دریافت:
مناسک حج
- حج کی فضيلت اور اہمیتمقدمهحج کی فضيلت اور اہمیت
شریعت میں حج ، چند خاص اعمال اور مناسک کے ایک مجموعے کا نام ہے جو اسلام کے بنیادی اصولوں میں سے ایک شمار ہوتا ہے جيسا کہ امام محمدباقر علیہ السلام سے روايت ہے :
" بُني الاسلام علي خمس علي الصلوة و الزکاة و الصوم و الحج و الولاية"(1)
ترجمہ: «اسلام پانچ بنيادوں پر استوار ہے:نماز ، زکات ، روزہ ، حج اور ولايت »
حج ، خواہ واجب ہو یا مستحب، اسکی بہت زیادہ فضيلت اور اجر و ثواب ہے اور اسکي فضيلت کے بارے ميں پيغمبر اکرم اور اہل بيت (عليہم السلام) سے کثير روايات وارد ہوئي ہيں، چنانچہ امام صادق سے روايت ہے:
"الحاجّ والمعتمر وَفدُ اللہ ان سألوہُ اعطاہم وان دَعوہُ اجابہم و ان شفعوا شفّعہم و ان سکتوا ابتدأہم و يُعوّضون بالدّرہم ألف ألف درہم "(2)
"حج اور عمرہ انجام دینے والے راہ خدا کے راہی ہيں۔ اگر اللہ سے مانگیں تو انہيں عطا کرتاہے اور اسے پکاريں تو جواب ديتاہے، اگر شفاعت کريں تو قبول کرتاہے اگرچپ رہيں تو از خود اقدام کرتاہے اور ايک درہم کے بدلے (جو انہوں نے حج کرنے پر خرچ کئے ہیں) دس لاکھ درہم پاتے ہيں۔
1۔ کافی، ج۲، ص ۱۸، ح ۱؛ وسائل الشیعه، ج۱، ص ۷، باب ۱، ح ۱۔
2۔ کافی، ج۴، ص ۲۵۵، ح ۱۴۔ - حج ترک کرنے کا حکمحج ترک کرنے کا حکم
مسئلہ ۱۔ حج ضروریات دین میں شمار ہوتا ہے اور اس کا واجب ہونا کتاب و سنت کے بے شمار دلائل سے ثابت ہے۔ جو شخص حج کے شرائط رکھتے ہوئے اور اسک ے واجب ہونے کا علم رکھتے ہوئے اسے ترک کرے، وہ گناہ کبیرہ کا مرتکب ہوا ہے۔
اللہ تعالي قرآن مجید ميں فرماتا ہے:
{ وَلِلَّهِ عَلَى النَّاسِ حِجُّ الْبَيْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ إِلَيْهِ سَبِيلاً وَمَنْ كَفَرَ فَإِنَّ اللَّهَ غَنِيٌّ عَنِ الْعَالَمِينَ}(1)
ترجمہ: « اللہ کے لیے ان لوگوں پر اس کے گھر کا حج کرنا واجب ہے جو اس راہ کی استطاعت رکھتے ہوں اور جو کافر ہوجائے تو خدا تمام عالمین سے بے نیاز ہے۔»
اور امام صادق علیہ السلام سے یوں روايت ہوئی ہے
"من ماتَ ولم یَحُجَّ حَجّۃ الاسلام و لم یَمنعہُ من ذلک حاجۃٌ تجحفُ بہ او مرض لا یطیق فیہ الحج أو سلطان یمنعہ، فلیمت یہودیاً أو نصرانیاً" (2)
ترجمہ: جو شخص انجام دیے بغیر مرجائے، جبکہ اس کے حالات بھی مساعد ہوں یا کوئی سخت بیماری یا ظالم بادشاہ اسے حج سے روکنے کا سبب نہ بنے، تو وہ یہودی یا مسیحی مرے گا۔
1۔سورہ آل عمران، آیت ۹۷۔
2۔تہذیب الاحکام، ج۵، ص ۱۷۔ - حج اور عمرہ کے اقسامحج اور عمرہ کے اقسام
مسئلہ ۲۔ جو انسان حج انجام ديتا ہے يا وہ اسے اپنے لئےانجا م ديتا ہے يا کسي کي نیابت میں بجالاتا ہے، اس حج کو "نيابتي حج " کہتے ہيں اور جو حج اپنے لئے بجا لاتا ہےاس کی دو قسمیں ہیں: واجب اورمستحب۔
مسئلہ ۳۔ واجب حج يا شريعت کے اصولوں کی بنیاد پر واجب ہوتا ہے جسے "حجة الاسلام" کہتے ہيں يا کسي اور وجہ سے ، جیسے نذر يا حج کے باطل ہونے کے سبب واجب ہوتا ہے۔
مسئلہ ۴۔ حجة الاسلام اورنيابتي حج ميں سے ہر ايک کي اپني اپني شرائط اور احکام ہيں کہ جنہيں ہم پہلے باب ميں دو فصلوں کے ضمن ميں ذکر کريں گے۔
مسئلہ ۵۔ حج کی تین اقسام ہیں: ۱۔ تمتع، ۲۔ اِفراد، ۳۔ قِران۔
پہلی قسم (حج تمتع) ان افراد پر واجب ہوتا ہے کہ جنکا وطن مکہ سے ۴۸ میل (تقریبا ۹۰ کیلومیٹر) کے فاصلے پر ہو۔ حج کی دوسری اور تیسری قسم (اِفراد اور قِران) ان لوگوں پر واجب ہوتی ہے جو مکہ میں رہتے ہیں یا ان کی رہائش کی جگہ مذکورہ فاصلہ سے کم پر واقع ہو۔
حج تمتع مناسک اور اعمال کے اعتبار سے دیگر دو قسموں سے کچھ فرق رکھتا ہے۔
