رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے ثقافتی انقلاب کی سپریم کونسل کے اراکین سے ملاقات میں ملک کی ثقافتی رہنمائی کو اس کونسل کی اصل ذمہ داری اور اسے اسکا اہم کردار قرار دیا اور انقلابی تعمیر نو کی ضرورت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے انہوں نے فرمایا: ثقافتی انقلاب کی سپریم کونسل کو چاہیے کہ وہ مختلف شعبوں میں ثقافتی کمزوریوں اور غلط طرزعمل کا تعین کرتے ہوئے صحیح اور ترقی پسند تصورات کے پھیلاؤ کے لیے عالمانہ حل فراہم کرے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب کے آغاز میں ثقافتی انقلاب کی سپریم کونسل کے بارے میں ایک نکتہ بیان کیا اور اس کونسل میں ممتاز اور اعلیٰ شخصیات کی موجودگی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: اعلیٰ سطح اور ممتاز شخصیات کی اس کونسل میں فراوانی سے موجودگی کے باوجود، سپریم کونسل کی اجتماعی شناخت اس کے اراکین سے متناسب نہیں ہے اور ملک کے ثقافتی مسائل پر کونسل کے اثر و رسوخ کا بڑھایا جانا ایک ضروری امر ہے۔ البتہ اس شوری کے اراکین کی دوسری مصروفیات بھی ہیں اور اس بات کی کوئی توقع نہیں ہے کہ ممبران اپنا بنیادی کام کرنا چھوڑ دیں گے، لیکن توقع یہ ہے کہ ان کے پاس کونسل سے متعلق معاملات کے لیے مناسب اور کافی وقت ہو۔
انہوں نے یہ سوال اٹھاتے ہوئے کہ ثقافتی انقلاب کی سپریم کونسل کا کردار اور فریضہ کیا ہے کہا: اس کونسل کا سب سے اہم کردار اور فریضہ ملک اور معاشرے کی ثقافتی رہنمائی ہے۔
آیت اللہ خامنہ ای نے اس بات پر تاکید کرتے ہوئے کہ سرکاری اداروں کی ثقافتی رہنمائی عوامی تنظیموں کی ثقافتی رہنمائی سے مختلف ہے، فرمایا: ثقافتی انقلاب کی سپریم کونسل، متنوع اور وسیع ثقافتی کاموں میں سرگرم ہزاروں عوامی تنظیموں کی صحیح رہنمائی کے ذریعے قناعت اور عدم اسراف کے رواج کو پھیلانے جیسے اہم زمروں میں عوامی تحریکوں کی بنیاد رکھ سکتی ہے۔
انہوں نے ثقافتی تعمیرنو یا غلط رواج کی اصلاح کے لیے ایسی عوامی تحریکوں کے قیام کو ثقافتی اصلاحی اقدام کا حصہ سمجھا اور حکومتی ثقافتی اداروں کی رہنمائی کے حوالے سے مزید کہا: وزارت ثقافتی اور مذہبی امور، ادارہ تعلیم و تربیت، ادارہ تبلیغات اور نشریات جیسے اداروں کے حوالے سے ثقافتی رہنمائی، صرف دستاویزات کے نوٹیفکیشن سے ممکن نہیں ہے، بلکہ ان دستاویزات کو عملی جامہ پہنانا اور نافذ کرنا ضروری ہے، اور ان کے نفاذ کی ضمانت ثقافتی انقلاب کی سپریم کونسل میں تینوں طاقتوں کے سربراہان کی موجودگی ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے گزشتہ سال حکومتی وفد کے ساتھ ملاقات میں ملک کے ثقافتی ڈھانچے کی انقلابی تعمیر نو کی ضرورت کے حوالے سے اپنے موقف کا حوالہ دیا اور فرمایا: "ڈھانچے" سے مراد معاشرے کا ثقافتی ذھانچہ اور اس پر حاکم ذہنیت و ثقافت ہے اور ایک لفظ میں، اس سے مراد وہ سافٹ ویئر ہے جس کی بنیاد پر معاشرے کے لوگ اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی میں عمل کرتے ہیں۔
آیت اللہ خامنہ ای نے مزید فرمایا: مطلوبہ ڈھانچے کے انقلابی ہونے کی وجہ یہ ہے کہ انقلاب اسلامی امام خمینی (رح) کی قیادت اور عوامی تحریک کے باعث ایک معجز نما ماجرا تھا اور اپنے جارحانہ جذبے سے اس نے سیاسی، ثقافتی اور سماجی بنیادوں اور لوگوں کے ذہنوں پر حاکم غلط تصورات کو بدل دیا۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے "ہم کچھ نہیں کر سکتے" کے تصور کو اسلامی انقلاب سے پہلے معاشرے میں رائج غلط تصورات میں سے ایک قرار دیتے ہوئے فرمایا: انقلاب نے اس ذہنیت کو بتدریج تعمیری اور تخلیقی تحریکوں سے بدل دیا، جس کا نتیجہ ڈیموں کی تعمیر، پاور پلانٹس، ہائی ویز، تیل اور گیس کی صنعت کے آلات اور بہت سے بنیادی ڈھانچے جیسے بڑے کاموں کا مقامی نوجوان پیشہ ور افرادی قوت کے ہاتھوں سے انجام پانا تھا۔
