد ہے، جو اب ممکن نہیں، مجھے ان میں سے بہت سی یاد بھی نہیں ہیں۔ اب مثال کے طور پر میرے ذہن میں سورۃ القصص میں مصطفیٰ اسماعیل کی تلاوت ہے: فَجائَتهُ اِحداهُما تَمشی عَلَی استِحیاءٍ (16) اچھا اگر ہم اسے پڑھنا چاہتے ہیں تو ہم اسے کیسے پڑھیں؟ ہم اسی طرح پڑھتے ہیں: فَجائَتهُ اِحداهُما تَمشی عَلَی استِحیاءٍ؛ دو لڑکیوں میں سے ایک با حیا انداز میں آئی۔ ٹھیک ہے، یہ معمولی انداز میں پڑھنا ہے. مصطفیٰ اسماعیل ایسا نہیں پڑھتا۔ وہ پڑھتا ہے «فَجائَتهُ اِحداهُما تَمشی»، اور «عَلَی استِحیاءٍ» نہیں پڑھتا۔ وہ ایک لمحے کے لیے رکتا ہے، پھر کہتا ہے «عَلَی استِحیاءٍ» کیوں؟ کیونکہ لڑکی کا یہ حیا کرنا معنی رکھتا ہے۔ خیر یہ وہی لڑکی ہے جو اس سے آدھا گھنٹہ پہلے یا اس سے ایک گھنٹہ پہلے اس نوجوان کے نزدیک تھی اور اپنی بھیڑوں کو پانی پلا کر چلی گئی تھی۔ اب وہ حیا کیوں کر رہی ہے، لیکن اس نے اس وقت شرم نہیں کھائی؟ [کیونکہ] وہ وہاں گئیں، باپ سے بات کی اور اس نوجوان کے بارے میں بتایا، گھر کے اندر اس نوجوان کے بارے میں بات ہوئی، اس لیے یہ لڑکی آتی ہے تو شرماتی ہے۔ "علی استحیاء"۔ وہ اس کی نشاندہی کرنا چاہتا ہے، وہ اس کو اجاگر کرنا چاہتا ہے۔ اس لیے وہ "تمشی" کہتا ہے اور "علی استحیاء" کو جدا کرکے الگ پڑھتا ہے۔ یہ اس طرح ہے؛ اگر آپ ان باتوں پر توجہ دیں تو میرے خیال میں یہ بہت اچھا ہے۔ یا بعض آیات کو دہرانا، یا بعض جملوں کو دہرانا، یا آواز کا اوپر اور نیچے کرنا- آواز کو بلند اور پست کرنا- بعض مقامات پر یہ سب اہم طریقے ہیں جو قرآن کے دلوں پر اثرانداز ہونے میں مدد دیتے ہیں۔
بہرحال آپ کا کام اہم کام ہے، ایک عظیم کام ہے، ایک شاندار کام ہے، ایک فنی کام ہے، ایک جامع فن ہے۔ آپ جو کام کرتے ہیں وہ ایک فن ہے۔ قرآن کی تلاوت ایک عظیم اور پیچیدہ فن ہے۔ یعنی یہ طرز اور مختلف خصوصیات کا مجموعہ ہے جو کہ تلاوت میں توجہ کا باعث ہے تاکہ انسان اثرانداز ہوسکے۔ بس محتاط رہیں کہ تلاوت کو لحن کی اقسام ظاہر کرنے کے لیے انجام نہ دیں۔ تلاوت کسی بھی لحن میں کریں لیکن سامع کو متاثر کرنے کی نیت سے انجام دیں یعنی نیت اور ہدف یہ ہونا چاہیے، ان مشہور عرب قاریوں کی طرح نہیں۔ اب میں نے مصطفیٰ اسماعیل کی تعریف کی، لیکن وہ بھی کبھی کبھی ایسا ہی ہوجاتا ہے۔ بعض اوقات وہ اس طرح پڑھتا ہے کہ لگتا ہے کہ وہ پڑھنے کے لحن اور طرز کا اظہار کرنا چاہتا ہے اور اس کے تحت سامعین کو متاثر کرنا چاہتا ہے، لیکن بہت سے مقامات پر اس کی تلاوت روحانی طور پر متاثر کن تلاوت ہوتی ہے۔
