ویب سائٹ دفتر رہبر معظم انقلاب اسلامی

بسیج کے سینکڑوں ارکان سے ملاقات میں خطاب

بسم اللّہ الرّحمن الرّحیم.

و الحمد للّہ ربّ العالمین و الصّلاۃ و السّلام علی سیّدنا محمّد و آلہ الطّاھرین سیّما بقیّۃ اللّہ في الارضین ارواحنا فداہ

خوش آمدید عزیز برادران، خواہران، دلیر بسیجی نوجوانوں؛ خدا کا شکر ہے کہ آپ نے ہمارے حسینیہ کو بسیجی نور سے منور کیا۔ آپ سب کو بلکہ پوری ایرانی قوم کو بھی ہفتہ بسیج مبارک ہو۔

بسیج فورس کی تشکیل ہمارے عظیم امام خمینی رح کے مبارک اقدامات میں سے ایک تھی۔ بلاشبہ ان کے عظیم اقدامات، وہ اقدامات جنہوں نے ملکی تاریخ میں، لوگوں کی زندگیوں میں بڑی تحریکیں پیدا کیں، یہ صرف ایک یا دو نہیں تھے، بلکہ ان میں سے ایک اہم اور سب سے بڑا اقدام بسیج کی تشکیل تھا، جسے انہوں نے آذر، سن 58 کے اوائل میں اپنی مشہور تقریر میں اعلان کیا کہ ملک میں 20 ملین لوگوں کے بسیجی لشکر بنانے کی ضرورت ہے۔ یہ 1358 کی بات ہے۔ بسیج کی برکات اور اس عظیم اقدام کا اتنا بڑا اثر تھا کہ دسمبر 1367 میں یعنی نو سال بعد امام نے بسیج کی تعریف میں وہ بلند و بالا مضامین پر مشتمل اور طویل بیانیہ جاری کیا(1)۔ ان نو سال میں ایسا کیا واقعہ پیش آیا جس نے امام خمینی رح  کو اس طرح متاثر کیا کہ انہوں نے اس بیانیہ میں ایسے بلند و بالا مضامین اور اعلی و ارفع تعبیرات اور اس طرح کے غیر معمولی عنوانات استعمال کئے؟

اب میں عظیم امام خمینی رح کے ان بلند مضامین میں سے چند جملے عرض کرتا ہوں تاکہ آپ کو یاد آسکے کہ ہمارے عزیز امام نے اس بیان میں اور درحقیقت اس تقریر میں بسیج کے ساتھ اس طرح بات کی ہے جیسے اپنے بچوں سے محبت کرنے والا باپ کرتا ہے۔ میں وہ جملے پڑھتا ہوں: بسیج عشق و محبت کی درس گاہ اور گمنام شاہدان اور شہیدوں کا مکتب ہے، جنہوں نے اسکے بلند میناروں پر شہادت اور جرأت کی صدا دی۔" کیا عظیم تعابیرات ہیں، کیا اعلیٰ مضامین ہیں! "یہ ایک پھل دار درخت ہے جس کی کلیاں موسم بہار کی مہک، یقین کی تازگی اور عشق کی داستان ہیں۔" بے شک، میں یہ جملے یکے بعد دیگرے نہیں پڑھوں گا۔ جائیں اور توجہ کریں، یہ جملے آپ سے مخاطب ہیں۔ پھر کہتے ہیں: "مجھے فخر ہے کہ میں جود بسیجی ہوں"۔ اس عظمت کے ساتھ جس نے دنیا کو ہلا کر رکھ دیا اور تاریخ کو ہلا کر رکھ دیا، امام فرماتے ہیں کہ مجھے بسیج کا رکن ہونے پر فخر ہے۔ پھر فرماتے ہے: "میں آپ میں ہر ایک کے ہاتھوں کو چومتا ہوں"۔ یہ واقعی ناقابل فراموش ہیں۔ آپ، آج کے بسیجی، اس بیانیے کے مخاطب ہیں۔ امام نے 60 کی دہائی کی بسیج نہیں کہا، [انہوں نے کہا] بسیج؛ آپ اور آپ کے بعد کے بدسیجی، آئندہ زمانوں تک، تمام بسیجی اس امام خمینی رح کے فرمان کے مخاطب ہیں جو امام فرماتے ہیں کہ میں آپ کے ہاتھ چومتا ہوں۔

اس بیان میں - آذر سن 67 کا بیان - امام طلباء کی بسیج کا اعلان کرتے ہیں(2)۔ اس کا ایک خاص مطلب ہے۔ وہ یونیورسٹی طلبہ سے مطالبہ کرتے ہیں، وہ دینی علوم کے طلبہ سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ متحرک ہوجائیں، بسیج بن جائیں۔ اس کا مطلب ہے کہ بسیج کا تعلق صرف عسکری میدان سے نہیں ہے۔ بسیج علم، دینی اور دنیاوی علم سمیت تمام شعبوں میں موجود ہونی چاہیے۔ توجہ دیں، یہ ایک اہم نکتہ ہے۔ ایسا کرکے عظیم امام نے درحقیقت خطرے کو موقع میں بدل دیا۔ وہ خطرہ کیا تھا؟ امام نے یہ اعلان 4 آذر 58 کو کیا اور در حقیقت بسیج کی تشکیل کا حکم دیا۔ یعنی جاسوسی کے اڈے (امریکی ایمبیسی) پر قبضہ کرنے کے تقریباً بیس دن بعد۔ ابان کی 13 تاریخ کو جاسوسی کے اڈے پر قبضہ کیا گیا۔ یہ امام کا پہلا بیانیہ اور فرمان 4 آذر کو جاری ہوا۔ اس کے بعد کہ 13 آبان کو یہ واقعہ پیش آیا اور جاسوسی کے اڈے کو پیرو خط امام تنظیم کے طلباء نے اپنے قبضے میں لے لیا اور وہاں سے دستاویزات نکال لی گئیں، امریکی بہت ناراض ہوئے اور دھمکیاں دینا شروع کر دیں۔ زبانی دھمکی اور عملی دھمکی دونوں۔ ان کا عملی دھمکی یہ تھی کہ وہ رفتہ رفتہ اپنے بحری جہاز خلیج فارس لے آئے۔ یہ دھمکیاں تھیں۔ خاموش رہنے یا خوفزدہ ہونے کے بجائے، عموماً ملک کے سربراہان خوفزدہ ہو جاتے ہیں، جیسے ہی امریکہ کی ناراضگی نظر آتی ہے، وہ خاموش، خوفزدہ، ساکت ہو جاتے ہیں۔ امام خمینی رح اس کے برعکس، قوم کو ایک عمومی طور پر متحرک کرکے میدان میں لائے، یعنی اس خطرے کو موقع میں بدل دیا۔ جس کی وجہ سے میدان جنگ صرف سرکاری اداروں تک محدود نہیں رہا، قوم کے افراد شامل ہوئے۔ یہ خطرے کو موقع میں بدلنا ہے۔ یہ امام کی خصوصیات میں سے ایک اور امام کی خداداد صفت تھی جو خطرات کو مواقع میں بدل دیتی تھی۔

یہاں ایک اہم نکتہ ہے، جس کا میں نے ذکر کیا ہے، اور وہ یہ ہے کہ اگرچہ بسیج عسکری میدان میں بہترین طریقے سے سامنے آئی، یقیناً جب امام نے یہ بیان دیا تھا، جنگ ابھی شروع نہیں ہوئی تھی۔ بعد میں، جب سن 1359 میں جنگ شروع ہوئی تو میدان جنگ میں بسیج کی موجودگی بہت موثر تھی، یہ کارگر ثابت ہوئی۔ حقیقی معنوں میں، یہ فوج اور سپاہ پاسداران جیسی سرکاری عسکری تنظیموں کا ایک بہت اہم بازو تھی - [اگرچہ] میدان جنگ میں بسیج کا امتحان کامیابی سے سر ہوا، لیکن بسیج صرف ایک عسکری تنظیم نہیں ہے؛ یہ بنیادی نکتہ ہے۔ بسیج ان باتوں سے بالاتر ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کا وقار اور مقام عسکری تنظیم سے زیادہ ہے۔ [بسیچ] کیا ہے؟ بسیج ایک ثقافت ہے، بسیج ایک مکتب فکر ہے، بسیج ایک نظریہ ہے۔

