دریافت:
مناسک حج
- حج کی فضيلت اور اہمیتمقدمهحج کی فضيلت اور اہمیت
شریعت میں حج ، چند خاص اعمال اور مناسک کے ایک مجموعے کا نام ہے جو اسلام کے بنیادی اصولوں میں سے ایک شمار ہوتا ہے جيسا کہ امام محمدباقر علیہ السلام سے روايت ہے :
" بُني الاسلام علي خمس علي الصلوة و الزکاة و الصوم و الحج و الولاية"(1)
ترجمہ: «اسلام پانچ بنيادوں پر استوار ہے:نماز ، زکات ، روزہ ، حج اور ولايت »
حج ، خواہ واجب ہو یا مستحب، اسکی بہت زیادہ فضيلت اور اجر و ثواب ہے اور اسکي فضيلت کے بارے ميں پيغمبر اکرم اور اہل بيت (عليہم السلام) سے کثير روايات وارد ہوئي ہيں، چنانچہ امام صادق سے روايت ہے:
"الحاجّ والمعتمر وَفدُ اللہ ان سألوہُ اعطاہم وان دَعوہُ اجابہم و ان شفعوا شفّعہم و ان سکتوا ابتدأہم و يُعوّضون بالدّرہم ألف ألف درہم "(2)
"حج اور عمرہ انجام دینے والے راہ خدا کے راہی ہيں۔ اگر اللہ سے مانگیں تو انہيں عطا کرتاہے اور اسے پکاريں تو جواب ديتاہے، اگر شفاعت کريں تو قبول کرتاہے اگرچپ رہيں تو از خود اقدام کرتاہے اور ايک درہم کے بدلے (جو انہوں نے حج کرنے پر خرچ کئے ہیں) دس لاکھ درہم پاتے ہيں۔
1۔ کافی، ج۲، ص ۱۸، ح ۱؛ وسائل الشیعه، ج۱، ص ۷، باب ۱، ح ۱۔
2۔ کافی، ج۴، ص ۲۵۵، ح ۱۴۔ - حج ترک کرنے کا حکمحج ترک کرنے کا حکم
مسئلہ ۱۔ حج ضروریات دین میں شمار ہوتا ہے اور اس کا واجب ہونا کتاب و سنت کے بے شمار دلائل سے ثابت ہے۔ جو شخص حج کے شرائط رکھتے ہوئے اور اسک ے واجب ہونے کا علم رکھتے ہوئے اسے ترک کرے، وہ گناہ کبیرہ کا مرتکب ہوا ہے۔
اللہ تعالي قرآن مجید ميں فرماتا ہے:
{ وَلِلَّهِ عَلَى النَّاسِ حِجُّ الْبَيْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ إِلَيْهِ سَبِيلاً وَمَنْ كَفَرَ فَإِنَّ اللَّهَ غَنِيٌّ عَنِ الْعَالَمِينَ}(1)
ترجمہ: « اللہ کے لیے ان لوگوں پر اس کے گھر کا حج کرنا واجب ہے جو اس راہ کی استطاعت رکھتے ہوں اور جو کافر ہوجائے تو خدا تمام عالمین سے بے نیاز ہے۔»
اور امام صادق علیہ السلام سے یوں روايت ہوئی ہے
"من ماتَ ولم یَحُجَّ حَجّۃ الاسلام و لم یَمنعہُ من ذلک حاجۃٌ تجحفُ بہ او مرض لا یطیق فیہ الحج أو سلطان یمنعہ، فلیمت یہودیاً أو نصرانیاً" (2)
ترجمہ: جو شخص انجام دیے بغیر مرجائے، جبکہ اس کے حالات بھی مساعد ہوں یا کوئی سخت بیماری یا ظالم بادشاہ اسے حج سے روکنے کا سبب نہ بنے، تو وہ یہودی یا مسیحی مرے گا۔
1۔سورہ آل عمران، آیت ۹۷۔
2۔تہذیب الاحکام، ج۵، ص ۱۷۔ - حج اور عمرہ کے اقسامحج اور عمرہ کے اقسام
مسئلہ ۲۔ جو انسان حج انجام ديتا ہے يا وہ اسے اپنے لئےانجا م ديتا ہے يا کسي کي نیابت میں بجالاتا ہے، اس حج کو "نيابتي حج " کہتے ہيں اور جو حج اپنے لئے بجا لاتا ہےاس کی دو قسمیں ہیں: واجب اورمستحب۔
مسئلہ ۳۔ واجب حج يا شريعت کے اصولوں کی بنیاد پر واجب ہوتا ہے جسے "حجة الاسلام" کہتے ہيں يا کسي اور وجہ سے ، جیسے نذر يا حج کے باطل ہونے کے سبب واجب ہوتا ہے۔
مسئلہ ۴۔ حجة الاسلام اورنيابتي حج ميں سے ہر ايک کي اپني اپني شرائط اور احکام ہيں کہ جنہيں ہم پہلے باب ميں دو فصلوں کے ضمن ميں ذکر کريں گے۔
مسئلہ ۵۔ حج کی تین اقسام ہیں: ۱۔ تمتع، ۲۔ اِفراد، ۳۔ قِران۔
پہلی قسم (حج تمتع) ان افراد پر واجب ہوتا ہے کہ جنکا وطن مکہ سے ۴۸ میل (تقریبا ۹۰ کیلومیٹر) کے فاصلے پر ہو۔ حج کی دوسری اور تیسری قسم (اِفراد اور قِران) ان لوگوں پر واجب ہوتی ہے جو مکہ میں رہتے ہیں یا ان کی رہائش کی جگہ مذکورہ فاصلہ سے کم پر واقع ہو۔
حج تمتع مناسک اور اعمال کے اعتبار سے دیگر دو قسموں سے کچھ فرق رکھتا ہے۔
