ویب سائٹ دفتر رہبر معظم انقلاب اسلامی

ثقافتی، سماجی اور سائنسی میدانوں میں تعلیم یافتہ اور فعال خواتین سے خطاب

بسم الله الرّحمن الرّحیم(1)

الحمدلله ربّ العالمین و الصّلاة و السّلام علی سیّدنا ابی‌القاسم المصطفی محمّد و علی آله الاطیبین الاطهرین المنتجبین سیّما بقیّة الله فی الارضین۔


آج یہاں جو نشست منعقد ہوئی ہے وہ ان شاء اللہ ہمارے مستقبل کے لیے، ہماری فکر کو کھولنے کے لیے بہت ہی خوشایند اور مفید ہے۔ مجھے اس بات پر بڑی خوشی ہے کہ اس سال ہم یہ نشست منعقد کرنے میں کامیاب ہوئے۔ پچھلے سال کچھ خواتین نے ایک خط لکھا تھا اور اعتراض کیا تھا کہ آپ نے یوم خواتین پر ملاقات کو اہلبیت علیہم السلام کے مداحوں کی ملاقات سے مختص کر دیا ہے! ٹھیک بات ہے، اعتراض صحیح ہے، البتہ اس ملاقات کے لیے یوم خواتین کی کوئی خصوصیت نہیں ہے، حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کی ولادت کے نزدیک کے کسی بھی دن یہ ملاقات ہو سکتی ہے۔ اب اگر ہم زندہ رہے تو مستقبل میں بھی ان شاء اللہ یہ ملاقات جاری رہے گی۔

یہ نشست اب تک، اس لمحے تک ایک خالص زنانہ اور بڑے نمایاں اور اعلی مفاہیم سے بھرپور نشست تھی۔ یہاں خواتین نے جو باتیں کیں وہ بہت اچھی تھیں اور میں نے واقعی میں استفادہ کیا۔ البتہ صرف ایک بار سن کر وہ بھی تیز رفتاری سے اس مائيک پر بیان کی جانے والی ان باتوں کی تائید ممکن نہیں ہے۔ انسان کو سوچنا ہوتا ہے، غور کرنا ہوتا ہے، اس لیے اپنی ان تحریروں کو ضرور میرے حوالے کیجیے - جن خواتین نے بغیر کچھ لکھے باتیں بیان کیں، وہ بھی اپنی ان باتوں کو لکھیں، اس سے ان باتوں پر زیادہ گہرائی آئے گی اور مجھے ان کے بارے می‎ سوچنے اور غور کرنے کا موقع بھی مل جائے گا - تاکہ میں ان تحریروں کو کچھ افراد کو دوں جو ان کے بارے میں غور کریں، ان کا مطالعہ کریں، آپ کی باتوں میں کچھ تجاویز بھی تھیں تاکہ ان شاء اللہ وہ ان تجاویز کے بارے میں کوئی راہ حل تلاش کر سکیں۔ شاید ان میں سے کچھ تجاویز کا تعلق مثال کے طور پر ثقافتی انقلاب کی کونسل سے ہو، وہاں پیش کی جائيں یا کسی دوسری ادارے میں۔ خاص طور سے ہماری ذہین، کارآمد، تجربہ کار، عقلمند اور سمجھدار خواتین کو ملک کے مختلف فیصلہ کن اور پالیسی ساز عہدوں پر منصوب کرنے کا موضوع، یہ بہت اہم موضوع ہے۔ البتہ یہ بات میرے ذہن میں ہے اور ہمیں اس کے لیے کوئی راستہ نکالنا ہوگا، ان شاء اللہ کوئی راستہ تلاش کر لیں گے، دیکھتے ہیں کیا کیا جا سکتا ہے۔ خیر آج آپ نے ان خواتین سے بہت سی اچھی باتیں سنیں، میں اس ترانے کی تعریف کرنا نہ بھول جاؤں جو ان بچیوں نے پڑھا، واقعی قابل تعریف ہے، اس کے اشعار بھی بہت اچھے تھے اور اس طرز بھی بہت اچھی تھی اور ساتھ ہی ادائیگی بھی بہت اعلٰی تھی ۔ میں ان سب کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔

میں آج عورت کے مسئلے کے بارے میں کچھ نکات بیان کرنا چاہتا ہوں - میرے خیال میں کچھ اہم نکات ہیں - شاید ان میں سے بعض نکات کو ہم پہلے بھی عرض کر چکے ہیں یا آپ میں سے بعض نے انھیں بیان کیا ہے لیکن اگر ان پر تاکید ہو تو بہتر ہے۔ میں آپ ایران کی دانشور خواتین سے جو یہاں موجود ہیں اور ان سبھی سے جو ان باتوں کو سن رہے، پہلے یہ بات عرض کروں کہ، خواتین کے مسئلے میں ہم مغرب کے ریاکار دعویداروں کے سامنے دفاعی نہیں جارحانہ موقف رکھتے ہیں۔ دفاعی موقف نہیں ہے۔ برسوں پہلے ایک بار مجھ سے یونیورسٹی میں اسٹوڈنٹس کے سامنے پوچھا گيا کہ فلاں معاملے میں آپ اپنا کیا دفاع پیش کریں گے؟ میں نے کہا کہ میرے پاس دفاع نہیں ہے بلکہ میں جواب مطالبہ رکھتا ہوں۔ عورت کے معاملے میں بھی ایسا ہی ہے، دنیا قصوروار ہے۔ بہت قصوروار ہے۔ یہ جو میں 'دنیا' کہہ رہا ہوں اس کا مطلب یہی موجودہ مغربی دنیا، مغربی فلسفہ اور مغربی ثقافت ہے، نیا اور بقول خود ان کے، ماڈرن مغرب، مجھے تاریخی مغرب سے غرض نہیں ہے، وہ ایک الگ بحث ہے۔ نیا مغرب یعنی یہی مغرب جس نے اِدھر تقریبا دو سو سال پہلے سے زندگی کے تمام پہلوؤں میں اپنا ایک نظریہ پیش کی ہے، اس کے مقابلے میں ہم مطالبہ رکھتے ہیں، یہ مغرب والے عورت کے مسئلے میں بہت زیادہ گنہگار ہیں، قصوروار ہیں، انھوں نے ضرب لگائی ہے، جرائم کیے ہیں۔ بنابریں ہم جو باتیں کرتے ہیں ان کا دفاعی پہلو نہیں، اسلامی نظریے، اسلامی عقیدے اور اسلامی موقف کو بیان کرنے کا پہلو ہے۔ یہاں تک کہ اگر یہ باتیں، جو ہم عورت کے مسئلے اور عورت کے موضوع کے بارے میں پیش کرتے ہیں اور بحمد اللہ دیکھتے ہیں کہ آپ جیسی خواتین، جنھوں نے یہاں نکات بیان کیے ہیں، پوری طرح سے ان مسائل پر احاطہ رکھتی ہیں، انھیں تکرار کیجئے، بیان کیجیے، بہت امید ہے کہ آپ مغرب والوں کی رائے عامہ پر حقیقت بھی میں اثر ڈالنے میں کامیاب ہوں گی کیونکہ واقعی ان کی خواتین تکلیف میں ہیں، آج مغربی عورتوں کا سماج، بعض معاملات میں ایسی پریشانیوں میں مبتلا ہے جن کا اسے علم نہیں اور بعض معاملات میں ایسی مشکلات دوچار ہے جس کا اسے علم ہے، آپ واقعی ان پر اثر انداز ہو سکتی ہیں۔

ایک نکتہ جو میں پیش کرنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ صنف اور عورت کے مسئلہ پر اسلام کا نظریہ، مرد اور عورت کے مسئلہ پر اسلام کا نظریہ کیا ہے۔ اب میں مختصراً بیان کروں گا، یہ آپ پر منحصر ہے کہ اس کی شاخوں کی وضاحت اور تفصیل پر  سوچیں، تحقیق کریں اور اس پر کام کریں۔ اسلام کی نگاہ کے بارے میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ اسلام انسانی اور اسلامی قدر کے لحاظ سے "انسان" کو محور شمار کرتا ہے۔ مرد اور عورت کی علیحدہ سے کوئی خصوصیت نہیں، کوئی تفریق نہیں۔ انسانی اور اسلامی اقدار کے میدان میں مرد اور عورت کی مساوات اسلام کے اصولوں میں سے ایک ہے؛ اس میں کوئی شک نہیں۔ وہ قرآنی آیات جن کی تلاوت کی گئی اس کے بعد کی آیات میں قرآن کچھ یوں فرماتا ہے: اِنَّ المُسلِمینَ وَ المُسلِماتِ وَ المُؤمِنینَ وَ المُؤمِناتِ وَ القانِتینَ وَ القانِتاتِ وَ الصّادِقینَ وَ الصّادِقاتِ‌ وَ الصّابِرِینَ وَ الصّابِراتِ وَ الخاشِعینَ وَ الخاشِعاتِ وَ المُتَصَدِّقینَ وَ المُتَصَدِّقاتِ وَ الصّائِمِینَ وَ الصّائِماتِ وَ الحافِظینَ فروجھم و الحافظات وَ الذّاکِرینَ اللهَ کَثیراً وَ الذّاکِرات؛ ان میں مردوں اور عورتوں کے لیے دس بڑی خصوصیات کا ذکر کیا گیا ہے، جو کہ سب کے سب یکساں ہیں۔ اَعَدَّ اللهُ لَهُم مَغفِرَةً وَ اَجراً عَظیما(2) اسلام کا موقف یہ ہے۔ یا ایک اور آیت میں [قرآن کہتا ہے]: اَنّی لا اُضیعُ عَمَلَ عامِلٍ مِنکُم مِن ذَکَرٍ اَو اُنثَی‌ (3) ان میں کوئی فرق نہیں ہے۔ یعنی انسانی اور اسلامی اقدار کے لحاظ سے مرد اور عورت میں کوئی فرق نہیں ہے۔ مرد اور عورت کے بارے میں اسلام کی نگاہ، ایک انسان پر نگاہ ہے۔ [ان میں سے کوئی بھی] کوئی الگ خاصیت نہیں رکھتا۔

