ویب سائٹ دفتر رہبر معظم انقلاب اسلامی

دفاع مقدس آڑٹ اور ادب میں سرگرم افراد سے رہبر انقلاب کی ملاقات

ایمانی جذبے کے ساتھ تمام مشکلات پر غلبہ کیا جا سکتا ہے

رہبر انقلاب اسلامی نے بدھ کی شام کو فوج کے کمانڈروں، فوجیوں، آرٹ کے شعبے سے منسلک افراد اور دفاع مقدس کی یاد میں پیش کئے جانے والے پروگراموں کے منتظمین سے ملاقات کی۔ دریں اثنا رہبر انقلاب اسلامی نے ایران پر مسلط کردہ جنگ کے آٹھ سالہ دور میں پیش آنے والے واقعات کو آرٹ اور ادب کے ذریعے اور نئے طریقوں سے نئی نسل تک منتقل کرنے پر تاکید کی اور اسے ایک انتہائی اہم اور گرانقدر عمل قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ دفاع مقدس کے ایام کا ایک اہم اور لافانی درس یہ تھا کہ اگر دل کی گہرائیوں سے اور عمل کے ذریعے خدا پر توکل کیا جائے تو اس ایمانی جذبے کے ذریعے یقینی طور پر تمام رکاوٹوں اور پیچیدگیوں پر غلبہ حاصل کیا جا سکتا ہے۔

رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ جانی اور مالی نقصانات کے باوجود دفاع مقدس نے ہمارے حالیہ دور اور مستقبل پر گہرے اثرات چھوڑے ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ معاشرے میں انقلابی جذبے  کا محفوظ  رہنا اور اس کی تقویت اور آج تک انقلاب  کے محفوظ رہنے کی وجہ مقدس دفاع کے ایام ہیں اور اگر وہ جہاد اور ایثار پر مبنی عمل نہ ہوتا تو یقینا انقلابی جذبہ خطرے سے دوچار ہوجاتا۔

رہبر انقلاب اسلامی نے اس موقع پر فرمایا کہ خدا پر عملی بھروسہ، بڑی طاقتوں سے نہ ڈرنا اور اس عملی بھروسے کی مدد سے مشکلات پر غلبہ پانا دفاع مقدس کا نتیجہ ہے اور اگر کوئی بھی معاشرہ ترقی کی سمت گامزن ہونا چاہتا ہو تو اسے عام طور پر رکاوٹوں اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا اور اگر تسلط پسندی اور دنیا پسندی کی مخالفت اور روحانیت بھی اس معاشرے کے اہداف میں شامل ہوں تو رکاوٹوں میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ ایسے معاشرے میں خدا پر حقیقی توکل اور مشکلات پر غلبہ پانے کے جذبے کی ضرورت دوچنداں ہوتی ہے۔

آپ نے اس نکتے کی جانب اشارہ کیا کہ آج اسلامی جمہوریہ ایران تمام درپیش مسائل  پر کامیابی حاصل کرنے کا دعوی کرسکتا ہے کیونکہ اس کے پاس دفاع مقدس میں پیش آنے والے مسائل و مشکلات پر غلبہ حاصل کرنے کا بھرپور تجربہ موجود ہے۔

قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ اگر دل میں ایمان اور عمل میں خدا پر توکل ہو، تو ایسے ارادے کے مقابلے میں پہاڑ بھی ریزہ ریزہ ہوجاتے ہیں اور ان میں مزاحمت کی طاقت نہیں ہوتی۔

آپ نے مسلط کردہ جنگ کے ابتدائی ایام کی انتہائی مشکل صورتحال کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ سن انیس سو اسّی کے ابتدائی دنوں سے لیکر سن انیس سو بیاسی تک، ایران کے لئۓ صورتحال انتہائی مشکل تھی۔ فوجی ساز و سامان اور آمادہ اور منظم مسلح افواج کے لحاظ سے ملک کی صورتحال بہت بری تھی جبکہ بعثی دشمن اہواز شہر سے صرف دس کلومیٹر کے فاصلے پر تھا۔ رہبر انقلاب نے فرمایا کہ ایسی حالت میں کمانڈروں اور فوجیوں نے خدا پر توکل کیا اور اپنی طاقت اور صلاحیت کی شناخت حاصل کی اور اس بنیاد پر حالات کو بدل دیا اور سن انیس سو بیاسی کے موسم بہار میں فتح المبین اور بیت المقدس نام کے دو فوجی آپریشن انجام دئے جس کے نتیجے میں بعثی جارح افواج کے ہزاروں فوجی گرفتار اور خرمشہر سمیت ملک کے وسیع علاقوں کو دشمن افواج سے آزاد کرالیا گیا۔

 قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے فرمایا کہ مسلط کردہ جنگ کے دوران، امریکہ، نیٹو، سوویت یونین اور علاقے کی قدامت پسند حکومتوں سمیت دنیا کی تمام طاقتیں اسلامی جمہوریہ ایران کے مقابلے پر کھڑی تھیں اور ان حالات میں ہم نے ان طاقتوں کو شکست سے دوچار کیا ۔ کیا یہ عملی تجربے، ہمارے اطمینان اور دلی سکون کے لئے کافی نہیں ہیں؟