مسئلہ ۶۔ حج تمتع، حج قِران اور اِفراد سے اس لحاظ سے مختلف ہے کہ حج تمتع، عمرہ اور حج پر مشتمل ایک عبادت ہے اور اس میں عمرہ حج پر مقدم ہوتا ہے اور عمرہ و حج کے درمیان فاصلہ زمانی بھی پایا جاتا ہے اور اس فاصلے میں انسان احرام سے خارج ہوتا ہے اور حج کے لئے مُحرِم ہونے تک مُحرِم پر حرام ہونے والی چیزوں سے فائدہ اٹھانا حلال ہوتا ہے ۔ اسی لئے حج تمتع (بہرہ مند ہونا) کا عنوان اس کے لئے مناسب ہے۔اور حج اس کا دوسرا حصہ کہلاتا ہے اور ان دونوں کو ایک ہی سال میں انجام دینا ضروری ہے۔ حج اِفراد اور قِران کے برخلاف کہ جن میں صرف حج انجام دیا جاتا ہے۔ اور ان میں عمرہ ایک مستقل عبادت تصور کی جاتی ہے اور اسے "عمرہ مفردہ" کہا جاتاہے۔ اس لئے ممکن ہے کہ عمرہ مفردہ ایک سال اور حج اِفراد یا قِران اگلے سال انجام دیا جائے۔
مسئلہ ۷۔ عمرہ تمتع اور عمرہ مفردہ کے کچھ احکام مشترک ہیں کہ دوسری فصل میں ذکر کئے جائیں گے اور ان کے درمیان جو فرق ہے وہ مسئلہ نمبر ۱۶ میں بیان کیا جائے گا۔
مسئلہ ۸۔ عمرہ بھی حج کی طرح کبھی واجب ہے تو کبھی مستحب ۔
مسئلہ ۹۔ دین اسلام میں عمرہ زندگی میں ایک بار ایسے شخص پر واجب ہوتا ہے جو صاحب استطاعت ہو (جیسا کہ حج کے مورد میں بیان کیا جاتا ہے(1))۔ اور اس کا وجوب بھی حج کے وجوب کی طرح فوری ہے۔ اور اس کے وجوب میں حج بجالانے کی استطاعت شرط نہیں ہے۔ بلکہ اگر کوئی شخص عمرہ کی استطاعت پیدا کرلے تو اس پر عمرہ واجب ہوجاتا ہے۔ اگرچہ وہ حج کے لئے استطاعت نہ رکھتا ہو۔ اس کے برعکس بھی اسی کے مانند ہے ، یعنی اگر کوئی شخص حج کے لئے استطاعت رکھتا ہو، لیکن عمرہ کے لئے مستطیع نہ ہو تو اسے حج بجالانا چاہیے۔ یہ حکم ان افراد کے لئے ہے کہ جو مکہ میں یا ۴۸ میل سے کم تر فاصلہ پر رہائش پذیر ہوں لیکن جو لوگ مکہ سے دور ہیں اور انکا وظیفہ حج تمتع انجام دینا ہے تو انکے لئے کبھی بھی عمرہ کی استطاعت حج کی استطاعت سے اور حج کی استطاعت عمرہ کی استطاعت سے جدا نہیں ہے کیونکہ حج تمتع دونوں اعمال کا مرکب ہے اور دونوں کو ایک ہی سال میں بجالانا چاہیے۔
مسئلہ ۱۰۔ مکلف کے لئے جائز نہیں ہے کہ وہ احرام کے بغیر مکہ میں داخل ہو اور اگروہ موسم حج کے علاوہ کسی اور موقع پر مکہ میں داخل ہونا چاہتا ہو تو واجب ہے کہ وہ عمرہ مفردہ کے احرام کے ساتھ داخل ہو۔ اس حکم سے دو گروہ مستثنیٰ ہیں:
1. وہ لوگ جن کا پیشہ اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ وہ مکہ میں زیادہ آمد و رفت کریں۔
2. وہ لوگ جو حج یا عمرہ بجالانے کے بعد مکہ سے باہر نکل چکے ہیں اور اسی حج یا عمرہ بجالائے ہوئے مہینے میں دوبارہ مکہ میں داخل ہونا چاہتے ہیں۔
مسئلہ ۱۱۔ دوبارہ عمرہ بجالانا حج کے دوبارہ بجا لانے کی طرح مستحب ہے۔ اور دو عمرہ کے درمیان کوئی خاص فاصلہ شرط نہیں ہے۔ لیکن احتیاط کی بنا پر ہر ماہ میں اپنے لئے صرف ایک عمرہ بجا لائے۔ اور اگر دوسرے افراد کے لئے دو عمرے بجا لائے یا ایک عمرہ اپنے لئے اور دوسرا عمرہ کسی دوسرے کے لئےبجا لائے تو مذکورہ احتیاط ضروری نہیں ہے۔ اسی لئے اگر دوسرے عمرے کو کسی کی نیابت میں بجا لائے تو نائب کا اس کے بدلے میں اجرت لینا جائز ہے اور یہ منوب عنہ کے عمرہ مفردہ کے لئے کافی ہے چاہے وہ واجب ہی کیوں نہ ہو۔1 . مسئلہ 34 کے بعد - حج تمتع اور عمرہ تمتع کا اجمالی ڈھانچہحج تمتع اور عمرہ تمتع کا اجمالی ڈھانچہ
مسئلہ ۱۲۔ حج تمتع دو عمل کا مرکب ہے: ۱۔ عمرہ تمتع ۲۔ حج تمتع۔ عمرہ تمتع حج پر مقدم ہے اور ان دونوں کے اپنے مخصوص اعمال ہیں کہ جن کی جانب اشارہ کیا جائے گا۔
مسئلہ ۱۳۔ عمرہ تمتع کے اعمال مندرجہ ذیل ہیں:
1. کسی بھی ایک میقات پر احرام باندھنا،
2. کعبہ کا طواف،
3. نماز طواف،
4. صفا و مروہ کے درمیان سعی،
5. تقصیر (تھوڑے سے بال یا ناخن کاٹنا)
مسئلہ ۱۴۔ حج تمتع کے اعمال مندرجہ ذیل ہیں:
1. مکہ مکرمہ میں احرام باندھنا،
2. ۹ ذی الحجہ کی ظہر سے غروب شرعی تک عرفات میں وقوف،