بلاشبہ مرد اور عورت کے فرائض مختلف ہیں لیکن ایک توازن موجود ہے۔ قرآن میں سورہ البقرہ میں ہے: وَ لَهُنَّ مِثلُ الَّذی عَلَیهِنَّ بِالمَعرُوف؛ (4) ان کے لیے جتنا حق ثابت ہے، اتنا ہی حق ان کے مقابل ہے، یعنی ان کے کاندھوں پر ہے۔ کچھ حق ان کا ہے، اتنا ہی حق دوسرے فریق کا بھی ہے، [یعنی] یہ ان کے کندھوں پر ہے اور ان کا فریضہ ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ کسی کو تفویض کردہ ہر فریضے کے مقابلے پر ایک حق موجود ہے۔ ہر ایک کو دیے گئے ہر حق کے سامنے ایک فریضہ ہے؛ کامل طور سے توازن برقرار ہے۔ یہ مردوں اور عورتوں کے حقوق کے بارے میں ہے۔ اس لیے حقوق و فرائض ایک جیسے نہیں ہیں بلکہ متوازن ہیں - جس کا ذکر ایک خاتون نے بھی اپنی تقریر میں اسی معنی میں کیا ہے - اور اس  پر کام کیا گیا ہے، مطالعہ کیا گیا ہے؛ اور اب آپ اس کی تفصیلات انہی کتابوں اور تحریروں وغیرہ میں دیکھ سکتے ہیں۔

ذمہ داریوں کو دیکھتے ہوئے، یہاں مرد اور عورت کی فطری خصوصیات پر انحصار کیا جاتا ہے۔ مرد اور عورت میں فرق پایا جاتا ہے یعنی عورت کی فطرت اور مردانہ فطرت۔ جسم میں، روح میں اور روحانی معاملات میں، سب میں فرق موجود ہیں۔ ذمہ داریاں ان اختلافات کے متناسب ہیں۔ یہ فرق مردوں یا عورتوں کو تفویض کردہ ذمہ داریوں کی نوعیت پر موثر ہیں۔ اس کا تعلق نسائی فطرت یا مردانہ فطرت سے ہے۔ انھیں اپنی فطرت کے خلاف کوئی کام نہیں کرنا چاہیے۔ وہ مرد جو اپنے رویے، چہرے کے میک اپ اور دیگر چیزوں میں عورت سے مشابہت پیدا کرتا ہے، وہ عورت جو اپنے رویے، طرز گفتگو، حرکات و سکنات میں مرد سے مشابہت پیدا کرتی ہے، بالکل غلط ہے۔ دونوں غلط ہیں۔ یہ انفرادی فرائض اور بقول معروف مختلف ذمہ داریوں سے متعلق جو گھر کے ماحول اور باہر کے ماحول وغیرہ میں موجود ہیں۔

لیکن معاشرتی فرائض کے لحاظ سے مرد اور عورت کے فرائض ایک جیسے ہیں۔ کردار مختلف ہیں لیکن کام ایک جیسے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جہاد مرد اور عورت دونوں پر فرض ہے، لیکن مردوں کا جہاد ایک قسم کا ہے، عورتوں کا جہاد دوسری قسم کا ہے۔ یعنی مثال کے طور پر ہمارے آٹھ سالہ دفاع میں عورتیں بھی شامل تھیں، ان کے فرائض بھی تھے؛ انہوں نے اپنا کام اچھی طرح کیا۔ اس عرصے کے دوران اگر خواتین نے مردوں سے بہتر کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کیا تو کم از کم مردوں جیسی کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ اگر آپ نے مقدس دفاع کی مدت میں خواتین کے کردار کے بارے میں کتابیں نہیں پڑھی ہیں تو انہیں پڑھیں۔ کتابیں لکھی گئی ہیں۔ الحمدللہ، اب ان چیزوں کے بارے میں لوگ سوچ رہے ہیں، ہمارے اچھے نوجوان ان مواد کو فراہم کر رہے ہیں۔ فرض کیجئے کہ یہی سوانح حیات جو شہداء کی ازواج سے متعلق ہیں۔ مجھے نہیں لگتا کہ آپ ان میں سے ایک سوانح عمری پڑھ سکیں اور اسے پڑھ کر دس بار آنسو نہ بہائیں۔ یہ ممکن نہیں ہے! یعنی انسان اس عورت کا جہاد دیکھتا ہے؛ مرد میدان میں چلا گیا، لیکن یہ [عورت] جہاد کررہی ہے۔ ان دونوں پر جہاد فرض ہے۔ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر عورتوں اور مردوں دونوں پر واجب ہے، لیکن کردار مختلف ہیں۔ کردار ایک جیسے نہیں ہیں۔ یہ اسلام کا خواتین اور مردوں کے بارے میں مختلف شعبوں میں نظریہ ہے جو میں نے پیش کیا ہے۔ ٹھیک ہے، یہ ایک ترقی پسند نظریہ بھی ہے اور منصفانہ بھی: عورت اپنے نمایاں مقام پر، مرد اپنے نمایاں مقام پر، اور دونوں کو قانونی، فکری، نظریاتی اور عملی حقوق حاصل ہیں۔ مغربی سرمایہ دارانہ نظام کے اقدار کے برعکس؛ البتہ، جیسا کہ میں نے کہا، میرا مقصود جدید مغرب ہے۔

عام طور پر، مغربی سرمایہ دارانہ نظام ایک مردانہ غلبہ والا نظام ہے۔ یعنی جو کچھ وہ اسلام کے بارے میں کہتے ہیں اور جو کچھ غلط کہتے ہیں اور جو حقیقت کے خلاف کہتے ہیں وہ ان کے بارے میں بالکل درست ہے۔ کیوں؟ اس نقطہ نظر کی جڑ یہ ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام میں سرمایہ انسانیت سے بالاتر ہے اور لوگ سرمائے کی کی غلامی کرتے ہیں۔ ہر وہ شخص جو زیادہ سرمایہ کاری کر سکتا ہے، زیادہ قیمتی ہے۔ مرد سخت جان، مضبوط ہوتا ہے۔ افریقہ، امریکہ اور جنوبی امریکہ میں سونے کی کانوں، زیورات، ہیرے وغیرہ کا [استخراج] اور اس طرح کے کام مردوں کے ذریعہ انجام پاتے تھے۔ میکرو اکنامک اور کمرشل مینجمنٹ اور اس طرح کے کام مرد انجام دیتے تھے۔ اس لیے سرمایہ دارانہ نظام میں مردوں کو عورتوں پر فوقیت حاصل ہے۔ کیونکہ انسان پر سرمائے کی برتری مردوں کے لیے زیادہ مناسب ہے۔ خیر، اب جبکہ سرمایہ انسانوں کے مقام کا تعین کرتا ہے، انسان اب ایک جیسے نہیں رہے، قدرتی طور پر مختلف ہیں۔ پھر ہم نے کہا کہ اس سرمایہ دارانہ نقطہ نظر کے مطابق مرد کی جنسیت فطری طور پر عورت کی جنسیت سے زیادہ بالاتر ہے۔ لہذا، آپ دیکھ سکتے ہیں کہ سرمایہ دارانہ نظام میں خواتین کے ساتھ دو طرح سے زیادتی کی جاتی ہے: ایک تو خود کام کے بارے میں۔ یہ ان اہم نکات میں سے ایک ہے۔ اب یہ خاتون جنہوں نے کہا کہ وہ مغرب میں رہی ہیں، وہ ان نکات سے اچھی طرح آگاہ ہیں، مطلع ہیں۔ آپ اسے کتابوں اور جگہوں پر تلاش کرسکتے ہیں جہاں عمومی معلومات موجود ہیں۔ اس وقت، بہت سے مغربی ممالک میں، عورتوں کی اجرت مردوں کے مقابلے میں مردوں کی نسبت کم ہے، یعنی وہ مردوں کے برابر کام عورتوں کو دیتے ہیں، اور انہیں کم اجرت دیتے ہیں۔ کیونکہ یہ کمزور ہیں، کیونکہ یہ زیادہ اطاعت گزار ہے۔ اس طرح ہے۔ یہ زیادتی کی ایک شکل ہے۔ خواتین کی آزادی کا مسئلہ 19ویں صدی اور 20ویں صدی میں اٹھانے کی ایک وجہ  – 19ویں صدی میں بیشتر– خواتین کو گھر سے نکالنا، انہیں کارخانے میں لے جانا اور کم اجرت پر ملازمت دینا تھا۔