مسئلہ ۶۔ حج تمتع، حج قِران اور اِفراد سے اس لحاظ سے مختلف ہے کہ حج تمتع، عمرہ اور حج پر مشتمل ایک عبادت ہے اور اس میں عمرہ حج پر مقدم ہوتا ہے اور عمرہ و حج کے درمیان فاصلہ زمانی بھی پایا جاتا ہے اور اس فاصلے میں انسان احرام سے خارج ہوتا ہے اور حج کے لئے مُحرِم ہونے تک مُحرِم پر حرام ہونے والی چیزوں سے فائدہ اٹھانا حلال ہوتا ہے ۔ اسی لئے حج تمتع (بہرہ مند ہونا) کا عنوان اس کے لئے مناسب ہے۔اور حج اس کا دوسرا حصہ کہلاتا ہے اور ان دونوں کو ایک ہی سال میں انجام دینا ضروری ہے۔ حج اِفراد اور قِران کے برخلاف کہ جن میں صرف حج انجام دیا جاتا ہے۔ اور ان میں عمرہ ایک مستقل عبادت تصور کی جاتی ہے اور اسے "عمرہ مفردہ" کہا جاتاہے۔ اس لئے ممکن ہے کہ عمرہ مفردہ ایک سال اور حج اِفراد یا قِران اگلے سال انجام دیا جائے۔
مسئلہ ۷۔ عمرہ تمتع اور عمرہ مفردہ کے کچھ احکام مشترک ہیں کہ دوسری فصل میں ذکر کئے جائیں گے اور ان کے درمیان جو فرق ہے وہ مسئلہ نمبر ۱۶ میں بیان کیا جائے گا۔
مسئلہ ۸۔ عمرہ بھی حج کی طرح کبھی واجب ہے تو کبھی مستحب ۔
مسئلہ ۹۔ دین اسلام میں عمرہ زندگی میں ایک بار ایسے شخص پر واجب ہوتا ہے جو صاحب استطاعت ہو (جیسا کہ حج کے مورد میں بیان کیا جاتا ہے(1))۔ اور اس کا وجوب بھی حج کے وجوب کی طرح فوری ہے۔ اور اس کے وجوب میں حج بجالانے کی استطاعت شرط نہیں ہے۔ بلکہ اگر کوئی شخص عمرہ کی استطاعت پیدا کرلے تو اس پر عمرہ واجب ہوجاتا ہے۔ اگرچہ وہ حج کے لئے استطاعت نہ رکھتا ہو۔ اس کے برعکس بھی اسی کے مانند ہے ، یعنی اگر کوئی شخص حج کے لئے استطاعت رکھتا ہو، لیکن عمرہ کے لئے مستطیع نہ ہو تو اسے حج بجالانا چاہیے۔ یہ حکم ان افراد کے لئے ہے کہ جو مکہ میں یا ۴۸ میل سے کم تر فاصلہ پر رہائش پذیر ہوں لیکن جو لوگ مکہ سے دور ہیں اور انکا وظیفہ حج تمتع انجام دینا ہے تو انکے لئے کبھی بھی عمرہ کی استطاعت حج کی استطاعت سے اور حج کی استطاعت عمرہ کی استطاعت سے جدا نہیں ہے کیونکہ حج تمتع دونوں اعمال کا مرکب ہے اور دونوں کو ایک ہی سال میں بجالانا چاہیے۔
مسئلہ ۱۰۔ مکلف کے لئے جائز نہیں ہے کہ وہ احرام کے بغیر مکہ میں داخل ہو اور اگروہ موسم حج کے علاوہ کسی اور موقع پر مکہ میں داخل ہونا چاہتا ہو تو واجب ہے کہ وہ عمرہ مفردہ کے احرام کے ساتھ داخل ہو۔ اس حکم سے دو گروہ مستثنیٰ ہیں:
1. وہ لوگ جن کا پیشہ اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ وہ مکہ میں زیادہ آمد و رفت کریں۔
2. وہ لوگ جو حج یا عمرہ بجالانے کے بعد مکہ سے باہر نکل چکے ہیں اور اسی حج یا عمرہ بجالائے ہوئے مہینے میں دوبارہ مکہ میں داخل ہونا چاہتے ہیں۔
مسئلہ ۱۱۔ دوبارہ عمرہ بجالانا حج کے دوبارہ بجا لانے کی طرح مستحب ہے۔ اور دو عمرہ کے درمیان کوئی خاص فاصلہ شرط نہیں ہے۔ لیکن احتیاط کی بنا پر ہر ماہ میں اپنے لئے صرف ایک عمرہ بجا لائے۔ اور اگر دوسرے افراد کے لئے دو عمرے بجا لائے یا ایک عمرہ اپنے لئے اور دوسرا عمرہ کسی دوسرے کے لئےبجا لائے تو مذکورہ احتیاط ضروری نہیں ہے۔ اسی لئے اگر دوسرے عمرے کو کسی کی نیابت میں بجا لائے تو نائب کا اس کے بدلے میں اجرت لینا جائز ہے اور یہ منوب عنہ کے عمرہ مفردہ کے لئے کافی ہے چاہے وہ واجب ہی کیوں نہ ہو۔1 . مسئلہ 34 کے بعد - حج تمتع اور عمرہ تمتع کا اجمالی ڈھانچہحج تمتع اور عمرہ تمتع کا اجمالی ڈھانچہ
مسئلہ ۱۲۔ حج تمتع دو عمل کا مرکب ہے: ۱۔ عمرہ تمتع ۲۔ حج تمتع۔ عمرہ تمتع حج پر مقدم ہے اور ان دونوں کے اپنے مخصوص اعمال ہیں کہ جن کی جانب اشارہ کیا جائے گا۔
مسئلہ ۱۳۔ عمرہ تمتع کے اعمال مندرجہ ذیل ہیں:
1. کسی بھی ایک میقات پر احرام باندھنا،
2. کعبہ کا طواف،
3. نماز طواف،
4. صفا و مروہ کے درمیان سعی،
5. تقصیر (تھوڑے سے بال یا ناخن کاٹنا)
مسئلہ ۱۴۔ حج تمتع کے اعمال مندرجہ ذیل ہیں:
1. مکہ مکرمہ میں احرام باندھنا،
2. ۹ ذی الحجہ کی ظہر سے غروب شرعی تک عرفات میں وقوف،
3. ۱۰ ذی الحجہ کی رات کو سورج طلوع ہونے تک مشعر الحرام میں وقوف،
