دریافت:
مناسک حج
- حج کی فضيلت اور اہمیتمقدمهحج کی فضيلت اور اہمیت
شریعت میں حج ، چند خاص اعمال اور مناسک کے ایک مجموعے کا نام ہے جو اسلام کے بنیادی اصولوں میں سے ایک شمار ہوتا ہے جيسا کہ امام محمدباقر علیہ السلام سے روايت ہے :
" بُني الاسلام علي خمس علي الصلوة و الزکاة و الصوم و الحج و الولاية"(1)
ترجمہ: «اسلام پانچ بنيادوں پر استوار ہے:نماز ، زکات ، روزہ ، حج اور ولايت »
حج ، خواہ واجب ہو یا مستحب، اسکی بہت زیادہ فضيلت اور اجر و ثواب ہے اور اسکي فضيلت کے بارے ميں پيغمبر اکرم اور اہل بيت (عليہم السلام) سے کثير روايات وارد ہوئي ہيں، چنانچہ امام صادق سے روايت ہے:
"الحاجّ والمعتمر وَفدُ اللہ ان سألوہُ اعطاہم وان دَعوہُ اجابہم و ان شفعوا شفّعہم و ان سکتوا ابتدأہم و يُعوّضون بالدّرہم ألف ألف درہم "(2)
"حج اور عمرہ انجام دینے والے راہ خدا کے راہی ہيں۔ اگر اللہ سے مانگیں تو انہيں عطا کرتاہے اور اسے پکاريں تو جواب ديتاہے، اگر شفاعت کريں تو قبول کرتاہے اگرچپ رہيں تو از خود اقدام کرتاہے اور ايک درہم کے بدلے (جو انہوں نے حج کرنے پر خرچ کئے ہیں) دس لاکھ درہم پاتے ہيں۔
1۔ کافی، ج۲، ص ۱۸، ح ۱؛ وسائل الشیعه، ج۱، ص ۷، باب ۱، ح ۱۔
2۔ کافی، ج۴، ص ۲۵۵، ح ۱۴۔ - حج ترک کرنے کا حکمحج ترک کرنے کا حکم
مسئلہ ۱۔ حج ضروریات دین میں شمار ہوتا ہے اور اس کا واجب ہونا کتاب و سنت کے بے شمار دلائل سے ثابت ہے۔ جو شخص حج کے شرائط رکھتے ہوئے اور اسک ے واجب ہونے کا علم رکھتے ہوئے اسے ترک کرے، وہ گناہ کبیرہ کا مرتکب ہوا ہے۔
اللہ تعالي قرآن مجید ميں فرماتا ہے:
{ وَلِلَّهِ عَلَى النَّاسِ حِجُّ الْبَيْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ إِلَيْهِ سَبِيلاً وَمَنْ كَفَرَ فَإِنَّ اللَّهَ غَنِيٌّ عَنِ الْعَالَمِينَ}(1)
ترجمہ: « اللہ کے لیے ان لوگوں پر اس کے گھر کا حج کرنا واجب ہے جو اس راہ کی استطاعت رکھتے ہوں اور جو کافر ہوجائے تو خدا تمام عالمین سے بے نیاز ہے۔»
اور امام صادق علیہ السلام سے یوں روايت ہوئی ہے
"من ماتَ ولم یَحُجَّ حَجّۃ الاسلام و لم یَمنعہُ من ذلک حاجۃٌ تجحفُ بہ او مرض لا یطیق فیہ الحج أو سلطان یمنعہ، فلیمت یہودیاً أو نصرانیاً" (2)
ترجمہ: جو شخص انجام دیے بغیر مرجائے، جبکہ اس کے حالات بھی مساعد ہوں یا کوئی سخت بیماری یا ظالم بادشاہ اسے حج سے روکنے کا سبب نہ بنے، تو وہ یہودی یا مسیحی مرے گا۔
1۔سورہ آل عمران، آیت ۹۷۔
2۔تہذیب الاحکام، ج۵، ص ۱۷۔ - حج اور عمرہ کے اقسامحج اور عمرہ کے اقسام
مسئلہ ۲۔ جو انسان حج انجام ديتا ہے يا وہ اسے اپنے لئےانجا م ديتا ہے يا کسي کي نیابت میں بجالاتا ہے، اس حج کو "نيابتي حج " کہتے ہيں اور جو حج اپنے لئے بجا لاتا ہےاس کی دو قسمیں ہیں: واجب اورمستحب۔