یہاں میں ضمن میں ایک باتکرتا چلوں؛ امریکہ میں سیاہ فاموں کی آزادی کے بارے میں یہی چیز 1860 میں امریکی خانہ جنگی میں پیش آئی تھی - یعنی تقریباً ایک سو ساٹھ سال پہلے، جس میں کئی سالہ امریکی خانہ جنگی [تقریبا] چار سال، ایک ملین سے زیادہ قتل ہوئے، شمال اور جنوب کے درمیان جنگ ہوئی اور ان جنگوں کے نتیجے میں غلاموں کی آزادی، سیاہ فام غلاموں کی آزادی کا سوال کھڑا ہوا۔ جنوب میں زراعت تھی، شمال میں صنعت تھی۔ جنوب غلاموں کا مرکز تھا، غلام زیادہ تر جنوب میں تھے جو کھیتی باڑی کرتے تھے، شمالیوں کو سستی مزدوری کی ضرورت تھی، انہیں ان سیاہ فاموں کی ضرورت تھی۔ شمالیوں نے غلاموں کو آزاد کروانے کا مسئلہ شروع کیا۔ اگر آپ نے یہ ناول انکل ٹامز کیبن پڑھا ہے تو آپ دیکھیں گے۔ یہ تقریباً دو سو سال پہلے کی بات ہے۔ یہ انکل ٹام کیبن تقریباً دو سو سال پہلے لکھا گیا تھا۔ اس کا تعلق اسی دور سے ہے۔ انہوں نے سیاہ فام کو حوصلہ دیا، انھیں جنوب سے بھگا کے، وہاں لے گئے۔ کس لیے؟ کیوں آزاد ہوں؟ کیونکہ انہیں سستے مزدوروں کی ضرورت تھی۔ سستی مزدوری! مختلف مسائل میں مغربی مہذب حضرات کا دھوکہ کچھ یوں ہے۔ اب یقیناً اس کی اور بہت سی مثالیں ہیں۔

تو یہاں بھی کوئی تھا جس نے عورت کو ہدف بنایا اور اسے کام کے میدان میں لے آیا تاکہ کم خرچہ ہو، اخراجات کی لاگت کم آئے۔ نیز چونکہ مرد زیادہ مضبوط جنسیت کا حامل ہے اس لیے عورت کو مرد کی خوشنودی کا سامان بننا چاہیے۔ یقیناً یہ میرے لیے مشکل ہے۔ میرے لیے تمام مقامات خصوصاً خواتین کی نشست میں اس مسئلے پر بات کرنا واقعی مشکل ہے، لیکن یہ ایک حقیقت ہے۔ ہم کیا کریں؟ ہر کسی نے عورت کو یہ باور کرانے کی کوشش کی کہ اس کا حق وہ طرز عمل ہے جو مرد کے لیے اس کی جنسی کشش کو بڑھاتا ہے۔ انہوں نے اس متعلق سب کچھ کیا۔ یہ ایک بہت ہی افسوسناک داستان ہے؛ میں نے ان معاملات میں بہت سی چیزیں پڑھی ہیں جن کا واقعی اظہار نہیں کیا جاسکتا۔ ایک امریکی میگزین میں - سات، آٹھ، دس سال پہلے میرے پاس لایا گیا - ایک بہت ہی نامور امریکی سرمایہ دار جس کے پاس، مثال کے طور پر درجنوں بہت ہی جدید، بھرپور اور خوبصورت ریستورانوں کی چین تھی، انہوں نے اعلان کیا کہ وہ ملازمت دے رہے ہیں۔ کسے؟ نوجوان لڑکیوں کو؛ ان خصوصیات کے ساتھ نوجوان خواتین جن کا اس نے ذکر کیا ہے۔ ان خصوصیات میں سے ایک یہ ہے کہ ان کے کپڑے اور دامن گھٹنوں سے اونچے ہونے چاہئیں۔ انہوں نے تصویر بھی لگائی تھی کہ ایسا ہونا چاہیے! یعنی آپ نے دیکھا کہ کاروبار کے لیے، صنعت کے لیے، گلی کوچے میں روزمرہ زندگی کے لیے منصوبہ بندی ایسی ہے کہ ہوس اور شہوت کا شکار مرد آنکھوں سے، دوسرے ذرائع سے سیر ہو سکے! انھوں نے واقعی خواتین کے وقار کو نقصان پہنچایا؛ انھوں نے خواتین کی عزت و آرام کو ٹھیس پہنچائی۔ سب سے بری صورت وہ ہے جس کا میں نے ذکر کیا ہے: معاملے کو اس مقام تک پہنچانے کے لیے جہاں عورت خود - ایک نوجوان عورت یا نوجوان لڑکی - اس طرح ظاہر ہونے میں اپنی بھلائی دیکھتی ہے کہ وہ جنسی پہلو سے مردوں کی توجہ اپنی طرف مبذول کراسکے! اب کون سا مرد؟ ایک مرد جو گلی کوچے میں چل پھر رہا ہے۔ عورت کو اس نتیجے پر پہنچانا سب سے بڑا ضرب تھی جو انہوں نے عورت پر لگائی۔ اور اب ایسے بہت سے معاملات ہیں جن میں سے بہت سے آپ جانتے اور پڑھ چکے ہوں گے۔

تو، اس مردانہ طرزنگاہ کا نتیجہ کیا نکلا؟ جب مغربی تہذیب میں مرد برتر جنسیت ہے اور تہذیب مردانہ غلبے کی تہذیب ہے تو نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ عورت اپنا نمونہ عمل مرد کو قرار دینے کی کوشش کرتی ہے اور مرد عورت کا رول ماڈل بن جاتا ہے۔ عورت مردوں کے کام کی پیروی کرتی ہے۔ نتیجہ یہ ہے۔ دیکھیں، یہ قرآن کی ایک آیت ہے جس کی طرف ایک خاتون نے بھی طرف اشارہ کیا، انہوں نے آیت نہیں پڑھی، لیکن میرے خیال میں یہ آیت مراد تھی۔ آیت کریمہ کہتی ہے: ضَرَبَ اللهُ مَثَلًا لِلَّذینَ کَفَرُوا امرَأَتَ نُوحٍ وَ امرَأَتَ لوط۔ کافروں کے لیے دو عورتیں رول ماڈل ہیں۔ دو کافر عورتیں بے ایمان عورتوں کی مثالیں ہیں: نوح کی بیوی اور لوط کی بیوی، جنہوں نے اپنے شوہروں کو دھوکہ دیا۔ فَلَم یُغنیا عَنهُما مِنَ اللهِ شَیئا (5) شوہر، اگرچہ وہ نبی تھے، اب ان کے کسی کام کے نہیں، وہ ان کے کسی فائدے کے نہیں۔ یہ کافروں کیلئے ہے۔ پھر [قرآن کہتا ہے]: وَ ضَرَبَ اللهُ مَثَلًا لِلَّذینَ آمَنُوا امرَأَتَ فِرعَون۔(6) دو عورتوں کو تمام کافروں کے لیے مثال کے طور پر پیش کیا، اسی طرح دو عورتوں کو تمام مومن لوگوں کے لیے مثال کے طور پر پیش کیا۔ مرد اور عورت دونوں۔ یعنی اگر دنیا کے تمام مرد مومن بننا چاہتے ہیں تو ان کی رول ماڈل دو عورتیں ہیں: ایک فرعون کی بیوی، دوسری مریم۔ وَ ضَرَبَ اللهُ مَثَلًا لِلَّذینَ آمَنُوا امرَأَتَ فِرعَون۔ شرافت اور عفت کی بلندی پر؛ وہی خاتون جو موسیٰ کو پانی سے نکالتے وقت اسے قتل نہ کرنے کا باعث بنی۔ لا تَقتُلوه، (7) اسے مت مارو۔ پھر وہ حضرت موسیٰ

