رہبر معظم انقلاب اسلامی نے حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے یوم ولادت باسعادت کے موقع پر نوحہ خواں و منقبت خواں حضرات کے ایک گروہ سے ملاقات میں نوحہ خوانی و منقبت خوانی کو تعلیمات و احساسات کی منتقلی، ملک میں حساس مواقع پر کردار ادا کرنے کیلئے ایک مرکب فن قرار دیا۔ انھوں نے حالیہ واقعات میں دشمن کے جامع اور طے شدہ منصوبے کی ناکامی کی وجہ عوام، جوانوں اور حکام کے رد عمل کے حوالے سے غلط محاسبہ قرار دیا اور تاکید کی: دشمنی اور بدخواہوں کی مایوسی کا راہ حل ایران کو مضبوط بنانا ہے۔
اس ملاقات میں حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے حضرت صدیقہ کبری سلام اللہ علیہا کی محبت اور عقیدت کو ذاتی اور اجتماعی امور میں بہت موثر قرار دیا اور ذاکرین و منقبت خوانوں کے لیے بعض نکات کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا: منقبت خوانی ایک شیعہ میراث اور ایک مرکب فن ہے جو اچھی آواز، اچھی شاعری، ایک موزوں طرز اور عمدہ مواد کو یکجا کرنے سے تخلیق ہوتا ہے، اور اس کے یہ تمام عناصر دیگر مذہبی متون کی طرح خوبصورت ہونے چاہئیں۔
انہوں نے تعلیمات کی منتقلی میں مناسب طرز کی اہمیت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: بعض ایسی طرزیں جو گناہ آلود گانوں کے مشابہ ہوتے ہیں منقبت و نوحہ خوانی کے لیے موزوں نہیں ہیں اور ان کے ساتھ اس مقدس کو نہیں ملانا چاہیے۔
حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے معاشرے کی فکری ترقی کو منقبت و نوحہ خوانی کے اہداف میں سے ایک قرار دیا اور فرمایا: منقبت و نوحہ خوانی میں تعلیمات پہنچانے کے ساتھ ساتھ جذبات کو ابھارنا بھی ہے۔ بلاشبہ بغیر عقلانیت کے جذبات مفید نہیں ہیں، لیکن شیعہ نصوص میں تربیت کی منفرد خصوصیت یہ ہے کہ جذبات و احساسات کے ساتھ ساتھ سامعین کی علمی گہرائی میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔
انہوں نے دفاع مقدس سمیت ملک کے حساس معرکوں میں اور جوانوں کو محاذوں پر حاضری اور ملک کے لیے قربانی دینے کے ساتھ ساتھ سال 2009 کے فتنہ اور 9 دی جیسے مختلف معاملات میں منقبت و نوحہ خوانی کی جانب سے ادا کیے گئے شاندار کردار کا ذکر کرتے ہوئے کہا اور تاکید کی: جانئے کہ آپ مدح خواں کے طور پر کہاں کھڑے ہیں اور انقلاب کی خدمت میں منقبت و نوحہ خوانی کے عظیم اور پرکشش فن میں اپنا کردار ادا کریں، یعنی ملک میں انقلابی تبدیلی اور "ظالموں، مفسدین، طاغوت اوراستکبار کے خلاف جدوجہد" کی فضا کو وسعت دیں"۔
رہبر انقلاب نے ثقافتی تعمیر نو کو ذاکرین و منقبت خوانوں کی دیگر اہم ذمہ داری سمجھا اور فرمایا: "دشمن کے خلاف ثابت قدمی یا اس کے مقابل حملہ"، "سائنسی ترقی"، "گھرانہ اور افزائش نسل"، "بصیرت اور امید افزائی" اور "نوجوانوں کے اذہان میں دشمن کے مذموم ہتھکنڈوں کا مقابلہ" ان تصورات میں سے ہیں جن میں سامعین کی فکری، ثقافتی و عملی رہنمائی کی ضرورت ہے۔
ان کاموں کی انجام دہی کے لیے ضروری تقاضوں کو شمار کرتے ہوئے انھوں نے تاکید کی کہ پہلی شرط یہ ہے کہ لوگوں کی ہدایت پر توجہ ہو اور اس فن میں پیسہ، شہرت اور سماجی حیثیت کو زیادہ اہمیت دینے سے پرہیز کیا جائے: نوحہ و منقبت خواں کے بہتر کردار ادا کرنے کا ایک اور تقاضا علم و معرفت میں اضافہ ہے، اس لیے اخلاقیات، حدیث، تفسیر اور شہید مطہری جیسے عظیم مفکرین کی کتابوں کا مطالعہ کرکے اپنے علم کی بنیاد کو مضبوط کریں۔
آیت اللہ خامنہ ای نے اہم عالمی واقعات سے باخبر رہنے کو موثر نوحہ خوانی کے لیے ایک اور شرط قرار دیا اور فرمایا: دنیا بنیادی لیکن تدریجی تبدیلیوں سے گزر رہی ہے اور ہم ایک اہم تاریخی موڑ کا سامنا کر رہے ہیں اور آپ کا مطالعہ کے ذریعے دنیا اور ملک میں ان تبدیلیوں سے آگاہی رہنا ضروری ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اس کے بعد حالیہ واقعات میں دشمن کے منصوبے اور غلط محاسبہ کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا: ان حالات میں دشمن کا منصوبہ جامع تھا لیکن اس کا حساب غلط تھا۔