مسئلہ ۳۔ واجب حج يا شريعت کے اصولوں کی بنیاد پر واجب ہوتا ہے جسے "حجة الاسلام" کہتے ہيں يا کسي اور وجہ سے ، جیسے نذر يا حج کے باطل ہونے کے سبب واجب ہوتا ہے۔
مسئلہ ۴۔ حجة الاسلام اورنيابتي حج ميں سے ہر ايک کي اپني اپني شرائط اور احکام ہيں کہ جنہيں ہم پہلے باب ميں دو فصلوں کے ضمن ميں ذکر کريں گے۔
مسئلہ ۵۔ حج کی تین اقسام ہیں: ۱۔ تمتع، ۲۔ اِفراد، ۳۔ قِران۔
پہلی قسم (حج تمتع) ان افراد پر واجب ہوتا ہے کہ جنکا وطن مکہ سے ۴۸ میل (تقریبا ۹۰ کیلومیٹر) کے فاصلے پر ہو۔ حج کی دوسری اور تیسری قسم (اِفراد اور قِران) ان لوگوں پر واجب ہوتی ہے جو مکہ میں رہتے ہیں یا ان کی رہائش کی جگہ مذکورہ فاصلہ سے کم پر واقع ہو۔
حج تمتع مناسک اور اعمال کے اعتبار سے دیگر دو قسموں سے کچھ فرق رکھتا ہے۔
مسئلہ ۶۔ حج تمتع، حج قِران اور اِفراد سے اس لحاظ سے مختلف ہے کہ حج تمتع، عمرہ اور حج پر مشتمل ایک عبادت ہے اور اس میں عمرہ حج پر مقدم ہوتا ہے اور عمرہ و حج کے درمیان فاصلہ زمانی بھی پایا جاتا ہے اور اس فاصلے میں انسان احرام سے خارج ہوتا ہے اور حج کے لئے مُحرِم ہونے تک مُحرِم پر حرام ہونے والی چیزوں سے فائدہ اٹھانا حلال ہوتا ہے ۔ اسی لئے حج تمتع (بہرہ مند ہونا) کا عنوان اس کے لئے مناسب ہے۔اور حج اس کا دوسرا حصہ کہلاتا ہے اور ان دونوں کو ایک ہی سال میں انجام دینا ضروری ہے۔ حج اِفراد اور قِران کے برخلاف کہ جن میں صرف حج انجام دیا جاتا ہے۔ اور ان میں عمرہ ایک مستقل عبادت تصور کی جاتی ہے اور اسے "عمرہ مفردہ" کہا جاتاہے۔ اس لئے ممکن ہے کہ عمرہ مفردہ ایک سال اور حج اِفراد یا قِران اگلے سال انجام دیا جائے۔
مسئلہ ۷۔ عمرہ تمتع اور عمرہ مفردہ کے کچھ احکام مشترک ہیں کہ دوسری فصل میں ذکر کئے جائیں گے اور ان کے درمیان جو فرق ہے وہ مسئلہ نمبر ۱۶ میں بیان کیا جائے گا۔
مسئلہ ۸۔ عمرہ بھی حج کی طرح کبھی واجب ہے تو کبھی مستحب ۔
مسئلہ ۹۔ دین اسلام میں عمرہ زندگی میں ایک بار ایسے شخص پر واجب ہوتا ہے جو صاحب استطاعت ہو (جیسا کہ حج کے مورد میں بیان کیا جاتا ہے(1))۔ اور اس کا وجوب بھی حج کے وجوب کی طرح فوری ہے۔ اور اس کے وجوب میں حج بجالانے کی استطاعت شرط نہیں ہے۔ بلکہ اگر کوئی شخص عمرہ کی استطاعت پیدا کرلے تو اس پر عمرہ واجب ہوجاتا ہے۔ اگرچہ وہ حج کے لئے استطاعت نہ رکھتا ہو۔ اس کے برعکس بھی اسی کے مانند ہے ، یعنی اگر کوئی شخص حج کے لئے استطاعت رکھتا ہو، لیکن عمرہ کے لئے مستطیع نہ ہو تو اسے حج بجالانا چاہیے۔ یہ حکم ان افراد کے لئے ہے کہ جو مکہ میں یا ۴۸ میل سے کم تر فاصلہ پر رہائش پذیر ہوں لیکن جو لوگ مکہ سے دور ہیں اور انکا وظیفہ حج تمتع انجام دینا ہے تو انکے لئے کبھی بھی عمرہ کی استطاعت حج کی استطاعت سے اور حج کی استطاعت عمرہ کی استطاعت سے جدا نہیں ہے کیونکہ حج تمتع دونوں اعمال کا مرکب ہے اور دونوں کو ایک ہی سال میں بجالانا چاہیے۔