4. ۱۰ ذی الحجہ (عید قربان کے دن) کو جمرہ عقبہ کو کنکریاں مارنا،
5. قربانی،
6. سرمنڈوانا یا تقصیر کرنا،
7. طواف حج،
8. نماز طواف،
9. صفا و مروہ کے درمیان سعی،
10. طوافِ نساء،
11. نماز طواف نساء،
12. ۱۱ ذی الحجہ کی رات کو منیٰ میں بیتوتہ ( رات گزارنا)کرنا،
13. ۱۱ ذی الحجہ کے دن تینوں جمرات پر کنکریاں مارنا
14. ۱۲ ذی الحجہ کی رات کو منیٰ میں بیتوتہ کرنا،
15. ۱۲ ذی الحجہ کے دن تینوں جمرات کنکریاں مارنا۔ - حج اِفراد اورعمرہ مفردہحج اِفراد اورعمرہ مفردہ
مسئلہ ۱۵۔ حج اِفراد کی کیفیت حج تمتع کی مانند ہے۔ لیکن فرق صرف اتنا ہے کہ حج تمتع میں قربانی کرنا واجب ہے اور حج افراد میں مستحب۔
مسئلہ ۱۶۔ عمرہ مفردہ بھی عمرہ تمتع کی مانند ہے سوائےدرج ذیل مواقع کے:
1. عمرہ تمتع میں انسان کو تقصیر کرنا ضروری ہے لیکن عمرہ مفردہ میں یہ اختیار ہے کہ سر منڈانے اور تقصیر میں اختیار ہے البتہ یہ حکم صرف مردوں کے لئے ہے لیکن خواتین پر واجب ہے کہ وہ عمرہ مفردہ اور عمرہ تمتع میں صرف تقصیر کریں۔
2. عمرہ تمتع میں طواف نساء اور نماز طواف نساء واجب نہیں ہے اگرچہ بنابر احتیاط ان دو اعمال کو تقصیر سے پہلے رجا کی قصد سے بجا لائے۔ لیکن عمرہ مفردہ میں طواف نساء اور اس کی نماز واجب ہے۔
3. عمرہ تمتع کو حج کے مہینوں میں سے ایک مہینہ میں یعنی شوال، ذی قعد یا ذی الحجہ میں انجام دیا جانا چاہیے جبکہ عمرہ مفردہ کو سال کے تمام ایام میں سے کسی میں بھی بجالانا صحیح ہے۔
4. عمرہ تمتع کے میقات، پانچ میقاتوں میں سے ایک ہے کہ جس کی تفصیل آیندہ آئے گی۔ جبکہ عمرہ مفردہ کا میقات شہر مکہ کے اندر موجود افراد کے لئے اَدنَی الحِلّ(حرم کے باہر نزدیک ترین مقام) ہے۔ اگرچہ پانچ میقاتوں میں سے کسی ایک میقات پر بھی احرام باندھنا جائز ہے لیکن جو مکہ سے باہر ہو اور عمرہ مفردہ بجالانا چاہتا ہو تو اسے پانچ میقاتوں میں سے کسی ایک میقات سے احرام باندھنا چاہیے۔ - حج قِرانحج قِرانمسئلہ ۱۷۔ حج قِران کی کیفیت حج اِفراد کی مانندہے لیکن فرق صرف اتنا ہے کہ حج قِران میں مُحرِم ہونے کے ساتھ ساتھ قربانی کا بھی ساتھ ہونا ضروری ہے، اس لحاظ سےاس پر قربانی واجب ہے۔
اسی طرح حج قِران میں احرام لبیک کہنے سے یا اشعار یا تقلید(1) سے محقق ہوجاتا ہے لیکن حج اِفراد میں فقط لبیک کہنے سے محقق ہوتا ہے۔1۔ان دونوں کے معنی مسئلہ ۱40 میں بیان کئے جائیں گے۔ - حج تمتع کے کلی احکامحج تمتع کے کلی احکام
مسئلہ ۱۸۔ حج تمتع کے صحیح ہونے کی شرائط مندرجہ ذیل ہیں:
پہلی شرط: نیت: یعنی جس وقت سے عمرہ تمتع کا احرام باندھا چاہتا ہے اسی وقت سے حج تمتع انجام دینے کا قصد بھی رکھتا ہو۔ ورنہ اس کا حج صحیح نہیں ہے۔
دوسری شرط: عمرہ اور حج دونوں حج کے مہینوں میں واقع ہوں۔
تیسری شرط: عمرہ اور حج دونوں ایک ہی سال میں واقع ہوں۔
چوتھی شرط: عمرہ اور حج دونوں ایک ہی شخص کے لئے اور ایک ہی شخص کے توسط سے انجام دیئے جانا چاہیے لہذا اگر کوئی شخص دو افراد کو اجیر کرے کہ ان میں سے ایک میت کی طرف سے حج تمتع بجالائے اور دوسرا عمرہ تمتع، تو کافی نہیں ہے۔
مسئلہ ۱۹۔ ایسا شخص جس کا وظیفہ حج تمتع ہو وہ خود اپنی مرضی سے اپنے حج تمتع کو حج قِران یا حج اِفراد میں تبدیل نہیں کرسکتا۔
مسئلہ ۲۰۔ ایسا شخص جس کا وظیفہ حج تمتع ہے اور اگر اسے یہ احساس ہو کہ وقت کی کمی کی وجہ سے وہ عمرہ تمتع کو مکمل کر کے حج کو درک نہیں کر سکتا ہے، ایسے شخص پر واجب ہے کہ وہ اپنے حج تمتع کو حج اِفراد میں تبدیل کرے اور حج کے اعمال انجام دینے کے بعد عمرہ مفردہ بجا لائے۔
