رہبر معظم انقلاب اسلامی نے آج صبح بسیج کے سینکڑوں ارکان کے ساتھ ملاقات میں بسیج کی تشکیل کو امام خمینی کے اہم ترین اور عظیم اقدامات میں سے ایک قرار دیا اور گزشتہ چالیس سالوں میں مختلف شعبوں میں بسیج کی موجودگی کی برکات کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: انہوں نے تاکید کی: بسیج ایک عسکری تنظیم سے بالاتر اور برتر ہے، یہ دراصل ایک ثقافت، سوچ اور مکتب فکر ہے جو عظیم تحریک میں ملک و قوم کو بڑی پیشرفتوں کے ساتھ آگے بڑھانے کی صلاحیت رکھتی ہے۔
حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے عالم اسلام کے سیاسی جغرافیہ میں بسیج کے مقام اور ایرانی قوم کے بالمقابل امریکہ کے سٹریٹجک منصوبے کی ناکامی، اور بسیج کیلئے امریکہ کے ایران کے مقابل جنگ کا دقیق فہم حاصل کرنے کی ضرورت پر تاکید کی اور فرمایا: آج ایران کے بدخواہوں کا سب سے اہم ہتھیار پروپگنڈہ اور جھوٹ کے ذریعے اذہان پر مسلط ہوکر اپنے مقاصد حاصل کرنا ہے۔
اس ملاقات میں جس کو یوم بسیج کے موقع پر ملک بھر میں بسیج کے اجتماعات میں براہ راست نشر کیا گیا، رہبر معظم انقلاب اسلامی نے خطرات کو مواقع میں تبدیل کرنے کو امام خمینی رح کی خداداد خصوصیات میں شمار کیا اور فرمایا: امام نے سن 58 میں جاسوسی کے اڈے پر قبضے کے چند ہفتے بعد اکثر ملکوں کے لیڈروں کی طرح
امریکیوں کی دھمکیوں سے خوفزدہ ہونے کے بجائے ملک میں 20 ملین بسیج کی بنیاد رکھنے کی ضرورت پر زور دے کر قوم کو میدان میں اتارا۔
حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے بسیجی ثقافت کی خصوصیات کو بیان کرتے ہوئے "معاشرے اور ملک کی بے مثال اور مسلسل خدمت" کی طرف اشارہ کیا اور فرمایا: بسیجی اظہار تشکر کی توقع کیے بغیر جہاد اور خدمت کے میدان میں اتر کر خطرہ مول لیتے ہیں۔
ان خدمات کی مثالیں دیتے ہوئے انہوں نے سیلاب جیسی قدرتی آفات کے دوران کی جانے والی سخت اور مشکل خدمات، کورونا وائرس اور موت کے خطرے کا سامنا کرتے ہوئے مریضوں کی جان بچانے اور مذہبی امداد کو وسعت دینے میں اختراعی طریقوں کے ساتھ انتھک موجودگی کا ذکر کیا اور مزید کہا: بسیجی ثقافت کے حامل نوجوانوں نے سائنس اور علم کے شعبوں میں بہت سے اعزازات بھی پیدا کیے جن میں ایٹمی شہداء اور رویان انسٹی ٹیوٹ کے بانی مرحوم کاظمی اشتیانی نمایاں ہیں۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے دشمن کے ساتھ محاذ آرائی کے میدانوں میں بے باک، جرأت مندانہ اور ساری توان کے ساتھ موجودگی کو بسیجی ثقافت اور فکر کا ایک اور مظہر قرار دیا اور فرمایا: بسیجی ثقافت گمنام مجاہدین کی ثقافت ہے، جو بغیر کسی خوف کے اور خطرے کا سامنا کرتے ہوئے اپنے تمام وجود ملک سے کی خدمت کرتے ہیں، دوسروں کو آزاد کرنے کے لیے خود ظلم کا شکار بن جاتے ہیں، جیسا کہ حالیہ واقعات میں بسیجی میدان میں موجود رہے تاکہ قوم بدمعاشوں اور بلوائیوں کے سامنے مظلوم واقع نہ ہو۔