مسئلہ ۱۰۔ مکلف کے لئے جائز نہیں ہے کہ وہ احرام کے بغیر مکہ میں داخل ہو اور اگروہ موسم حج کے علاوہ کسی اور موقع پر مکہ میں داخل ہونا چاہتا ہو تو واجب ہے کہ وہ عمرہ مفردہ کے احرام کے ساتھ داخل ہو۔ اس حکم سے دو گروہ مستثنیٰ ہیں:
1. وہ لوگ جن کا پیشہ اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ وہ مکہ میں زیادہ آمد و رفت کریں۔
2. وہ لوگ جو حج یا عمرہ بجالانے کے بعد مکہ سے باہر نکل چکے ہیں اور اسی حج یا عمرہ بجالائے ہوئے مہینے میں دوبارہ مکہ میں داخل ہونا چاہتے ہیں۔
مسئلہ ۱۱۔ دوبارہ عمرہ بجالانا حج کے دوبارہ بجا لانے کی طرح مستحب ہے۔ اور دو عمرہ کے درمیان کوئی خاص فاصلہ شرط نہیں ہے۔ لیکن احتیاط کی بنا پر ہر ماہ میں اپنے لئے صرف ایک عمرہ بجا لائے۔ اور اگر دوسرے افراد کے لئے دو عمرے بجا لائے یا ایک عمرہ اپنے لئے اور دوسرا عمرہ کسی دوسرے کے لئےبجا لائے تو مذکورہ احتیاط ضروری نہیں ہے۔ اسی لئے اگر دوسرے عمرے کو کسی کی نیابت میں بجا لائے تو نائب کا اس کے بدلے میں اجرت لینا جائز ہے اور یہ منوب عنہ کے عمرہ مفردہ کے لئے کافی ہے چاہے وہ واجب ہی کیوں نہ ہو۔1 . مسئلہ 34 کے بعد - حج تمتع اور عمرہ تمتع کا اجمالی ڈھانچہحج تمتع اور عمرہ تمتع کا اجمالی ڈھانچہ
مسئلہ ۱۲۔ حج تمتع دو عمل کا مرکب ہے: ۱۔ عمرہ تمتع ۲۔ حج تمتع۔ عمرہ تمتع حج پر مقدم ہے اور ان دونوں کے اپنے مخصوص اعمال ہیں کہ جن کی جانب اشارہ کیا جائے گا۔
مسئلہ ۱۳۔ عمرہ تمتع کے اعمال مندرجہ ذیل ہیں:
1. کسی بھی ایک میقات پر احرام باندھنا،
2. کعبہ کا طواف،
3. نماز طواف،
4. صفا و مروہ کے درمیان سعی،
5. تقصیر (تھوڑے سے بال یا ناخن کاٹنا)
مسئلہ ۱۴۔ حج تمتع کے اعمال مندرجہ ذیل ہیں:
1. مکہ مکرمہ میں احرام باندھنا،
2. ۹ ذی الحجہ کی ظہر سے غروب شرعی تک عرفات میں وقوف،
3. ۱۰ ذی الحجہ کی رات کو سورج طلوع ہونے تک مشعر الحرام میں وقوف،
4. ۱۰ ذی الحجہ (عید قربان کے دن) کو جمرہ عقبہ کو کنکریاں مارنا،
5. قربانی،
6. سرمنڈوانا یا تقصیر کرنا،
7. طواف حج،
8. نماز طواف،
9. صفا و مروہ کے درمیان سعی،
10. طوافِ نساء،
11. نماز طواف نساء،
12. ۱۱ ذی الحجہ کی رات کو منیٰ میں بیتوتہ ( رات گزارنا)کرنا،
13. ۱۱ ذی الحجہ کے دن تینوں جمرات پر کنکریاں مارنا
14. ۱۲ ذی الحجہ کی رات کو منیٰ میں بیتوتہ کرنا،
15. ۱۲ ذی الحجہ کے دن تینوں جمرات کنکریاں مارنا۔ - حج اِفراد اورعمرہ مفردہحج اِفراد اورعمرہ مفردہ
مسئلہ ۱۵۔ حج اِفراد کی کیفیت حج تمتع کی مانند ہے۔ لیکن فرق صرف اتنا ہے کہ حج تمتع میں قربانی کرنا واجب ہے اور حج افراد میں مستحب۔
مسئلہ ۱۶۔ عمرہ مفردہ بھی عمرہ تمتع کی مانند ہے سوائےدرج ذیل مواقع کے:
1. عمرہ تمتع میں انسان کو تقصیر کرنا ضروری ہے لیکن عمرہ مفردہ میں یہ اختیار ہے کہ سر منڈانے اور تقصیر میں اختیار ہے البتہ یہ حکم صرف مردوں کے لئے ہے لیکن خواتین پر واجب ہے کہ وہ عمرہ مفردہ اور عمرہ تمتع میں صرف تقصیر کریں۔