مسئلہ ۲۱۔ وہ خاتون جو حج تمتع انجام دینا چاہتی ہے لیکن میقات پر پہنچنے پر ماہانہ عادت سے دوچار ہوئی اگر وہ احتمال دیتی ہے کہ حج تمتع کے احرام کے لئے وقت کی تنگی سے پہلے پاک ہوجائے گی اور غسل کرنے کے بعد عمرہ تمتع کے اعمال بجالاسکتی ہے اور پھر حج کے احرام سے عرفات کے وقوف کو عرفہ کے دن اول ظہر سے درک کرسکتی ہے تو اس پر واجب ہے کہ میقات میں عمرہ تمتع کے لئے مُحرِم ہوجائے پھر اگر پاک ہوئی اور عمرہ تمتع کے اعمال کو بجالانے اور عرفات میں اختیاری وقوف درک کرنے کے لئے کافی وقت ہوا تو اسے یہی کام انجام دینا چاہیے اگر اتفاق طور پر پاک نہ ہوئی یا پاک ہونے کے بعد اس کے پاس عمرہ تمتع بجالانے اور عرفات کے وقوف کو درک کرنے کے لئے وقت کافی نہیں ہے تو عمرہ تمتع کے احرام کے ساتھ حج افراد کی طرف عدول کرے گی اور اس کے بعد ایک عمرہ مفردہ کو بجالائے گی اور اس کا یہ عمل حج تمتع کے لئے کافی ہے۔
اور اگر اسے اطمینان ہے کہ حج تمتع کے احرام اور وقوف عرفات کو درک کرنے کے وقت تک پاک نہیں ہوسکتی ہے یا اگر پاک ہوجائے تو عمرہ کے اعمال انجام دینے اور وقوف عرفات کو درک کرنے تک کافی وقت نہیں ہوگا تو اس صورت میں وہ میقات پر ہی ما فی الذمہ کے قصد سے یا حج اِفراد کے لئے مُحرِم ہوجائے اور اعمال حج بجالانے کے بعد ایک عمرہ مفردہ بجالائے۔ اس کا یہ عمل حج تمتع کے لئے کافی ہوگا۔
لیکن اگر میقات پر احرام باندھنے کے کے وقت پاک تھی، پھر راستے میں یا مکہ پہنچنے پر عمرہ کا طواف اور اسکی نماز بجالانے سے پہلے یا طواف کے دوران چوتھے چکر کو تمام کرنے سے پہلے، ماہانہ عادت سے دوچار ہوجائے اور عمرہ کے اعمال انجام دینے، عرفات کے وقوف اختیاری درک کرنے کے وقت تک پاک نہ ہوئی تو اس صورت میں اسے اختیار ہے کہ یا تو اسی احرام کے ساتھ عمرہ تمتع کو حج افراد میں بدل دے اور حج افراد کو انجام دینے کے بعد عمرہ مفردہ بجالائے اور اس کا یہ عمل حج تمتع کے لئے کافی ہوگا؛ یا عمرہ تمتع کے طواف اور اسکی نماز کو چھوڑ کر، سعی اور تقصیر کو انجام دے او رعمرہ تمتع کے احرام سے خارج ہوجائے، اس کے بعد حج تمتع کے لئے محرم ہونے، دونوں وقوف کو درک کرنے اور اعمال منی کو انجام دینے کے بعد مکہ آنے پر، حج کے طواف ، اس کی نماز اور سعی بجا لانےسے پہلے یا ان کو انجام دینے کے بعد عمرہ تمتع کے طواف اور اس کی نماز کو قضا کے طور پر بجالائے۔ اس کا یہ عمل بھی حج تمتع کے لئے کافی ہے اور اس کے ذمہ کوئی اور چیز نہیں رہے گی۔
اور اگر طواف کے دوران، چوتھے چکر کے اختتام پر ماہانہ عادت سے دوچار ہوئی تو باقی طواف اور نماز کو چھوڑ کر سعی اور تقصیر کو انجام دے اور احرام سے خارج ہوجائے پھر حج تمتع کے لئے محرم ہوکر دونوں وقوف کو درک کرنے اور منی کے اعمال کو انجام دینے کے بعد واپس مکہ لوٹنے پر طواف، نماز اور سعی کو بجالانے کے بعد یا اس سے پہلے، عمرہ کا طواف(1) اور اس کی نماز بجا لائے، اس کا یہ عمل حج تمتع کے لئےکافی ہے اور اس کے ذمہ کوئی چیز نہیں ر ہےگی۔
مسئلہ ۲۲۔ حج کے اعمال اور اس کے احکام تیسری فصل میں تفصیل کے ساتھ بیان کئے جائیں گے۔
1۔ اس کی تفصیل جاننے کے لئے مسئلہ نمبر 286 کی طرف رجوع کریں۔ - پہلا حصه حَجة الاسلام اورنيابتي حج
- فصل اول : حجة الاسلام
- حجة الاسلام کے واجب ہونے کے شرائط
- بلوغ اور عقلبلوغ اور عقلمسئلہ ۲۷۔ پہلي شرط : عقل ہے پس دیوانہ پر حج واجب نہيں ہے۔
مسئلہ ۲۸۔ دوسري شرط: بلوغ ہے پس نابالغ پر حج واجب نہيں ہے اگر چہ وہ بلوغ کے قريب ہو اور اگر نابالغ بچہ حج بجا لائے تو اگر چہ اس کا حج صحيح ہے ليکن يہ حجة الاسلام کے لئے کافي نہيں ہے۔
مسئلہ 29۔ اگر نابالغ بچہ احرام باندھے اور مشعر ميں وقوف کو بالغ ہونے کي حالت ميں پالے اور حج کي استطاعت بھي رکھتاہو تو اس کا يہ حج حجة الاسلام کے لئے کافي ہے۔
مسئلہ 30۔ اگر نابالغ بچہ محرمات احرام میں سے کسی ایک کا مرتکب ہوجائے اور وہ حرام کام، شکار ہو تو اس کا کفارہ اسکے ولي پر ہوگا لیکن دوسرے کفارے ظاہراً واجب نہیں ہیں نہ تو ولي پر اور نہ ہي بچے کے مال سے ۔
مسئلہ ۳۱۔ بچے کے حج ميں قرباني کي قيمت ادا کرنا اسکے ولي کے ذمہ ہے۔