یہ کیسی سوچ ہے؟ یہ ثقافت کیا ہے؟ یہ ثقافت معاشرے اور ملک کے لیے بے لوث اور رضاکارانہ خدمت سے عبارت ہے۔ یہ بہت اہم ہے۔ بغیر کسی توقع کے، بغیر توقع کیے کہ ان کے لیے کوئی "بارک اللہ" کہے، یہاں تک کہ بہت سے معاملات میں بغیر سرمایے کے، بغیر پیسے دیے، اسے میدان میں داخل ہونے کے لیے سہولیات دیے بغیر - آخر ہر فعالیت کو  وسائل کی ضرورت ہوتی ہے۔ انکے بغیر مختلف شعبوں میں داخل ہونا، جہادی خدمات انجام دینا ہے اور جہادی خدمت کے خطرات مول لینا۔ یہ بسیجی ثقافت ہے۔ بسیجی ثقافت کا کیا مطلب ہے؟ یعنی سیلاب زدہ گھرانوں کے کمروں سے کیچڑ صاف کرنے کے لیے کیچڑ میں گھٹنے تک دھنس جانا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ کورونا کے مریضوں کو بچانے اور انہیں موت کے خطرے سے دور رکھنے کے لیے خود کو کورونا وائرس سے متاثر ہونے اور موت کے خطرے میں ڈالنا ہے۔ بسیج کی ثقافت کا مطلب ہے خیراتی کام کرتے ہوئے نہ تھکنا، جس کی عکاسی انہوں نے اس تصویری نمائش میں کی جب ہم آ رہے تھے۔(3) بلاشبہ، میں اس بات سے پوری طرح واقف ہوں کہ بسیجوں نے خیراتی کاموں کی کال پر اور اس سمت میں فعالیت، یا جہادی کیمپوں میں کیا کام کئے ہیں۔ یہ بسیج ہے؛ بسیج ثقافت کا مطلب یہ ہے۔ انہوں نے انتظار نہیں کیا کہ کوئی بارک اللہ کہے، شاباش۔ نہیں، وہ جہاں تک ہو سکے گئے اور بعض صورتوں میں انتہائی جدید اور خلاق طریقوں سے، انہوں نے اس امداد کو پورے ملک تک پھیلایا۔ سائنس اور تحقیق کے میدان میں، لیبارٹریوں میں بسیج موثر ثابت ہوئی۔ نوجوان جو اہل علم تھے، اہل تحقیق تھے، اہل دانش تھے، بسیجی جذبہ رکھتے تھے، تجربہ گاہوں میں [متحرک تھے]۔ مختلف میدانوں میں، کورونا اور غیر کورونا شعبوں میں۔ ایک مثال ہمارے ایٹمی شہداء ہیں۔ یہ بسیجی تھے، یہ بسیجی ہیں۔ ایک مثال مرحوم کاظمی کی ہے (4) اور یہ مفصل ادارہ جو انہوں نے شروع کیا اور اس کے علاوہ سائنسی اور تحقیقی کام؛ بسیجی ثقافت یہ ہیں۔ اس وقت دشمن کا مقابلہ کرنے کے میدان میں یعنی عسکری میدان جنگ میں بغیر پرواہ کئے میدان میں آنا، دشمن سے خوفزدہ نہ ہونا، دشمن کو موقع نہ دینا؛ یہ ہے [بسیج ثقافت]۔ ہر سیاسی، عسکری اور علمی مہم میں شامل ہونا اور اپنی پوری توانائی سے استفادہ کرنا؛ یہ بسیجی ثقافت ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ بسیجی ثقافت گمنام مجاہدین کی ثقافت ہے - جیسا کہ امام جمینی رح کے بیان میں ذکر کیا گیا ہے - بے لوث مجاہدین کی ثقافت ہے؛ یہ خطرہ کا سامنا کرنا ہے، خوفزدہ نہ ہونا ہے، سب کے لیے اور ملک کے لیے خدمت کرنا ہے، دوسروں کیلئے قربانی دینا ہے، یہاں تک کہ مظلوم کو نجات دینے کے لیے خود کو مظلوم بنانا ہے۔ آپ نے ان حالیہ واقعات میں دیکھا کہ مظلوم بسیج گروہ خود مظلوم واقع ہوئے تاکہ قوم کو مٹھی بھر فسادیوں - غافل یا جاہل یا کرائے کے غلاموں- کے ہاتھوں مظلوم وقاع نہ ہونے دیں۔ دوسروں پر ظلم کو روکنے کے لیے وہ خود مظلوم واقع ہوجاتے ہیں۔ وہ اپنے آپ کو نا امید نہیں ہونے دیتے۔ یہ بسیجی ثقافت کے اہم ارکان میں سے ایک ہے۔ بسیج کے لیے مایوسی کوئی معنی نہیں رکھتی۔

خیر یہ بسیج اور بسیجی کی مختصر تعریف ہے۔ البتہ اگر ہم اس تناظر میں بات کرنا چاہیں تو ایک کے بعد ایک مفصل اور معنی خیز جملے کہے جا سکتے ہیں۔ مختصراً، وہی ہے جو ہم نے کہا؛ ساٹھ، اسی اور نوے کی دہائی سے بھی متعلق نہیں ہے۔ آپ 80 اور 70 کی دہائی وغیرہ سے ہیں، آپ تازہ نوجوان ہیں۔ آپ نے امام خمینی رح کو نہیں دیکھا، آپ نے انقلاب کا دور نہیں دیکھا، آپ نے مقدس دفاع کا دور نہیں دیکھا، لیکن آپ کے اندر میدان جنگ کے ایک جوان کا وہی جذبہ موجود ہے۔ اس کا 60، 90 اور 80 کی دہائی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ نسلی گیپ کی یہ باتیں اور ان جیسی باتیں، روشن خیال دانشوروں کی اپنی باتیں ہیں جو انکے فکری حلقوں کے اندر ہیں۔ حقائق مختلف ہیں۔ آج کی بسیج وہی ہے جو 60 کی دہائی میں تھی۔

ویسے ایک اور اہم نکتہ یہ ہے کہ آج ملک میں بسیج کو تربیت دینے، بسیجی کو تربیت دینے، بسیج میں تازہ خون داخل کرنے کی صلاحیت ہے اور بسیج میں ملک کو قدم بہ قدم بلند چوٹیوں کی جانب آگے بڑھانے کی صلاحیت ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ ملک میں بسیجی میں نشونما لانے اور اسے تر و تازہ رکھنے کی صلاحیت ہے، نیز بسیج میں- بسیج تنظیم اور کلی طور سے بسیجی اراکین؛ اب میں بیان کروں گا، ہمارے پاس تنظیمی بسیجی اور غیر تنظیمی بسیجی ہیں - اور ہمارے ملک میں بسیجی دنیا ملک کو ترقی دینے اور آگے بڑھانے کے لیے تیار ہے۔ جب ہم نے کہا کہ ملک میں صلاحیت ہے، تو یہ صلاحیت نئی پیدا نہیں ہوئی، یہ بہت پہلے سے موجود تھی، لیکن اسے دبا دیا جاتا تھا، اسکا استعمال نہیں کیا جاتا تھا۔ بسیج کو پروان چڑھانے کا وہی جذبہ جس کا ہم نے ذکر کیا ہے، جیسا کہ میدان میں آنا، خوفزدہ نہیں ہونا، دشمن سے لڑنا، ظالم حکومتوں اور ماضی کی طاغوتی حکومتوں میں بھی موجود تھا، لیکن یا تو غیر ملکیوں کا ملک پر غلبہ تھا اور انہوں نے دبایا، یا خود حکومتیں کرپٹ تھیں۔

اب میں نے یہاں اپنے پاس مثالیں لکھی ہیں۔ مثال کے طور پر، غیر ملکی مداخلت کے دور میں - یہ ہماری عصری تاریخ کے اسی دور سے تعلق رکھتا ہے، زیادہ عرصہ پہلے نہیں - تبریز میں، شیخ محمد خیابانی؛ ایک لحاظ سے وہ بسیجی ہیں۔ وہ اٹھتے ہیں، حرکت کرتے ہیں اور پھر شہید ہو جاتے ہیں۔ مشہد میں، محمد تقی خان پسیان؛ وہ بھی اسی طرح؛ بدقسمتی سے، آپ اکثر و بیشتر ان افراد کی سوانح حیات کو نہیں جانتے۔ آپ کو زیادہ کتابیں پڑھنی چاہیے، آپ کو ان کی سوانح حیات کو سمجھنا اور جاننا ہوگا۔ رشت میں، مرزا کوچک خان جنگلی؛ اصفہان میں، آقا انجفی اور حاج آقا نوراللہ؛ شیراز میں آقا سید عبد الحسین لاری اور کچھ دوسرے عظیم علماء، [جیسے] شیخ جعفر محلاتی؛ بوشہر میں رئیس علی دلواری، جن کے بارے میں ایک فلم بھی تیار اور نشر کی گئی ہے۔ اور دوسری جگہوں پر بھی ایسا ہی ہے۔ اب مجھے یہ یاد آگئے، میں نے انہیں لکھ دیا۔ اکثر ان کو دبا دیا جاتا تھا۔ یعنی ایک یا دو کے علاوہ ان میں سے تقریباً سبھی کو دبا دیا گیا تھا۔ یا تو انہیں دبایا گیا یا ان کی مدد نہیں کی گئی یا حکومتوں نے ان کے لیے رکاوٹیں کھڑی کیں۔ [تو] یہ بسیجی جذبہ موجود تھا۔ لیکن انقلاب کے دوران، اس صلاحیت میں پہلے تو اضافہ ہوا کیونکہ انقلاب نے امید دی تھی۔ انکے کہے کے مطابق 2500 سال پرانی حکومت پر فتح نے لوگوں کے استکبار اور آمریت مخالف جذبے کو تقویت بخشی، اس بسیجی صلاحیت میں اضافہ ہوا۔ پھر ملک کے سربراہ امام خمینی رح جیسی ہستی نے بسیج کو زندگی اور روح بخشی، تو یہ صلاحیت زندہ ہوئی اور یہ استعداد فعال ہوگئی۔