آیت اللہ خامنہ ای نے "کسی بھی حالت میں مایوسی سے مکمل اجتناب" کو بسیج ثقافت کی ایک اہم خصوصیت قرار دیا اور مزید فرمایا: بعض دانشوروں کے قول کے برخلاف، بسیج میں جینیریشن گیپ نہیں ہے، اور آج کے نوجوان بسیج، اگرچہ انہوں نے امام اور دفاع مقدس کو دیکھا بھی نہیں ہے۔ 60 کی دہائی کی مانند اسی جذبے کے ساتھ میدان عمل اور کوشش اور جہاد میں مصروف ہیں۔
انہوں نے ملک کی "بسیج کو پروان چڑھانے اور نئے خون کو تربیت دینے" کی صلاحیت اور "ملک کی ترقی اور پیشرفت" کے لیے بسیج کی استعداد کو دو ممتاز حقائق کے طور پر شمار کیا اور ایرانی قوم کی پچھلی نسلوں میں بسیجی جذبہ، ہمت اور میدان میں اترنے سے خوفزدہ نہ ہونے کی خصوصیت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے انہوں نے فرمایا: طاغوت کے دور میں اس جذبے کو غیروں یا بدعنوان حکومتوں کی جانب سے دبا دیا جاتا تھا۔
رہبر معظم انقلاب نے مزید فرمایا: بسیجی کے حقیقی معنی کے مطابق شیخ محمد خیابانی، محمد توی پسیان، مرزا کوچ خان جنگلی، آقا نجفی اور حاج آقا نور اللہ، آقا سید عبدالحسین لاری اور رئیسعلی دلواری جیسے لوگوں کو بھی بسیجی کہا جا سکتا ہے۔
آیت اللہ خامنہ ای نے انقلاب کی کامیابی کو بسیج جذبے اور ثقافت کی نشونما کا سبب قرار دیا اور فرمایا: انقلاب نے امید ابھارتے ہوئے قوم میں استعمار اور استبداد مخالف جذبے کو فروغ دیا اور امام خمینی کی موجودگی کی روشنی میں جنہوں نے قوم کو جوش و جذبہ عطا کیا، بسیجی ثقافت اور تفکر کا ہنر پروان چڑھا۔
انہوں نے آذر 1367 میں، یعنی بسیج کی تشکیل کے 9 سال بعد، بسیج کی تعریف و تمجید میں امام خمینی رح کی طرف سے دلکش اور عظیم بیانیے کا ذکر کیا جس میں انھوں نے بسیجیوں کیلئے غیرمعمولی اور بہترین القاب استعمال کئے: بسیج نے اس طرح کام کیا جیسا کہ امام خمینی نے اس بیانیے میں ایک باپ کی طرح جو اپنے بچوں سے پیار کرتا ہے، بسیج کو مکتبِ عشق اور گمنام شاہدوں اور شہداء کا مکتب قرار دیا اور دنیا و تاریخ کو ہلا دینے والی عظمت کے حامل ہونے کے باوجود بسیجیہ کہلانے کو اپنے لئے اعزاز سمجھا۔
رہبر معظم انقلاب نے ماضی، حال اور مستقبل کے تمام بسیج اراکین کو امام خمینی رح کے اس محبت اور عقیدت سے بھرپور بیانیے کا مصداق سمجھا اور مزید کہا: اسی بیان میں امام خمینی رح مدارس و یونیورسٹی کے طلباء کی بسیج کا اعلان کرتے ہیں، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ امام کی نظر میں بسیج کا تعلق صرف عسکری میدان سے ہی نہیں ہے، بللہ بسیج کو دینی اور مادی علوم سمیت تمام شعبوں میں موجود ہونا چاہیے۔
حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے دفاع مقدس میں بسیج کی موجودگی کو ایک بہت ہی موثر، مشکل گشا، شاندار اور عظیم آزمائش میں کامیابی قرار دیا اور فرمایا: اس کے باوجود بسیج کا مقام ایک عسکری تنظیم سے بلند ہے، اور حقیقت میں بسیج ایک ثقافت، نظریہ اور مکتب فکر ہے۔
انہوں نے دفاع مقدس میں بسیجی شہداء کی کتابوں اور سوانح عمریوں میں حیران کن مطالب کا حوالہ دیا اور مزید کہا: میدان جنگ میں ان عظیم انسانوں کی عظمت جب کہ وہ محض سادہ بسیجی تھے، انسان کو حیران کر دیتی ہیں۔
حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے عالم اسلام میں بسیج کی توسیع کو ایک اور نعمت قرار دیا اور تاکید کی: خدا کے فضل سے امام خمینی رح کی یہ یادگار آج ملک اور عالم اسلام میں فعال ہے اور مستقبل میں بھی باقی رہے گی اور اس کے ثمرات نظر آئیں گے۔
بسیج کے بارے میں امام خمینی رح کی تفسیر "شجرهای طیبه" جو کہ قرآنی آیات پر مبنی تھی، جو ہر دور میں اپنے میٹھے پھل دیتا ہے، انہوں نے مزید کہا: انقلاب کو تر و تازہ اور زندہ رکھنے کیلئے، بے لوث اور جہادی کام کی بدولت ملک کی ترقی، کسی بھی بسیجی وار سرگرمی میں روحانیت کے عنصر کا موجود ہونا اور عملیت پسندی کے ساتھ آئیڈیل ازم کا امتزاج بسیج کی برکات میں سے ہے کہ اس جذبے کو معاشرے میں محفوظ رکھا جانا چاہیے جسے غرور کی آفت سے ہمیشہ دور رکھا جائے۔
حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے عالم اسلام کے سیاسی جغرافیہ میں بسیج کے مقام کا تجزیہ کرتے ہوئے فرمایا: بسیج کا مقام روزمرہ کے مسائل اور حالیہ فسادات سے نمٹنے سے بالاتر ہے۔
انہوں نے مغربی ایشیائی خطے میں استعمار کے خصوصی طرز عمل کی وجہ کی تحلیل کرتے ہوئے مزید کہا: مغربی استعمار جس کی نمائندگی پہلے یورپ اور اب امریکہ کرتا ہے، نے ہمیشہ ہمارے خطے پر خصوصی توجہ دی کیونکہ مغربی ایشیائی خطہ تیل، توانائی اور قدرتی وسائل اور مشرق و مغرب کے درمیان حمل و نقل کا مرکز ہے
اور اسی کی بنیاد پر اس خطے میں جعلی اور غاصب صیہونی حکومت قائم کی گئی تاکہ مغرب کے وسائل کو لوٹنے، جنگ اور تقسیم پیدا کرنے کے لیے مغربی ایشیا کے علاقے میں ایک اڈہ قائم ہو سکے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اس بات پر تاکید کرتے ہوئے کہ مغربی ایشیا کے سٹریٹجک خطے میں سب سے اہم اور حساس نقطہ ایران ہے، فرمایا: اس بنیاد پر پہلے انگریزوں اور پھر امریکیوں نے خاص طور پر ایران پر مکمل تسلط حاصل کرنے کے لیے آلہ کار پروان چڑھانے کے لیے خصوصی سرمایہ کاری کی۔
حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے انقلاب سے پہلے ایران اور اسکے حکمرانوں پر امریکیوں کے تسلط اور دباؤ کو بیان کرتے ہوئے فرمایا: یہ دباؤ ایسا تھا کہ پہلوی دور کے سیاسی رہنماؤں کی یادداشتوں میں بھی اس کا ذکر ملتا ہے حتی کہ محمد رضا پہلوی نے بھی امریکہ کی بڑھتی ہوئی بلیک میلنگ کی شکایت کی تھی لیکن وہ بولنے کی ہمت نہیں کرپایا۔
انہوں نے مغربی ایشیائی خطے میں مغربی استعماری حکومت کے مرکز میں اسلامی انقلاب کی کامیابی کا ذکر کرتے ہوئے کہا: انقلاب کی کامیابی نے اچانک استعمار کی نیندیں اڑادیں اور استعماری پالیسیوں کو ان کے پرامن پناہ گاہ میں ایک مہلک، مبہم اور حیران کن دھچکا پہنچایا۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اس بات پر تاکید کی کہ اسلامی انقلاب خطے میں امریکہ اور مغرب کی موجودگی کے مقابلے میں ایک مضبوط رکاوٹ بن گیا اور اس نے ایک نیا تشخص پیدا کیا، فرمایا: اسلامی انقلاب نے ملک کے دوسروں پر انحصار کے تشخص کو "آزادی، استحکام، اپنے پیروں پر کھڑے ہونے، طاقت کی زبان اور تسلیم نہ ہونے کے تشخص" میں بدل دیا اور یہ سوچ فطری طور پر ایران تک محدود نہیں رہی اور خطے میں اس نے اثر دکھایا۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے انقلاب اسلامی کی کامیابی کے آغاز میں انقلاب کے برآمد کرنے سے متعلق بحث کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: انقلاب کے ابتدائی سالوں میں میں نے نماز جمعہ میں کہا تھا کہ انقلاب پھولوں کی خوشبو اور موسم بہار کی ہوا کی طرح ہے، جو خود با خود فضا میں پھیل جاتی ہے اور ہر کوئی اسے سونگھ سکتا ہے، اور اسے کوئی نہیں روک سکتا، یہی وجہ ہے کہ اسلامی انقلاب نے فطری طور پر خطے کے لوگوں کو تبدیل کیا اور انہیں بیدار کیا، چنانچہ اہل مغرب اور خاص طور پر امریکیوں کو اسکا علاج سوچنا پڑا کیونکہ انقلاب کی تازہ کلی نے ایران پر ان کے تسلط کو ختم کر دیا تھا اور پورے خطے کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے انقلاب کی فتح کے آغاز میں اسلامی نظام کا مقابلہ کرنے کیلئے مغرب کے سامنے سب سے بڑی رکاوٹ میدان میں عوام اور انقلابی قوتوں کی موجودگی کو قرار دیا، جس کی واضح مثال مقدس دفاع کے آٹھ سالوں میں صدام اور اس کے مغربی حامیو کی شکست تھی۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے امریکیوں کے اس منصوبے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے جس کا انکشاف تقریباً 15 سال قبل اس ملک کی ممتاز شخصیات نے کیا تھا، فرمایا: ان کا منصوبہ چھ ممالک عراق، شام، لبنان، لیبیا، سوڈان اور صومالیہ کو سرنگوں کرنا تھا تاکہ آخر کار خطے میں ایران کا نفوز اور سٹریٹجک گہرائی ختم ہو جائے اور ملک کے کمزور ہونے کے نتیجے میں اسلامی جمہوریہ ایران کا نظام خود ہی زوال پذیر ہو جائے۔