مسئلہ 32۔ واجب حج ميں شوہر کي اجازت شرط نہيں پس شوہر کی رضامندی کے بغیر بھی بيوي پر حج واجب ہے
مسئلہ 33۔ مستطيع شخص کے لئے حجة الاسلام کے صحيح ہونے ميں والدين کي اجازت شرط نہيں ہے ۔
- استطاعتاستطاعتمسئلہ ۳۴۔ تيسري شرط : استطاعت ہے اور يہ کئی امور پر مشتمل ہے۔
الف : مالي استطاعت۔
ب : جسماني اور بدنی استطاعت۔
ج : راستہ کی استطاعت (راستے کا پر امن ہونا)۔
د : وقت کی استطاعت۔
ہر ايک کي تفصيل مندرجہ ذیل ہے:
الف : مالي استطاعت
مسئلہ ۳۵۔ مالی استطاعت چند امور پر مشتمل ہے۔
1. زاد راہ اور سواری۔
2. سفر کي مدت ميں اپنے اہل و عيال کے اخراجات۔
3. ضروريات زندگي اور جس چیز کی زندگی میں احتیاج رکھتا ہو۔
4. واپسی پر معمول کی زندگی سے بہرہ مند ہونا۔
مندرجہ بالا امور کی تفصیلات کچھ اس طرح ہیں:
1۔ زاد راہ اور سواری
مسئلہ ۳۶۔ زاد راہ سے مراد ہر وہ شے ہے کہ جسکي سفر ميں ضرورت ہو مثلاً کھانے پينے کي چيزيں اور اس سفر کي ديگر ضروريات اور سواری سے مراد حمل و نقل کے وسائل ہیں جن کے ذريعے سفر طے کيا جا تا ہے۔
مسئلہ 37۔ جس شخص کے پاس زاد سفر اور سواری نہ ہو اور انہيں حاصل کرنے کيلئے مال بھی نہیں رکھتا ہو تو اس پر حج واجب نہيں ہے اگر چہ وہ کما کر اور تجارت کے ذريعے سے انہيں حاصل کرسکتا ہو۔
مسئلہ ۳۸۔ حج واجب ہونے کی شرط یہ ہے کہ اپنے وطن لوٹنے یا دوسری جگہ جہاں جانا چاہتا ہو، جانے کے لئے اخراجات رکھتا ہو۔
اگر پلٹنے کا ارادہ رکھتا ہو تو شرط ہے کہ اسکے پاس اپنے وطن يا کسي دوسري منزل مقصود تک واپس پلٹنے کے اخراجات ہوں۔لیکن واپسی کے اخراجات اس کے پاس نہ ہوں تب بھی حج واجب نہیں۔
مسئلہ ۳۹۔ اگر اسکے پاس حج پر جانےکے اخراجات نہ ہوں ليکن کسی نے اس سے کوئی مال قرض لیا ہو کہ اس مال کے واپس ہونے کی صورت میں حج کے اخراجات پورے ہوتے ہوں، چنانچہ قرض واپس لینے کا وقت پہنچ چکا یا گزرچکا ہو اور قرضدار بھی اسے واپس دینے یک طاقت رکھتا ہو اور اس کا مطالبہ قرضدار کے لئے حرج کا سبب نہ بنے، تو اس کا مطالبہ کرنا واجب ہے۔
مسئلہ ۴۰۔ اگر عورت کا مہر حج کے اخراجات کيلئے کافي ہواور وہ اپنے شوہر سے اسکی طلبکار ہو تو اگر شوہر تنگدست ہو تو يہ اس سے مہر کا مطالبہ نہيں کر سکتي اور مستطيع بھي نہيں کہلائے گی ليکن اگر شوہر مالدار ہے اور مہر کا مطالبہ کرنے ميں عورت کے لئے کوئی مفسدہ بھي نہ ہو تو اس پر مہر کا مطالبہ کرنا اور حج پر جانا واجب ہے ليکن اگر مہر کا مطالبہ کرنے ميں عورت کا کوئي مفسدہ ہو مثلاً يہ لڑائي جھگڑے اور طلاق کا باعث بنے تو عورت پر مطالبہ کرنا واجب نہيں ہے اور عورت مستطيع بھي نہيں کہلائے گي ۔
مسئلہ 41۔ جس شخص کے پاس حج کے اخراجات نہيں ہيں ليکن قرض لے سکتا ہے اور اپنے قرض کو آسانی کے ساتھ ادا کرسکتا ہو تب بھی اس پر واجب نہيں ہے کہ وہ قرض ليکر اپنے آپ کو مستطيع بنائے ليکن اگر اس نے قرض لے لیا تو اس پر حج واجب ہو جائيگا۔
مسئلہ ۴۲۔ جو شخص مقروض ہو اور حج کے اخراجات کے علاوہ کوئی اور مال نہ رکھتا ہو جس سے وہ اپنا قرض ادا کر سکے چنانچہ قرض ادا کرنے کی مہلت بھی ہو اور اطمینان رکھتا ہو کہ قرض ادا کرنے کے وقت اسے ادا کرنے کی طاقت رکھتا ہے، اسی طرح قرض ادا کرنے کا وقت پہنچنے پر قرضدار اسکا مطالبہ کرنے یا تاخیر پر راضی ہو اور مقرض مطمئن ہو کہ مطالبہ کے وقت قرض ادا کرسکے گا، تو اس کے لئے حج پر جانا واحب ہے، مذکورہ دو صورتوں کے علاوہ اس پر حج واجب نہیں ہے۔
مسئلہ ۴۳۔ وہ شخص جس کے لئے کو شادي کرنا ضروری ہے اور اگر وہ شادي نہیں کرے گا تو اسے مشقت ياحرج کا سامنا ہوگا اور اس کيلئے شادي کرنا ممکن بھي ہو تو وہ اس وقت مستطیع ہوگا جب اس کے پاس حج کے اخراجات کے علاوہ شادي کے اخراجات بھی ہوں۔