ہم نے کہا کہ بسیج مقدس دفاع میں سرگرم عمل تھی۔ یقیناً اس وقت ہم نے خود اس حساس اور عظیم میدان کے تھوڑے سے حصے اور گوشے دیکھے تھے، ہم نے بھی مشاہدہ کئے تھے، لیکن جو کچھ ان کتابوں اور ان سوانح عمریوں میں ہے وہ اس چیز کا سینکڑوں گنا اور شاید ہزار گنا زیادہ ہے جو ہم نے دیکھا؛ شہداء کی سوانح عمری کی ان کتابوں میں، میدان جنگ کے ممتاز افراد کی سوانح حیات میں عجیب و غریب باتیں ہیں۔ اب اگر ممتاز افراد جن کا کوئی نام و نشان نہ بھی ہو، وہ کسی لشکر کے سپہ سالار نہیں تھے، وہ صرف ایک خالص بسیجی تھے، لیکن وہ عظیم افراد تھے، عظمت کے حامل تھے۔ [یہ] واقعی انسان کو حیران کر دیتا ہے۔ یہ میدان جنگ سے متعلق تھا۔ سائنسی میدان میں بھی جوہری سائنسدان، رویان ادارے کے سائنسدان، دیگر سائنسی اور تحقیقی مراکز اور دیگر مختلف مراکز۔
آج، خدا کا شکر ہے، ہمارے پاس لاکھوں بقاعدہ بسیج ارکان ہیں جو تنظیم میں ممبر ہیں۔ ہمارے پاس لاکھوں غیر رکن بسیج رضاکار بھی ہیں۔ وہ نوجوان جو مساجد، یونیورسٹیوں، انجمنوں، اسکولوں اور دیگر جگہوں پر بسیج کی یہی سرگرمیاں انجام دیتے ہیں، اور وہ دراصل بسیج ہیں، لیکن وہ تنظیمی بسیجی نہیں ہیں، وہ بسیج تنظیم میں [رکن] نہیں ہیں۔ ہمارے ملک میں اس بسیج کے رجحان کے تسلسل میں اسلامی دنیا میں بھی بسیج ہے۔ ہمارے پاس اسلامی دنیا میں بھی لاکھوں بسیجی ہیں۔ بسیج جو ہماری زبان نہیں سمجھتے، ہم بھی ان کی زبان نہیں سمجھتے، لیکن ہمارے اور انکے دل کی زبان ایک ہے۔ ان کی سمت ہماری سمت ہے۔ مختلف ممالک میں؛ یہ بھی بسیج کی برکات ہیں۔

خیر یہ امام خمینی رح کی یادگار ہے جو آج بھی باقی ہے اور کل بھی باقی رہے گی اور انشاءاللہ ملک اس کے ثمرات دیکھے گا۔ امام خمینی رح نے بسیج کے بارے میں جو جملے کہے ہیں، وہ اسے شجرہ طیبہ سمجھتے تھے؛ (5) شجرہ طیبہ وہی ہے جیسا کہ قرآن میں ہے: «کَیفَ ضَرَبَ اللَّهُ مَثَلاً کَلِمَةً طَیِّبَةً کَشَجَرَةٍ طَیِّبَةٍ اَصلُها ثابِتٌ وَ فَرعُها فِی السَّماء * تُؤتی اُکُلَها کُلَّ حینٍ بِاِذنِ رَبِّها» (6) شجرہ طیبہ کی خصوصیت یہ ہے کہ یہ ہر دور میں اپنے میٹھے پھل اور اپنے نتائج دیتا ہے۔ ہم نے کہا کہ بسیج میں ملک کو آگے لے جانے کی صلاحیت ہے، اب میں ان میں سے کچھ نتائج پیش کروں گا۔

سب سے پہلے، ہر دور میں بسیج کی موجودگی یہ ظاہر کرتی ہے کہ انقلاب زندہ ہے۔ یہ ظاہر کرتا ہے کہ انقلاب تروتازہ ہے۔ ان لوگوں کے جواب میں جو "انقلاب" کے لفظ اور "انقلاب" کے نام سے خوفزدہ ہیں، "انقلاب" کا نام لینا پسند نہیں کرتے، انقلاب سے اپنی بیزاری کا اظہار کرتے ہیں، اس سے لاتعلقی کا اظہار کرتے ہیں، لیکن بسیج کا وجود یہ ظاہر کرتا ہے کہ انقلاب زندہ ہے، انقلاب تروتازہ ہے، متخلق ہے۔ لہٰذا، بسیج کی موجودگی کا ایک ثمر یہ ہے کہ یہ انقلاب کے نشونما اور انقلاب کی قوت کو ظاہر کرتا ہے۔

دوسرا، وہی جذبہ جو ہم نے کہا؛ بغیر کسی توقع کے اور بغیر کسی معاوضے کے، بغیر دکھاوے کے جہادی کام کا جذبہ ملک میں رفتار کے کر آتا ہے۔ وہ کام جو تعریف کے لئے ہو اور اسکو اور اسکو دکھاوے اور خود کو ظاہر کرنے کیلئے ہو بابرکت نہیں ہوتا۔ یہ بے لوث کام اور جہادی کام اور ملک کو صحیح راستے پر لاکر آگے لے جاتا ہے۔ یہ بسیج کی برکتوں اور ثمرات میں سے ایک ہے۔

تیسرا، بسیجی اپنی ہر سرگرمی میں روحانیت کے عنصر کو نمایاں کرتا ہے۔ یہ بہت اہم ہے؛ روحانیت کا عنصر۔ رویان مرکز کے ممتاز سائنسدان، جب وہ ایک سائنسی پیش رفت حاصل کرتے ہیں، تو وہ سجدہ شکر ادا کرتے ہیں؛ مرحوم کاظمی نے مجھے خود اس سائنسدان کے سامنے بتایا اور دونوں رو پڑے، دونوں کے آنسو نکل آئے۔ ممتاز ایٹمی سائنسدان، ان کے شاگرد کا کہنا ہے کہ ہم ایک مسئلے میں پھنس گئے، ہم رات گئے تک کام کرتے رہے - شاہد بہشتی یونیورسٹی میں - انھوں نے مجھے باہر آنے کو کہا؛ ہم اٹھے، کمرے سے باہر آئے، مسجد میں آئے، وہ ہمیں مسجد کے اندر لے گئے، نماز اور دعا پڑھنا شروع کر دی۔ پھر اچانک انھوں نے کہا، میں سمجھ گیا، مسئلہ حل ہو گیا ہے۔ وہ اٹھ کر وہاں سے چلے گئے۔ دیکھیے سائنسی ماحول میں، ایٹمی کام کے ماحول میں، سجدہ، نماز، دعا! بسیجی کی موجودگی مختلف شعبوں میں اپنے ساتھ روحانیت لاتی ہے۔ یہ بہت اہم ہے؛ بہت اہم ہے.

چوتھا، عملی اقدامات کے ساتھ ساتھ کمال کی جستجو بھی ہے - بسیجی اس طرح ہے - کیونکہ بسیجی اہل عمل ہے، اہل اقدام ہے۔ وہ صرف باتیں ہی نہیں کرتا، عمل کرتا ہے۔ لیکن عملیت پسندی کے علاوہ، وہ صرف عملیت پسندی میں قید نہیں رہتا، وہ کمال کو نہیں بھولتا، وہ کمال کی طرف بڑھتا ہے۔ اہداف کو بھول جانا بہت بڑا خطرہ ہے۔ یہ بھی ثمرات میں سے ایک ہے۔ اگر میں اس شجرہ طیبہ کے ثمرات کو شمار کرنا چاہوں تو یہ ان سے بہت زیادہ ہے۔ اب میں نے ان میں سے تین یا چار کا ذکر کیا ہے۔ یہ برکتیں بسیج میں ہیں۔

اب ہم نے بسیج کی امام خمینی رح کے کلام سے اتنی تعریفیں بیان کی ہیں اور بسیجوں کے لیے مختلف دلائل اور مثالیں لائے ہیں۔ یہ سب آپ کے بسیجی جذبے کو برقرار رکھنے پر مشروط ہے۔ صرف نام سے مغرور نہ ہوں۔ اگر ہم طلاب طالب علم ہونے کا جذبہ برقرار رکھیں تو ہمارا وجود با برکت ہو گا۔ اگر ہم طالب علم کے جذبے کو ترک کردیں - جس کو امام خمینی رح نے مکرر اداروں میں موجود علماء کو تنبیہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ آپ اپنے طلب علم کے جذبے کو برقرار رکھیں (7) - اگر ہم اس کو ترک کردیں تو برکت ختم ہو جائے گی۔ بسیج بھی اسی طرح ہے؛ آپ کو بسیجی جذبے کو برقرار رکھنا چاہیے۔ قرآن کی تلاوت پر توجہ دیں، مستحبات پر، جس قدر ہو سکے، جتنی توانائی ہو، جتنی آمادگی ہو، شہداء کی سیرت کا مطالعہ کریں۔ بسیج کے ان مجاہدین کی سوانح عمری کو جتنا ہو سکے پڑھئے جو گئے اور شہید ہوئے، اور بہت سی کتابیں شائع ہو چکی ہیں [ان کے بارے میں]۔ یہ بسیج سے متعلق چند باتیں۔