ہم دعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ آپ سب کو توفیق عطا فرمائے، ہم سب کو قرآن سے زیادہ مانوس ہونے، قرآن سے زیادہ آشنا ہونے، قرآنی امور میں اپنا فرض ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے، انشاء اللہ۔ اصل محور، قرآن پر عمل کرنا ہے، جو ایک اور باب اور بہت وسیع میدان ہے۔ قرآن کی تلاوت اور تعظیم سے متعلق حصے میں ہم نے یہ خصوصیات بیان کیں۔ ہم دعا کرتے ہیں کہ خدا آپ کو کامیاب کرے۔
پروردگار! محمد اور آل محمد کے صدقے ہمیں قرآن کے ساتھ محشور کر۔ ہمیں قرآن کے سائے میں زندہ رکھ اور قبر اور قیامت میں قرآن کے ساتھ محشور فرما۔ ہمیں قرآن سے سب سے عظیم استفادہ سے بہرہ مند فرما۔ ہمارے معاشرے کو قرآنی معاشرہ قرار دے۔ جنہوں نے ہمیں قرآن سکھایا، جنہوں نے ہمیں تجوید سکھائی، وہ جنہوں نے ہمیں قرآن کے اسرار سکھائے، پروردگارا! انہیں اپنے فضل، رحمت اور بخشش سے ہمکنار کر۔ خدا ہمارے قرآنی اساتذہ کو اپنے اولیاء کے ساتھ محشور فرما۔
والسلام علیکم و رحمت اللہ و برکاتہ
1) سن 1444 ہجری قمری کے ماہ رمضان میں ہونے والی اس ملاقات کے آغاز میں کچھ قاریوں اور ٹیموں نے قرآن مجید کی تلاوت کی۔
2) پروگرام کے ناظم، جناب مجید یراقبافان
3) جناب سید طہ حسینی، چارک خور موج گاؤں کے باشندے
4) سورہ بقرہ آیت 121
5)سورہ نساء آيت 82 میں بھی ہے، کیا تم لوگ قرآن کے معانی پر غور نہيں کرتے؟
6) سورہ اعراف، آیت 204
7) قاہرہ میں
8) نہج البلاغہ خطبہ 18 " قرآن کی ظاہری شکل خوبصورت اور باطن بہت عمیق ہے۔
9) سورہ فصلت، آیت 33 " اور اس سے زيادہ خوش گفتار کون ہے جو خدا کی سمت لوگوں کو دعوت دے؟ "
10) سورہ یوسف آیت 23
11) سورہ صافات آیت 130 الیاس کے پیروکاروں پر سلام
12) سورہ نمل، آیت 38 " تم لوگوں میں سے کون اسے میرے پاس لے آئے گا؟ "
13) سورہ سبا، آیت 14 " جنوں کے لئے یہ واضح ہو گيا کہ اگر انہيں غیب کا علم ہوتا تو اس ذلت آمیز عذاب میں باقی نہ رہتے۔"
14) سورہ نمل آیت 39 "... جنوں میں سے ایک عفریت نے کہا کہ میں اسے اس سے پہلے کہ آپ یہاں سے اٹھیں لے آؤں گا "
15) سورہ نمل آيت 40 " جس کے پاس کتاب کا علم تھا اس نے کہا میں اسے آپ کی پلک جھپکنے سے پہلے لا دوں گا "
16) سورہ قصص، آیت 25 " تب ان میں سے ایک عورت، شرم سے قدم بڑھاتی ہوئي ان کے پاس آئی۔