مسئلہ ۴۴۔ اگر استطاعت والے سال گاڑی، ہوائی جہاز یا حمل و نقل کے دوسرے وسائل کا کرایہ معمول کی حد سے زیادہ بڑھ گیا ہو اور کسی حرج اور مشقت کے بغیر اضافہ کرایہ ادا کرنے کی طاقت رکھتا ہوتو اس کو ادا کر کے حج پر جانا واجب ہے۔لیکن اگر اضافی رقم کو ادا کرنے کی طاقت نہ رکھتا ہو یا اس کا ادا کرنا اس کے لئے حرج کاسبب بنے، تو اس پر واجب نہیں ہے کہ اسے ادا کرے اور وہ مستطیع نہیں ہے، اور سفر حج کي ديگر ضروريات کے خريدنے يا انکے کرائے پر لينے کے لئے بھی يہي حکم ہے۔ اور اسی طرح اگر اپنے مال کو معمول سے کم قیمت پر بیچ کر حج پر جانا چاہتا ہو تو، اس کا بھی یہی حکم ہے۔
مسئلہ۴۵۔ حج کے لئے استطاعت کا معیار، لوگوں کے درمیان عام حالات میں اس کے انجام دینے کی توانائی ہے اور اگر کوئی یقین رکھتا ہے کہ وہ اس قسم کے استطاعت نہیں رکھتا ہے لیکن احتمال دیتا ہے کہ اگر تحقیق و جستجو کرے تو کوئی ایسی راہ مل جائے گی جس کے سبب موجودہ مالی حالت میں حج انجام دینے کے لئے مستطیع ہوجائے گا تو اس کے لئے جستجو اور تحقیق کرنا واجب نہیں ہے۔لیکن اگر استطاعت میں شک کرتا ہو اور جاننا چاہے کہ مستطیع ہوا ہے یا نہیں تو بظاہر واجب ہے کہ وہ اپنی مالی حالت کی تحقیق اور جستجو کرے۔
2۔ سفر کے دوران گھر والوں کے اخراجات
مسئلہ۴۶۔ مالي استطاعت کے حاصل ہونے میں شرط ہے کہ حج سے واپس آنے تک اپنے گھر والوں کے اخراجات رکھتا ہو ۔
مسئلہ ۴۷۔ گھر والوں ( کہ مالي استطاعت ميں جنکے اخراجات کا موجود ہونا شرط ہے) سے مراد وہ لوگ ہيں کہ جنہيں عرف عام ميں گھر والے شمار کيا جاتا ہے اگر چہ شرعاً اس پر ان کا خرچہ واجب نہ بھي ہو ۔
3۔ ضروريات زندگي اور معیشت
مسئلہ۴۸۔ حج واجب ہونے کی شرایط میں سے ایک شرط یہ بھی ہے کہ اسکے پاس ضروريات زندگي اور وہ چيزيں ہوں جنکي اسے عرفاً اپني حيثيت کے مطابق زندگي بسر کرنے کيلئے ضروری ہے البتہ يہ شرط نہيں ہے کہ خود وہ چيزيں اس کے پاس موجود ہوں بلکہ کافي ہے کہ اس کے پاس رقم یا ایسی چیز موجود ہو جسے زندگی کی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے خرچ کر سکے ۔
مسئلہ۴۹۔ افراد کی عرفی ( سماجی) حيثيتیں مختلف ہوتي ہیں جس شخص کے لئے رہائشی مکان کا ہونا اس کی ضروریات زندگی شمار ہوتا ہو یا عرف میں اس کی حیثیت کے مناسب ہو، یا کرایہ یا عاریہ یا اوقاف کے مکان میں رہائش کرنا اس کے لئے حرج و مشقت کا سبب ہو یا اس کی توہین کا باعث بنتا ہو، تو استطاعت حاصل ہونے کے لئے اس کے پاس رہائشی مکان ہونا شرط ہے۔
مسئلہ ۵۰۔ اگر حج کيلئے کافي مال رکھتا ہوليکن کوئی ایسی ضرورت آجائے کہ جس ميں اسے خرچ کرنا چاہتا ہو جيسے گھر مہيا کرنا يا بيماري کا علاج کرانا يا ضروريات زندگي کو فراہم کرناتو يہ مستطيع نہيں ہے اور اس پر حج واجب نہيں ہے۔
مسئلہ ۵۱۔ مستطیع ہونے کے لئے يہ شرط نہيں ہے کہ مکلف کے پاس خود زاد و راحلہ ہوں بلکہ کافي ہے کہ اس کے پاس اتني رقم و غيرہ ہو کہ جسے زاد و راحلہ ميں خرچ کرنا ممکن ہو تو وہ مستطیع کہلائے گا۔
مسئلہ۵۲۔ اگر کسي شخص کے پاس ضروريات زندگي، گھر ، گھريلو سامان ، سواري، آلات صنعت و غيرہ کي ايسي چيزيں اسکي حيثيت سے بالاتر ہيں چنانچہ اگر يہ کر سکتا ہو کہ انہيں بيچ کر اپني ضروريات زندگي خريد کر، باقی مقدار کو حج کے اخراجات پر خرچ کرے اور یہ کام اسکے لئے حرج ، کمي يا سبکي بھي نہ ہو اور اضافی رقم حج کے اخراجات يا انکي تکميل کي مقدار کے برابر ہو تو اسے یہ کام انجام دینا چاہیےاور وہ مستطيع ہے ۔
مسئلہ۵۳۔ اگر مکلف اپني زمين يا کوئي اور چيز فروخت کرے تا کہ اس سے حاصل شدہ پیسوں سے گھر خريدے۔ اگر ذاتی گھر کا ہونا اسکي ضرورت ہو يا اسکی مالکیت عرف کے لحاظ سے اسکي حيثيت کے مطابق ہو تو زمين کي قيمت وصول کرنے سے يہ مستطيع نہيں ہو گا اگر چہ وہ حج کے اخراجات يا انکي تکميل کي مقدار کے برابر ہی کیوں نہ ہو۔