بسیج کے مقام کے بارے میں یہاں ایک اور بحث ہے۔ میں اصرار کرتا ہوں کہ بسیجی بسیج کی قدر جانیں، بسیج کا مقام جانیں، بسیج کی موجودگی کا فلسفہ جانیں۔ میں اس میدان میں ایک مختصر گفتگو کرنا چاہتا ہوں۔ بسیج کیا ہے؟ آپ کس کے مقابل ہیں؟ کیا آپ سڑک پر موجود چار فسادیوں کے مقابل ہیں؟ کیا بسیج صرف اسی کے لیے ہے؟ اسلامی دنیا کے سیاسی جغرافیہ میں بسیج کو ایک نمایاں مقام حاصل ہے۔ مجھے تھوڑی وضاحت کرنی پڑے گی۔ بلاشبہ اہل فکر، اہل دانش، آپ نوجوان، توجہ دیں، اس مسئلے پر غور کریں، فقط ابھی نہیں، ان مسائل پر غور و فکر کریں۔ پڑھ کے، بحث کر کے، بات کر کے، سوچ کے۔

مغربی استعماری محاذ کا ہمارے اس خاص خطے، مغربی ایشیائی خطے کے حوالے سے ایک نقطہ نظر ہے۔ جس خطے کو وہ خود "مشرق وسطی" کہتے ہیں۔ دو عالمی جنگوں کے بعد، مغربی استعمار نے - پہلے یورپ، پھر امریکہ - اس خطے کی طرف خصوصی توجہ اور ایک خاص نقطہ نظر پیدا کیا۔ کیوں؟ کیونکہ یہ خطہ ایک اہم خطہ ہے۔ مغربی دنیا کے صنعتی پہیوں کی حرکت کا سب سے اہم عنصر [تیل ہے، ان کی صنعت] تیل کے عنصر پر منحصر ہے، اور دنیا میں تیل کا مرکزی مرکز یہیں ہے۔ مغربی ایشیا کا خطہ مشرق اور مغرب کے درمیان رابطے کا محور ہے، یہ ایشیا اور یورپ اور افریقہ کے درمیان رابطے کا پل ہے۔ اپنی سٹریٹجک پوزیشن اور عام فہم لحاظ سے سوق الجیشی حیثیت میں ایک اہم خطہ ہے۔ اس لیے مغربی استعمار جنہوں نے اب نوآبادیاتی ممالک کو لوٹ کر دولت اور وسائل حاصل کئے، علمی طور پر ترقی کر لی تھی اور جدید ہتھیار بھی حاصل کرلئے تھے، مغربی ایشیا کے خطے پر خصوصی توجہ مرکوز کی۔ اسی توجہ کی وجہ سے انہوں نے اس علاقے میں غاصب صیہونی حکومت قائم کی۔ اس غاصب حکومت کو اس خطے میں مغرب کے اڈے کے طور پر رکھا گیا تھا - پہلے یورپ کا اڈہ اور پھر امریکہ کا اڈہ - تاکہ اس خطے پر غلبہ حاصل کرنے کے قابل ہو سکیں، جو چاہیں کریں، ممالک کو تباہ کریں، جنگ کریں، مسلط کریں، پھیل سکیں، لوٹ سکیں۔ انہوں نے اس کے لیے صیہونی حکومت بنائی۔ پس، اس علاقے کے بارے میں ان کی ایک خاص رائے تھی۔

مغربی ایشیا کے اس خطے میں ایک نکتہ ہے جو سب سے اہم ہے اور وہ ہے ایران۔ ایران اس خطے میں ان تمام ممالک اور مقامات سے زیادہ اہم ہے۔ کیونکہ اس کا سرمایہ - تیل، گیس، قدرتی کانیں - ان تمام ممالک سے زیادہ ہے، اور اس ملک کا وقوع پذیر ہونے کا مقام سب سے حساس مقام ہے، یہ ایک سنگم ہے۔ مشرق و مغرب کیلئے چوراہا ہے، شمال اور جنوب کیلئے بھی۔ زمانہ قدیم سے کہا جاتا رہا ہے کہ اس خطے کا اہم سنگم ایران ہے۔ وہ ایران کے لیے سب سے زیادہ حساس تھے، اس لیے انھوں نے ایران میں سرمایہ کاری کی۔ پہلے انگریز آئے، انہوں نے جتنا ہوسکا اثر و رسوخ حاصل کیا، نفوز کیا، تنظیمیں بنائیں، مختلف طبقوں میں اپنے لیے حامی اور آلہ کار بنائے - اب ایران میں آلہ کاروں اور انگریزوں کی طرفداری کا یہ معاملہ ایک لمبی داستان ہے! اس میں بہت سے اہم نکات ہیں کہ بدقسمتی سے، اس حوالے سے کم بیان کیا جاتا ہے اور کم لکھا جاتا ہے، لیکن ایسا تھا، ہم نے انہیں دیکھا، ہم نے ان میں سے کچھ کو قریب سے محسوس کیا، ہم نے انہیں محسوس کیا - اور پھر امریکی آئے۔ امریکی سب سے پہلے،  مدد کے لیے آئے۔ ٹرومین کی صدارت کے دوران، (8) ٹرومین کے چار اصول [تھے]؛ پہلے وہ اس عنوان کے تحت آئے۔ پھر انہوں نے رفتہ رفتہ اپنے قدم جمائے، دوسروں کو پس پشت ڈال دیا یا کمزور کیا، اور خود ایران پر غلبہ حاصل کیا۔ سب کچھ ان کے ہاتھ میں تھا۔ اگر آپ پہلوی دور کی سیاسی شخصیات کی یاداشتوں میں دیکھیں تو آپ دیکھیں گے کہ محمد رضا پہلوی بھی جو امریکیوں کا نوکر تھا اور ان کے لیے کام کرتا تھا، اس حوالے سے شاکی تھا لیکن وہ بولنے کی ہمت نہیں رکھتا تھا۔ اسد اللہ علم اور اپنے نزدیکی افراد کے ساتھ ایک نجی ملاقات میں، وہ شکایت کرتا ہے؛ یعنی امریکیوں نے اپنے قدم اس قدر آگے بڑھا دیئے تھے، وہ اس قدر زور زبردستی اور بلیک میل کرتے تھے کہ انہوں نے محمدرضا جیسے شخص کو بھی اپنے سے شاکی کر دیا تھا۔ ان کا ایران پر اتنا تسلط تھا۔

مشرق وسطی کے دوسرے ممالک میں بھی ایسا ہی ہے۔ ہر ایک ایک طرح سے۔ بلاشبہ، استعمار کی مداخلت میں صرف مغربی ہی دخیل نہیں تھے؛ سابق سوویت یونین نے بھی مداخلت کی، لیکن سوویت یونین نے ایران پر غلبہ حاصل نہیں کیا، وہ تودہ پارٹی اور بائیں بازو کی جماعتوں کے ذریعے اثر انداز ہونا چاہتا تھا - یہ چیزیں ہیں جن کے بارے میں آپ کو عصری تاریخ میں پڑھنا چاہیے - [لیکن] اس کا اثر کچھ دوسرے ممالک میں زیادہ تھا، جیسے عراق، جیسے شام؛ لیکن اس کے ساتھ ساتھ مغرب کا غلبہ تھا۔ وہ در اندازی چاہتے تھے، جیسے فرانس، مثال کے طور پر، لبنان اور شام میں ایک مضبوط موجودگی رکھتا تھا۔ اور دوسرے مغربی اور دوسرے استعمار۔ یہ ملک کی حالت تھی اور دراصل انقلاب سے پہلے خطے کی حالت۔ پس، یہاں مرکزی نقطہ تھا.