3. ۱۰ ذی الحجہ کی رات کو سورج طلوع ہونے تک مشعر الحرام میں وقوف،
4. ۱۰ ذی الحجہ (عید قربان کے دن) کو جمرہ عقبہ کو کنکریاں مارنا،
5. قربانی،
6. سرمنڈوانا یا تقصیر کرنا،
7. طواف حج،
8. نماز طواف،
9. صفا و مروہ کے درمیان سعی،
10. طوافِ نساء،
11. نماز طواف نساء،
12. ۱۱ ذی الحجہ کی رات کو منیٰ میں بیتوتہ ( رات گزارنا)کرنا،
13. ۱۱ ذی الحجہ کے دن تینوں جمرات پر کنکریاں مارنا
14. ۱۲ ذی الحجہ کی رات کو منیٰ میں بیتوتہ کرنا،
15. ۱۲ ذی الحجہ کے دن تینوں جمرات کنکریاں مارنا۔ - حج اِفراد اورعمرہ مفردہحج اِفراد اورعمرہ مفردہ
مسئلہ ۱۵۔ حج اِفراد کی کیفیت حج تمتع کی مانند ہے۔ لیکن فرق صرف اتنا ہے کہ حج تمتع میں قربانی کرنا واجب ہے اور حج افراد میں مستحب۔
مسئلہ ۱۶۔ عمرہ مفردہ بھی عمرہ تمتع کی مانند ہے سوائےدرج ذیل مواقع کے:
1. عمرہ تمتع میں انسان کو تقصیر کرنا ضروری ہے لیکن عمرہ مفردہ میں یہ اختیار ہے کہ سر منڈانے اور تقصیر میں اختیار ہے البتہ یہ حکم صرف مردوں کے لئے ہے لیکن خواتین پر واجب ہے کہ وہ عمرہ مفردہ اور عمرہ تمتع میں صرف تقصیر کریں۔
2. عمرہ تمتع میں طواف نساء اور نماز طواف نساء واجب نہیں ہے اگرچہ بنابر احتیاط ان دو اعمال کو تقصیر سے پہلے رجا کی قصد سے بجا لائے۔ لیکن عمرہ مفردہ میں طواف نساء اور اس کی نماز واجب ہے۔
3. عمرہ تمتع کو حج کے مہینوں میں سے ایک مہینہ میں یعنی شوال، ذی قعد یا ذی الحجہ میں انجام دیا جانا چاہیے جبکہ عمرہ مفردہ کو سال کے تمام ایام میں سے کسی میں بھی بجالانا صحیح ہے۔
4. عمرہ تمتع کے میقات، پانچ میقاتوں میں سے ایک ہے کہ جس کی تفصیل آیندہ آئے گی۔ جبکہ عمرہ مفردہ کا میقات شہر مکہ کے اندر موجود افراد کے لئے اَدنَی الحِلّ(حرم کے باہر نزدیک ترین مقام) ہے۔ اگرچہ پانچ میقاتوں میں سے کسی ایک میقات پر بھی احرام باندھنا جائز ہے لیکن جو مکہ سے باہر ہو اور عمرہ مفردہ بجالانا چاہتا ہو تو اسے پانچ میقاتوں میں سے کسی ایک میقات سے احرام باندھنا چاہیے۔ - حج قِرانحج قِرانمسئلہ ۱۷۔ حج قِران کی کیفیت حج اِفراد کی مانندہے لیکن فرق صرف اتنا ہے کہ حج قِران میں مُحرِم ہونے کے ساتھ ساتھ قربانی کا بھی ساتھ ہونا ضروری ہے، اس لحاظ سےاس پر قربانی واجب ہے۔
اسی طرح حج قِران میں احرام لبیک کہنے سے یا اشعار یا تقلید(1) سے محقق ہوجاتا ہے لیکن حج اِفراد میں فقط لبیک کہنے سے محقق ہوتا ہے۔1۔ان دونوں کے معنی مسئلہ ۱40 میں بیان کئے جائیں گے۔ - حج تمتع کے کلی احکامحج تمتع کے کلی احکام
مسئلہ ۱۸۔ حج تمتع کے صحیح ہونے کی شرائط مندرجہ ذیل ہیں:
پہلی شرط: نیت: یعنی جس وقت سے عمرہ تمتع کا احرام باندھا چاہتا ہے اسی وقت سے حج تمتع انجام دینے کا قصد بھی رکھتا ہو۔ ورنہ اس کا حج صحیح نہیں ہے۔
دوسری شرط: عمرہ اور حج دونوں حج کے مہینوں میں واقع ہوں۔
تیسری شرط: عمرہ اور حج دونوں ایک ہی سال میں واقع ہوں۔
چوتھی شرط: عمرہ اور حج دونوں ایک ہی شخص کے لئے اور ایک ہی شخص کے توسط سے انجام دیئے جانا چاہیے لہذا اگر کوئی شخص دو افراد کو اجیر کرے کہ ان میں سے ایک میت کی طرف سے حج تمتع بجالائے اور دوسرا عمرہ تمتع، تو کافی نہیں ہے۔
مسئلہ ۱۹۔ ایسا شخص جس کا وظیفہ حج تمتع ہو وہ خود اپنی مرضی سے اپنے حج تمتع کو حج قِران یا حج اِفراد میں تبدیل نہیں کرسکتا۔
مسئلہ ۲۰۔ ایسا شخص جس کا وظیفہ حج تمتع ہے اور اگر اسے یہ احساس ہو کہ وقت کی کمی کی وجہ سے وہ عمرہ تمتع کو مکمل کر کے حج کو درک نہیں کر سکتا ہے، ایسے شخص پر واجب ہے کہ وہ اپنے حج تمتع کو حج اِفراد میں تبدیل کرے اور حج کے اعمال انجام دینے کے بعد عمرہ مفردہ بجا لائے۔