پر ایمان لے آئی اور پھر اسے اذیت دے کر قتل کر دیا گیا۔ یہ نمونہ ہے. [اور ایک اور نمونہ عمل] "مریم بنت عمران"، اب مریم علیہا السلام کے بارے میں، "الَّتی اَحصَنَت فَرجَهَا" (8) جس نے اپنی عفت کو محفوظ رکھا، بدقسمتی سے ہمارے پاس اس بارے میں زیادہ معلومات نہیں ہیں کہ معاملہ کیا تھا؛ حضرت مریم کے حوالے سے ایسے واقعات ہوئے ہیں کہ اس عظیم شخصیت نے پوری طاقت سے مزاحمت کی اور اپنی عفت کو قائم رکھا، اور آپ آخر تک داستان جانتے ہیں۔ یعنی مغربی تہذیب کے بالکل برعکس، جو مردوں کو نمونہ عمل کے طور پر متعین کرتی ہے، قرآن میں عورتوں کو نمونہ عمل کے طور پر متعین کیا گیا ہے۔ نہ صرف عورتوں کے لیے بلکہ تمام انسانوں کے لیے؛ کفر کے میدان میں بھی ایمان کے میدان میں بھی۔

خیر، یہاں سے مغرب کی منافقت ظاہر ہوتی ہے۔ وہ حقوق نسواں کے علمبردار ہونے کا دکھاوا کرتے ہیں ان تمام ضربوں کے ساتھ جو انہوں نے خواتین پر اور خواتین کی عزت پر لگائی ہیں! یعنی وہ دنیا میں خواتین کے حقوق کا [مسئلہ] استعمال کر رہے ہیں۔ میرا مطلب ہے، یہ واقعی انتہائی بے شرمی ہے۔ کبھی کبھی کسی کے پاس کہیں سے خفیہ معلومات ہوتی ہیں، کبھی نہیں، یہ بالکل واضح ہوتا ہے کہ میں واقعی میں نام نہیں لینا چاہتا۔ انسان کو اس رجحان کا نام لیتے ہوئے شرم آتی ہے جو پچھلے سال مغربی خواتین اور جنسی جارحیت اور اسی طرح کی چیزوں کے حوالے سے شروع ہوا تھا۔ اس سب کے باوجود وہ پھر کہتے ہیں کہ ہم خواتین کی حمایت کرتے ہیں، ہم خواتین کے حقوق کے حامی ہیں! اسی کو مغرب والوں کی بے تقوی زبان میں عورت کی آزادی کہتے ہیں۔ جب وہ عورت کی آزادی کہتے ہیں تو ان کا مطلب اس معنی میں آزادی ہے۔ [ان کی رائے میں] یہ آزادی ہے۔ [ جبکہ یہ] آزادی نہیں ہے۔ یہ غلامی ہے، یہ توہین ہے۔

بدقسمتی سے اندرون ملک ہم ان نکات تک دیر سے پہنچے یعنی ان میں سے بہت سے نکات انقلاب کے بعد ہم پر واضح ہوئے۔ انقلاب سے پہلے بعض بزرگوں کا بھی خیال تھا کہ مغرب میں مردوں اور عورتوں کے درمیان رابطے کی یہ آزادی انکے آنکھوں کے سیر ہونے کا سبب بنے گا اور مردوں کے دل مطمئن ہوں گے اور مزید جنسی خلاف ورزیوں کا ارتکاب نہیں کیا جائے گا۔ وہ خلاف ورزیاں جو وقتاً فوقتاً ہوتی تھیں، جب مردوں کی آنکھیں اور دل مطمئن ہو جائینگے تو یہ خلاف ورزیاں دوبارہ نہیں ہوں گی، ان کا یہ خیال تھا! اب آپ دیکھیں کہ کیا ان کی آنکھیں اور دل مطمئن ہوگئی ہیں یا جنسی حوالے سے ان کی لالچ سو گنا بڑھ گئی ہے؟ وہ مسلسل بتاتے رہتے ہیں۔ کام کی جگہ پر، گلیوں اور بازاروں میں، ہر جگہ، حتیٰ کہ فوج جیسی منظم اور مضبوط تنظیموں میں - جہاں خواتین بھی ہیں - جنسی طور پر ہراساں کیا جاتا ہے! (مغرب میں) جنسی طور پر ہراساں کرنا باہمی رضامندی سے انجام پائے جانے والے عمل سے جدا ہے۔ اب وہ بے حیائی اپنی جگہ۔ اس کے علاوہ جبری طور پر بھی ہراساں کیا جاتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ صرف آنکھیں اور دل ہی سیر نہیں ہوئے، بلکہ ان میں حرص و ہوس سو گنا بڑھ گیا ہے۔ اسی لیے آج آپ دیکھتے ہیں کہ مغربی ماحول میں جنسی تجارت ہوتی ہے، جنسی غلامی موجود ہے، تمام اخلاقی اور انسانی حدود کو توڑ کر ان چیزوں کو رواج اور قانونی بنا دیا جاتا ہے جو تمام مذاہب میں حرام ہیں۔ یہ ہم جنس پرستی اور اس قسم کے امور کا تعلق صرف اسلام سے ہی نہیں ہے۔ یہ تمام مذاہب میں گناہ کبیرہ میں سے ہیں۔ وہ ان چیزوں کو قانونی بناتے ہیں، انہیں واقعی شرم بھی نہیں آتی! لہذا، ہمارے معاشرے میں ایک عملی ذمہ داری یہ ہے کہ ہم جنسیت کے معاملے پر مغربی نقطہ نظر سے سختی سے گریز کریں۔

آپ عقلمند، دانشور، صاحب فہم و فراست اور پڑھی لکھی خواتین، الحمدللہ، آپ ہر جگہ موجود ہیں، اور یہ آپکا ایک گروہ جو یہاں ہیں، آپ صرف چند نمائندہ عناصر ہیں، یعنی آپ ایک بڑے باغ کے پھول ہیں۔ پورے ملک میں الحمدللہ بہت سی خواتین ہیں جو سمجھدار، معاملہ فہم، پڑھی لکھی اور باشعور ہیں۔ ہماری جو آرزو تھی کہ یہ نوجوان مومن لڑکیاں بڑی ہو کر عالم اور دانشور بنیں گی، اللہ کا شکر ہے، پوری ہو گئی۔ آپ کا ایک اہم ترین کام جنسیت اور خواتین کے مسئلے پر مغربی ثقافت کے تباہ کن نقطہ نظر کو بے نقاب کرنا ہے، سب کو بتائیں۔ کچھ لوگ نہیں جانتے۔ کچھ لوگ ہمارے اپنے ملک کے اندر نہیں جانتے، بہت سے لوگ باہر بھی نہیں جانتے۔ اسلامی ممالک میں [بہت سے] نہیں جانتے۔ اسلامی ممالک ایسی باتوں کو سمجھنے کے پیاسے ہیں۔ وہ مقامات جہاں ہم گئے اور موجود ہیں اور خبریں ہم تک پہنچتی ہیں وہ اسی طرح ہیں۔ مغربی ممالک بھی اسی طرح۔ آج، سائبر اسپیس میں رابطہ بہت آسان ہے؛ آپ ورچوئل اسپیس میں رابطہ برقرار کرسکتے ہیں اور ان پر توجہ مرکوز کروانے کے لیے ماحول سازی کر سکتے ہیں اور ان تصورات کو مختصر اور تاثراتی بیانات کی شکل میں پیش کر سکتے ہیں - جو کہ مختصر بھی اور گویا بھی ہوں - اور ان کو ہیش ٹیگز وغیرہ کی مدد سے عوامی رائے عامہ میں پیش کرسکتے ہیں۔ یہ آج آپ کے اختیار میں وسائل بہت اچھا موقع ہے۔ یہ ایک نکتہ ہے: مرد اور عورت کے مسئلہ اور جنسیت کے مسئلہ پر اسلام کا نظریاتی اور عملی پہلو۔

خواتین کے مسائل سے متعلق میں ایک اور نکتہ گھرانے کا مسئلہ ہے، جو خوش قسمتی سے ان خواتین کی تقریروں میں کئی پہلووں اور مختلف زاویوں سے پیش ہوا، اور یہ بہت اچھا تھا۔ مجھے ان کے بیانات سے بہت لطف آیا۔ آپ دیکھتے ہیں، ایک گھرانے کی تشکیل عالم ہستی میں ایک عمومی قانون کا نتیجہ ہے، یہ تخلیق کا ایک عمومی قانون ہے۔ وہ قانون زوجیت کا قانون ہے: سُبحانَ الَّذی خَلَقَ الاَزواجَ کُلَّها مِمّا تُنبِتُ الاَرضُ وَ مِن اَنفُسِهِم وَ مِمّا لا یَعلَمون؛(9) اللہ تعالٰی کی ذات نے تمام اشیاء میں زوجیت کا قانون قرار دیا ہے، انسانوں میں زوجیت ہے، جانوروں میں زوجیت ہے، نباتات میں زوجیت ہے۔ اور ہم کیوں نہیں جانتے؟ کچھ ایسا بھی ہے جو شادی ہے، وَ مِمّا لا یَعلَمون اب، مثال کے طور پر، ہم نہیں جانتے کہ پتھروں میں زوجیت کیسے برقرار ہے۔ یہ مستقبل میں دریافت کیا جا سکتا ہے. فلکی اجرام میں ایک زوجیت ہے، ہم نہیں جانتے کہ یہ کیسی ہے؛ ممکن ہے مستقبل میں اس کا پتہ چل جائے۔ دیکھیں سُبحانَ الَّذی خَلَقَ الاَزواجَ کُلَّها مِمّا تُنبِتُ الاَرضُ وَ مِن اَنفُسِهِم وَ مِمّا لا یَعلَمون۔ یہ زوجیت ہے۔ میں نے یہ سورہ "یاسین" سے پڑھا۔ ایک اور آیت سورہ "والذّاریات" میں ہے: وَ مِن کُلِّ شَیءٍ خَلَقنا زَوجَینِ لَعَلَّکُم تَذَکَّرون۔ (10) زوجیت ایک عام قانون ہے۔

