قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ اگر دل میں ایمان اور عمل میں خدا پر توکل ہو، تو ایسے ارادے کے مقابلے میں پہاڑ بھی ریزہ ریزہ ہوجاتے ہیں اور ان میں مزاحمت کی طاقت نہیں ہوتی۔
انتخابات میں شرکت کرنے والے ایک ایک فرد اور اور ان لوگوں کا شکریہ ادا کرنا ضروری سمجھتا ہوں جنہوں نے انتخابات میں شریک ہونے کی ترغیب دلائی۔ اسلامی ایران نے ایک بار پھربدخواہوں، دشمنوں اور حاسدوں کو پیچھے دھکیلتے ہوئے دوستوں اور تحسین کرنے والوں کے دلوں کو خوشی اور فخر سےلبریز کردیا۔
رہبر انقلاب اسلامی نے ٹیچروں کے اخراجات پورا کرنے کو منتظمین اور حکومت کے فرائض میں قرار دیا۔ آئندہ نسلوں کی تربیت ایک اہم ذمہ داری ہے۔ طلبا میں اخلاق اور خوبیوں کی ترویج میں ٹیچروں کے اہم کردار پر روشنی ڈالی۔ بڑی طاقتوں کے زیر اثر اقوام متحدہ اور یونیسکو جیسے عالمی اداروں کی مداخلت پر سخت تنقید کرتے ہوئے فرمایا کہ ان اداروں کو حق نہیں ہے کہ دوسرے ملکوں میں خصوصا" تاریخ و ثقافت و تمدن سے سرشار قوموں کے لئے اپنی بنائی ہوئی حدود کا تعین کریں۔
سفاک، بے حیا اور بے شرم دشمن طاقتیں، ایران کے اسلامی اورجمہوری نظام کی عوام کی جانب سے پشت پناہی کی وجہ سے حقیقی معنوں میں خوفزدہ ہیں۔ علاقے میں اسلامی جمہوریہ ایران کا اثر و رسوخ عوام کی ہمراہی اور یکدلی کا مرہون منت ہے۔
قائد انقلاب اسلامی نے قرآن کی ترویج اور شناخت کو بڑی خوبیوں میں قرار دیتے ہوئے ملک میں قرآنی تحریک جاری رکھنے پر زور دیا۔ آج کفر کا محاذ پوری دنیا میں اسلامی شناخت کو تباہ کرنے کے درپے ہے۔ عوام کے درمیان قرآنی مفاہیم کی اشاعت، ایمانی اور دینی حلقوں کے جوش و جذبے کے ذریعے ممکن ہے۔
بعثت رسول اکرم (ص) کے پیغام کو سمجھ کر اسلامی معاشروں کی مشکلات حل ہو جائیں گی۔ امریکیوں نے ہر دور میں ایران کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی ہے تاہم ایرانی قوم کا ردعمل، منہ توڑ رہا ہے۔
امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ نے فوج کے دینی جذبات کا اندازہ لگا لیا تھا۔ فوجی جذبہ اور مسلح افواج کی طاقت، دشمنوں کو غلط حرکتوں سے باز رکھے گی حتی اگر یہ طاقت استعمال نہ کی جائے۔
قدرتی ذخائر کے لحاظ سے بھی، ایران کا شمار دولتمند ترین ممالک میں کیا جاتا ہے۔ اسلامی جمہوریہ ایران، تمام شعبوں میں ترقی، عالمی سامراجی طاقتوں سے علیحدگی اور صلاحیتوں کو فروغ دینے کے لئے پرعزم ہے۔
مقدس دفاع اور اس کے درس کو کبھی نہیں بھلایا جانا چاہیے۔ اگر ثقافتی پیداوار پر توجہ نہیں دی گئی تو مغربی ثقافت قانونی اور غیرقانونی طریقوں سے ملک میں داخل ہوجائے گي۔
تمام مسلمان اور عرب ممالک اور مسلمان اور قومی تحریکوں کو چاہئے کہ ہر طریقے سے فلسطینی مزاحمتی تحریک کی حمایت جاری رکھیں۔ مزاحمتی تحریک کی حمایت کا یہ مطلب نہیں کہ ہم کسی ایک گروہ کی حمایت کرتے ہیں۔ جو گروہ اس راہ میں ثابت قدم رہے گا، ہم اس کا ساتھ دیں گے اور جو گروہ اس راستے سے ہٹ جائے گا، وہ ہم سے بھی دور ہو جائے گا۔