مسئلہ ۲۱۔ وہ خاتون جو حج تمتع انجام دینا چاہتی ہے لیکن میقات پر پہنچنے پر ماہانہ عادت سے دوچار ہوئی اگر وہ احتمال دیتی ہے کہ حج تمتع کے احرام کے لئے وقت کی تنگی سے پہلے پاک ہوجائے گی اور غسل کرنے کے بعد عمرہ تمتع کے اعمال بجالاسکتی ہے اور پھر حج کے احرام سے عرفات کے وقوف کو عرفہ کے دن اول ظہر سے درک کرسکتی ہے تو اس پر واجب ہے کہ میقات میں عمرہ تمتع کے لئے مُحرِم ہوجائے پھر اگر پاک ہوئی اور عمرہ تمتع کے اعمال کو بجالانے اور عرفات میں اختیاری وقوف درک کرنے کے لئے کافی وقت ہوا تو اسے یہی کام انجام دینا چاہیے اگر اتفاق طور پر پاک نہ ہوئی یا پاک ہونے کے بعد اس کے پاس عمرہ تمتع بجالانے اور عرفات کے وقوف کو درک کرنے کے لئے وقت کافی نہیں ہے تو عمرہ تمتع کے احرام کے ساتھ حج افراد کی طرف عدول کرے گی اور اس کے بعد ایک عمرہ مفردہ کو بجالائے گی اور اس کا یہ عمل حج تمتع کے لئے کافی ہے۔
اور اگر اسے اطمینان ہے کہ حج تمتع کے احرام اور وقوف عرفات کو درک کرنے کے وقت تک پاک نہیں ہوسکتی ہے یا اگر پاک ہوجائے تو عمرہ کے اعمال انجام دینے اور وقوف عرفات کو درک کرنے تک کافی وقت نہیں ہوگا تو اس صورت میں وہ میقات پر ہی ما فی الذمہ کے قصد سے یا حج اِفراد کے لئے مُحرِم ہوجائے اور اعمال حج بجالانے کے بعد ایک عمرہ مفردہ بجالائے۔ اس کا یہ عمل حج تمتع کے لئے کافی ہوگا۔
لیکن اگر میقات پر احرام باندھنے کے کے وقت پاک تھی، پھر راستے میں یا مکہ پہنچنے پر عمرہ کا طواف اور اسکی نماز بجالانے سے پہلے یا طواف کے دوران چوتھے چکر کو تمام کرنے سے پہلے، ماہانہ عادت سے دوچار ہوجائے اور عمرہ کے اعمال انجام دینے، عرفات کے وقوف اختیاری درک کرنے کے وقت تک پاک نہ ہوئی تو اس صورت میں اسے اختیار ہے کہ یا تو اسی احرام کے ساتھ عمرہ تمتع کو حج افراد میں بدل دے اور حج افراد کو انجام دینے کے بعد عمرہ مفردہ بجالائے اور اس کا یہ عمل حج تمتع کے لئے کافی ہوگا؛ یا عمرہ تمتع کے طواف اور اسکی نماز کو چھوڑ کر، سعی اور تقصیر کو انجام دے او رعمرہ تمتع کے احرام سے خارج ہوجائے، اس کے بعد حج تمتع کے لئے محرم ہونے، دونوں وقوف کو درک کرنے اور اعمال منی کو انجام دینے کے بعد مکہ آنے پر، حج کے طواف ، اس کی نماز اور سعی بجا لانےسے پہلے یا ان کو انجام دینے کے بعد عمرہ تمتع کے طواف اور اس کی نماز کو قضا کے طور پر بجالائے۔ اس کا یہ عمل بھی حج تمتع کے لئے کافی ہے اور اس کے ذمہ کوئی اور چیز نہیں رہے گی۔
اور اگر طواف کے دوران، چوتھے چکر کے اختتام پر ماہانہ عادت سے دوچار ہوئی تو باقی طواف اور نماز کو چھوڑ کر سعی اور تقصیر کو انجام دے اور احرام سے خارج ہوجائے پھر حج تمتع کے لئے محرم ہوکر دونوں وقوف کو درک کرنے اور منی کے اعمال کو انجام دینے کے بعد واپس مکہ لوٹنے پر طواف، نماز اور سعی کو بجالانے کے بعد یا اس سے پہلے، عمرہ کا طواف(1) اور اس کی نماز بجا لائے، اس کا یہ عمل حج تمتع کے لئےکافی ہے اور اس کے ذمہ کوئی چیز نہیں ر ہےگی۔
مسئلہ ۲۲۔ حج کے اعمال اور اس کے احکام تیسری فصل میں تفصیل کے ساتھ بیان کئے جائیں گے۔
1۔ اس کی تفصیل جاننے کے لئے مسئلہ نمبر 286 کی طرف رجوع کریں۔ - پہلا حصه حَجة الاسلام اورنيابتي حج
- دوسرا حصه عمرہ کے اعمال
- پہلي فصل :احرام باندھنے کےمیقات
- دوسري فصل :احرام
- تیسری فصل: طواف اور اس کی نماز
- طواف کے شرائط
- پہلي شرط : نيتپہلي شرط : نيت
مسئلہ ۲۷۷۔ نیت يعني عمرہ يا حج کے طواف کو قربةً الي اللہ کے قصد سے بجا لائے پس اگر طواف کو( اگرچہ بعض چکروں میں ہی کیوں نہ ہو) نیت کے بغير انجام دے تو کافی نہيں ہے ۔
مسئلہ 2۷۸۔ نيت ميں قربت اور اللہ تعالي کيلئے اخلاص شرط ہے۔ پس عمل کو اللہ تعالي کے حکم کي اطاعت کرنے کيلئے کی نیت سے بجالانا چاہیے۔اور اگر رياءکی قصد سے انجام دے تو گناہ کا مرتکب ہوگا اور اس کا عمل باطل ہے۔