مسئلہ۵۴۔ جس شخص کو اپني بعض مملوکہ چيزوں جیسے کتاب وغیرہ کي ضرورت نہ رہے اور ان کي قيمت سے مالي استطاعت حاصل ہو رہی ہو يا اس کو تکمیل کر لےتو ديگر شرائط کے موجود ہونے کي صورت ميں اس پر حج واجب ہوجائے گا۔
4۔ واپسی پر مال کافی ہو
مسئلہ ۵۵۔ مالي استطاعت حاصل ہونے کے شرایط میں سے ایک شرط یہ ہے کہ واپسی پر کافی مال ہو ( مخفي نہ رہے کہ يہ شرط حج بذلي ميں ضروري نہيں ہے اسکي وضاحت بعد میں کی جائیگی8) اور اس سے مراد يہ ہے کہ حج سے پلٹنے کے بعد اسکے پاس ايسي تجارت ، زراعت ، صنعت، ملازمت ، يا ملکیت کی منفعت مثلا باغ اور دکان و غيرہ کی آمدني کے ذرائع ہوں کہ جنکي آمدني عرف ميں اسکي حيثيت کے مطابق اسکے اور اسکے اہل و عيال کے گذر بسر کيلئے کافي ہو۔ اور ديني علوم کے طالبعلموں کيلئے حج سے واپس آنے کے بعد حوزہ علمیہ کی جانب سے دیا جانے والا شہریہ سے انکی زندگی کا گذر بسر ہوسکے یا تکمیل کر سکے تو کفایت کرتا ہے۔
مسئلہ ۵۶۔ عورت کی استطاعت میں بھی واپسی پر گھر کا خرچہ ہونا شرط ہے بنابراين اگر اس کا شوہر زندہ ہو اور يہ شوہر کی زندگی میں مستطیع ہوجائے تو اس کيلئے حج سے لوٹنے کے بعد جو نفقہ اسکاشوہر اسے ادا کرتا ہے وہ وہی خرچہ حساب ہوگا۔ لیکن جس عورت کا شوہر نہ ہو اس کی استطاعت تحقق پانے کے لئے شرط ہے کہ حج کے اخراجات کے علاوہ حج سے واپسی پر مالی آمدنی کا ایک ذریعہ رکھتی ہو جو زندگی کا گزارہ چلانے کیلئے اس کی عرفی شان کے مناسب ہو۔ اس صورت کے بغیر وہ حج کے لئے مستطیع نہیں ہے۔
مسئلہ ۵۷۔ جس شخص کے پاس زاد و راحلہ نہ ہو ليکن کوئي اور شخص اسے دے اور اسے مثلا يوں کہے کہ "تم حج بجالاؤ تمہارا خرچہ میرے ذمہ ہے" تو اس پر حج واجب ہے اور اس پر اسے قبول کرنا لازمی ہے اور اس حج کو «حج بذلي» کہتے ہيں اور اس ميں "رجوع بہ کفایت " شرط نہيں ہے نيز خود زاد و راحلہ کا دينا ضروري نہيں ہے بلکہ قيمت کا دينا بھي کافي ہے ۔
ليکن اگراسے حج کيلئے مال نہ دے بلکہ صرف اسےکچھ مال بخش دے جو حج کے خرچہ کے لئے کافی ہو۔ اگر و ہ اس ہدیہ کو قبول کرلے تو اس پر حج واجب ہے ليکن اس پر اس مال کو قبول کرنا واجب نہيں ہے پس اس کيلئے جائز ہے کہ اسے قبول نہ کرے اور اپنے آپ کو مستطيع نہ بنائے۔
مسئلہ ۵۸۔ حج بذلي ، حجة الاسلام کے لئے کافي ہے اور اگر اسکے بعد خود مستطيع ہوجائے تو دوبارہ حج واجب نہيں ہے۔
مسئلہ ۵۹۔ اگر کسی شخص کو کسی ادارہ يا شخص کي طرف سے حج پر جانے کي دعوت دي گئی ہواور اگر اس دعوت کے بدلے ميں اس پرکسي کام کو انجام دينے کي ذمہ داری لگائي جائے تو اسکے حج پر حج بذلي کا عنوان صادق نہيں آئے گا۔
مالي استطاعت کے متفرق مسائل
مسئلہ ۶۰۔ مستطیع شخص، مال کو حج کے لئے خرچ کرنے کا وقت پہنچنے کے بعد اپنے آپ کو استطاعت سے خارج نہیں کرسکتا ہے، بلکہ احتیاط واجب یہ ہے کہ اس وقت سے پہلے بھی اپنے آپکو استطاعت سے خارج نہ کرے۔
مسئلہ ۶۱۔ مالي استطاعت ميں شرط نہيں ہے کہ وہ مکلف کے شہر ميں حاصل ہو بلکہ اس کا ميقات ميں حاصل ہو جانا بھی کافي ہے پس جو شخص ميقات تک پہنچ کر مستطيع ہو جائے اس پرحج واجب ہے اور يہ حجة الاسلام کےلئے کافي ہے۔
مسئلہ ۶۲۔ مالي استطاعت اس شخص کيلئے بھي شرط ہے جو ميقات تک پہنچ کر حج پر قادر ہو جائے پس جو شخص ميقات تک پہنچ کر حج پر قادر ہو جائے جيسے قافلوں ميں کام کرنے والے خادمین و غيرہ ۔ اگر ان ميں استطاعت کي ديگر شرائط بھي پائی جاتی ہوں جيسے اہل و عيال کا نفقہ ، ضروريات زندگي اور اسکي حيثيت کے مطابق جن چيزوں کي اسے اپني زندگي ميں ضرورت ہوتي ہے اور "رجوع بہ کفایت"، تو اس پر حج واجب ہے اور يہ حجة الاسلام سے کافي ہے ورنہ اس کا حج مستحبي ہو گا اور بعد ميں استطاعت حاصل ہوجائے تو اس پر واجب ہے کہ حجۃ الاسلام بجا لائے۔