رہبر انقلاب اسلامی نے "مغرب کی طرف شدید رغبت" کے رواج اور یہاں تک کہ دوسری زبانوں کے الفاظ کے استعمال کو بھی معاشرے میں رائج ایک اور غلط ثقافتی رواج قرار دیا اور انقلاب اسلامی نے اس غلط رواج کو "مغرب پر تنقید" میں تبدیل کردیا۔
آیت اللہ خامنہ ای نے "تکبر اور شہرت" کے رواج کو "قربانی اور ایثار" کے رواج میں تبدیل کرنے کو لوگوں کی انفرادی زندگیوں پر اسلامی انقلاب کے گہرے ثقافتی اثرات کی ایک مثال قرار دیا اور کہا: بہت سے غلط مفروضوں اور تصورات میں تبدیلیوں کے باوجود مختلف عوامل وقت کے ساتھ ساتھ انقلاب کے جارحانہ جذبے کو کمزور کر رہے ہیں، اور اس مسئلے پر سنجیدگی سے توجہ اور نگرانی کی جانی چاہیے تاکہ وہ غلط مفروضے دوبارہ سر نہ اٹھا سکیں۔
انہوں نے مزید کہا: انقلاب کی فکری بنیادوں اور فعال جوانوں کی مدد سے اس انقلابی ثقافت اور روح کا ایک بار پھر احیا کیا جا سکتا ہے اور ایک بہت بڑی ثقافتی تحریک شروع کی جا سکتی ہے۔
آیت اللہ خامنہ ای نے اس مسئلے کو ثقافتی انقلاب کی سپریم کونسل کے بنیادی کاموں میں سے ایک قرار دیا اور فرمایا: کونسل کو اس مسئلے کو متحقق کرنے کے لیے سوچ و بچار، محنت اور منصوبہ بندی کرنی چاہیے۔
آیت اللہ خامنہ ای نے عام طور پر پوشیدہ ثقافتی تبدیلیوں کی مسلسل نگرانی اور ان کے بروقت علاج کو ملک کے ثقافتی ڈھانچے کی انقلابی تعمیر نو کے لیے ضروری قرار دیا اور فرمایا: اگر ہم ان تبدیلیوں کو مسلسل سمجھنے اور ان کے منفی اثرات کو روکنے میں کمزوری اور سستی کا شکار ہوجائیں تو معاشرہ نقصان اٹھائے گا اور ثقافتی انتشار یا ملک کے ثقافتی امور کا غیروں کے ہاتھ میں چلے جانا ان نقصانات میں سب سے اہم ہے۔
انہوں نے ثقافتی ڈھانچے کی اصلاح کے لیے درست ثقافتی اصلاح کو بنیادی کام قرار دیا اور کہا: مسلسل چوکسی، معاشرے، سیاست، گھرانے، طرز زندگی اور دیگر شعبوں میں ثقافتی کمزوریوں کی درست شناخت اور کمزوریوں کو دور کرنے اور ان کو فروغ دینے کے لیے عالمانہ حل کے حصول کی کوشش اور درست ثقافتی تصورات کا رواج، ملک کی ثقافتی اصلاح کے بنیادی تقاضوں میں سے ایک ہیں۔
رہبر معظم انقلاب نے ثقافتی اصلاح کو مختلف اداروں جیسے تعلیم، نشریات، اعلیٰ تعلیم، نوجوانوں سے متعلق مراکز اور عوامی تنظیموں کی ذمہ داریوں کے واضح ہونے کا باعث قرار دیا اور فرمایا: اگر ایسے ادارے اپنے اہم کاموں میں کوتاہی کریں گے تو معاشرے کو بے تحاشا نقصان پہنچے گا۔
انہوں نے سائنسی ترقی کی ضرورت کے تصور کے رواج کو فوری ضرورت قرار دیا اور گزشتہ دو دہائیوں میں علم کی سرحدوں کو عبور کرنے کے تصور کے رواج پانے کے شاندار نتائج کی طرف اشارہ کرتے ہوئے مزید کہا: سائنسی پیشرفت اور تکنیکی ترقی اس عظیم تحریک کے بابرکت اثرات میں سے تھی جسے جاری رہنا چاہیے۔
آیت اللہ خامنہ ای نے مزید کہا: یونیورسٹیوں، سائنسی اور تحقیقی مراکز اور متعلقہ اداروں کو چاہیے کہ وہ سائنسی ترقی اور پیشرفت کو اپنے کاموں میں سرفہرست رکھیں تاکہ ہمارا ملک سائنسی و علمی ترقی کی دوڑ میں پیچھے نہ رہ جائے۔
اس ملاقات کے آغاز میں محترم صدر مملکت نے اپنے بیان میں ثقافتی انقلاب کی سپریم کونسل کا بنیادی مشن سائنس اور ثقافت کے شعبوں کو منظم کرنا اور اس کونسل کی اصلاحی دستاویز کو حتمی شکل دینے کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے اس کونسل کی نئی مدت میں اٹھائے گئے اقدامات، بشمول ثقافتی ڈھانچے کی انقلابی تعمیر نو کے حوالے سے کئے گئے اقدامات کی رپورٹ پیش کی۔