اب میں ضمنا وضاحت کرتا چلوں کہ یہ زوجیت، جو اسلامی نقطہ نظر میں اس طرح واضح ہے، ہیگل اور مارکس کے نظریہ تضاد کے بالکل برعکس ہے۔ یعنی ہیگل کے نظریہ تضاد کا بنیادی ستون، جو بعد میں مارکس نے اس سے لیا، وہ تضاد ہے کہ سماج کی حرکت، تاریخ کی حرکت اور انسانیت کا تسلسل اس تضاد کی وجہ سے وجود میں آتا ہے۔ یعنی ’’تھیسس‘‘ اور ’’اینٹی تھیسس‘‘ ہے جش سے سنتھسز وجود میں آتا ہے۔ اسلام میں، نہیں، سنتھسز تضاد سے پیدا نہیں ہوتا، یہ زوجیت سے پیدا ہوتا ہے۔ یہ دوئیت سے ہے، باہمی موافقت سے ہے، باہمی موافقت اور ہمراہی سے اگلا درجہ پیدا ہوتا ہے، اگلی نسل پیدا ہوتی ہے، اگلی حرکت وجود میں آتی ہے، اگلا مرحلہ پیدا ہوتا ہے۔ یقیناً اس پر تحقیق اور اس پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ میں نے جو یہ بیان کیا، وہ ایک نظریہ ہے، ایک نگاہ ہے۔ لہذا، زوجیت، تخلیق کا عام قانون ہے. یہ زوجیت پودوں اور جانوروں دونوں میں موجود ہے، تاہم، اس مقررہ قانون کا انسانوں کے لیے ایک معیار ہے۔ انہوں نے انسانوں کے حوالے سے کچھ اصول مقرر کیے ہیں۔ کیا وجہ ہے کہ ضابطے بنائے گئے؟ کیونکہ زوجیت قواعد کے بغیر بھی ہوسکتی ہے، بالکل اسی طرح جیسے دنیا کے کچھ حصوں میں بے ضابطہ طور سے وجود میں آتی ہے۔ وجہ یہ ہے کہ انسان کا کام انتخاب و اختیار سے ہوتا ہے۔ انسانی تحریک، انسانی ترقی، اس کی اپنی مرضی اور اپنے ارادے کے بغیر ممکن نہیں۔ اس انتخاب اور اختیار کو ایک ضابطے کے تحت ہونا چاہئے، وگرنہ ایک شخص کچھ انتخاب کرتا ہے، دوسرا شخص اس کے خلاف کچھ منتخب کرتا ہے، اور اس سے فساد پیدا ہوتا ہے.

معاشرے میں، تاریخ میں، انسانی زندگی میں نظم قائم کرنے کے لیے قانون ضروری ہے۔ قانون ہر جگہ ہے، یہ انسانی زوجیت کے معاملے میں بھی موجود ہے۔ یہ اسلام کے ساتھ مخصوص نہیں ہے۔ دنیا کے تمام مذاہب میں دیکھیں، زوجیت قانون اور ضابطے کے تحت ہے۔ عیسائیت میں، یہودیت میں، [یہاں تک کہ] بدھ مت میں، دوسری جگہوں پر، دوسرے مذاہب میں - جہاں تک ہم جانتے ہیں - ایک قانون ہے کہ ایک مرد اور عورت ایک دوسرے سے شادی کریں۔ لاقانونیت گناہ ہے، جرم ہے، ناانصافی ہے، فساد کا سبب ہے، مسائل کا سبب ہے۔  یہ اصول گھرانے کو صحت مند بناتے ہیں۔ اگر ان اصولوں پر عمل کیا جائے تو یہ گھرانے کو صحت مند بنائے گا۔ جب گھرانہ مضبوط ہوتا ہے تو معاشرہ مضبوط ہوتا ہے۔ گھرانہ معاشرے کو تشکیل دینے والی ایکائی ہے؛ جب خاندان صحت مند ہوتے ہیں تو معاشرہ بھی صحت مند ہوتا ہے۔

تو، عورت کا گھرانے میں، گھریلو ماحول میں کیا کردار ہے؟ آیات و روایات وغیرہ میں موجود تعلیمات کے مجموعے پر غور کرتے ہوئے میں اپنے ذہن میں یہ تصور کرتا ہوں کہ عورت اس ہوا کی مانند ہے جو گھریلو ماحول کو حیات دیتی ہے۔ یعنی جس طرح آپ فضا میں سانس لیتے ہیں، اگر ہوا نہ ہو، سانس لینا ممکن نہیں، تو عورت اس کردار کی حامل ہے۔ گھر کی عورت اس فضا میں سانس لینے کی طرح ہے۔ روایت میں ہے: اَلمَراَةُ رَیحانَةٌ وَ لَیسَت بِقَهرَمانَة (11) یہ یہاں سے متعلق ہے، یہ گھرانے سے متعلق ہے۔ "ریحانه" کا مطلب ہے پھول، اس کا مطلب ہے خوشبو، عطر؛ وہی ہوا جو فضا کو بھرتی ہے۔ عربی میں "قهرمان" - "لَیسَت بِقَهرَمَانَة" میں - فارسی کے ہیرو سے مختلف ہے۔ "قهرمان" کا مطلب ایک مزدور، ایک کارکن یا، مثال کے طور پر، ایک کام کرنے والے کے ہیں؛ عورت ’’قهرمان‘‘ نہیں ہوتی۔ گھرانے میں، ایسا نہیں ہے جیسا کہ آپ تصور کرتے ہیں کہ اب جب آپ کی ایک بیوی ہے، تو آپ سب کچھ اس پر ڈال دیں۔ نہیں. وہ رضاکارانہ طور پر کچھ کرنا چاہتی ہے، [اس میں کوئی مشکل نہیں ہے؛] یہ اس کا اپنا گھر ہے، وہ کچھ کرنا چاہتی ہے، اس نے کر دیا۔ اگر نہیں، تو کسی کو - مرد یا غیر مرد - کو یہ حق نہیں ہے کہ وہ اسے اس کام پر مجبور کرے۔ تو اس طرح ہے.

گھرانے میں عورت کبھی زوجہ کے کردار میں نظر آتی ہے، کبھی ماں کے کردار میں نظر آتی ہے۔ ہر ایک کی ایک خصوصیت ہے۔ زوجہ کے کردار میں عورت پہلے درجے میں آرام و سکون کا مجسمہ ہے۔وَ جَعَلَ مِنها زَوجَها لِیَسکُنَ اِلَیها؛(12) سکون۔ کیونکہ زندگی پر تلاطم ہے۔ زندگی کے اس سمندر میں مرد کام اور تلاطم میں گرفتار ہے۔ جب وہ گھر آتا ہے تو اسے سکون کی ضرورت ہوتی ہے، اسے آرام کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ آرام و سکون گھر میں عورت ہی پیدا کرتی ہے۔ لِیَسکُنَ اِلَیها؛ [یعنی] مرد کو عورت کے ساتھ سکون محسوس کرنا چاہیے۔ عورت سکون کا ذریعہ ہے۔ بیوی کے طور پر عورت کا کردار محبت اور سکون پہنچانا ہے، جیسا کہ میں نے پہلے ذکر کیا، شہداء کی بیویوں کی یہ کتابیں پڑھیں، وہاں محبت اور سکون بہت واضح ہے اور ظاہر ہے کہ یہ مرد جو اب میدان جنگ میں چلا گیا ہے، چاہے مقدس دفاع ہو، حرم کا دفاع ہو یا باقی کٹھن میدانوں میں، اس عورت کے پاس اسے سکون کیسے ملتا ہے، اس کا روحانی تلاطم کیسے قابو میں آتا ہے، اور محبت کا عنصر اسے اپنے پاؤں پر کیسے کھڑا رکھتا ہے، اسے ہمت دیتا ہے۔ اسے حوصلہ دیتا ہے، اسے طاقت دیتا ہے تاکہ وہ کام کر سکے۔ یعنی عورت بحیثیت زوجہ اس طرح ہے: وہ سکون کا ذریعہ ہے، محبت اور آرام وغیرہ کا باعث ہے۔ اب، آرام و سکون کا یہ پہلو جس میں میں نے کہا: گفتم: وَ جَعَلَ مِنها زَوجَها لِیَسکُنَ اِلَیها۔ یہ ایک آیت ہے؛ ایک اور آیت میں، "خَلَقَ لَکُم مِن اَنفُسِکُم اَزواجًا لِتَسکُنوا اِلَیها وَ جَعَلَ بَینَکُم مَوَدَّةً وَ رَحمَة" (13)۔ "مودۃ" کا مطلب ہے عشق و محبت؛ "رحمت" کا مطلب ہے مہربانی؛ میاں بیوی کے درمیان محبت اور مہربانی کا تبادلہ ہوتا ہے۔ بیوی کی حیثیت سے عورت کا کردار یہ ہے؛ یہ کوئی چھوٹا کردار نہیں ہے، یہ بہت اہم کردار ہے، بہت بڑا کردار ہے۔ یہ زوجہ کے کردار سے متعلق ہے۔