مسئلہ 2۷۹۔ طواف کی نيت ميں یہ معین کرنا چاہیے کہ طواف عمرہ مفردہ کا ہے يا عمرہ تمتع کااور اسیطرح حجة الاسلام کا طواف ہے يا حج استحبابي کا يا نذر والے حج کا، اور طواف کو دوسرے کی نیابت میں بجالانے کی صورت میں اس کا بھی قصد کرے۔
مسئلہ 2۸۰۔ نيت کو زبان پر جاری کرنا یا دل میں اسے دہرانا ضروری نہیں ہے بلکہ اسی قدر کہ عمل کو انجام دینے کا قصد کرے کافی ہے ۔
مسئلہ ۲۸۱۔ مناسب ہے کہ طواف کے دوران مسلسل خشوع اور حضور قلب کے ساتھ ہو اور ذکر خدا میں مشغول رہے اور طواف کی مخصوص دعائیں پڑھے۔ - دوسري شرط : حدث اکبر اور حدث اصغر سے پاک ہونادوسري شرط : حدث اکبر اور حدث اصغر سے پاک ہونا
مسئلہ 2۸2۔ طواف واجب کي تمام اقسام ميں طواف کرنے والا جنابت، حيض اور نفاس سے پاک ہونا چاہیے اور طواف کيلئے وضو بھي ہونا چاہیے۔
نوٹ : واجب طواف وہ طواف ہے جو عمرہ اور حج کے اعمال کا جز ہوتا ہے اسي لئے مستحب حج و عمرہ کا طواف بھی واجب ہو جاتا ہے ۔
مسئلہ 2۸3۔ جس شخص کو حدث اکبر يا حدث اصغر عارض ہوجائے اور اسی حالت میں طواف انجام دے تو اس کا طواف باطل ہے اور اسے چاہئے کہ وہ طواف اور نماز طواف کو دوبارہ انجام دے اگرچہ وہ لاعلمی یا فراموشی کی وجہ سے انجام دیا ہو یا وہ عمرہ يا حج کے اعمال سے فارغ ہونے کے بعد متوجہ ہو کہ وہ طہارت سے نہیں تھا۔
مسئلہ 2۸4۔ مستحب طواف ميں حدث اصغر سے پاک ہوناشرط نہیں ہے لیکن طواف کی نماز کے لئے اسے وضو سے ہونا چاہیے۔ لیکن اگر کوئی جنابت، حیض یا نفاس کی حالت میں ہے تو اس پر چونکہ مسجد الحرام میں داخل ہونا بھی حرام ہے اس لئے بنابر احتیاط واجب اس کا طواف بھی صحیح نہیں ہے۔
نوٹ: طوافِ مستحب وہ طواف ہوتا ہے کہ جو عمرہ اور حج کے اعمال سےعليحدہ انجام دیا جاتا ہے، چاہے اپني طرف سے طواف کرے يا کسي کي نيابت ميں۔ اور يہ عمل مکہ مکرمہ کے مستحبات میں سے ہے اور مستحب ہے کہ انسان کيلئے جس قدر ممکن ہو طواف انجام دےاور یہ عمل اجر و ثواب کا باعث بنے گا۔
مسئلہ 2۸5۔ اگر طواف کے دوران حدث اصغر سرزد ہوجائے تو اسکي دو صورتيں ہيں ۔
1۔اگر حدث چوتھے چکر کے نصف تک پہنچنے سے پہلے عارض ہويعني خانہ کعبہ کے تيسرے رکن کے سامنے پہنچنے سے پہلےحدث سرزد ہوجائے تو واجب ہے کہ طواف کو ترک کرے اور وضو کے بعد دوبارہ طواف کرے ۔
۲۔ اگرحدث چوتھے چکر کے نصف کے بعد سرزد ہوجائے تو طواف کو وہیں روکے اور طہارت کے بعد طواف کو دوبارہ اسی جگہ سے جاری رکھےالبتہ اگر اس سے موالاتِ عرفي ٹوٹ نہ جائے تو۔ لیکن اگر موالات عرفی ٹوٹ جائے تو وہ دوبارہ وضو کرکے بنابر احتیاط گزشتہ طواف کو تمام کرنے کی نیت سے مکمل کرے اور ایک نیا مکمل طواف گزشتہ ناقص طواف کو مکمل کرنے کی نیست سے بجالائے یا ایک مستقل اور نیا طواف بجالاسکتا ہے اور یا اس طواف کو بالکل چھوڑ کر وضو کے بعد طواف کو از سر نو شروع کرسکتا ہے۔
مسئلہ 2۸۶۔ اگر طواف کے دوران حدث اکبر عارض ہوجائے تو اس پر واجب ہے کہ فوراً مسجد الحرام سے باہر نکل جائے۔ ایسی صورت میں اگر حدث اکبر چوتھے چکر کے نصف تک پہنچنے سے پہلے ہو تو طواف باطل ہے اور غسل کے بعد اس کا اعادہ کرنا واجب ہے اور اگرچوتھے چکر کے نصف تک پہنچنے کے بعد ہو تو غسل کے بعد طواف کو وہیں سے شروع کرے جہاں سے روکا تھا بشرطیکہ عرفی موالات ميں خلل وارد نہ ہوا ہو ، احوط يہ ہے کہ اس طواف کو مکمل کرے اور پھر اعادہ بھي کرے۔ اور اسیطرح ایک مکمل طواف کو امام یا تمام کے قصد سے بجا لاسکتا ہے یا اس طواف کو چھوڑ کر غسل کے بعد نئے سرے سے ایک اور طواف بجالائے۔
مسئلہ 2۸۷۔ جو شخص وضو يا غسل کرنے سے معذور ہو تو اسے وضو اور غسل کے بدلے تیمم کرنا چاہیے۔