آیت اللہ خامنہ ای نے اشارہ کیا: لیکن تینوں ممالک عراق، شام اور لبنان میں انقلاب اسلامی کا تفکر اور توسیع کارگر ثابت ہوئی اور ایک عظیم اور اہم کام انجام پایا جو کہ ان تینوں ممالک میں امریکہ کی شکست ہے۔
انہوں نے لبنان میں حزب اللہ اور امل کو ختم کرنے کے لئے امریکہ کے منصوبے کی ناکامی اور عراق اور شام میں کئی ہزار بلین ڈالر خرچ کرنے کے علاوہ سینکڑوں مفکرین کے ہزاروں گھنٹے فکری کاموں کی ناکامی کا ذکر کرتے ہوئے تاکید کی: اس منصوبے اور خطے میں اس سازش کو اسلامی جمہوریہ کی عظیم اور کارآمد افرادی قوت نے بے اثر کر دیا، اور اس عظیم طاقت کا چہرہ اور علمبردار "حاج قاسم سلیمانی" نامی ایک شخص تھا، تو اب معلوم ہوا کہ "حاج قاسم" کا نام کیوں ایران کے عوام کیلئے اتنا محبوب اور دشمنوں کے لیے اس حد تک ناگوار ہے۔
رہبر معظم انقلاب نے بسیجیوں کو اس وسیع جنگ کو سمجھنے اور اس کا مجموعی تجزیہ کرنے اور اپنے نقطہ نظر کو چند ضد انقلاب عناصر کے ساتھ مقابلے تک محدود رکھنے سے گریز کرنے کی نصیحت کی اور فرمایا: اس کلی تجزیے سے ہم دشمن کے دوسرے اور تیسرے معاہدے پر اصرار کی وجہ سمجھ سکتے ہیں اور کچھ لوگ شاید غفلت کی وجہ سے ملک کے اندر سے انکے الفاظ دہرا رہے تھے۔
اس سلسلے میں انہوں نے مزید کہا: دوسرے معاہدے کا مطلب یہ ہے کہ ایران خطے میں اپنی موجودگی کو مکمل طور پر ترک کر دے اور تیسے معاہدے کا مطلب یہ ہے کہ ایران میزائل اور ڈرون جیسے اسٹریٹجک اور اہم ہتھیاروں کی پیداوار نہ کرنے کا معاہدہ کرے، تاکہ وہ دشمن کی جارحیت کے مقابلے پر خالی ہاتھ ہوجائے۔
آیت اللہ خامنہ ای نے ملک میں بسیج کی موجودگی کو ایسی بڑی سازشوں کے خلاف ڈھال قرار دیا اور فرمایا: آپ بسیجیوں نے اس میدان جنگ میں حرم کا دفاع کیا اور امریکی ساختہ داعش کے خلاف جنگ کی اور لبنان اور فلسطین کے بہادر مجاہدین کی ہر ممکن مدد کی اور آگے بھی کرتے رہیں گے۔
انہوں نے اس بات پر تاکید کرتے ہوئے کہ بسیج کی فعالیت کا میدان یہ وسیع اور گہرا میدان ہے نہ کہ صرف سڑکوں پر موجود چند فسادیوں کے خلاف لڑائی، انہوں نے مزید کہا: یقیناً اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ بسیج فسادیوں کا مقابلہ نہ کرے، کیونکہ یہ مسئلہ حل بھی ہونا چاہیے اور ہر فسادی اور دہشت گرد کو سزا ملنی چاہیے لیکن بسیجی کو اپنی اور بسیج کی حقیقی قدر معلوم ہونی چاہیے اور اسے چھوٹے کاموں تک محدود نہیں کرنا چاہیے اور جان لینا چاہیے کہ فساد برپا کرنے والے بھی اسی ہاتھ کی انگلی ہیں جو اس وسیع جنگ میں شکست کھا چکا ہے اور اب اس شکل میں میدان میں آیا ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے تاکید کرتے ہوئے فرمایا: بسیج کو یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ اصل جدوجہد اور تصادم عالمی استکبار سے ہے اور یہ چند لوگ یا غافل یا جاہل یا بے خبر ہیں یا غلط تجزیہ رکھنے والے ہیں یا پھر آلہ کار ہیں۔