ایران میں اسلامی انقلاب نے اچانک ان کے تمام خواب چکنا چور کر دیے! ایک اتفاق رونما ہوا، انقلاب نے اس استعماری پالیسی کو ایک مہلک دھچکا پہنچایا، وہ تذبذب میں پڑ گئے۔ انقلاب کی فتح سے چند ماہ قبل امریکی صدر (9) ایران آیا اور کہا کہ یہ ایک محفوظ جزیرہ ہے؛ انہوں نے ایران کو اپنے لئے محفوظ جزیرہ قرار دیا۔ چند ماہ بعد، ایک انقلاب آیا، اسی محفوظ جزیرے پر! اس طرح یہ حیرت میں مبتلا ہوئے، اس قسم کا انقلاب اچانک ان کے سامنے نمودار ہوا اور انہیں خوف اور شک کے ساتھ تنہائی کے گوشے میں پہنچا دیا۔ انقلاب نے کچھ ایسی صورتحال  پیدا کی۔ انقلاب ایک مضبوط رکاوٹ بن گیا، ان کو باہر نکال دیا۔ ان کے کچھ کارکن خود ہی فرار ہو گئے، کچھ کو نکال دیا گیا، کچھ کو پھانسی دے دی گئی۔ [لہذا انقلاب] نے خطے میں امریکہ کی موجودگی اور مغرب کی عمومی موجودگی کے خلاف ایک رکاوٹ کھڑی کردی۔

یہ ایک نئی شناخت پیدا ہوئی؛ یعنی ملک نے انحصار کی شناخت کو بدل دیا اور انگلستان اور امریکہ پر انحصار کے بدلے آزادی، طاقت، اپنے پیروں پر کھڑا ہونا، جرئت سے بات کرنا، تاوان ادا نہ کرنا شناخت بن گئی۔ اہم بات یہ تھی: تاوان ادا نہ کرنا۔ اس نے اس طرح ایک رکاوٹ کھڑی کی کہ یہ قدرتی طور پر ایران میں منفرد نہیں رہا اور اسی وقت ہم نے کہا؛ کیونکہ وہ ہمیشہ باہر پروپیگنڈا کرتے تھے کہ "ایران انقلاب برآمد کرنا چاہتا ہے"، میں نے ایک بار نماز جمعہ (10) میں کہا تھا کہ ہمارے انقلاب کو برآمد کرنے کا مسئلہ دوسرے انقلابات کے برآمد کرنے جیسا نہیں ہے۔ ہمارا انقلاب پھولوں کی مہک کی طرح ہے، موسم بہار کی ہوا کی مانند ہے، اسے کوئی نہیں روک سکتا۔ خود ہی پھیل جائے گا۔ جب آپ کے یہاں پھولوں سے بھرا باغ ہو تو آس پاس کے محلے دار پھولوں کی اس مہک سے استفادہ کرتے ہین، اسے کوئی نہیں روک سکتا۔ اور یہ [مسئلہ] انجام پایا؛ دوسرے ملکوں میں قومیں جاگ اٹھیں۔ ہمارا ارادہ کسی ملک میں بغاوت، اس کی حکومت بدلنے کا نہیں تھا۔ نہیں، ہم نے اس چیز کے پیچھے نہیں تھے، لیکن ہمارے انقلاب نے قدرتی طور پر ہمارے ہمسایہ ممالک کے دلوں، ہمارے خطے کی اقوام کے دلوں کو تبدیل کیا اور ان کو متاثر کیا۔ یقیناً یہی ایران کی خصوصیت ہے اور قومی تحریک میں بھی یہی تھا۔ مصدق کے زمانے کی قومی تحریک، جب اس نے تیل اور اس جیسی چیزوں پر بحث کی تو مصدق کا تختہ الٹ دیا گیا، لیکن ساتھ ہی سب نے کہا کہ مصر میں ناصر (11) کا قیام اور عراقی رہنماؤں کی جانب سے عراقیوں کا قیام، ایران کی تحریک کی وجہ سے؛ اس کا اثر تب بھی تھا۔ اب کہاں وہ قومی تحریک، کہاں یہ اسلامی انقلاب!

اس لیے انہیں اس مسئلے کے علاج کے بارے میں سوچنا پڑا۔ کیا کرنا ہے؟ مغرب والے کیا کریں جو کل تک ایران اور اس خطے پر قابض تھے اور اب وہ تقریباً سب کچھ کھو چکے ہیں یا کھو رہے ہیں؟ انھیں انقلاب کی حکومت کا تختہ الٹنا چاہیے، اسے تباہ کرنا چاہیے۔ یہی راستہ ہے، ان کے پاس کوئی اور راستہ نہیں ہے۔ وہ دیکھتے ہیں، وہ مشاہدہ کرتے ہیں کہ وہ یہ نہیں کر سکتے ہیں. یہ جو میں کہہ رہا ہوں وہ چالیس سال پہلے کی ہے، یہ آج کا مسئلہ نہیں ہے۔ اس دن انقلاب ابھی ایک پودے کی مانند تھا، ابھی اس تناور درخت کی شکل میں نہیں تھا، لیکن وہ اسی پودے سے ڈرتے تھے، وہ جانتے تھے کہ وہ ایسا نہیں کر سکتے۔ ایران کی قوم اور انقلابی قوت منظرعام پر ہے، وہ جانتے تھے کہ وہ ایسا نہیں کر سکتے۔ جنگ مسلط ہونے کے بعد آٹھ سال تک جاری رہی، پوری دنیا نے صدام کے ساتھ تعاون کیا اور اسی دوران صدام کو شکست ہوئی، ان میں سے اکثر نے سمجھ لیا کہ ایران کا مقابلہ نہیں کیا جا سکتا۔ اس کا سامنا کرنا مشکل ہے؛ انہوں نے اسلامی انقلاب کی توسیع کو دیکھا، انہوں نے خطے کے ممالک میں انقلاب کی اسٹریٹجک گہرائی کو دیکھا۔ انہوں نے یہ دیکھا، تو انہوں نے سوچا کہ اس سے پہلے کہ ایران پر حملہ کیا جائے - یا کوئی فوجی حملہ یا کوئی ایسا حملہ جس سے اسلامی حکومت، اسلامی جمہوریہ کو تباہ کر دیا جائے- انہیں اطراف کے ممالک میں جانا چاہیے، جہاں ایران کی اسٹریٹجک گہرائی ہے، اور ان میں سے ہر ایک کا تعلق کسی نہ کسی طریقے سے اسلامی جمہوریہ سے ہے، پہلے ان کو مفلوج کیا جائے، پہلے ان پر مسلط ہوا جائے۔ یہ منصوبہ خود امریکیوں نے ظاہر کیا تھا۔ میں جو کہہ رہا ہوں وہ تجزیہ نہیں ہے، یہ امریکیوں کا منصوبہ ہے۔ یہ منصوبہ، یہ سازش اس صدی کے پہلے سالوں میں، 2006 میں اور اس کے بعد امریکیوں نے، ممتاز امریکی شخصیات، ممتاز امریکی سیاسی شخصیات نے بے نقاب کی۔

انہوں نے کہا کہ چھ ممالک ایسے ہیں کہ ایران سے پہلے ہمیں ان چھ ممالک کی حکومتوں کا تختہ الٹنا چاہیے، ان پر تسلط حاصل کرنا چاہیے۔ یہ چھ ممالک اگر سرنگوں ہوگئے، توبایران کمزور ہو جائے گا۔ تب ہم ایران پر حملہ کر سکتے ہیں۔ یہ چھ ممالک کہاں ہیں؟ ہر ایک کسی وجہ سے۔ ان میں سے ایک عراق تھا۔ کیونکہ صدام نے جنگ کے بعد جب کویت پر حملہ کرنا چاہا تو اس ایران سے دوستی کا پل باندھا۔ اس نے ہمارے قیدیوں کو آزاد کیا، مجھے خط لکھا، اس وقت کے صدر کو خط لکھا، ایک شخص بھیجا۔ تو صدام خطرناک تھا۔ صدام، جس کی انہوں نے اس دن تک حمایت کی، ان کے لیے ناپسندیدہ عنصر بن گیا۔ یہ عراق ہے۔ دوسرا، شام؛ کیونکہ شام حافظ الاسد کے زمانے سے، (12) جنگ کے آغاز سے ہمارے ساتھ تھا۔ شام نے ہماری مدد کرنے کے لیے عراق کے تیل کا راستہ بحیرہ روم تک بند کردیا اور اس کے بعد انہوں نے ہر ممکن مدد فراہم کی۔ صدارت کے دوران میرا پہلا غیر ملکی دورہ شام کا دورہ تھا۔ یعنی شام کے ساتھ ہمارے تعلقات بہت قریبی تھے۔ لہٰذا شامی حکومت کا تختہ الٹ دیا جائے۔ تیسرا، لبنان۔ لبنان کیوں؟ وہ ایران کی حمایت کرتے ہیں کیونکہ وہاں مضبوط انقلابی مراکز ہیں، یعنی حزب اللہ اور حزب امل۔ چوتھا، شمالی افریقہ میں لیبیا۔ کیونکہ وہ جانتے تھے کہ لیبیا نے ہمیں ایک معاملے میں فوجی مدد فراہم کی ہے۔ اس نے بھی زبان سے ہمارا ساتھ دیا۔ پانچواں، سوڈان۔ سوڈان کی بھی خاص وجوہات تھیں، یہ واضح تھا۔ اس کے لیڈر ہمارے ساتھ اٹھتے بیٹھتے تھے۔ جب وہاں انقلاب آیا اور انہوں نے فتح حاصل کی وہ آئے، گئے، مختلف ادوار میں ان کا ہم سے رابطہ رہا۔ پھر صومالیہ، ایک اور دوسری وجہ سے۔