2. عمرہ تمتع میں طواف نساء اور نماز طواف نساء واجب نہیں ہے اگرچہ بنابر احتیاط ان دو اعمال کو تقصیر سے پہلے رجا کی قصد سے بجا لائے۔ لیکن عمرہ مفردہ میں طواف نساء اور اس کی نماز واجب ہے۔
3. عمرہ تمتع کو حج کے مہینوں میں سے ایک مہینہ میں یعنی شوال، ذی قعد یا ذی الحجہ میں انجام دیا جانا چاہیے جبکہ عمرہ مفردہ کو سال کے تمام ایام میں سے کسی میں بھی بجالانا صحیح ہے۔
4. عمرہ تمتع کے میقات، پانچ میقاتوں میں سے ایک ہے کہ جس کی تفصیل آیندہ آئے گی۔ جبکہ عمرہ مفردہ کا میقات شہر مکہ کے اندر موجود افراد کے لئے اَدنَی الحِلّ(حرم کے باہر نزدیک ترین مقام) ہے۔ اگرچہ پانچ میقاتوں میں سے کسی ایک میقات پر بھی احرام باندھنا جائز ہے لیکن جو مکہ سے باہر ہو اور عمرہ مفردہ بجالانا چاہتا ہو تو اسے پانچ میقاتوں میں سے کسی ایک میقات سے احرام باندھنا چاہیے۔ - حج قِرانحج قِرانمسئلہ ۱۷۔ حج قِران کی کیفیت حج اِفراد کی مانندہے لیکن فرق صرف اتنا ہے کہ حج قِران میں مُحرِم ہونے کے ساتھ ساتھ قربانی کا بھی ساتھ ہونا ضروری ہے، اس لحاظ سےاس پر قربانی واجب ہے۔
اسی طرح حج قِران میں احرام لبیک کہنے سے یا اشعار یا تقلید(1) سے محقق ہوجاتا ہے لیکن حج اِفراد میں فقط لبیک کہنے سے محقق ہوتا ہے۔1۔ان دونوں کے معنی مسئلہ ۱40 میں بیان کئے جائیں گے۔ - حج تمتع کے کلی احکامحج تمتع کے کلی احکام
مسئلہ ۱۸۔ حج تمتع کے صحیح ہونے کی شرائط مندرجہ ذیل ہیں:
پہلی شرط: نیت: یعنی جس وقت سے عمرہ تمتع کا احرام باندھا چاہتا ہے اسی وقت سے حج تمتع انجام دینے کا قصد بھی رکھتا ہو۔ ورنہ اس کا حج صحیح نہیں ہے۔
دوسری شرط: عمرہ اور حج دونوں حج کے مہینوں میں واقع ہوں۔
تیسری شرط: عمرہ اور حج دونوں ایک ہی سال میں واقع ہوں۔
چوتھی شرط: عمرہ اور حج دونوں ایک ہی شخص کے لئے اور ایک ہی شخص کے توسط سے انجام دیئے جانا چاہیے لہذا اگر کوئی شخص دو افراد کو اجیر کرے کہ ان میں سے ایک میت کی طرف سے حج تمتع بجالائے اور دوسرا عمرہ تمتع، تو کافی نہیں ہے۔
مسئلہ ۱۹۔ ایسا شخص جس کا وظیفہ حج تمتع ہو وہ خود اپنی مرضی سے اپنے حج تمتع کو حج قِران یا حج اِفراد میں تبدیل نہیں کرسکتا۔
مسئلہ ۲۰۔ ایسا شخص جس کا وظیفہ حج تمتع ہے اور اگر اسے یہ احساس ہو کہ وقت کی کمی کی وجہ سے وہ عمرہ تمتع کو مکمل کر کے حج کو درک نہیں کر سکتا ہے، ایسے شخص پر واجب ہے کہ وہ اپنے حج تمتع کو حج اِفراد میں تبدیل کرے اور حج کے اعمال انجام دینے کے بعد عمرہ مفردہ بجا لائے۔