انہوں نے اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ دشمن نے کسی بھی ملک کو تباہ و برباد کرنے کے لیے تمام ضروری عوامل استعمال کیے، ان عوامل کو شمار کرتے ہوئے کہا: ایک اقتصادی عنصر تھا کیونکہ ملک کی اقتصادی صورت حال اچھی نہیں تھی اور نہ ہے اس لیے لوگوں کی معیشت کا مسئلہ اس سے فائدہ اٹھانے کی ایک وجہ تھی۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے مزید فرمایا: نیز قومی سلامتی کا عنصر، جاسوسی گروہوں کی دراندازی، مختلف پروپیگنڈہ طریقوں سے دنیا میں استکبار کا ایران مخالف ایجنڈے کو فروغ دینا، بعض داخلی عناصر کو اپنے ساتھ ملانا، نسلی، مذہبی، سیاسی اور انفرادی محرکات کو ابھارنا، اور بڑے پیمانے پر پروپیگنڈہ، دیگر عوامل میں سے ہیں جو کئی ماہ قبل بروئے کار لائے گئے۔
آیت اللہ خامنہ ای نے کہا: ایک مبصر کی حیثیت سے میں نے اپنے دل میں دشمن کی اچھی انجینئرنگ کو "شاباش" کہا، کیونکہ اس نے ہر چیز جگہ اور پیمائش کے ساتھ فراہم کی تھی، لیکن اس منصوبے کے باوجود، جو دوسرے ممالک میں موثر رہا، وہ کامیاب نہیں ہوئے کیونکہ ان کا حساب غلط تھا۔
انہوں نے دشمن کے غلط حساب کتاب کی مثالیں ذکر کرتے ہوئے فرمایا: ان کا خیال تھا کہ ایرانی قوم اقتصادی مسائل کی وجہ سے ان کی بغاوت اور علیحدگی کے منصوبے کی حمایت کرے گی۔ ان کا خیال تھا کہ وہ گالی گلوچ، بدتمیزی اور طرح طرح کے طعنے دے کر ملک کے عہدیداروں کو غیر فعال اور میدان سے باہر کر سکتے ہیں۔ ان کا خیال تھا کہ وہ فتنہ اور ہنگامہ آرائی سے ملک کے اعلیٰ حکام کے درمیان اختلافات پیدا کر سکتے ہیں۔ ان کا خیال تھا کہ وہ امریکی ماتحت ملک کے تیل کے ڈالروں سے اسلامی جمہوریہ کے ارادوں پر اثر انداز ہو سکتے ہیں۔ ان کا خیال تھا کہ چند خودغرض عناصر کو دوسرے ملک میں پناہ لینے کی لالچ دے کر اور ایران کے خلاف کیچڑ اچھالنے سے ہمارے نوجوان مایوس ہو جائیں گے، جبکہ ان سے غلطی ہوئی اور کسی نے ان پر توجہ نہیں دی۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے تاکید کرتے ہوئے فرمایا: ان سے غلطی ہوئی کیونکہ اسلامی جمہوریہ کا ارادہ اور عزم ان کی طاقت کے تمام عوامل سے زیادہ مضبوط اور مستحکم تھا۔
آیت اللہ خامنہ ای نے مزید کہا: وہ 40 سال سے اسلامی جمہوریہ کے خلاف ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں، لیکن چونکہ ان کا حساب و کتاب غلط تھا، وہ اب تک ناکام رہے ہیں اور آئندہ بھی ناکام رہیں گے۔
انہوں نے اس بات پر تاکید کرتے ہوئے کہ دشمن کی غلط فہمیاں ہمیں غافل نہ ہونے دیں، فرمایا: ہمیں بھی ہوشیار رہنا چاہیے۔ ہمیں غافل اور مغرور نہیں ہونا چاہیے کہ مسائل ختم ہو گئے۔ ہمیں میدان میں رہنا چاہیے اور جاننا چاہیے کہ امید اور قومی اتحاد ہی قوم کو بچانے کے عوامل ہیں۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: ملک میں مختلف ذوق اور نظریات پائے جاتے ہیں لیکن اسلام، نظام اور انقلاب کے بارے میں عوام میں اتفاق موجود ہے۔ اس لیے آئیے اس اتحاد کو ضائع نہ ہونے دیں اور نسلی اور مذہبی اختلافات کو ہوا نہ دیں اور ایک گروہ کے جذبات کو دوسرے گروہ کے خلاف نہ بھڑکنے دیں۔
انہوں نے اس بات پر تاکید کرتے ہوئے کہ جو بھی قوم کے اتحاد کو نقصان پہنچاتا ہے وہ دشمن کے لیے اور اس کے منصوبوں پر عمل پیرا ہوتا ہے، فرمایا: اہل منبر، مبلغین، ماہرین تعلیم، ادیبوں اور شاعروں کے عناصر سمیت ہر کسی کو اس مسئلے کی طرف توجہ دینی چاہیے اور دشمن کو کم نہیں سمجھنا چاہیے۔
آیت اللہ خامنہ ای نے مضبوط ہونے کو دشمن کی مایوسی کا بنیادی عنصر قرار دیا اور فرمایا: جب ہم اتنے مضبوط ہو جائیں کہ دشمن مایوس ہو جائے تو ہم اطمینان حاصل کر سکتے ہیں اور یہی ایران کی مضبوطی پر بار بار تاکید کی وجہ ہے۔
انہوں نے اہم تصورات کو بیان کرنے کے لیے ترانے کو نوحہ و منقبت خوانی کے ساتھ ملانے کی تمجید کرتے ہوئے فرمایا: ملک کی سرحدوں سے باہر انقلاب کی کرنیں روز بروز جھلکتی جا رہی ہیں، جس کی ایک مثال "سلام فرماندہ" ترانے کا دیگر ممالک اور مختلف زبانوں میں حتیٰ کہ فارسی میں بھی اجرا ہونا اور فروغ پانا تھا۔
اس نشست کے آغاز میں آٹھ نوحہ خوانوں اور شعراء نے اشعار سنائے اور حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے حضور منقبت خوانی کی۔