ان چھ ممالک کو کمزور کیا جائے، تباہ کر دیا جائے، ان کی حکومتوں کا تختہ الٹ دیا جائے۔ درحقیقت، ان کی رائے میں، ایران کی اسٹریٹجک گہرائی یہ چھ ممالک تھے۔ یہ امریکہ اور استعمار کے تسلط میں آنے چاہیے تھے، پھر یہ ایران کی طرف آتے۔ تو ایران نے کیا کیا؟ اسلامی جمہوریہ نے کیا کیا؟ اسلامی جمہوریہ شمالی افریقہ میں بالکل داخل نہیں ہوا۔ نہ لیبیا میں، نہ سوڈان میں، نہ صومالیہ میں، واضح وجوہات کی بنا پر جو یہاں بیان سے باہر ہیں۔ وجوہات تھیں؛ ہم داخل نہیں ہونا چاہتے تھے اور ہم داخل نہیں ہوئے۔ لیکن ان تینوں ممالک یعنی عراق، شام اور لبنان میں، وہاں ایران کی سیاسی پالیسی کارگر تھی۔ اس طرح ہماری وہاں فوجی موجودگی نہیں تھی، لیکن کام وہاں انجام پایا۔ بڑا کام، اہم کام۔ اس کام کا نتیجہ کیا نکلا؟ ان تینوں ممالک میں امریکہ کی شکست۔ وہ عراق پر قبضہ کرنا چاہتے تھے لیکن ایسا نہیں ہوا۔ وہ شامی حکومت کا تختہ الٹنا چاہتے تھے لیکن ایسا نہیں ہوا۔ وہ لبنان میں حزب اللہ اور امل کو تباہ کرنا چاہتے تھے، لیکن ایسا نہیں ہوا، وہ نہیں کر سکے۔

یہ وہ منصوبہ اور سازش تھی جو امریکیوں نے ہزاروں ڈالرز یعنی اربوں ڈالر سے تیار کیا تھی اور اپنے سینکڑوں یا شاید ہزاروں سیاسی مفکرین کی ہزاروں گھنٹے کی فکری محنت سے، تاکہ ایران کو نقصان پہنچانے میں کامیاب ہوسکیں۔ ان کے منصوبے، ان کی سازش کو اسلامی جمہوریہ کی عظیم اور مستعد افرادی قوت نے ناکام بنا دیا، جس کا چہرہ اور علمبردار حاج قاسم سلیمانی نامی شخص تھا۔ اب یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ حج قاسم سلیمانی کا نام ایرانی قوم کے لیے اس قدر مقبول کیوں ہے اور ایران کے دشمنوں کے لیے اتنا ناگوار کیوں ہے کہ جب ان کا نام لیا جائے تو وہ ناراض اور غصے میں آجاتے ہیں۔ دشمن کا مقابلہ کرنے میں اسلامی جمہوریہ کی پالیسی کے علمبردار جس نے دشمن کے گہرے منصوبے کو ناکام بنا دیا، وہ حج قاسم سلیمانی تھے۔ خُدا اُن پر اپنی رحمت نازل کرے۔

اب اس کسوٹی کے ساتھ جو میں نے بیان کی ہے، آپ عزیز بسیجی، نوجوان، دشمنوں کے ساتھ اسلامی جمہوریہ کے تصادم کی منظر کشی کریں۔ اس بڑے تصادم کا محور کہاں ہے، مسئلہ کہاں ہے؟ مسئلہ ملک کے اندر موجود چند انقلاب مخالف لوگوں کا مسئلہ نہیں ہے۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں آپ سمجھتے ہیں کہ دوسرے ایٹمی معاہدے اور تیسرے ایٹمی معاہدے پر دشمن کا اصرار کس لیے تھا۔ دوسرے معاہدے کا کیا مطلب ہے؟ یعنی ایران خطے سے مکمل طور پر نکل جائے، اپنی علاقائی موجودگی ترک کر دے۔ تیسرے معاہدے کا کیا مطلب ہے؟ اس کا مطلب ہے کہ ایران کوئی اہم اسٹریٹجک ہتھیار تیار نہ کرنے کا عہد کرے۔ ڈرون نہ رکھے، میزائل نہ رکھے کہ اگر ہم نے کبھی حملہ کیا تو وہ ہمارے ٹینکوں کے مقابل جے 3 اور ایک بندوق لے کر لڑنے آئے۔ اسکا مطلب یہ تھا، ان کا اصرار یہ تھا۔ اب اندر ہی اندر کچھ لوگ انکی وہی باتیں دہرا رہے تھے، شاید غفلت سے۔ میدان جنگ یہ ہے؛ آپ اس میدان میں لڑ رہے ہیں۔ ملک میں بسیج کی موجودگی کا مطلب ایسی بڑی سازشوں کے خلاف اپنا سینے سپر کرنا ہے۔ آپ نے حرم کا دفاع کیا، آپ امریکی ساختہ گروپ داعش کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے، آپ نے مقابلہ کیا، آپ موجود تھے. آپ نے لبنان کے بہادر جنگجوؤں کی ہر ممکن مدد کی، آپ نے فلسطینیوں کی بھی مدد کی، آپ دوبارہ کر رہے ہیں، ہم ان کی مدد جاری رکھیں گے۔

میدان جنگ اس طرح کا ایک میدان ہے۔ گلی کوچوں میں چار بلوائی کی موجودگی میدان نہیں ہے۔ بلاشبہ، اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ان فسادات کو نظر انداز کیا جائے؛ نہیں، ہر فسادی، ہر دہشت گرد کو سزا ملنی چاہیے - اس میں کوئی شک نہیں - لیکن میدان صرف یہ نہیں ہے؛ میدان اس سے زیادہ وسیع ہے، میدان ان سے بہت گہرا ہے۔ آپ اس میدان کے بیچوں بیچ کھڑے ہیں۔ میں چاہتا ہوں کہ بسیجی اپنی قدر جانیں۔ بسیج کی قدر کریں۔ آپ ایسے میدان میں لڑ رہے ہیں۔ اپنے آپ کو ان معمولی کاموں تک محدود نہ رکھیں جو آس پاس ہیں۔ البتہ ان چیزوں کا علاج بھی ضروری ہے۔ فسادی کے ساتھ یہ تصادم بسیج کے اہم ترین کاموں میں سے ایک ہے۔ یہ ہنگامہ آرائی کرنے والے ان لوگوں کی انگلیاں ہیں جو اس عظیم منصوبے میں شکست کھا گئے۔ وہ وہاں ناکام ہوگئے، وہ کسی اور طریقے سے میدان میں اترنا چاہتے ہیں، پھر یہ ہنگامہ آرائی کروانا شروع کر دیتے ہیں۔ ایک نعرہ لگاتا ہے، دوسرا لکھتا ہے، کوئی کچھ اور کرتا ہے۔ بسیج کو یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ اصل تصادم عالمی استکبار کے ساتھ ہے، اصل تنازعہ وہیں ہے۔ اب ان سے بھی نمٹ رہے ہیں، لیکن اصل دشمن وہیں ہے، اصل تصادم وہیں ہے۔ یہ سڑکوں پر چار لوگ یا تو غافل ہیں یا جاہل ہیں یا بے خبر ہیں یا ان کو غلط تصویر دکھائی گئی ہے یا ان میں سے کچھ کرائے کے لوگ ہیں۔ اصل دشمن وہیں ہے، اصل جدوجہد وہیں ہے۔

اب یہاں واقعی انسان افسوس کرتا ہے؛ کچھ لوگ سیاسی سمجھ بوجھ کا دعویٰ کرتے ہیں، لیکن کچھ اخبارات یا سائبر اسپیس کے کچھ صفحات میں ان کے تجزیے واقعی انسان کو افسوس کرنے پر مجبور کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ان چند ہفتوں میں ملک میں شروع ہونے والے ان فسادات کو ختم کرنے اور خاموش کرنے کے لیے - اب یہ بات ان لوگوں نے کہی ہے جو سیاستدان ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں اور عالمی حالات سے آگاہی کا! - آپ کو امریکہ کے ساتھ اپنا مسئلہ حل کرنا ہوگا۔ وہ یہ واضح طور پر لکھتے ہیں! وہ صاف لکھتے ہیں کہ آپ امریکہ کے ساتھ اپنا مسئلہ حل کریں۔ یا وہ کہتے ہیں کہ آپ کو قوم کی آواز سننی چاہیے۔ میں نے تحریروں میں یہ دو تشریحات دیکھی ہیں: امریکہ سے اپنا مسئلہ حل کریں، قوم کی آواز سنیں۔