مسئلہ ۲۱۔ وہ خاتون جو حج تمتع انجام دینا چاہتی ہے لیکن میقات پر پہنچنے پر ماہانہ عادت سے دوچار ہوئی اگر وہ احتمال دیتی ہے کہ حج تمتع کے احرام کے لئے وقت کی تنگی سے پہلے پاک ہوجائے گی اور غسل کرنے کے بعد عمرہ تمتع کے اعمال بجالاسکتی ہے اور پھر حج کے احرام سے عرفات کے وقوف کو عرفہ کے دن اول ظہر سے درک کرسکتی ہے تو اس پر واجب ہے کہ میقات میں عمرہ تمتع کے لئے مُحرِم ہوجائے پھر اگر پاک ہوئی اور عمرہ تمتع کے اعمال کو بجالانے اور عرفات میں اختیاری وقوف درک کرنے کے لئے کافی وقت ہوا تو اسے یہی کام انجام دینا چاہیے اگر اتفاق طور پر پاک نہ ہوئی یا پاک ہونے کے بعد اس کے پاس عمرہ تمتع بجالانے اور عرفات کے وقوف کو درک کرنے کے لئے وقت کافی نہیں ہے تو عمرہ تمتع کے احرام کے ساتھ حج افراد کی طرف عدول کرے گی اور اس کے بعد ایک عمرہ مفردہ کو بجالائے گی اور اس کا یہ عمل حج تمتع کے لئے کافی ہے۔
اور اگر اسے اطمینان ہے کہ حج تمتع کے احرام اور وقوف عرفات کو درک کرنے کے وقت تک پاک نہیں ہوسکتی ہے یا اگر پاک ہوجائے تو عمرہ کے اعمال انجام دینے اور وقوف عرفات کو درک کرنے تک کافی وقت نہیں ہوگا تو اس صورت میں وہ میقات پر ہی ما فی الذمہ کے قصد سے یا حج اِفراد کے لئے مُحرِم ہوجائے اور اعمال حج بجالانے کے بعد ایک عمرہ مفردہ بجالائے۔ اس کا یہ عمل حج تمتع کے لئے کافی ہوگا۔
لیکن اگر میقات پر احرام باندھنے کے کے وقت پاک تھی، پھر راستے میں یا مکہ پہنچنے پر عمرہ کا طواف اور اسکی نماز بجالانے سے پہلے یا طواف کے دوران چوتھے چکر کو تمام کرنے سے پہلے، ماہانہ عادت سے دوچار ہوجائے اور عمرہ کے اعمال انجام دینے، عرفات کے وقوف اختیاری درک کرنے کے وقت تک پاک نہ ہوئی تو اس صورت میں اسے اختیار ہے کہ یا تو اسی احرام کے ساتھ عمرہ تمتع کو حج افراد میں بدل دے اور حج افراد کو انجام دینے کے بعد عمرہ مفردہ بجالائے اور اس کا یہ عمل حج تمتع کے لئے کافی ہوگا؛ یا عمرہ تمتع کے طواف اور اسکی نماز کو چھوڑ کر، سعی اور تقصیر کو انجام دے او رعمرہ تمتع کے احرام سے خارج ہوجائے، اس کے بعد حج تمتع کے لئے محرم ہونے، دونوں وقوف کو درک کرنے اور اعمال منی کو انجام دینے کے بعد مکہ آنے پر، حج کے طواف ، اس کی نماز اور سعی بجا لانےسے پہلے یا ان کو انجام دینے کے بعد عمرہ تمتع کے طواف اور اس کی نماز کو قضا کے طور پر بجالائے۔ اس کا یہ عمل بھی حج تمتع کے لئے کافی ہے اور اس کے ذمہ کوئی اور چیز نہیں رہے گی۔
اور اگر طواف کے دوران، چوتھے چکر کے اختتام پر ماہانہ عادت سے دوچار ہوئی تو باقی طواف اور نماز کو چھوڑ کر سعی اور تقصیر کو انجام دے اور احرام سے خارج ہوجائے پھر حج تمتع کے لئے محرم ہوکر دونوں وقوف کو درک کرنے اور منی کے اعمال کو انجام دینے کے بعد واپس مکہ لوٹنے پر طواف، نماز اور سعی کو بجالانے کے بعد یا اس سے پہلے، عمرہ کا طواف(1) اور اس کی نماز بجا لائے، اس کا یہ عمل حج تمتع کے لئےکافی ہے اور اس کے ذمہ کوئی چیز نہیں ر ہےگی۔
مسئلہ ۲۲۔ حج کے اعمال اور اس کے احکام تیسری فصل میں تفصیل کے ساتھ بیان کئے جائیں گے۔
1۔ اس کی تفصیل جاننے کے لئے مسئلہ نمبر 286 کی طرف رجوع کریں۔ - پہلا حصه حَجة الاسلام اورنيابتي حج