مسئلہ ۶۳۔ اگرکسي شخص کو حج کے راستے ميں خدمت کيلئے اتني اجرت کے ساتھ اجير بنايا جائے کہ جس سے وہ مستطيع ہو جائے تو اس قیمت کو قبول کرنے کے بعد اس پر حج واجب ہے البتہ يہ اس صورت ميں ہے جب اعمال حج کو بجالانا اس اجیر ہوئے کام میں رکاوٹ نہ بن جائے ورنہ ایسی اجرت سےمستطيع نہیں ہوگا اسی طرح اجرت کے بدلے میں کام قبول کرنا اس کے لئے واجب نہیں ہے۔
مسئلہ ۶۴۔ جو شخص مالي استطاعت نہ رکھتا ہو اور نيابتي حج کيلئے اجير بنے پھر اس کے بعد اجارہ کے مال کے علاوہ کسي اور مال سے مستطيع ہو جائے تو اس پر واجب ہے کہ اس سال اپنے لئے حج بجالائے اور اجرت والا حج اگر اسي سال کيلئے ہو تو باطل ہے ورنہ اجرت والا حج آئندہ سال بجالائے۔
مسئلہ ۶۵۔ اگر مستطيع شخص غفلت کي وجہ سے يا جان بوجھ کر مستحب حج کي نيت کرلے گر چہ اس کا مقصد دوسرے سال بہتر صورت میں حج بجا لانے کے لئے پریکٹس کی غرض سے کیوں نہ ہو یا اس اعتقاد سے کہ مستطیع نہیں ہے مستحب حج کی نیت کرے اور بعد میں معلوم ہوجائے کہ وہ مستطیع تھا تو اسکے اس حج کا حجة الاسلام کے لئے کافی ہونے میں اشکال ہے پس احتیاط کي بنا پر اس پر آئندہ سال حج کو بجالانا واجب ہے۔ مگر اس خیال سے کہ اس کا وظیفہ مستحب امر کو بجالانا ہےاور وہ شارع مقدس کے حکم کی تعمیل کرنے کی نیت رکھتا ہو تو پھر اس کا یہ حج حجۃ الاسلام سے کافی ہوگا۔
ب: جسماني استطاعت
مسئلہ ۶۶۔ جسمانی استطاعت سے مراد يہ ہے کہ جسماني لحاظ سے حج کو انجام دينے کي قدرت رکھتا ہو پس مريض اور بوڑھے جو حج پر نہیں جاسکتے ہیں يا جن کيلئے سفر کرنے میں حرج اورمشقت ہے ان پر حج واجب نہیں ہے۔
مسئلہ ۶۷۔ حج کے وجوب میں جسماني استطاعت کا باقي رہنا شرط ہے پس اگر کوئی شخص حج کے قصد سے سفر پر روانہ ہوجائے لیکن احرام باندھنے سےپہلے بيماری اسے سفر جاری رکھنے سے روک دے تو معلوم ہوگا کہ اس کے لئے جسمانی استطاعت حاصل نہیں ہوئی ہے۔ اور ايسے شخص پر حج کيلئے کسي کو نائب بنانا بھی واجب نہيں ہے۔ ليکن اگر يہ حج اس کے اوپر پہلے سے مستقر ہو اور بيماري کي وجہ سے وہ سفر کو جاري رکھنے سے عاجز ہو جائے اور آئندہ سالوں ميں بھي بیماری سے صحت یابی اور توانائی حاصل کرکے بغير مشقت کے حج انجام دینے کي اميد نہ ہو تو اس پر واجب ہے کہ کسي اور کو نائب بنائے لیکن اگر اسے صحبت یاب ہونے اور اگلے برسوں میں حج بجالانے کی امید رکھتا ہو تو اس شخص کو ذاتی طور پر حج بجالانے کا وجوب ساقط نہيں ہوگا۔ لیکن اگر احرام باندھنے کے بعد بيمار ہو تو اسکے اپنے خاص احکام ہيں۔
ج: راستہ کی استطاعت
مسئلہ ۶۸۔ راستے کی استطاعت سے مراد يہ ہے کہ حج پر جانے کا راستہ کھلا اور پر امن ہو پس اس شخص پر حج واجب نہيں ہے کہ جس کيلئے راستہ اس طرح سے بند ہو کہ ميقات تک نہیں پہنچ سکتا ہو يا حج کے اعمال کوتکميل تک نہیں پہنچا سکتا ہو۔ اسي طرح اس شخص پر بھي حج واجب نہيں ہے کہ جس کيلئے راستہ تو کھلا ہو ليکن نا امن ہو۔ اور راستے ميں اسے اپني جان ، بدن ، عزت يا مال کا خطرہ ہو ۔
مسئلہ ۶۹۔ جس شخص کے پاس حج کے اخراجات ہوں اور تاخیر کے بغیر حج پرجانے کے لئے اپنا نام لکھوا دے ليکن اگر قرعہ اندازی میں اس کا نام نہیں نکلا اور وہ اس سال حج پر نہ جا سکا تو ایسا شخص مستطيع نہيں ہے اور اس پر حج واجب نہيں ہوا ہے ليکن اگر آئندہ سالوں ميں حج انجام دینا اس سال اپنا نام لکھوانے اور رقم کی ادائیگی پر موقوف ہو تو احتیاط واجب يہ ہے کہ اس کام کے لئے اقدام کرنا چاہیے ۔
د : وقت کی استطاعت
مسئلہ ۷۰۔ وقت کی استطاعت سے مراد يہ ہے کہ ايسے وقت ميں استطاعت حاصل ہو جس ميں حج کے مخصوص ایام میں حج کو پہنچنے کے لئے وقت کافی ہو پس اگر کسی کو استطاعت ایسے وقت میں حاصل ہوجائے کہ وقت کی کمی کی وجہ سے حج کو درک نہیں کرسکتا ہے یا اس کے لئے شدید مشقت اور حرج کا سبب ہو تو اس سال اس پر حج واجب نہیں ہے ۔
-
-
- دوسري فصل :نيابتي حج
-
- دوسرا حصه عمرہ کے اعمال
- تیسرا حصہ حج کے اعمال
- حج اور عمرہ کے استفتائات