رہبر انقلاب اسلامی نے قرآن کریم کی  ایک آیت کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہ جس میں کہا گیا ہے کہ اپنے دلوں میں غم اور سستی کو داخل نہ ہونے دو، فرمایا کہ اگر خدا پر حقیقی ایمان ہو اور اس پر بھروسہ کیا جائے، توتمام مشکلات اور رکاوٹوں پر ایمانی جذبے کےساتھ غلبہ حاصل کیا جا سکتا ہے۔

 

 قائد انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ دفاع مقدس کی یادوں کو زندہ رکھ کر ہی اس جذبے اور اس عملی توکل کو پھیلایا اور بڑھایا جاسکتا ہے۔آپ نے مزید  فرمایا کہ دفاع مقدس کے واقعات پر لکھی جانی والی کتابیں اور تیار کی جانے والی فلمیں، صرف آرٹ اور ادب کا ایک نمونہ ہی نہیں  بلکہ در حقیقت انقلاب کی بنیادوں، قومی شناخت اور ملک گیر ترقی کو مستحکم کرنے میں سیمنٹ کا کردار ادا کرتی ہیں۔

آپ نے دفاع مقدس کے دوران پیش آںے والے واقعات کو ایک قومی دولت  قرار دیتے ہوئے انہیں منظم طریقے سے اور مسلسل اکٹھا کرتے  رہنے اور پرکشش  آرٹ اور فن  کے ذریعے نئی نسل تک منتقل کرنے  نیز ان یادوں کو بغیر کسی مبالغے کے اصل شکل میں بیان کرنے پر تاکید کی۔ آپ نے فرمایا کہ ان واقعات کو سماج تک منتقل کرنا، صدقے، نیک عمل اور ایک عظیم روحانی انفاق کے مترادف ہے اور جو لوگ اس شعبے میں سرگرم ہیں وہ در اصل ملک کے لیۓ معنوی و الہی رزق پہنچانے کے  ایک ذریعے کا کردار ادا کر رہے ہیں۔

قائد انقلاب اسلامی نے راہیان نور (معنوی سیاحتی ٹور)کو بھی انہیں صدقات اور نیک عمل کا نمونہ قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ بعض ناپاک عزائم دفاع مقدس سے حاصل شدہ درس اور آثار کو کمزور کرنا چاہتے ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ یہ وہی عزائم ہیں جو اسلامی ممالک پر دباؤ ڈال کر، جہاد اور شہادت جیسے موضوعات کو ان کے تعلیمی نصاب سے ختم کرنا چاہتے ہیں اور اپنے ناپاک عزائم کو اس ملک میں لانے کی کوشش بھی کر رہے ہیں اورخود کو ثقافتی منصوبوں کے چھوٹے چھوٹے نکات کی شکل میں ظاہر کر رہے ہیں۔ حضرت آیت ا۔۔ العظمی خامنہ ای نے فرمایا کہ ان کی جانب سے کسی بھی قسم کی لاپرواہی برتنا نہیں چاہئے۔ آپ نے مزید کہا کہ دفاع مقدس، جہاد اور شہادت کے جذبے کو زندہ رکھنے کی ضرورت ہے تا کہ آج کی نسل اس نسل سے متصل ہوجائے جس نے مقدس دفاع کی عظیم تاریخ رقم کی تھی۔

آپ نے اس اتصال کو صالحین کی نسل سے موجودہ نسل کا رابطہ برقرار کرنے کے مترادف قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ آج بھی مقدس دفاع کے ایام کی طرح ایسے نوجوان دکھائی دے رہے ہیں جو اصرار کرکے اور آنسو بہا کر حرم اہل بیت کا دفاع کرنے کے میدان میں جانا چاہتے ہیں اور اگر یہ جذبہ اور دفاع مقدس کے اقدار آج کی نسل کو منتقل ہوئے ہیں تو یہ ان مجموعوں کی زحمتوں اور کاوشوں کا نتیجہ ہے جو اس دور میں پیش آنے والے واقعات کو منتقل کرنے میں سرگرم رہے ہیں۔

رہبر انقلاب اسلامی نے اس بات پر بھی زور دیا کہ دفاع مقدس کے واقعات اعلی جذبات اور عقلانیت سے مالامال ہیں اور اگر ان کے حقا یق اور یادوں کو جو ایک خزانے کی مانند ہیں، آئندہ پچاس سال تک اکھٹا کرنے کی کوشش کی جائے تب بھی ہم ان کی انتہا تک نہیں پہنچ سکیں گے۔

واضح رہے کہ رہبر انقلاب کے بیان سے قبل دفاع مقدس سے وابستہ آرٹ اور ادب کے شعبوں کے ماہرین اور آرٹسٹوں نے بھی جنگ کے دوران پیش آںے والے واقعات پر روشنی ڈالی جن میں مشہور ہدایتکار ابراہیم حاتمی کیا اور اداکار اصغر نقی زادے بھی شامل تھے۔ اس موقع پر نسیم قدر نام کے گروہ نے بھی مدافعین حرم کے نام ارغوان نام کا نغمہ پیش کیا۔

 

700 /