- دوسرا حصه عمرہ کے اعمال
- پہلي فصل :احرام باندھنے کےمیقات
- دوسري فصل :احرام
- تیسری فصل: طواف اور اس کی نماز
- طواف کے شرائط
- طواف کے واجبات
- طواف کو ترک کرنے اور طواف میں شک کے بارے میں چند مسائلطواف کو ترک کرنے اور طواف میں شک کے بارے میں چند مسائل
مسئلہ ۳۲۶۔ طواف عمرہ کا ايک رکن ہے اور فرصت ختم ہونے تک اسے جان بوجھ کر ترک کرے تو اسکا عمرہ باطل ہے اور اس میں کوئی فرق نہیں کہ اس مسئلےکے حکم کو جانتا ہو يا نہ جانتا ہو۔
مسئلہ ۳۲۷۔ مکہ ميں داخل ہونے کے بعد فوراً طواف کرنا واجب نہيں ہے بلکہ اسے عرفات کے اختياري وقوف کا وقت تنگ ہونے سے پہلے تک مؤخر کرسکتا ہے۔ (عرفات ميں اختياري وقوف نوذي الحجہ کي ظہر سے ليکر غروب شرعی تک ہوتا ہے ) اس طرح کہ طواف اور اس کے بعد والے اعمال انجام دینے کے بعد حج کے لئے احرام اورعرفات کے وقوف کو درک کر سکے۔
مسئلہ ۳۲۸۔ اگر کسی شخص کا عمرہ باطل ہوجائے، جیسا کہ گزشتہ حالت ميں بیان کیا يا ديگر حالات ميں کہ جنہيں ہم آئندہ بيان کريں گے، تو احتیاط يہ ہے کہ ایسے شخص چاہیےکہ حج تمتع کو حج اِفراد ميں تبديل کرے اور اس کے بعد عمرہ مفردہ کو بجالائے پھر اگر اس پر حج واجب تھا تو آئندہ سال عمرہ اور حج تمتع بجالائے۔
مسئلہ ۳۲۹۔ اگر بھول کر طواف کو ترک کردے اور طواف کا وقت گزرنے سے پہلے ياد آجائے تو طواف اور نماز طواف کو بجالائے اور ان کے بعد سعي انجام دے۔
مسئلہ ۳۳۰۔ اگر طواف بھول جائے اور اس کا وقت گزرنے کے بعد ياد آئے تو ہر ممکن فرصت میں طواف اور نماز طواف کي قضا بجالانا چاہیے ليکن اگر اپنے وطن واپس پلٹنے کے بعد ياد آئے، تو اگر اسکے لئے بغير مشقت اور تکلیف کے لوٹنا ممکن ہو تو اس پر واجب ہے کہ واپس لوٹ کر طواف اور نماز طواف کی قضا بجالائے، بصورت دیگر کسی کو نائب بنائے لیکن طواف اور نماز طواف کي قضا کے بعد اس پر سعي کا بجا لانا واجب نہيں ہے۔
مسئلہ ۳۳۱۔ اگر کوئی جان بوجھ کر یا فراموشی کی وجہ سے طواف کو ترک کردے نیز جس سے سہوا طواف کے ایک حصہ کو انجام نہ دیا ہو، جب تک خود یا اس کا نائب طواف کو بجا نہ لائے تب تک وہ چیزیں اس پر حرام ہیں جنکے حلال ہونے کے لئےطواف کو انجام دینا شرط ہے۔
مسئلہ ۳۳۲۔ جو شخص بيماري يا شکستگي و غيرہ کي وجہ سے حتی کسی اور کی مدد سے بھی طواف کا وقت گزرنے سے پہلے خود طواف کرنے سے قاصر ہو تو اگر ممکن ہو تو اسے اٹھا کر طواف کرايا جائے ورنہ کہ کسی کو نائب بنانا چاہیے۔
مسئلہ ۳۳۳۔ اگر طواف بجا لا کر لوٹے یعنی مطاف سے باہر نکلنے کے بعد طواف کے چکروں کے کم يازيادہ ہونے ميں شک کرے تو اپنے شک کي پروا نہ کرے بلکہ صحت پر بنا رکھے۔ لیکن اگر طواف کے دوران طواف کے چکروں کی تعداد میں شک کرے اوریہ نہ جانتا ہو کہ یہ اس کا ساتھواں چکر ہے یا اس سے کم تو اس کا طواف باطل ہے اور اس پر لازم ہے کہ دوبارہ طواف انجام دے۔ - نماز طوافنماز طواف