تو امریکہ کے ساتھ مسئلہ کیسے حل ہو سکتا ہے؟ یہ سوال حقیقی ہے، سنجیدہ سوال ہے۔ ہم آپس میں لڑنا نہیں چاہتے۔ ہم پوچھتے ہیں: امریکہ کے ساتھ مسئلہ کیسے حل کیا جائے؟ کیا بیٹھ کر مذاکرات اور امریکہ سے معاہدہ کرنے سے مسئلہ حل ہو جائے گا؟ ہم بیٹھ کر امریکہ سے مذاکرات کریں، یہ معاہدہ کریں کہ آپ فلاں فلاں کام کریں، فلاں فلاں نہیں، کیا مسئلہ حل ہو جائے گا؟ 1960 میں الجزائر کے معاہدے میں  یرغمالیوں کی رہائی کے حوالے سے آپ نے امریکہ کے ساتھ بیٹھ کر بات کی۔ اس وقت میں پارلیمنٹ کا ممبر تھا - اسوقت میں پارلیمنٹ میں نہیں تھا، میں محاذ پر تھا، میں اہواز میں تھا - اس وقت یہی حضرات یہاں الجزائر کے توسط سے آمنے سامنے بیٹھے بغیر تہران میں بیٹھ کر امریکیوں سے باتیں کرتے تھے۔  کے بغیر - یقیناً اس کی منظوری پارلیمنٹ نے دی تھی، یہ کام غیر قانونی نہیں تھا - انہوں نے ایک معاہدے پر دستخط کیے، قرداد لکھی اور کئی معاہدے کئے، انہوں نے ہمارے منجمد سرمایے کی رہائی، ہم پر سے پابندیاں ہٹانے، ہمارے ملک کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہ کرنے کے کئی وعدے لیے، اس بات پر کہ ہم اس طرف سے یرغمالیوں کو رہا کریہ گے۔ ہم نے یرغمالیوں کو رہا کیا، کیا امریکہ نے وہ وعدے پورے کیے؟ کیا امریکہ نے پابندی اٹھا لی؟ کیا امریکہ نے ہمیں ہماری منجمد دولت واپس دی؟ نہیں، امریکہ اپنا وعدہ پورا نہیں کرتا۔ بہت خوب، تو یہ امریکہ کے ساتھ مذاکرات اور بیٹھنا ہے۔ یا ایٹمی معاہدے میں؛ ان کا کہنا تھا کہ [اگر] آپ جوہری صنعتی سرگرمیاں کم کریں - اب وہ بند کرنے کو کہنے کی ہمت نہیں رکھتے - اسے اس حد تک کم کریں، ہم یہ کام کریں گے۔ ہم پابندیاں ہٹائیں گے، ہم یہ کریں گے، ہم وہ کریں گے۔ کیا انہوں نے یہ باتیں کیں؟ انہوں نے ایسا نہیں کیا۔ امریکہ کے ساتھ مذاکرات سے ہمارا مسئلہ حل نہیں ہوگا۔

ہاں، ایک چیز امریکہ کے ساتھ ہمارا مسئلہ حل کرتی ہے۔ کیا؟ امریکہ کو تاوان ادا کرنا؛ ایک مرتبہ بھی نہیں؛ امریکی ایک دفعہ تاوان سے بھی مطمئن نہیں ہیں۔ آج ہم تاوان ادا کریں، کل وہ آئیں گے اور ایک اور تاوان کا مطالبہ کریں گے، [ہمیں] دوبارہ تاوان ادا کرنا ہوگا۔ وہ کل آئیں گے اور ایک اور تاوان مانگیں گے، [ہمیں] دوبارہ تاوان ادا کرنا ہوگا۔ آج کہتے ہیں ایٹمی سرگرمیاں بند کرو- پہلے کہیں گے بیس فیصد بند کرو، پھر کہیں گے پانچ فیصد بند کرو، پھر کہیں گے ایٹمی صنعت ختم کرو- پھر کہیں گے آئین بدلو، پھر کہیں گے شورائے نگہبان کو ہٹا دو۔ امریکی تاوان لیتے ہیں۔ اگر آپ امریکہ کے ساتھ اپنا مسئلہ حل کرنا چاہتے ہیں تو آپ کو یہ کرنا چاہیے۔ تاوان باقاعدگی سے ادا کرتے رہیں۔ امریکہ یہ چاہتا ہے: اپنے آپ کو اپنی سرحدوں کے پیچھے محدود کرو، اپنے ہاتھ خالی کرو، اپنی دفاعی صنعتوں کو بند کرو۔ کون سا غیرتمند ایرانی ایسا تاوان دینے کو تیار ہے؟ میں صرف اسلامی جمہوریہ [کے حامی] کی بات نہیں کرتا۔ ممکن ہے کہ کوئی اسلامی جمہوریہ کو قبول نہ کرے، لیکن وہ ایرانی ہے، اس کے پاس ایرانی غیرت ہے۔ [وہ] بھی یہ تاوان ادا کرنے کو تیار نہیں ہے۔ امریکہ اس سے کم کسی چیز پر مطمئن نہیں ہے۔ یہ کیوں نہیں سمجھتے؟ امریکہ سے مذاکرات سے مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ اگر آپ تاوان ادا کرنے کو تیار ہیں، ایک بار نہیں، دو بار نہیں، لگاتار، تمام بنیادی مسائل پر، اور اپنی تمام سرخ لکیریں عبور کرنے کو تیار ہیں، ہاں، تو امریکہ آپ سے کوئی سروکار نہیں رکھے گا، جیسا کہ پہلوی دور میں ہوا تھا۔ عوام نے اس سے چھٹکارا پانے کے لیے انقلاب برپا کیا، اس کے لیے بہت سے شہید دئیے۔ یہ ملک جو اس طرح ترقی کر رہا ہے، یہ جو نوجوان اس طرھ تمام شعبوں میں کام کر رہے ہیں، کیا ہمیں ان سے اس طرح بات کرنی چاہیے؟ کیا اس طرح گفتگو کرنی چاہیے؟

کہتے ہیں کہ قوم کی آواز سنیں! اس سال 13 آبان کو قوم کی زوردار آواز بلند ہوئی۔ کیا آپ نے سنی؟ آپ قوم کی آواز سنیں۔ سلیمانی کے جنازے کو کتنا عرصہ گزرآ ہے؟ وہ بہت بڑا مجمع ایرانی قوم کی آواز تھا، وہ دس ملین یا شاید ایک لحاظ سے دس ملین سے زیادہ کا جنازہ ایرانی قوم کی آواز تھی۔ آج یہ شہداء کا جنازے ایرانی قوم کی آواز ہیں۔ اصفہان میں، شیراز میں، مشہد میں، کرج میں، یا کسی اور جگہ ایک شخص شہید ہوتا ہے، لوگوں کا جمع غفیر باہر آتا ہے دہشت گردوں کے خلاف، فسادیوں کے خلاف نعرے لگاتے ہیں۔ یہ قوم کی آواز ہے۔ قوم کی آواز کیوں نہیں سنتے؟

میں بسیج کے بارے میں یہی کچھ کہنا چاہتا تھا۔ اب وقت بھی گزر رہا ہے؛ آپ بسیجی بھائیوں [اور بہنوں] کو جو یہاں اور اس ملک میں جہاں بھی یہ خطاب سن رہے ہیں میں کچھ نصیحتیں کرتا ہوں۔ پہلا مشورہ؛ بسیجی رہیں! بسیجی باقی رہنے کے لیے اللہ سے مدد مانگیں۔ بسیجی جذبے، بسیجی ایمان کو باقی رکھیں۔

دوسرا، اپنی قدر جانیں۔ نہ یہ کہ مغرور ہوجائیں؛ نہیں، بسیجی ہونے کی خاصیت مغرور نہ ہونا ہے، لیکن یہ جان لیں کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو ایک اہم مقام انتخاب کرنے کا موقع دیا ہے اور آپ نے اسے منتخب کیا ہے۔ اس کی قدر کریں۔

تیسرا، اپنے دشمن کو جانیں اور سب سے پہلے یہ جانیں کہ دشمن کون ہے؟ دشمن شناسی میں غلطی نہ کریں۔ دوسری بات یہ کہ جب آپ جان گئے کہ دشمن کون ہے، دشمن کی کمزوریوں کو جانیں، دشمن کے ضعف کو جانیں۔ دشمن ہمیشہ آپ کی نظر میں خود کو بڑا اور مضبوط دکھانے کی کوشش کرتا ہے۔ یہ جاننے کی کوشش کریں کہ دشمن کس حال میں ہے، کیا کمزوریاں ہیں، کونسے نقائص ہیں، کونسے ضعف ہیں۔ دشمن کو جانیں، دشمن کے منصوبوں کو جانیں۔ بہت سے لوگ دشمن کے منصوبے سے پریشان ہوجاتے ہیں۔ [محتاط رہیں] پریشان نہ ہوں۔

اگلی نصیحت آپ کی اپنی روحانی نشونما ہے۔ اپنی روحانی نشونما کی پیمائش کریں۔ محتاط رہیں کہ آپ آگے جا رہے ہیں یا پیچھے جا رہے ہیں۔ یہ اہم ہے. دیکھیں کہ آپ نے پچھلے مہینے میں کون سے اچھے کام کیے، آپ نے کیا اچھا اقدام کیا، آپ نے کیا مدد کی، یا اللہ نہ کرے، آپ نے کون سا برا کام کیا؛ کیا اس ماہ آپ کے نیک کاموں میں اضافہ ہوا ہے یا کمی آئی ہے؟ یا مثال کے طور پر، کیا آپ اس مہینے میں جو غلط کام آپ کر رہے تھے اس میں اضافہ ہوا یا کمی ہوئی؟ پیمائش کریں۔ آگے بڑھنے کی کوشش کریں۔ رشد کریں۔