انہوں نے بعض لوگوں کے کمزور اور بے اساس تجزیوں پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا: ان میں سے کچھ لوگ اخبارات اور سائبر اسپیس میں کہتے ہیں کہ آپ کو فسادات کو ختم کرانے کیلئے "امریکہ کے ساتھ اپنا مسئلہ حل کرنا چاہئے" اور "عوام کی آواز سننی چاہئے"۔
حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے اس سوال کے جواب میں کہ "ایران کے ساتھ امریکہ کا مسئلہ کیسے حل کیا جائے؟" فرمایا: یہ ایک سنجیدہ اور حقیقی سوال ہے اور ہم لڑائی کا ارادہ نہیں رکھتے۔ کیا بیٹھ کر مذاکرات اور امریکہ سے معاہدہ کرنے سے مسئلہ حل ہو سکتا ہے؟
انہوں نے یرغمالیوں کی رہائی کے سلسلے میں 1359 میں امریکیوں کے ساتھ الجزائر کے مذاکرات، ایران اساسوں کی آزادی اور اسکے اندرونی معاملات میں مداخلت سے گریز کرنے کے امریکہ کے معاہدے کا یاد دلاتے ہوئے کہا: ہم نے تمام یرغمالیوں کو رہا کیا لیکن امریکہ نے اپنی ذمہ داریاں ععنی پابندیاں ختم کرنے اور ہماری قوم کے منجمد اساسوں کو آزاد کرنے کی اپنی ذمہ داری پوری نہیں کی۔
رہبر معظم انقلاب نے JCPOA کے معاملے پر امریکہ کی جانب سے وعدہ خلافی، یعنی جوہری صنعت کی سرگرمیوں کو کم کرنے کے جواب میں پابندیوں کو ہٹانے کی وعدہ خلافی کو امریکہ کے ساتھ مذاکرات کے ذریعے مسئلے کے حل کے بے فائدہ ہونے کی ایک اور مثال قرار دیا، اور مزید فرمایا: امریکہ کے ساتھ گفت و شنید سے ہمارا مسئلہ حل نہیں ہوتا، ہاں، امریکہ کو تاوان ادا کرنے سے مسئلہ حل ہو جائے گا۔ البتہ وہ ایک بار تاوان کی ادائیگی سے مطمئن نہیں ہے اور ہر بار نئے تاوان کا تقاضا کرتا ہے۔
اس سلسلے میں انہوں نے مزید کہا: پہلے وہ کہتے ہیں کہ 20% افزودگی بند کرو، پھر 5% افزودگی، پھر پوری ایٹمی صنعت کو بند کرنے، پھر وہ آئین میں تبدیلی کا مطالبہ کریں گے، پھر سرحدوں کے اندر محدود ہونے اور ایران کے ہاتھ خالی کرنے کیلئے دفاعی صنعت کی بندش کا مطالبہ کریں گے۔
آیت اللہ خامنہ ای نے اس بات پر تاکید کی کہ شاید ایک شخص اسلامی جمہوریہ کو بھی قبول نہ کرے لیکن کوئی بھی قومی غیرت کا حامل ایرانی اس طرح کے تاوان ادا کرنے کو تیار نہیں ہوسکتا، فرمایا: اس لیے امریکہ کے ساتھ مذاکرات سے مسئلہ حل نہیں ہوگا اور صرف تمام بنیادی مسائل میں تاوان ادا کرنے اور تمام سرخ لکیروں کو عبور کرنے کی صورت میں پہلوی دور کی طرح امریکہ کا اس ملک سے کوئی سروکار نہیں رکھے ہے۔ لیکن کیا عوام نے اس طریقہ کار کو اپنانے کے لیے انقلاب برپا کیا اور اتنے شہید دیے؟