مسئلہ ۳۳۴۔ عمرہ کے واجبات ميں سے تيسرا و اجب نماز طواف ہے۔
مسئلہ ۳۳۵۔ طواف کے بعد دو رکعت نماز طواف واجب ہے اور اسے جہر (بلند) یا اخفات (آہستہ)سے پڑھنے میں اختيار ہے اورطواف کی طرح اس کی نیت میں اس کی قسم کا ذکر کرنا ضروری ہے اور اسے قربت و اخلاص کی نیت سے انجام دے ۔
مسئلہ ۳۳۶۔ طواف اور نماز طواف کے درميان فاصلہ ایجاد نہیں ہونا چاہیے اور فاصلہ ایجاد ہونے یا نہ ہونے کا معیارعرف ہے۔
مسئلہ ۳۳۷۔ نماز طواف ، نماز صبح کي طرح ہے اور حمد کے بعد قرآن کی کوئی بھی سورہ ، سوائے واجب سجدے والے چار سوروں کے ، پڑھے اور مستحب ہے کہ پہلي رکعت ميں حمد کے بعد سورہ توحيد اور دوسري رکعت ميں حمد کے بعد سورہ کافرون پڑھے۔
مسئلہ ۳۳۸۔ واجب ہے کہ نماز مقام ابراہيم عليہ السلام کے پيچھے اور دوسروں کے زحمت ایجاد نہ ہوتی ہو تو مقام ابراہیم کے نزدیک پڑھے اوراگر اس پر قادر نہ ہو تو مسجدالحرام ميں مقام ابراہيم کے پيچھے اور اس سے کچھ دوری پر نماز ادا کرے۔
مسئلہ ۳۳۹۔ اگر جان بوجھ کر نمازطواف کو ترک کرے یہاں تک کے اس کے تدارک کا وقت گزر جائے تو اس کا حج باطل ہے ليکن اگر بھول کر ترک کرے اور اگر مکہ مکرمہ سے خارج ہونے سے پہلے ياد آجائے اورمسجد الحرام کی طرف لوٹ آنا حرج نہ ہو تو مسجد کی طرف پلٹے ليکن اگر مکہ مکرمہ سے خارج ہونے کے بعد ياد آئے تو جہاں ياد آئے وہيں پر نماز پڑھ لے۔
مسئلہ ۳۴۰۔ سابقہ مسئلہ ميں جاہل قاصر يا مقصر کا حکم وہي ہے جو بھولنے والے کا ہے۔
مسئلہ ۳۴۱۔ اگر سعي کے کے دوران ياد آئے کہ اس نے نماز طواف نہيں پڑھي ہے تو سعي کو منقطع کر کے نماز کي جگہ پر جاکر نماز بجالائے۔ پھر واپس آئے اور جہاں سے سعي کو منقطع کيا تھا اسے وہيں سے جاري کرے۔
مسئلہ۳۴۲۔ اگر مرد اور عورت ایک ساتھ کھڑے ہوکر نماز طواف انجام دیں یا عورت مردسے آگےکھڑی جائےتو بھی ان کی نماز صحیح ہے۔
مسئلہ ۳۴۳۔ نماز طواف کو جماعت کے ساتھ ادا کرنے کا جواز معلوم نہیں ہے۔
مسئلہ ۳۴۴۔ ہر مکلف بالخصوص اس شخص پر جو حج پر جانا چاہتا ہے واجب ہے کہ وہ نماز کو صحیح طریقے سے سيکھے تاکہ اپني ذمہ داري کو صحيح طرح سے انجام دے سکے۔
-
-
- چوتھي فصل :صفا اور مروہ کے درمیان سعي
- پانچويں فصل: تقصيرپانچويں فصل: تقصير
مسئلہ ۳۶۲۔ عمرہ کے واجبات ميں سے پانچواں واجب تقصیر ہے۔
مسئلہ ۳۶۳۔ سعي انجام دینے کے بعد تقصير کرنا واجب ہے یعنی اپنے سر کے بال یا داڑھی یا مونچھوں میں سے ٹھوڑے سے بال یا اپنے ہاتھ یا پاوں کے تھوڑے سے ناخن کاٹ لے۔
مسئلہ ۳۶۴۔ تقصيرعمرہ کے دوسرے اعمال کی طرح عبادات میں سے ہے اور اس کے لئے بھی نیت کرنی چاہیے جس طرح احرام کی نیت کے بارے میں بیان کیاگیا ۔