ماں کے حوالے میں، عورت کا کردار حق زندگی کا ہے؛ یعنی عورت اس سے پیدا ہونے والی مخلوقات کی پیدا کرنے والی ہے۔ اس طرح ہے۔ وہی حاملہ ہونے والی ہے، وہی پیدائش کرنے والی ہے، وہی کھلانے والی ہے، وہی پالنے والی ہے۔ انسانی زندگی ماؤں کے ہاتھ میں ہے۔ ماؤں کا اپنے بچوں پر حق زندگی کا حق ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ماں کے دل میں اپنے بچے کے لیے جو محبت رکھی ہے وہ ایک انوکھی چیز ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس قسم کی محبت ہرگز کہیں اور موجود نہیں ہے، اس کیفیت کی کہیں نہیں ہے جو اس نے ڈالی ہے۔ وہ زندگی کے حق کی حامل ہے، پھر نسل کا تسلسل؛ مائیں نسل کے تسلسل کا باعث ہیں، یعنی نسل انسانی "ماں" کے ساتھ جاری رہتی ہے۔

مائیں قومی شناخت کے عناصر کو منتقل کرنے کا ذریعہ ہیں؛ قومی شناخت ایک اہم چیز ہے۔ یعنی کسی قوم کی شناخت، قوم کا تشخص بنیادی طور پر ماؤں کے ذریعے منتقل ہوتا ہے۔ زبان، عادات، آداب، روایات، اچھے اخلاق، اچھی عادات، یہ سب بنیادی طور پر ماں کے ذریعے منتقل ہوتے ہیں۔ باپ بھی موثر ہے، لیکن ماں سے بہت کم؛ ماں کا سب سے زیادہ اثر ہوتا ہے۔

دلوں میں ایمان کے بیج بونا۔ یہ مائیں ہیں جو بچے کو با ایمان پروان چڑھاتی ہیں۔ "ایمان" کوئی سبق نہیں ہے جو کسی کے سیکھانے سے سیکھ لیا جائے۔ ایمان ایک ارتقاء ہے، یہ ایک روحانی ارتقاء ہے جسے پروان چڑھانے کی ضرورت ہے۔ یہ بیج ماں بوتی ہے اور ماں یہ کام کرتی ہے۔ اسی طرح اخلاقیات۔ تو [اس کا] کردار لاجواب ہے۔

اب یہ دونوں کردار اہم ہیں۔ میں کئی بار کہہ چکا ہوں، یہ میری رائے ہے، کہ یہ عورت کے سب سے اہم اور اصلی فرائض ہیں۔ یعنی، اب ان خاتون نے کہا، "میں ایک گھریلو خاتون ہوں"، تو یہ بہت اچھی بات ہے۔ اسلام کے مطابق عورت کا بنیادی کردار گھریلو خاتون کا کردار ہے لیکن اہم بات یہ ہے کہ خاتون خانہ کا مطلب گھر میں رہنا نہیں ہے۔ کچھ ان کو ایک دوسرے کے ساتھ الجھاتے ہیں۔ جب ہم خانہ داری کہتے ہیں تو وہ سمجھتی ہیں کہ ہم کہہ رہے ہیں گھر کے اندر بیٹھیں، کچھ نہ کریں، کوئی کام نہ کریں، پڑھائی نہ کریں، جدوجہد نہ کریں، سماجی کام نہ کریں، سیاسی سرگرمیاں انجام نہ دین۔ یہ خانہ داری کا مفہوم نہیں ہے۔ خانہ داری کا مطلب ہے گھر کا سنبھالنا۔ گھر سنبھالنے کے علاوہ، آپ کوئی اور کام بھی کر سکتی ہیں جسے آپ انجام دے سکتی ہیں اور آپ میں اس کی خواہش اور جذبہ ہے؛ تاہم، سب کچھ خانہ داری کے تحت ہے. اگر بچے کی جان بچانے یا دفتر میں کام کرنے کے درمیان معاملہ پیش جائے تو اس بچے کی جان بچانا ضروری ہے۔ کیا آپ کو اس بارے میں کوئی شک ہے؟ نہیں، اس کا مطلب یہ ہے کہ کسی بھی عورت کو کوئی شک نہیں کہ اگر بچے کی جان کو خطرہ ہو یا دفتر کا کام خطرے میں ہو تو بچے کی جان بچانا لازم ہے۔ بچے کا اخلاق وہی ہوتا ہے، بچے کا ایمان بھی اسی طرح ہے اور بچے کی تربیت بھی اسی طرح ہے۔ یعنی جس طرح آپ کو بچے کی زندگی بچانے میں کوئی شک نہیں، اسی طرح تربیت کے بارے میں بھی ہے۔ البتہ کچھ جگہیں ایسی ہیں جہاں آپ ان امور کے درمیان کسوٹی کو دور کر سکتے ہیں، ایک خاص طریقہ سے، ایک تدبیر سے، کچھ معاملات کو حل کیا جا سکتا ہے، لیکن اگر واقعی مشکل پیش آجائے اور کوئی دوسرا راستہ نہ ہو تو، یہ دفتری کام پر ترجیح رکھتا ہے۔ لیکن [اگر] وہ جائز کام ہے، ضروری کام ہے، بعض صورتوں میں ضروری ہو - یعنی سماجی کام بعض صورتوں میں ایک فریضہ ہے، ذمہ داری ہے، آپ کو اسے کرنا چاہیے تو- پھر اسے کرنا چاہیے۔

البتہ جہاں تک فریضے کی بات ہے تو اس پر منحصر ہے کہ یہ فرض کس قدر اہم ہے۔ اب میں نے جان بچانے کی ایک مثال دی [لیکن] بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ جب فریضے کی اہمیت ایک بچے کی زندگی سے، ایک زوجہ کی زندگی سے، ایک انسان کے والدین کی زندگی سے زیادہ ہوتی ہے۔ اس لیے آپ امام حسین سے عرض کرتے ہیں: بِاَبی اَنتَ وَ اُمّی (14) میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں۔ والدین سے بلند کون ہے؟ ان کی زندگی آپ پر قربان۔ یا قرآن کی آیت میں [وہ کہتا ہے]: "قُل اِن کانَ آباؤُکُم وَ اَبناؤُکُم وَ اِخوانُکُم" یہاں تک کہ اس کا بقیہ حصہ: "اَحَبَّ اِلَیکُم مِنَ اللهِ وَ رَسولِهِ وَ جِهادٍ فی‌ سَبیلِهِ فَتَرَبَّصوا" (15) ان سے خدا کی راہ میں جہاد سے زیادہ محبت نہیں کرنی چاہیے، بعض جگہوں پر ایسا ہوتا ہے۔ جب فریضہ اہم ہو جائے تو بچے کی جان سے بھی زیادہ اہم ہو جاتا ہے۔ تاہم، دوسری صورتوں میں، عام معاملات میں، عورت کے فرائض کا محور گھرانہ ہے، اور حقیقت میں، پورے گھرانے کو عورت کی موجودگی کے بغیر، عورت کی فعالیت کے بغیر، ذمہ داری کے احساس کے بغیر اس کا انتظام نہیں چلایا جا سکتا؛ یہ خواتین کے بغیر نہیں چل سکتا۔ بعض اوقات گھرانے میں چھوٹی باریک گرہیں ہوتی جو عورت کی نازک انگلی کے علاوہ نہیں کھل سکتی ہیں۔ مرد چاہے کتنا ہی مضبوط اور قابل ہو، وہ کچھ گرہیں نہیں کھول سکتا۔ یہ نازک گرہیں اور بعض اوقات اندھی گرہیں صرف عورت کی نازک انگلیوں سے ہی کھولی جا سکتی ہیں۔ یہ گھرانے سے متعلق۔
البتہ گھرانے کے مسئلے کی نگاہ سے اگر ہم مغرب کے مسائل کو دیکھنا چاہتے ہیں تو وہاں تباہی ہے۔ وہاں ایک تباہی ہے! مغرب نے گھرانے کو تباہ کر دیا ہے۔ واقعی تباہ کردیا ہے۔ البتہ جب میں یہ کہتا ہوں کہ تباہ ہوگیا ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ مغرب میں کسی قسم کا گھرانہ ہی نہیں ہے۔ نہیں، کچھ اچھے گھرانے بھی ہیں، وہ واقعی گھرانہ ہیں۔ کچھ خاندان کا صرف چہرہ ہوتے ہیں، گھرانے کی روح انکے اندر نہیں ہے۔ میں نے ایک مغربی امریکی تحریر میں پڑھا تھا کہ ایک مرد اور عورت اپنے بچوں کو صحیح طریقے سے دیکھنے اور ایک گھرانہ بننے کے لیے ایک معین وقت ملاقات طے کرتے ہیں کہ ایک خاص وقت پر آپ دفتر سے آئیں، زوجہ بھی دفتر سے آجائے۔ مثلا شام  4 سے 6 بجے، چائے یا شام کا ناشتہ ایک ساتھ کھائیں۔ یعنی ایک خاص وقت پر وہ آجائے، یہ آجائے، بچے اسکول سے آجائیں، آکر بیٹھ جائیں اور ایک ساتھ چائے پی لیں۔ یہ گھرانہ ہے! پھر یہ اپنے کام پر چلا جائے، وہ اپنی راتیں گزارنے جائے، اپنی دوستی کے پیچھے۔ یہ گھرانہ نہیں ہے۔ یہ صرف گھرانے کا چہرہ ہے۔