مسئلہ 2۸۸۔ اگر کسي عذر کي وجہ سے وضو يا غسل نہ کرسکتا ہو ، اور جانتا ہو کہ طواف کا وقت ختم ہونے سے پہلے عذر برطرف ہوگی اگر اسے ؛ جیسے کہ وہ مريض جو جانتا ہے کہ آخري وقت تک شفا ياب ہوجائيگا تو اس پر واجب ہے کہ اپنا عذر دور ہونے تک صبر کرے پھر وضو يا غسل کے ساتھ طواف بجالائے بلکہ اگر اسے اپنا عذر ختم ہونے کي اميد ہو تو بھي احتیاط واجب ہے کہ صبر کرے يہاں تک کہ وقت تنگ ہوجائے يا اپنے عذرکے ختم ہونے سے مايوس ہوجائے اور اسکے بعد تيمم کرکے طواف بجالائے۔
مسئلہ 2۸۹۔ جس شخص کا فريضہ تيمم يا وضو جبیرہ ہے اگر حکم سے لاعلمي کي وجہ سے مذکورہ طہارت کے بغير طواف يا نمازِ طواف کو بجالائے تو اس پر واجب ہے کہ اگر ممکن ہو خود ان کا اعادہ کرے اور اگر یہ ممکن نہ ہو تو کسی کو نائب بنائے ۔
مسئلہ 2۹۰۔ اگر عمرہ مفردہ کے لئے احرام باندھنے کے بعد عورت کو حيض آجائے اورحیض سے پاک ہو کر غسل کر کے انتظار نہ کر سکتي ہو تا کہ غسل کر کے عمرہ مفردہ کے اعمال بجا لانے تک انتظار نہ کرسکے تو طواف اور نماز طواف کے لئے کسی کو نائب مقرر کرےليکن سعي اور تقصير کو خود بجالائے اور ان اعمال کو انجام دینے سے احرام سے خارج ہو جائے گی اسی طرح ا گر کوئی عورت حيض کي حالت ميں احرام باندھ چکی ہو تو اس کے لئے بھی یہی حکم ہے۔ ليکن اگر حيض کي حالت ميں عمرہ تمتع کا احرام باندھے يا عمرہ تمتع کا احرام باندھنے کے بعد اسے حيض آجائے اور پاک ہو کر غسل کر کے عمرہ کا طواف اور نماز طواف بجا لانے تک انتظار نہ کرسکتي ہو تو اس کے لئے دوسرا حکم ہے کہ جس کو پہلے(1) بیان کیا جاچکا ہے۔
مسئلہ 2۹۱۔ عمرہ کے اعمال ميں سے صرف طواف اور نماز طواف ميں وضو واجب ہے ليکن باقي اعمال ميں وضو شرط نہيں ہے اگر چہ افضل يہ ہے کہ انسان ہر حال ميں با وضو رہے۔
مسئلہ 2۹2۔ اگر کسی کو طہارت ميں شک ہو تو مختلف حالات میں اس کا فریضہ حسب ذیل ہے۔
1۔ اگر طواف کو شروع کرنے سے پہلے وضو ميں شک ہو تو وضو کرے۔
2۔ اگر اس پر غسل واجب تھا اور طواف کو شروع کرنے سے پہلے اسکے بجالانے ميں شک کرے تو اسے غسل کرنا چاہیے۔
3۔ اگر با وضو تھا اور شک کرے کہ اس کا وضو باطل ہوا ہے يا نہيں تو وضو کرنا ضروری نہيں ہے۔
4۔ اگر پہلے جنابت سے پاک تھا اور پھر شک کرے کہ جنب ہوا ہے يا نہيں يا عورت شک کرے کہ وہ حایض ہوئی ہے یا نہيں تو ان پر غسل واجب نہيں ہے ۔
5۔ اگر طواف سے فارغ ہونے کے بعداور نماز طواف سے پہلے طہارت ميں شک کرے تو طواف کی نسبت شک پر اعتبار نہیں کرنا چاہیےليکن اس پر واجب ہے کہ نماز طواف کيلئے طہارت انجام دینا چاہیے۔
6۔ اگر طواف کو طہارت کي حالت ميں شروع کرے اور طواف کے دوران حدث کے طاري ہونے اور وضو کا باطل ہونے اور نہ ہونے میں شک کرے تو اپنے شک کي پرواہ نہ کرے اور طہارت پر بنا رکھے۔
7۔ اگر کوئی شخص طواف کے دوران شک کرے کہ طواف شروع کرتے ہوئے وضو سے تھا يا نہیں تو اگر اس سے پہلے وہ باوضو تھا تو اسی پر بنا رکھے اور اپنے شک پر اعتبار نہ کرے اور اسکا طواف صحیح ہے لیکن اگر وہ وضو سے نہ تھا یا شک کرے کہ وضو سے تھا یہ نہیں تو اسے طہارت کرکے طواف کو دوبارہ انجام دینا چاہیے۔
8۔ اگر اس پر غسل واجب تھا اور طواف کے دوران شک کرے کہ غسل کو بجالايا تھا يا نہيں تو اس پر واجب ہے کہ فوراً مسجد سےباہر نکل کر غسل کرے اور نئے سرے سے طواف بجالائے۔1 . مسئلہ 21 - تيسري شرط: بدن اور لباس کا نجاست سے پاک ہوناتيسري شرط: بدن اور لباس کا نجاست سے پاک ہونا
مسئلہ 2۹3۔ طوا ف کي حالت ميں بدن اور لباس خون سے پاک ہونا چاہیے اور احتیاط واجب يہ ہے کہ دوسرے نجاسات سے بھي پاک ہوں لیکن جوراب، رومال اور انگوٹھي کا پاک ہونا شرط نہيں ہے۔
مسئلہ 2۹4۔جو خون ایک درہم سے کم ہو اور اسي طرح جراحت اور زخم کا خون جو نماز کو باطل کرنے کا سبب نہیں بنتا ہے، طواف کے صحیح ہونے میں بھی کوئی خلل نہیں ڈالتا ہے ۔