کچھ دعویداروں کی دوسری تجویز کے حوالے سے کہ "قوم کی آواز سنی جائے"، انہوں نے فرمایا: اس سال 13 آبان کو قوم کی پرزور آواز بلند ہوئی۔ کیا آپ نے سنی؟ آپ قوم کی آواز سنیں۔ شہید سلیمانی کے جنازے میں ایک کروڑ سے زائد کا وہ بڑا ہجوم قوم کی آواز تھا۔ آج مختلف شہروں میں شہداء کے جنازے اور دہشت گردی اور فسادیوں کے خلاف عوام کے نعرے قوم کی آواز ہیں۔ کیا آپ کو قوم کی آواز نہیں سنائی دیتی؟
اپنی تقریر کے آخری حصے میں رہبر معظم انقلاب نے بسیج ارکان کو کچھ نصیحتیں کی: "بسیجی رہو اور اپنے اندر بسیجی روح و ایمان کو محفوظ رکھیں"، "اپنی قدر جانیں، یقیناً بسیج کی خصوصیت مغرور نہ ہونا ہے۔ لیکن خدا کی عطا کردہ اس توفیق کی قدر جانیں"، "دشمن اور اس کے کمزور نکات اور منصوبوں کو جانیں اور دشمن کے سامنے ہوشیار رہیں جو خود کو بڑا اور مضبوط ظاہر کر کے آپ کو دھوکہ دینا چاہتا ہے"، "اپنی روحانی نشونما کا خیال رکھیں اور اسکی مسلسل پیمائش کریں۔ "
بسیجیوں کے لیے اپنی پانچویں نصیحت میں رہبر انقلاب نے فرمایا: آج کے دور میں بدخواہوں کا سب سے اہم ہتھیار اپنے ٹیلی ویژن چینلز یا سائبر اسپیس کے ذریعے پروپیگنڈے کرنا اور جھوٹ بولنا ہے، اس سازش کے مقابلے میں تشریحی جہاد کا فریضہ ادا کرتے ہوئے "اپنے دقت نظر اور بصیرت میں اضافہ کریں" اور اس دشمن کو اجازت نہ دیں کہ جو زمینوں پر دماغوں پر غلبہ حاصل کرنا چاہتا ہے، اپنے ہدف میں کامیاب ہو سکے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے چھٹی نصیحت میں اس بات پر تاکید کی کہ "اپنی عملی آمادگی کو برقرار رکھیں اور غفلت کا شکار نہ ہوں" اور فرمایا: سب کی توجہ، خاص طور پر ملک کے حکام کی توجہ ملک کے اردگرد کے مسائل پر بھی مرکوز ہونی چاہیے، کیونکہ ہمارے لیے مغربی ایشیا کا خطہ، قفقاز اور ملک کے مشرقی علاقے سب اہم ہیں اور ہمیں ان سب باتوں پر متوجہ ہونا چاہیے کہ دشمن کیا کرنا چاہتا ہے؟
حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے استکباری قوتوں کی طرف سے عالمی کپ کے موقع سے استفادہ کرنے اور اس کی طرف تمام لوگوں کی توجہ سے استفادہ کرتے ہوئے (اس ٹورنامنٹ کے پچھلے راؤنڈز کی طرح) دیگر کام انجام دینے کی سازش کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اس مرحلے میں خصوصی احتیاط اور ہوشیاری پر تاکید کی اور فرمایا : اب جو ہم نے عالمی کپ کا نام لیا تو کل ہماری قومی ٹیم کے کھلاڑیوں نے قوم کا دل خوش کیا اور انشاء اللہ ان کے دل بھی اسی طرح خوشحال ہوں گے کیونکہ انہوں نے قوم کو خوش کیا۔
ساتویں نصیحت میں، انھوں نے بسیجیوں کو تاکید دیا کہ وہ بسیج کو بددیانت اور بدعنوان لوگوں کے اثر و رسوخ سے محفوظ رکھیں، اور اپنی آخری نصیحت کو قرآنی حکم سے وقف کیا کہ "سستی نہ کرو اور غمگین نہ ہو، تم سبقت لے جاؤ گے اگر تم ایمان رکھتے ہو"۔