مغرب والوں نے واقعی گھرانے کو ہر قسم کے مسائل سے تباہ کر دیا ہے جن کا میں نے پہلے ذکر کیا ہے، اور [یہ] گھرانے کے بتدریج خاتمے کا باعث بنا ہے، جس نے خود مغربی مفکرین کی چیخیں نکال دی ہیں۔ ان کے بہت سے خیر خواہوں اور مصلحین نے اس طرف توجہ دی ہے اور چیخ رہے ہیں۔ تاہم، میں سمجھتا ہوں کہ اب ان کے پاس کوئی چارہ نہیں ہے۔ یعنی

بعض مغربی ممالک میں تنزلی اس قدر تیز ہو گئی ہے کہ اب اسے روکا نہیں جا سکتا، وہ مکمل تباہی کی طرف جا رہے ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ گھرانے کی اصلاح نہیں ہو سکتی۔ یہ گھرانے سے متعلق۔

کچھ اور چیزیں ہیں جن کے بارے میں بدقسمتی سے میں مزید بات نہیں کر سکتا۔ ایک مسئلہ حجاب کا۔ حجاب ایک شرعی ضرورت ہے۔ شریعت ہے؛ یہ شرعی ضرورت ہے۔ یعنی حجاب کی فریضہ میں کوئی شبہ نہیں ہے؛ یہ سب کو معلوم ہونا چاہیے۔ کہ اب وہ خدشہ ظاہر کرتے ہیں کہ کیا حجاب ضروری ہے، لازم ہے، نہیں، شک کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ یہ ایک دینی فریضہ ہے جس کی پابندی لازم ہے لیکن جو لوگ حجاب کی مکمل پابندی نہیں کرتے ان پر بے دینی اور ضد انقلاب کا الزام نہیں لگانا چاہیے۔ نہیں. میں پہلے ہی کہہ چکا ہوں؛ ایک دفعہ میں نے اپنے ایک صوبائی دورے کے دوران علمائے کرام کے اجتماع میں یہ بات کہی، (16) علماء وہاں جمع تھے۔ میں نے کہا، آپ میں سے بعض لوگ اس عورت کو کہ جس کے کچھ بال نکلے ہوئے ہیں، یا عام اصطلاح میں، بدحجاب کہلاتی ہے - جسے حقیقت میں کمزور حجاب کہنا چاہیے؛ اس کا حجاب کمزور ہے - کیوں الزام لگاتے ہیں؟ میں اس شہر میں داخل ہوا، ایک ہجوم میرا استقبال کرنے آیا۔ ہو سکتا ہے کہ اس ہجوم کا ایک تہائی حصہ ایسی عورتیں ہوں، وہ آنسو بہا رہی تھیں۔ اسے ضد انقلاب نہیں کہا جا سکتا۔ یہ کیسی انقلاب مخالف ہے جو جوش و خروش کے ساتھ آتی ہے اور مثال کے طور پر فرض کریں کہ وہ کسی مذہبی تقریب یا کسی انقلابی تقریب میں شریک ہوتی ہے۔ یہ ہمارے بچے ہیں، ہمارے بچیاں ہیں۔ میں نے عید الفطر کے خطبہ میں یہ بات کئی بار دہرائی ہے کہ رمضان کی محافل کے دوران، شب قدر میں - میرے پاس اس کی تصاویر لائی جاتی ہیں، اب میں [وہاں نہیں جا سکتا]، لیکن وہ مجھے اس کی تصویر دکھاتے ہیں - خواتین مختلف شکلوں کے ساتھ، مختلف قسم کے لوگ آنسو بہا رہے ہیں۔ مجھے اس قسم کے آنسوؤں بہانے پر رشک اتا ہے! کاش میں اس لڑکی کی طرح رو سکتا، اس نوجوان بچی کی طرح۔ یہ الزام کیسے لگایا جا سکتا ہے؟ ہاں ایسا کرنا درست نہیں ہے، ناقص حجاب پہننا یا کمزور حجاب پہننا درست نہیں ہے، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہم ان لوگوں کو دین اور انقلاب وغیرہ کے میدان سے خارج کردیں اور ان کو اس طرح جانیں۔ کیوں؟ یقیناً، ہم سب میں کچھ خامیاں ہیں، ہمیں ان کو ٹھیک کرنا چاہیے۔ ہم جتنا زیادہ ٹھیک کر سکتے ہیں، اتنا ہی بہتر ہے۔ یہ ایک بات ہے اور دوسرا نکتہ جو حجاب کے مسئلے سے متعلق تھا۔

ایک مسئلہ جس کے بارے میں بدقسمتی سے میرے پاس بات کرنے کا وقت نہیں ہے وہ ہے خواتین کے حوالے سے اسلامی جمہوریہ کی خدمات۔ یہ نہیں بھولنا چاہیے۔ دیکھیں، مجھے نہیں لگتا کہ آپ میں سے کسی نے انقلاب سے پہلے کا دور دیکھا ہو گا۔ ہم نے اپنی زندگی کا تقریباً نصف انقلاب سے پہلے کے عرصے میں گزارا۔ انقلاب سے پہلے کے دور میں بہت کم عورتیں تھیں جو معاملہ فہم، سمجھدار، دانشور، تعلیم یافتہ، محقق اور مختلف شعبوں کی ماہر تھیں۔ یہ تمام خواتین یونیورسٹی پروفیسرز، یہ تمام ماہر خواتین ڈاکٹرز، مختلف شعبہ جات میں یہ تمام ریسرچ سائنسدان  - جب میں کہتا ہوں کہ مختلف شعبہ جات واقعی ایسی جگہیں ہیں جہاں میں گیا، دیکھا، مشاہدہ کیا - جدید علم، جدید ٹیکنالوجی، خواتین سائنسدان، ممتاز خواتین وہاں کام کرتی ہیں۔ یہ انقلاب سے پہلے ناپید تھا۔ انقلاب نے یہ کارنامہ انجام دیا۔ یہ اتنی تعداد میں طالبات، کچھ سالوں میں آپ دیکھ سکتے ہیں کہ اعداد و شمار میں طالبات کی تعداد مردوں سے زیادہ ہے۔ اس کی بہت زیادہ اہمیت ہے؛ تحصیل علم کی یہ اتنی خواہش۔