مسئلہ 2۹5۔ اگر کسی کا بدن نجس ہو اوربدن کو نجاست سے پاک کرنے تک طواف کو مؤخر کرسکتا ہو تو ایسا کرنا ضروری ہے جبتک اس کا وقت تنگ نہ ہوجائے ۔
مسئلہ 2۹6۔ اگر بدن يا لباس کي طہارت ميں شک کرے تو اسی حالت میں طواف کرنا جائز اور صحیح ہے ليکن اگر جانتا ہو کہ بدن یا لباس پہلے نجس تھا اور شک کرے کہ اس نے اسے پاک کيا ہے يا نہيں تو ان کے ساتھ طواف کرنا جائز نہيں ہے۔
مسئلہ 2۹7۔ اگر طواف سے فارغ ہونے کے بعد اپنے بدن يا لباس کي نجاست کي طرف متوجہ ہو تو اس کا طواف صحيح ہے ۔
مسئلہ 2۹8۔ اگر طواف کے دوران اس کےبدن يا لباس پر کوئی نجاست لگ جاے مثلاً لوگوں کي بھيڑ کی وجہ سے اس کا پاؤں زخمي ہوجائے اور طواف کو روکے بغیر اسے پاک بھي نہ کرسکتا ہو تو اس پرواجب ہے کہ طواف کو روک کر اپنے بدن يا لباس کو پاک کرے پھر فوراً پلٹ آئے اور اگر موالات نہیں ٹوٹا ہو تو جہاں سے طواف کو چھوڑا تھا وہيں سے اسے جاري رکھے اس طرح اسکا طواف صحیح ہے۔
مسئلہ 2۹9۔ اگر طواف کے دوران اپنے بدن يا لباس ميں نجاست ديکھے اور یہ نہیں جانتا ہے کہ یہ نجاست طواف کو شروع کرنے سے پہلے موجود تھی یا طواف کے دوران لگی ہے تو سابقہ مسئلہ کے مطابق عمل کرے۔
مسئلہ ۳۰۰۔ اگر طواف کے دوران اپنے بدن يا لباس پر کسی نجاست کو پائے اور اسے يقين ہو کہ يہ نجاست طواف کو شروع کرنے سے پہلے تھي تو سابقہ مسئلہ (مسئلہ 298)کے مطابق عمل کرے۔
مسئلہ ۳۰۱۔ اگر اپنے بدن يا لباس کي نجاست کو بھول کر اسي حالت ميں طواف کرلے اور طواف کے دوران اسے ياد آئے تو اس کا حکم سابقہ (مسئلہ 298) کے حکم کے مانند ہے ۔
مسئلہ ۳۰۲۔ اگر کوئی اپنے بدن يا لباس کي نجاست کو بھول کر اسي حالت ميں طواف کرلے اور طواف سے فارغ ہونے کے بعد ياد آئے تو طواف صحيح ہے ليکن اگر نماز طواف کو بھی نجس بدن يا لباس کے ساتھ بجالایا ہو تو طہارت کرنے کے بعد دوبارہ پڑھے اور احتیاط مستحب يہ ہے کہ طہارت کے بعد طواف کو بھی دوبارہ بجا لائے۔ - چوتھي شرط : ختنہ شدہ ہوناچوتھي شرط : ختنہ شدہ ہونا
مسئلہ ۳۰۳۔ ختنہ صرف مرد کے طواف کي صحت کے لئے شرط ہے اور عورتوں کےلئے شرط نہیں ۔ پس بغیر ختنہ شخص کا طواف باطل ہے چاہے وہ بالغ ہو يا نہ ہو۔ - پانچويں شرط: شرم گاہ چھپاناپانچويں شرط: شرم گاہ چھپانا
مسئلہ ۳۰۴۔ : بنابر احتیاط واجب شرمگاہ کو چھپانا طواف میں شرط ہے۔
مسئلہ ۳۰۵۔ اگر طواف کے دوران عورت اپنے سر کے تھوڑے سے بال یا بدن کے بعض ایسے حصوں کو نہ چھپائے جس کو چھپانا چاہیے تھا، تو اس کا طواف صحيح ہے اگر چہ وہ گناہ کا مرتکب ہوگئی ہے ۔ - چھٹي شرط: طواف کےلباس کاغصبي نہ ہو ناچھٹي شرط: طواف کےلباس کاغصبي نہ ہو نا
مسئلہ ۳۰۶۔ طواف کے صحیح ہونے کے شرائط میں سے ایک شرط لباس کا غصبي نہ ہونا ہے پس اگر غصبي لباس ميں طواف بجالائے تو احتیاط واجب کي بناپر طواف باطل ہے۔ - ساتويں شرط: طواف میں موالاتساتويں شرط: طواف میں موالات
مسئلہ ۳۰۷۔ احتیاط واجب کی بنا پر طواف کے اجزا کے درميان عرفی موالات ہونا چاہیے يعني طواف کے چکروں کے درميان اتنا فاصلہ نہ ہو جو اسے ایک ہی طواف کی شکل سے خارج کرے البتہ نصف طواف يعني ساڑھے تين چکر پورے کرنے کے بعد نماز وغيرہ کيلئے طواف کو منقطع کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
مسئلہ ۳۰۸۔ اگر آدھا طواف انجام دینے کے بعد واجب نماز کے لئے طواف کو منقطع کرے تو نماز کے بعد باقی طواف کو بجا لائے او رسات چکر مکمل کرے او راگر نصف طواف سے پہلے منقطع کیا ہو اور زیادہ فاصلہ بھی درمیان میں ایجاد ہوا ہو تو احتیاط یہ ہے کہ طواف کو ابتدا سے دوبارہ انجام دےلیکن اگر فاصلہ زیادہ نہ ہو تو احتیاط کا واجب ہونا بعید نہیں ہے۔ اگر چہ ہر حالت ميں احتياط کرنا اچھا ہے اور اس ميں فرق نہيں ہے کہ نماز فرادي ہو يا جماعت کے ساتھ اور نماز کا وقت تنگ ہو يا وسيع ۔