مسئلہ ۳۶۵۔ عمرہ تمتع سے خارج ہونے کيلئے حلق (سر کا مونڈنا)کافی نہیں ہے اور عمرہ تمتع کے احرام سے خارج ہونے کے لئے حتما تقصیر کرنی چاہیے او راگر تقصیر کرنے سے پہلے مسئلہ کو جانتے ہوئے اور جان بوجھ کر سر مونڈ لے تو نہ فقط یہ کہ یہ کافی نہیں ہے بلکہ اسے ایک گوسفند کفارہ بھی دینا ہوگا لیکن اگر عمرہ مفردہ کے لئےمحرم ہوا ہو تو تقصیر یا حلق میں سے کسی ایک کو انجام دے سکتا ہے ۔
مسئلہ ۳۶۶۔ عمرہ تمتع کے احرام سے خارج ہونے کيلئے بالوں کا نوچنا کافي نہيں ہے بلکہ جس طرح سے کہا گیا اسی طرح سے تقصیر کرنا چاہیے۔ پس اگر جان بوجھ کر اور مسئلہ جاننے کے باوجود تقصير کے بجائے اپنے بالوں کو نوچے تو نہ فقط يہ کافي نہيں بلکہ اسےبال نوچنے کا کفارہ بھي دینا ہوگا۔
مسئلہ ۳۶۷۔ اگر مسئلہ نہ جاننے کي وجہ سے تقصير کے بجائے بالوں کو نوچے اور پھر حج کو بجالائے تو اس کا عمرہ باطل ہے اور جو حج بجالايا ہے وہ حج اِفراد کہلائے گا اور اس صورت میں اگر اس پر حج واجب تھی تو بنا بر احتیاط واجب اعمال حج بجا لانے کے بعد ایک عمرہ مفردہ انجام دے اور آئندہ سال عمرہ تمتع اور حج کو دوبارہ بجالائے۔ جس نے مسئلہ نہ جاننے کی وجہ سے تقصیر کے بجائے حلق کیا اور پھر پورا جج بجالایا ہو تو اس کا حکم بھی یہی ہے۔ ۔
مسئلہ ۳۶۸۔ : سعي کے بعد تقصير کي انجام دہي ميں جلدي کرنا واجب نہيں ہے۔
مسئلہ ۳۶۹۔ اگر جان بوجھ کر يا لاعلمي کي وجہ سے تقصير کو ترک کر کے حج کا احرام باندھ لے تو بنابر اقوی اس کا عمرہ باطل ہے اور اس کا حج ، حج اِفراد ہوجائيگا اور احتیاط واجب يہ ہے کہ حج کے بعد عمرہ مفردہ کو بجالائے اور اگر اس کا حج واجب تھا تو اسےآئندہ سال عمرہ اور حج کو دوبارہ انجام دینا چاہیے۔
مسئلہ ۳۷۰۔ اگر بھول کر تقصير کو ترک کردے اور حج کيلئے احرام باندھ لے تو اس کا احرام ، عمرہ اور حج صحيح ہے اور اس پر کوئي کفارہ نہيں ہے لیکن مستحب ہے کہ ایک گوسفندکفارہ دے بلکہ احوط یہ ہے کہ کفارہ دینے کو ترک نہ کرے۔
مسئلہ ۳۷۱۔ تقصير اور عمرہ تمتع کے احرام سے خارج ہون کے بعد احرام کے تمام محرمات حتی کہ بیوی بھی اس پر حلال ہوجاتی ہے۔
مسئلہ ۳۷۲۔ عمرہ تمتع ميں طواف النساءواجب نہيں ہے اگر چہ احتیاط يہ ہے کہ ثواب کی امید سے تقصیر سے پہلے طواف النساءاور اسکي نماز کو بجالائے ليکن اگر عمرہ مفردہ کی نیت سے احرام باندھا ہو تو تقصير يا حلق کے بعد اس صورت میں اس پر بیوی حلال ہوگی کہ اس نے طواف النساءاور نماز طواف کو بجالایا ہو۔ طواف نساءکا طريقہ اور احکام، طواف عمرہ سے مختلف نہيں ہيں کہ جو پہلے بیان ہوئی ہے۔
مسئلہ ۳۷۳۔ علی الظاہر ہر عمرہ مفردہ اور ہر حج کيلئے الگ الگ طواف النساء بجا لانا چاہیے مثلا اگر دو عمرہ مفردہ بجالائے يا ايک حج اور عمرہ مفردہ بجالائے تو بیوی اس پر حلال ہونے کے لئے اگر چہ بعید نہیں ہے کہ ایک طواف النسا کافی ہو لیکن اعمال کی تکمیل کے لئے دونوں عمرہ میں سے ہر ایک کے لئے یا ایک عمرہ اور ایک حج کے لئے الگ الگ طواف النسا بجا لانا چاہیے.
-
- تیسرا حصہ حج کے اعمال
- حج اور عمرہ کے استفتائات