خیر ہم نے کہا کہ دشمن کے طریقوں کو جانیں۔ آج دشمن کا سب سے اہم طریقہ جعل سازی اور جھوٹ ہے۔ ابھی سب سے اہم کام جو دشمن کر رہا ہے وہ ہے جھوٹ پھیلانا۔ یعنی وہی ٹیلی ویژن چینلز جنہیں آپ جانتے اور دیکھتے ہیں جو دشمن کے ہیں یا اسی سائبر اسپیس میں، وہ جھوٹی خبریں دیتے ہیں، وہ جھوٹا تجزیہ کرتے ہیں، وہ جھوٹے قتلوں کا حوالہ دیتے ہیں، وہ افراد کو جھوٹ سے، وہ ایک کو برا بناتے ہیں، دوسرے کو اچھا بناتے ہیں۔ جھوٹ۔ کچھ لوگ مان بھی لیتے ہیں۔ جان لیں آج دشمن جھوٹ کی بنیاد پر کام کر رہا ہے۔ جب آپ جان گئے، فطری طور پر آپ کے کندھوں پر فریضہ آتا ہے. وضاحت کریں۔ " تشریحی جہاد" کہ ہم نے کہا، (13) اس کا ایک مقام یہ ہے۔ وضاحت کا جہاد۔

ہم نے کہا دشمن کی کمزوری کو جانئے۔ دشمن کی کمزوریوں میں سے ایک آپ کی بصیرت ہے۔ اگر آپ با بصیرت ہیں تو اسے نقصان ہوگا۔ اپنی بصیرت بڑھانے کی کوشش کریں۔ دشمن دماغوں پر غلبہ حاصل کرنا چاہتا ہے۔ دماغ پر غلبہ حاصل کرنا دشمن کے لیے زمینوں پر غلبہ پانے سے کہیں زیادہ قیمتی ہے۔ اگر وہ کسی قوم کے دماغ پر قابو پا لیں تو وہ قوم اپنی سرزمین دشمن کو تحفے میں دیدے گی۔ اذہان کو محفوظ کیا جانا چاہئے؛ اذہان پر تسلط۔ بعض نے خود جھوٹ نہیں بولا لیکن بدقسمتی سے انہوں نے دشمن کے جھوٹ کی تصدیق کی۔ ہوشیار رہیں ہ یہ خطرات آپ کو اور آپ کے لوگوں کو لاحق نہ ہوجائیں۔ اپنے لوگوں کی مدد کریں۔

اپنی عملی آمادگی کو برقرار رکھیں، آپ بے خبری میں گرفتار نہ ہوجائیں، سیاست کی دنیا میں ایسے کئی بے خبریاں پیش آتی ہیں۔ ان کے پاس بھی مختلف طریقے ہیں۔ اب میں آپ کو ایک طریقہ بتاتا ہوں۔ دشمن کے کاموں میں سے ایک یہ ہے: وہ ایک مقام پر زور و شور کے ساتھ کچھ شروع کرتا ہے، تاکہ تمام توجہ اس طرف مبذول ہو جائیں۔ پھر وہ  [کہیں اور] وہ اصل کام کرتا ہے جو وہ کرنا چاہتا ہے۔ ساعے حواس اس طرف جمع ہیں، اس طرف نہیں۔ ہم سب کو ہوشیار رہنا چاہیے، خاص کر ملک کے حکام۔ ملک کے حکام کو چاہیے کہ وہ ملک کے اردگرد، ملک کے اندر، ملک سے باہر، اردگرد کی ہر چیز پر توجہ دیں۔ یہ ملک کے ارد گرد بھی ہمارے لیے اہم ہے۔ ہمارے لیے مغربی ایشیا کے خطہ بھی اہم ہے، قفقاز کا خطہ بھی اہم ہے، اور ہمارے مشرقی علاقے بھی اہم ہیں، یہ سب اہم ہیں۔ ان سب باتوں پر ہماری توجہ ہونی چاہیے کہ دشمن کیا کرنا چاہتا ہے۔ ہر کسی کو ان شعبوں میں کوشش کرنی چاہیے۔ اور اب یہ بھی ایک نقطہ ہے، خاص طور پر جب عالمی کپ [فٹبال] جاری ہے۔ میرے لیے انھوں نے وہ کام درج کیے جو مختلف ادوار کے ورلڈ کپ میں کیے گئے تھے جو یکدم تھے۔ کیونکہ ورلڈ کپ کے دوران دنیا کی تمام نظریں کئی ہفتوں تک جاری رہنے والے ورلڈ کپ پر لگی ہوتی ہیں۔ بہت سے لوگ اس عالمی غفلت کا فائدہ اٹھاتے ہیں، وہ کچھ کام کرتے ہیں۔ اب ہم نے ورلڈ کپ کا نام لیا، کل ہماری قومی ٹیم کے بچوں نے ہماری قوم کے دل خوش کئے، انشاء اللہ ان کے دل بھی روشن ہوں گے۔ انہوں نے کل عوام کو خوش کیا۔  یہ بھی ایک تاکید ہے.

آخری نصیحت سے پہلے، بسیج تنظیم کے اندر دشمن کی دراندازی پر نظر رکھیں۔ توجہ کریں؛ کبھی بدعنوان فرد، کبھی کوئی بددیانت فرد کپڑےبھیس بدل کر، کسی گروہ میں جگہ بنا لیتا ہے، مولویوں کا لباس پہنتا ہے، آتا ہے اور اپنے آپ کو مولویوں کے مجموعہ میں فٹ کر لیتا ہے۔ ایک فاسد شخص، ایک بدعنوان شخص روحانی شخص کے بھیس میں ظاہر ہو سکتا ہے، وہ بسیجی کے بھیس میں ظاہر ہو سکتا ہے۔ اس پر متوجہ رہیں، یہ بھی ایک نصیحت ہے۔

اور میری آخری نصیحت یہ قرآنی آیت ہے: : وَ لا‌ تَهِنوا وَ لا تَحزَنوا وَ اَنتُمُ الاَعلَونَ اِن کُنتُم مُؤمِنین (14)

والسّلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

(1) صحیفۂ امام خمینی، جلد 11، صفحہ 117، سپاہ پاسداران کے درمیان تقریر (25/11/1379) "ہر جگہ ایسا ہو جائے کہ ایک ملک، کچھ سال بعد دو کروڑ جوانوں والا ملک بن جائے، اس کے پاس ہتھیار اٹھانے والے دو کروڑ لوگ ہوں، دو کروڑ کی فوج ہو۔"

(2) صحیفۂ امام خمینی، جلد 21، صفحہ 194، ہفتۂ بسیج کے موقع پر ایرانی قوم اور بسیجیوں کے نام پیغام (23/11/1988)

(3) مختلف شعبوں میں بسیج کے کارناموں کے بارے میں ایک نمائش حسینیہ امام خمینی میں لگائی گئی تھی۔

(4) رویان انسٹی ٹیوٹ کے سابق ڈائریکٹر جناب ڈاکٹر سعید کاظمی آشتیانی

(5) صحیفۂ امام خمینی، جلد 21، صفحہ 194، ہفتۂ بسیج کے موقع پر ایرانی قوم اور بسیجیوں کے نام پیغام (23/11/1988) "بسیج، شجرۂ طیبہ اور ایک تناور اور پھل دار درخت ہے جس کی کونپلوں سے وصل کی بہار، یقین کے نشاط اور حدیث عشق کی خوشبو آتی ہے۔"

(6) سورۂ ابراہیم، آیت 24 اور 25، اللہ نے کس طرح اچھی مثال بیان کی ہے کہ کلمۂ طیبہ (پاک کلمہ) شجرۂ طیبہ (پاکیزہ درخت) کی مانند ہے جس کی جڑ مضبوط ہے اور اس کی شاخ آسمان تک پہنچی ہوئی ہے، جو اپنے پروردگار کے حکم سے ہر وقت پھل دے رہا ہے۔

(7) منجملہ، صحیفۂ امام خمینی، جلد 18، صفحہ 12، ماہرین کونسل کے اراکین کے درمیان تقریر (19/7/1983)

(8) 1945 سے 1953 کے درمیان کا عرصہ

(9) جمی کارٹر

(10) منجملہ، تہران کی نماز جمعہ کے خطبے (28/3/1980)

(11) جمال عبدالناصر

(12) شام کے اُس وقت کے صدر

(13) منجملہ، اہلبیت علیہم السلام کے مداحوں اور ذاکروں سے ملاقات میں خطاب (23/1/2022)

(14) سورۂ آل عمران، آيت 139، کمزوری نہ دکھاؤ اور غمگین نہ ہو اگر تم مومن ہو تو تم ہی غالب و برتر ہوگے۔