مسئلہ ۳۰۹۔ مستحب طواف بلکہ واجب طواف کو بھي منقطع کرنا جائز ہے اگر چہ احوط يہ ہے کہ واجب طواف کو عرفی موالات ٹوٹنے کی حد تک ترک نہ کرے ۔
-
- طواف کے واجبات
-
- چوتھي فصل :صفا اور مروہ کے درمیان سعي
- پانچويں فصل: تقصيرپانچويں فصل: تقصير
مسئلہ ۳۶۲۔ عمرہ کے واجبات ميں سے پانچواں واجب تقصیر ہے۔
مسئلہ ۳۶۳۔ سعي انجام دینے کے بعد تقصير کرنا واجب ہے یعنی اپنے سر کے بال یا داڑھی یا مونچھوں میں سے ٹھوڑے سے بال یا اپنے ہاتھ یا پاوں کے تھوڑے سے ناخن کاٹ لے۔
مسئلہ ۳۶۴۔ تقصيرعمرہ کے دوسرے اعمال کی طرح عبادات میں سے ہے اور اس کے لئے بھی نیت کرنی چاہیے جس طرح احرام کی نیت کے بارے میں بیان کیاگیا ۔
مسئلہ ۳۶۵۔ عمرہ تمتع سے خارج ہونے کيلئے حلق (سر کا مونڈنا)کافی نہیں ہے اور عمرہ تمتع کے احرام سے خارج ہونے کے لئے حتما تقصیر کرنی چاہیے او راگر تقصیر کرنے سے پہلے مسئلہ کو جانتے ہوئے اور جان بوجھ کر سر مونڈ لے تو نہ فقط یہ کہ یہ کافی نہیں ہے بلکہ اسے ایک گوسفند کفارہ بھی دینا ہوگا لیکن اگر عمرہ مفردہ کے لئےمحرم ہوا ہو تو تقصیر یا حلق میں سے کسی ایک کو انجام دے سکتا ہے ۔
مسئلہ ۳۶۶۔ عمرہ تمتع کے احرام سے خارج ہونے کيلئے بالوں کا نوچنا کافي نہيں ہے بلکہ جس طرح سے کہا گیا اسی طرح سے تقصیر کرنا چاہیے۔ پس اگر جان بوجھ کر اور مسئلہ جاننے کے باوجود تقصير کے بجائے اپنے بالوں کو نوچے تو نہ فقط يہ کافي نہيں بلکہ اسےبال نوچنے کا کفارہ بھي دینا ہوگا۔
مسئلہ ۳۶۷۔ اگر مسئلہ نہ جاننے کي وجہ سے تقصير کے بجائے بالوں کو نوچے اور پھر حج کو بجالائے تو اس کا عمرہ باطل ہے اور جو حج بجالايا ہے وہ حج اِفراد کہلائے گا اور اس صورت میں اگر اس پر حج واجب تھی تو بنا بر احتیاط واجب اعمال حج بجا لانے کے بعد ایک عمرہ مفردہ انجام دے اور آئندہ سال عمرہ تمتع اور حج کو دوبارہ بجالائے۔ جس نے مسئلہ نہ جاننے کی وجہ سے تقصیر کے بجائے حلق کیا اور پھر پورا جج بجالایا ہو تو اس کا حکم بھی یہی ہے۔ ۔
مسئلہ ۳۶۸۔ : سعي کے بعد تقصير کي انجام دہي ميں جلدي کرنا واجب نہيں ہے۔
مسئلہ ۳۶۹۔ اگر جان بوجھ کر يا لاعلمي کي وجہ سے تقصير کو ترک کر کے حج کا احرام باندھ لے تو بنابر اقوی اس کا عمرہ باطل ہے اور اس کا حج ، حج اِفراد ہوجائيگا اور احتیاط واجب يہ ہے کہ حج کے بعد عمرہ مفردہ کو بجالائے اور اگر اس کا حج واجب تھا تو اسےآئندہ سال عمرہ اور حج کو دوبارہ انجام دینا چاہیے۔
مسئلہ ۳۷۰۔ اگر بھول کر تقصير کو ترک کردے اور حج کيلئے احرام باندھ لے تو اس کا احرام ، عمرہ اور حج صحيح ہے اور اس پر کوئي کفارہ نہيں ہے لیکن مستحب ہے کہ ایک گوسفندکفارہ دے بلکہ احوط یہ ہے کہ کفارہ دینے کو ترک نہ کرے۔
مسئلہ ۳۷۱۔ تقصير اور عمرہ تمتع کے احرام سے خارج ہون کے بعد احرام کے تمام محرمات حتی کہ بیوی بھی اس پر حلال ہوجاتی ہے۔
مسئلہ ۳۷۲۔ عمرہ تمتع ميں طواف النساءواجب نہيں ہے اگر چہ احتیاط يہ ہے کہ ثواب کی امید سے تقصیر سے پہلے طواف النساءاور اسکي نماز کو بجالائے ليکن اگر عمرہ مفردہ کی نیت سے احرام باندھا ہو تو تقصير يا حلق کے بعد اس صورت میں اس پر بیوی حلال ہوگی کہ اس نے طواف النساءاور نماز طواف کو بجالایا ہو۔ طواف نساءکا طريقہ اور احکام، طواف عمرہ سے مختلف نہيں ہيں کہ جو پہلے بیان ہوئی ہے۔
مسئلہ ۳۷۳۔ علی الظاہر ہر عمرہ مفردہ اور ہر حج کيلئے الگ الگ طواف النساء بجا لانا چاہیے مثلا اگر دو عمرہ مفردہ بجالائے يا ايک حج اور عمرہ مفردہ بجالائے تو بیوی اس پر حلال ہونے کے لئے اگر چہ بعید نہیں ہے کہ ایک طواف النسا کافی ہو لیکن اعمال کی تکمیل کے لئے دونوں عمرہ میں سے ہر ایک کے لئے یا ایک عمرہ اور ایک حج کے لئے الگ الگ طواف النسا بجا لانا چاہیے.
-
- تیسرا حصہ حج کے اعمال
- حج اور عمرہ کے استفتائات