پھر کھیلوں کے میدانوں میں؛ آپ دیکھیں، ہماری بچیاں کھیلوں کے میدانوں میں جاتی ہیں، فاتح قرار پاتی ہیں، اسلامی حجاب کے ساتھ سونے کا طمگہ جیتتی ہیں۔ حجاب کی اس سے بہتر کون سی تشہیر ہے؟ ان میں سے کچھ خواتین آئیں اور اپنا طمغہ مجھے دیا۔ بلاشبہ، میں اسے انکے پاس رکھنے کے لیے واپس کردیتا ہوں۔ لیکن مجھے ایسی خواتین پر واقعی فخر ہے۔ ایک ایسے بین الاقوامی میدان میں جسے لاکھوں لوگ کیمروں کی آنکھ سے دیکھتے ہیں، یہ ایرانی بچیاں وہاں جاتی ہے، طمغے حاصل کرتی ہیں، اپنے ملک کا پرچم بلند کرتی ہے اور پھر حجاب کے ساتھ کھڑی ہوتی ہے۔ حجاب کی تشہیر اس سے بہتر، اس سے بڑھ کر؟ مختلف شعبوں میں، بین الاقوامی علمی مقابلوں میں، مختلف جگہوں پر، خواتین نے ہر جگہ ترقی کی ہے۔ یعنی واقعی ایسا ہی ہے۔ خیر، اب ان خواتین میں سے چند ایک نے کہا کہ [خواتین] کو ملازمت نہیں دی جاتی، فیصلہ سازی اور پالیسی سازی میں عملی طور پر شریک نہیں ہوتیں، ہاں یہ ایک عیب ہے، اس میں کوئی شک نہیں، اس عیب کو دور کرنا چاہیے۔ لیکن اس کثرت کے ساتھ عقلمند، دانشور، محقق، ماہر، مصنفہ خواتین کا ہونا قابل توجہ ہے، میں ان کتابوں سے بہت مستفید ہوتا ہوں جو شہداء، شہداء کی ازواج اور شہداء کے گھرانوں کے بارے میں ہیں اور وہ میرے پاس لائی جاتی ہیں، ان کی مصنفین زیادہ تر خواتین ہیں جو مردوں سے بھی آگے نکل چکی ہیں۔ کیا خوبصورت قلم، کیا انداز تحریر! خواتین شاعرہ، بہت اچھی شاعرہ۔ وہی نظم جو ان خاتون ناظم(17) نے پڑھی تھی بہت اچھی نظم تھی جو خود ان کی لکھی ہے۔ یہ بھی ایک نکتہ ہے۔

اور میں یہ کہنا چاہوں گا کہ ان حالیہ معاملات میں، آپ نے دیکھا، حجاب کے خلاف بہت کچھ کیا گیا ہے۔ ان کوششوں اور تقاضوں کے خلاف کون کھڑا ہوا؟ خود خواتین؛ عورتیں اٹھ کھڑی ہوئیں۔ انہیں ان عورتوں سے امید تھی کہ آپ انہیں ناقص حجاب والی کہتی ہیں۔ انہیں ان سے امید تھی۔ ان کی امید تھی کہ وہی خواتین جن کے ناقص حجاب ہیں وہ حجاب کو مکمل طور پر اتار لیں گی، [لیکن] انہوں نے ایسا نہیں کیا۔ یعنی مطالبہ کرنے والے اور تشہیر کرنے والوں دونوں کے منہ پر طمانچہ رسید کیا۔

آخری بات میں یہ کہنا چاہوں گا کہ ہم نے جتنے بھی نکات بیان کئے، ان تمام تعریفوں کے ساتھ، جو ہم نے کیں، جو درست بھی ہیں، انصاف کی بات یہ ہے کہ ہمارے معاشرے کے بعض گھرانوں میں خواتین پر ظلم کیا جاتا ہے۔ اپنی جسمانی طاقت پر انحصار کرتے ہوئے، کیونکہ اس کی آواز بلند ہے، اس کا قد لمبا ہے، اس کے بازو طاقتور ہیں، وہ عورت سے زبردستی کرتا ہے؛ عورتیں مظلوم ہیں؛ تو کیا حل ہے؟ ہمیں کیا کرنا چاہئے؟ ہم گھرانے کو بھی محفوظ رکھنا چاہتے ہیں۔ طریقہ یہ ہے کہ گھرانے سے متعلق قوانین اتنے مضبوط ہوں کہ کوئی مرد عورت پر ظلم نہ کر سکے۔ یہاں مظلوم فریق کی مدد کے لیے قوانین کو آنا چاہیے۔ البتہ بہت کم معاملات ایسے ہوتے ہیں جہاں معاملہ اس کے برعکس ہوتا ہے، یعنی مرد پر ظلم ہوتا ہے۔ ہمارے پاس اس طرح کے کیسز بھی ہیں۔ البتہ یہ کم ہے اور زیادہ تر معاملات وہی ہیں جو میں نے پہلے کہا تھا۔ ہم امید کرتے ہیں کہ انشاء اللہ یہ تمام معاملات ٹھیک ہو جائیں گے۔

میں نے ان نکات سے جو خواتین نے بیان کئے استفادہ کیا۔ ہم امید کرتے ہیں کہ انشاء اللہ یہ تمام مسائل بہترین طریقے سے خیر کے انجام کو پہنچیں اور میں اللہ تعالی سے آپ سب کے لیے خیر، صحت اور عافیت کی دعا کرتا ہوں۔

و السّلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

(1) رہبر انقلاب اسلامی کی تقریر سے پہلے محقق اور ملک کی ثقافتی و سماجی کونسل کی رکن محترمہ عاطفہ خادمی، مصنفہ اور خاتون خانہ محترمہ پریچہر جنتی، جرمنی کی عدالتوں میں کام کرنے والی ماہر قانون محترمہ مریم نقاشان، ڈاکیومینٹری فلموں کے شعبے میں قومی اور بین الاقوامی انعامات جیتنے والی محترمہ مہدیہ سادات محور، شہید بہشتی میڈیکل یونیورسٹی کی پروفیسر محترمہ شہرزاد زادہ مدرس، جوان لڑکیوں کے امور میں سرگرم خاتون محترمہ نگین فراہانی اور کمیونیکیشنز سائنسز میں پی ایچ ڈی اور اعلی دینی تعلیمی مرکز کی طالبہ سارا طالبی نے کچھ باتیں پیش کیں۔

(2) سورۂ احزاب، آیت 5، بے شک مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں، مؤمن مرد اور مؤمن عورتیں، اطاعت گزار مرد اور اطاعت گزار عورتیں، سچے مرد اور سچی عورتیں، صابر مرد اور صابر عورتیں، عاجزی کرنے والے مرد اور عاجزی کرنے والی عورتیں، صدقہ دینے والے مرد اور صدقہ دینے والی عورتیں، روزہ دار مرد اور روزہ دار عورتیں، اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرنے والے مرد اور حفاظت کرنے والی عورتیں اور اللہ کو بکثرت یاد کرنے والے مرد اور یاد کرنے والی عورتیں اللہ نے ان کے لیے مغفرت اور بڑا اجر و ثواب مہیا کر رکھا ہے۔

(3) سورۂ آل عمران، آيت 195، میں کسی عمل کرنے والے کے عمل کو، خواہ وہ مرد ہو یا عورت، کبھی ضائع نہیں کرتا۔

(4) سورۂ بقرہ، آيت 228، دستورِ شریعت کے مطابق عورتوں کے کچھ حقوق ہیں جس طرح کہ مردوں کے حقوق ہیں۔

(5) سورۂ تحریم، آيت 10، تو وہ دونوں نیک بندے اللہ کے مقابلے میں انھیں کچھ بھی فائدہ نہیں پہنچا سکے۔

(6) سورۂ تحریم، آيت 11، اوراللہ اہل ایمان کے لیے فرعون کی بیوی کی مثال پیش کرتا ہے۔

(7) سورۂ قصص، آيت 9، اسے قتل نہ کرو۔

(8) سورۂ تحریم، آيت 12، جس نے اپنی پاکدامنی کی حفاظت کی۔

(9) سورۂ یس، آيت 36، پاک ہے وہ ذات جس نے سب اقسام کے جوڑے جوڑے پیدا کیے ہیں خواہ (نباتات) ہوں جنھیں زمین اگاتی ہے یا خود ان کے نفوس ہوں (بنی نوع انسان) یا وہ چیزیں ہوں جن کو یہ نہیں جانتے۔

(10) سورۂ ذاریات، آيت 49، اور ہم نے ہر چیز کے جوڑے پیدا کیے (ہر چیز کو دو دو قِسم کابنایا) تاکہ تم نصیحت حاصل کرو۔

(11) کافی، جلد 11، صفحہ 170

(12) سورۂ اعراف، آیت 189، اور پھر اس کی جنس سے اس کا جوڑا بنایا تاکہ وہ (اس کی رفاقت میں) سکون حاصل کرے۔

(13) سورۂ روم، آیت 21، اس نے تمھارے لیے تمھاری ہی جنس سے جوڑے پیدا کیے تاکہ تم ان سے سکون حاصل کرو اور تمھارے درمیان محبت اور رحمت (نرم دلی و ہمدردی) پیدا کر دی۔

(14) کامل الزیارات، صفحہ 177 (زیارت عاشورا)

(15) سورۂ توبہ، آیت 24، (اے رسول) کہہ دیجیے کہ اگر تمھارے باپ، تمھارے بیٹے، تمہارے بھائی ... تم کو اللہ، اس کے رسول اور راہِ خدا میں جہاد کرنے سے زیادہ عزیز ہیں تو پھر انتظار کرو۔

(16) شمالی خراسان صوبے کے علماء، فضلاء اور دینی طلباء سے خطاب، 30/9/2012

(17) محترمہ نفیسہ سادات موسوی